ھر طالب علم اپنے امتحان میں شاندار کامیابی کا خواھشمند ھوتا ھے اور اس کے لئے وہ اپنے دماغ اور سوچ کے مطابق زیادہ سے زیادہ تگ و دو بھی کرتا ھے ۔لائق طلباء تو پڑھائی میں خوب محنت کرتے ھیں . پوری پوری رات پڑھنے میں مصروف رھتے ھیں اور پھر آچھے نتائج بھی حاصل کر لیتے ھیں اور نالائق طلباء بھی اپنے انداز سے تیاری میں خوب لگے ھوتے ھیں مثلاً بوٹی بنانے اور اس کے محفوظ استعمال کے نئے نئے طریقوں پر سوچ بچار کر رھے ھوتے ھیں ۔
اسی طرح بعض طالبِ علم شاٹ کٹ کے چکر میں رھتے ھیں اور تیاری سے زیادہ امتحان میں اچھے نمبروں سےکامیابی کے لیے کسی سریع الاثر وظیفہ کی تگ و دو میں رھتے ھیں اور بزرگوں کے پاس جا جا کر عرض کرتے ھیں کہ حضرت صاحب ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں کہ امتحانی سینٹر میں جو ممتحن آیا ہوا ہو ، میں بس اُس ممتحن پر دم کردوں اور نگرانی کے لیے اُس کا دل میرے لیے نرم ہو جائے ، اور نظر بندی کے لیے بھی کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں جو میں اپنا پیپر مکمل کرنے کے بعد اُس پیپر پر دم کردوں تاکہ جب میرا پیپر چیک ہو تو میری غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر ھی نہ آئیں، اور وہ میرے نمبرز زیادہ لگا دے وغیرہ وغیرہ
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ مسنون دعاؤں اور ثابت شدہ وظائف کی تاثیر اپنی جگہ بالکل مسلّم ہے، لیکن اللہ تعالی نے اس دنیا کو دار الاسباب بنایا ھے ۔ شریعتِ اسلامیہ نے دنیا میں ہمیں رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ اسباب اور تدابیر اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے، اسباب اختیار کیے بغیر، محنت سے غافل ہوکر ، محض دعاؤں اور وظائف پر اکتفا کرکے کامیابی کا تصور منشاءِ شریعت اور نظامِ فطرت کے موافق نہیں ہے، اگر وظائف پڑھ کر ہی کامیابیاں حاصل کی جاتیں تو انبیاءِ کرام علیہم السلام دین کے لیے اتنی محنت و مشقت نہ کرتے، دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنی استطاعت کے مطابق محنت کرنے کا مکلف ہے، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ھے کہ صرف اپنی محنت پر ھی بھروسہ کرنا شرعاً غلط ہے، حتی الوسع محنت کے ساتھ ساتھ خوب دعاؤں کا اہتمام انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ پاؤ بھر محنت ہو تو من بھر دعائیں بھی ھونی چاھیں ۔ بہرحال اسباق کی تیاری کے بغیر، اور محنت سے غافل ہوکر محض وظیفے یا دعا کے زور پر کامیابی کا تصور منشاءِ شریعت کے خلاف اور کھلی ھوئی بے وقوفی ہے،
امتحان میں ممتحن کو رشوت دے کر یا کسی سفارش کی بنا پر یا پھر اُسے دھوکہ دے کر نقل کرکے پیپر مکمل کرنا کئی بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اس لئے اس سے مکمل طور ہر اجتناب برتنا چاھیے اور اگر ممتحن کسی بھی وجہ سے خود امتحان میں کسی بھی طریقہ سے نقل کرنے میں طالب علم سے تعاون کرے گا تو طالب علم کے ساتھ ممتحن خود بھی ایک بہت بڑی خیانت کا مرتکب ہوگا، اور قیامت والے دن ممتحن اور طالبِ علم دونوں عنداللہ جوابدہ ھوں گے۔ اور پرچے میں تحریر کردہ غلطیوں کو کسی طرح بھی چھپانے کی سعی و فکر کرنا، قطعاً مثبت سوچ نہیں ہے، اور یہ حقیقت ھے کہ ایسا کوئی بھی وظیفہ نہیں ہے کہ جس کے کرنے سے پرچے پر لکھی ھوئی غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر ھی نہ آئیں
لہذا طالبِ علم کو چاھیے کہ اول ان سب بُرے خیالات اور خوش فہمیوں کو ذہن سے نکال دیں، اور پڑھائی میں خوب خوب دل لگا کر محنت کریں، اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے خوب خوب دعا مانگیں، دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ مؤثر اور طاقت ور نہیں ہے، تاھم اگر وظیفہ بھی ضرور ھی پڑھنا ھے تو لیجیے حکیم الاُمت حضرت مولانا آشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کا بتایا ھوا مختصر سا وظیفہ حاضر ھے ، یقین کے ساتھ بلا تردد اسے پڑھ سکتے ھیں ۔ ان شاء اللہ ضرور فائدہ ھو گا لیکن ایک بات آچھی طرح یاد رکھیں کہ کسی بھی وظیفہ کی کامیابی کے لئے کچھ شرائط ھوتی ھیں ۔ ان شرائط میں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنا ھر وظیفہ کی شرطِ اوّل ھے ورنہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ھو گا ۔
وظیفہ مندرجہ زیل ھے :
یانَاصِرُ
ہر نماز کے بعداکیس مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف
یَا عَلِیمُ
روزانہ فجر کی نمازکے بعد’’ 150مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف اورامتحان کے روز اس کی کثرت کریں۔(ملفوظات اشرفیہ)