کم تولنے کی سزا دنیا ھی میں

ایک مرتبہ کا ذکر ھے کہ خلیفہ ھارون رشید نے بہلول دانا کو ھدایت کی کہ آپ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ھیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والے ترازو میں کوئی گڑبڑ ھو یا تول والا  پتھر کم نکلے انھیں گرفتار کرکے یہاں دربار میں حاضر کریں 

خلیفہ کے حکم کے مطابق  بہلول دانا بازار گئے پہلی گوشت کی دکان پر پہنچے تو قصائی کا تول والا پتھر چیک  کیا تو وہ کم نکلا جس کا مطلب صاف ظاھر تھا کہ قصائی کم تولتا ھے اور پیسے پورے لیتا ھے ۔ بہلول نے قصائی سے سوال کیا  کہ آپ کے مالی حالات کیسے چل رھے ھیں..؟ قصائی نے جوب دیا کہ میرے حالات تو بہت ھی خراب ھیں بلکہ یوں سمجھو کہ میرے اوپر بہت ھی بُرے دن آئے ھوئے ھیں ۔ میرا دل چاھتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری  اپنے بدن میں گھسا دوں اور اس زندگی سے نجات حاصل کرکے ابدی ننید سو جاوں 

بہلول آگے بڑھے اور دوسری گوشت  والی دکان کے تول والے پتھر کو چیک کیا تو  وہ بھی کم نکلے تو قصائی سے پوچھا  کہ آپ کے  گھر کے حالات کیسے ھیں ؟ قصائی نے جواب دیا  کہ میرے گھر کے حالات اسقدر پریشان کُن ھیں کہ اُنہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ میں تو یہ کہتا ھوں کہ کاش اللہ تعالی نے مجھے پیدا ھی نہ کیا ھوتا ۔ حقیقت یہ ھے کہ میں بہت ھی  ذلالت بھری زندگی گزار رھا ھوں ، اولاد نافرمان ھے اور بے شمار پریشانیاں گھر میں ھیں جنہیں بیان کرنےکا حوصلہ نہیں ۔ حقیقت یہ ھے کہ ایسی زندگی سے تو موت ھی بہتر ھے اور سکون نام کی کوئی چیز میرے پاس نہیں ھے 

بہلول اگے بڑھے اور تیسری گوشت کی دکان پر پہنچے اور اُس کے  تول والے پتھر چیک کیے تو یہ تولنے والے پتھر بالکل درست پائے ۔ بہلول نے اس  قصائی سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کیسے گزر رھی ھے.... ؟ قصائی نے جواب دیا  کہ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ھے ۔ میں بہت ھی خوشگوار اور مطمئن زندگی گزار رھا  ھوں۔  اللہ تبارک تعالٰی نے مجھ پر بڑا ھی کرم کیا ھوا ھے ۔ الحمدُ للہ میرا کاروبار بھی آچھا چل رھا ھے اور پھر میری خوش قسمتی ھے کہ میری بیوی اور میری تمام اولاد بہت ھی نیک اور فرمانبردار ھیں جنہیں دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ھوتی ھیں ۔ اللہ کا شکر ھے میری زندگی بہت ھی پُرسکون گزر رھی ھے

بہلول دانا  واپس خلیفہ کے دربار میں پہنچے تو  خلیفہ ھارون الرشید نے پوچھا  کہ بازار کی  صورت حال  کیا ھے..؟ بہلول نے جواب دیا کہ آکثر قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ھیں. خلیفہ  نے غصے سے کہا کہ پھر آپ انھیں گرفتار کرکے یہاں کیوں نہیں لائے ۔ بہلول نے کم تولنے والے قصائیوں کے گھریلو حالات خلیفہ کو بتائے اور کہا اے خلیفہ!   جب اللہ تعالٰی انھیں خود ھی اسی دنیا میں سزا دے رھا ھے اور اللہ پاک نے ان پر دنیا تنگ کردی ھوئی ھے تو ھمیں اُنہیں یہاں لانے اور سزا دینے کی کیا ضرورت ھے ۔ 

آج ھمارے معاشرے میں بھی صورت حال کچھ ایسی ھی ھے ۔ حلال اور حرام کی تمیز بالکل ختم ھو چکی ھے اور دوسروں کو دھوکہ دینا ایک فن سمجھا جا رھا ھے ۔ ھم نے بھی بس دنیا کو اپنایا ھوا ہے ۔ اسی کی فکر ھے، حرام ، حلال اور آخرت کی بالکل  کوئی فکر ھی نہیں اور حقیقت یہ ھے ھمارے  گھروں کی اکثریت  کے حالات بھی کچھ اُن کم تولنے والے قصائیوں سے مختلف نہیں ھیں  ۔ اولادیں رزقِ حرام کھانے کی وجہ سے بگڑ چکی ھیں۔  والدین سکون کی دولت سے یکسر محروم  ھیں ۔ پریشانیاں ھی پریشانیاں ھیں ۔ آئے دن دلخراش واقعات آخبارات کی زینت بنتے رھتے ھیں ۔ درآصل یہ نتائج ھیں اُس  مال و متاع کے جو ھم نے دھوکہ  دھی سے دوسروں کے حقوق سلب کرکے حاصل کر رکھا ھے اور جس کا حساب ھم نے ھی مرنے کے بعد دینا ھے جو یقیناً بہت ھی سخت ھو گا

Share: