اولاد کی اصلاح و تربیت اور قرآنی دعائیں

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ

”اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کے راستے پر چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔

(الطور )

یعنی اگر انسان کی اولاد نیک ہو تو اللہ تعالی جنت میں بھی اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کا باعث بنائیں گے، 

اس کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

  إنَّ اللَّهَ تَبارَكَ وتَعالى يَرْفَعُ لِلْمُؤْمِنِ ذُرِّيَّتَهُ، وإنْ كانُوا دُونَهُ فِي العَمَلِ، لِيُقِرَّ اللَّهُ بِهِمْ عَيْنَهُ. 

”اللہ تعالی مومن کے لیے اس کی اولاد کے درجات بھی اس کے ساتھ بلند کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ تعالی اس کی اولاد کے ذریعے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں، چاہے ان کے اعمال اس سے کچھ کم ہی ہوں۔“ (تفسیر طبری  وسندہ صحیح)

رب کریم نے حضرت انسان کو اس دنیا میں بیجھ کر اسے اپنی بے شمار نعمتوں سےنوازا  ھے تاکہ یہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے ۔ اولاد بھی اللہ تعالی کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ہے اور یہ نعمت اس وقت اپنے کمال و تمام کو پہنچتی ہے، جب وہ اولاد اطاعت الہی اور اطاعت رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے راستے کو اختیار کرنے والی بھی ہو، اگر اولاد صراطِ مستقیم پر گامزن رھے تو پھر یہی اولاد والدین کے لئے آخرت کی کمائی کے ساتھ دنیاوی شرف و عزت کی معراج بھی بن جاتی ہے ۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : 

أيُّ شَيْءٍ أقَرُّ لَعَيْنِ المُؤْمِنِ مِن أنْ يَرى زَوْجَتَهُ ووَلَدَهُ يُطِيعُونَ اللَّهَ ذِكْرُهُ. 

”بھلا مومن کے لیے اس سے بڑھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک کس چیز میں ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بیوی، بچوں کو اللہ تعالی کے مطیع و فرمان بردار دیکھے۔“ (ابن ابی الدنیا  وسندہ حسن)

اولاد کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے اسباب دو طرح سے ہیں، ایک تو ظاہری اسباب ھیں جنہیں تقریباٍ ھر شخص جانتا ھے اور ان اسباب کو اختیار کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ھے اور دوسرے باطنی و روحانی اسباب ھیں جو تفصیلی مضمون کی متقاضی ہیں، ان  باطنی اسباب میں سے ایک اہم سبب اولاد کے لیے دعائیں کرنا ھے  اور پھر دعاؤں میں بھی بالخصوص قرآنی دعائیں جو انبیاء کرام  نے اپنی اولاد کے لیے کیں یا اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کی اس حوالے سے جو دعائیں ذکر کی ہیں ان میں  سے چند دعاؤں کا ذکر یہاں کرنا  مقصود ہے ۔


حصولِ اولاد کی دعا کے ساتھ اولاد کے صالح ھونے کی دعا

والدین جب بھی اولاد کے حصول کی دعا کریں تو اس وقت ساتھ ہی نیک اولاد کی شرط و تاکید کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا مانگیں، ذیل میں کچھ قرآنی دعائیں درج کی جا رھی ھیں جنہوں نے قبولیت کا راستہ دیکھا ھوا ھے 


سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کی نیک اولاد کے لئے دعائیں 


رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

”اے میرے رب! مجھے (بیٹا) عطا کر دیں، جو نیکوں سے ہو۔“ (الصافات )


رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ. 

”اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دیں اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھیں ۔“ (إبراهيم : 35)

حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اولاد کے عقیدے و دین کی حفاظت کی مذجورئ بالا دعا مانگی 

والدین کو چاہیے کہ وہ بھی اولاد کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی انہیں صحیح عقیدے اور عملِ صالح پر گامزن رکھے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی :

اسی طرح  حضرت ابراھیم علیہ السلام  نے یہ دعا بھی مانگی

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ. 

”اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دیں، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر لیں ۔“ (إبراهيم )

معلوم ہوا کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنی اولاد کے عقیدے اور اعمال کے متعلق اس قدر فکر مند تھے تو ہمیں بالاولی اپنی اولاد کے لیے فکر کرنی چاہیے اور ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔


 سیدنا زکریا علیہ السلام  کی اولاد کے لئے دُعائیں 


رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ. 

”اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرمائیں، بے شک آپ ہی دعا کو بہت سننے والے ہیں۔“ (آل عمران )

 ۔سیدنا زکریا علیہ السلام نے اخلاق وکردار میں پسندیدہ اولاد

کے لئے جو جو دعا کی اس میں یہ الفاظ بھی تھے کہ اے اللہ مجھے اولاد عطا کریں کہ

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا. 

”جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے (اپنا اور لوگوں کا) پسندیدہ بنا دیں۔“ (مريم )

اللہ تعالی نے پھر ان کی دعا کو قبول فرمایا چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ھے: 


وَحَنَانًا مِّنْ لَّـدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا (13)

  وَبَرًّا بِوَالِـدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا (14) 

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِـدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (15) 

”اور (ہم نے انہیں) اپنی طرف سے بڑی شفقت اور پاکیزگی (عطا کی) اور وہ بہت متقی و پرہیزگار تھے، اپنے والدین کے ساتھ بہت نیک سلوک کرنے والے تھے، سرکش، نافرمان نہ تھے، اور ان پر سلامتی ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن فوت ہوں گے اور جس دن زندہ ہو کر دوبارہ اٹھایا جائے گا۔“ (سورہ مريم )

اس کی تفسیر میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أوْحَشُ ما يَكُونُ الخَلْقُ فِي ثَلاثَةِ مَواطِنَ: يَوْمَ يُولَدُ فَيَرى نَفْسَهُ خارِجًا مِمّا كانَ فِيهِ، ويَوْمَ يَمُوتُ فَيَرى قَوْمًا لَمْ يَكُنْ عايَنَهُمْ، ويَوْمَ يُبْعَثُ فَيَرى نَفْسَهُ فِي مَحْشَرٍ عَظِيمٍ، قالَ: فَأكْرِمَ اللَّهُ فِيها يَحْيى بْنَ زَكَرِيّا، فَخَصَّهُ بِالسَّلامِ عَلَيْهِ، فَقالَ ﴿وسَلامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ ويَوْمَ يَمُوتُ ويَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا﴾

’’انسان تین مواقع پر سب سے زیادہ خوف زدہ ہوتا ہے، پہلا جس دن پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو باہر نکل کر نئی دنیا میں دیکھتا ہے، دوسرا جس دن فوت ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے جنھیں اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور تیسرا جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے آپ کو بہت بڑے مجمع میں لوگوں کے درمیان دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مواقع پر یحییٰ بن زکریا علیھما السلام کو عزت بخشی اور انھیں سلامت رکھنے کی خاص نعمت  سے نوازا۔‘‘

(تفسیر طبری  -  الزهد الكبير للبيهقي  وسندہ صحیح)


سیدہ اُمِّ مریم علیہا السلام  کی بیٹی کی پیدائش پر اس کے لیے دعا 

سیدہ اُم مریم علیہا السلام کو جب اللہ نے نعمتِ اولاد سے نوازا تو انہوں نے سب سے پہلے ان کی شیطان سے حفاظت کی دعا کی :

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.

”پھر جب ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی، تو کہا: اے میرے رب! یہ تو میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالی زیادہ جاننے والے ہیں، کہ ام مریم کے ہاں کس کی پیدائش ہوئی، یقیناً لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں، میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔“ (آل عمران )

اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ پھر سیدہ مریم علیہا السلام دنیا کی کامل ترین پاکیزہ عورتوں میں شامل ہو گئیں، سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا :

 لَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ. 

”عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہی کامل ترین عورتیں تھیں۔“ (صحیح بخاری و صحیح مسلم


اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کی دعا

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کی دعا بیان کی کہ وہ دعا کرتے ہیں :

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا. 

”اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔“ (الفرقان ) 

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أوْلادًا أبْرارًا أتْقِياءَ، يَقُولُونَ اجْعَلْهُمْ صالِحِينَ فَتَقَرَّ أعْيُنُنا بِذَلِكَ. ”انہیں نیک، متقی اور صالح بنا دے کہ اس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔“ (تفسیر بغوی )

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

أَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا بُورِكَ لَهُ فِي مَالِهِ وَوَلَدِهِ قَرَّتْ عَيْنُهُ بِأَهْلِهِ وَعِيَالِهِ. 

”یہ دعا اس لیے ہے کہ جب انسان کا مال و اولاد بابرکت ہو تو اس کی آنکھیں اپنے اہل وعیال سے ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔“ (تفسیر قرطبی )


اولاد کی اصلاح کی دعا 

 اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنے ایک نیک و صالح شخص کی دعا نقل فرمائی کہ جب وہ پختہ عمر کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے :

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ. 

”اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہیں اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے آپ پسند کرتے ہیں اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دیں، بے شک میں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔“ (الأحقاف )

مولانا عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ: اس دعا میں دو الفاظ قابل غور ہیں، ایک ’’ لِيْ ‘‘ اور دوسرا ’’فِيْ‘‘۔  ’’اَصْلِحْ لِيْ‘‘(میرے لیے اصلاح فرما دے) کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ایسی اصلاح فرما جس کا فائدہ مجھے بھی حاصل ہو۔’’ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ یہاں بظاہر ’’أَصْلِحْ لِيْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ (میرے لیے میری اولاد کی اصلاح فرما دے) کافی تھا، جیسا کہ فرمایا : «وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ» [ الأنبیاء ] اور ہم نے اس کے لیے اس کی بیوی کی اصلاح فرما دی۔‘‘ مگر ’’ فِيْ ‘‘ لانے کا مطلب یہ ہے کہ میری اولاد میں اصلاح کا عمل جاری و ساری فرما دے جو آگے تک چلتا رہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا : « وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ» [ الزخرف ] اور اس نے اس (توحید کی بات) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنا دیا۔‘‘ (تفسیر القرآن الکریم)۔ 

اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کریں اور بالخصوص جو چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے وہ بکثرت یہ دعا کرے ۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ والدین اپنی اولاد کی بہتری کے لئے یقیناً ھر ممکن کوشش تو کرتے ھیں لیکن یہ بات بھی مشاھدہ کی  ھے کہ اس سلسلہ میں اکثر لوگ دعاؤں  سے بہت زیادہ غفلت برتتے ھیں خاص کر قرآنی دعاؤں  کی طرف تو دھیان  کم ھی جاتا ھے جبکہ یہ مقبول قرآنی دعائیں اپنے اندر بہت زبردست اثرات رکھتی ھیں  لھذا ھمیں اھتمام کے ساتھ ان  قرآنی دعاؤں کو اختیار کرکے اولاد کی اصلاح و تربیت کو کوشش ضرور کرنی چاھیے۔ 

اللہ پاک ھم سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: