رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا من گھڑت قصہ

 یہ من گھڑت واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ھے کہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر ایک بوڑھی عورت روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی ،ایک دن رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ا س کے مکان کے پاس سے حسبِ معمول گزرے تو آپ پر کسی نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ نے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ فلاں مائی خیریت سے تو ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو بیمار ہے، آپ یہ سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر اس بڑھیا کی تیمار داری کے لیے اس کے گھر چلے گئے، مائی نے دیکھا یہ وہی شخص ہے جس پر میں روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی مگر وہ برا ماننے اور کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اور شرافت سے برداشت کرکے چلاجاتا تھا اور آج وہی میری تیمارداری کے لیے آگیا ہے، یہ دیکھ کروہ بہت متأثر ہوئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عام انسان نہیں واقعی خدا کا پیغمبر ہے، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا،اس نے حضورآکرم کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے معافی مانگی اور آپ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر ایمان لے آئی‘‘۔

مذکورہ بالا قصہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں  اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔۔۔ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

واضح رہے کہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی مبارک ذات سے منسوب کسی بھی واقعہ کے درست ہونے کے لیے مستند  کتبِ احادیث میں منقول ہونا ضروری ہے، پس جو واقعہ مستند کتبِ احادیث میں منقول نہ ہو وہ شرعاً بے اصل ہے اور اسے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا شرعاً جائز نہیں۔

بد قسمتی سے مذکورہ بالا بے بنیاد واقعہ ھمارے تعلیمی نصاب کی کتب میں بھی شامل کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ واقعہ بالکل بے بنیاد اور بےاصل قصہ ہے، حقیقت یہ ھے کہ مستند کتبِ احادیث میں ایسا کوئی بھی واقعہ سرے سے موجود ھی نہیں ھے ،  لہذا رسولِ  کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اخلاقِ کریمہ بیان کرنے کے لیے ایسے من گھڑت  اور گمراہ کن  واقعات کا سہارہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں، اور  مذکورہ قصہ کی نسبت رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی طرف کرنا جائز نہیں۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو خلقِ عظیم کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کی سند خود باری تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے، اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی حیاتِ طیبہ میں قدم قدم پر اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں، مستند ذخیرہ احادیث وکتبِ سیرت ان حوالوں سے بھرا پڑا ہے، لہٰذا رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے کریمانہ اخلاق کے وھی واقعات بیان کرنے چاھیں جو صحیح اور  مستند کتابوں سے ثابت ھوں ۔ 

Share: