حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے کو حدِ زنا پر کوڑے مارنے کا من گھڑت واقعہ


حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے متعلق ایک من گھڑت واقعہ عموماً  سننے میں آتا ھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو حد زنا میں سو کوڑے  لگائے تھے ، بیان کردہ واقعہ کے مطابق  جب نوے کوڑے ان کے جسم پر لگے تو اُن کی وفات ھو گئی اور پھر حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے حکم پر  دس کوڑے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی لاش یا قبر پر لگائے گئے۔  بدقسمتی سے  یہ جھوٹی داستان بہت سے لوگوں  کی زبان پر جاری ھو گئی ہے بلکہ اچھے اچھے لوگ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا عدل وانصاف ثابت کرنے کے لئے برسرِ منبر اس کہانی کو پیش کرنے لگے ۔  اس داستان میں جو زہر بھرا ہوا ہے۔ اس سے عوام الناس  تو کیا واقف ہوتے، ہمارے بہت سے علماء کرام کی بھی اس پر نظر نہیں جاتی۔ درآصل یہ داستان ایک فریب اور غلاظت کا ڈھیر ہے جس پر سونے کا ورق چڑھا دیا گیا ہے اور ہر شخص صرف اس سونے کے ورق کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اس غلاظت کو کرید کر دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس عدل وانصاف کے پردے میں جہاں حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزادے ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بدکار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رھی  ہے  وہاں حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو احکام شریعت سے ناواقف  اور ظالم وجابر بنا کر پیش کیا جا رھا ہے۔ اس کے علاوہ اس رام کہانی میں اتنا زبردست اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے کہ جس کا رفع ہونا شاید قیامت تک بھی ممکن نہ ھو ۔ کسی فریب کار نے  اسے مختصراً بیا ن کیا ہے اور کسی نے اسے تفصیل سے ، جو کسی صورت میں بھی داستان ہو شربا سے کم نہیں ہے۔ یہ بات زھن نشین کر لینی چاھیے کہ اس خود ساختہ داستان کے حوالے سے بیان کردہ تمام روایات قصہ گوؤں کی گھڑی ہوئی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ ان روایات میں نہ تو کسی روایت کی سند درست ھے نہ ہی متن۔

حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک بیٹے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  تھے ،ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان کی کنیت تھی ،ان کا نام عبدالرحمن الاوسط رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا ،ان کی والدہ کا نا م  لہیۃ تھا ۔ اُنہیں حدِ زنا پر کوڑے لگانے کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ھے وہ بالکل غیر مستند ہے ۔  مجہول اسناد سے بعض کتب میں غلط امور شامل کرکے مبالغہ آرائی کے ساتھ اُن کے حوالے سے یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر بیان کردیا گیا ھے ۔ اس واقعہ کے گھڑنے میں شیعہ فیکٹر کا ھونا بھی بعید از قیاس نہیں کہ بغضِ عمر ( جو اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا ھے ) میں انہوں نے اسے گھڑ لیا ھو اور عوام الناس میں مشہور کر دیا ھو جیسا کہ ان کی اس طرح کی خباثتیں تاریخ کے اوراق میں بھری  پڑی ھیں ۔ 

اب آتے ھیں  اصل واقعہ کی طرف جو صرف اتنا منقول ہے کہ حضرت عبدالرحمن اوسط رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سیدنا حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد میں سے تھے جن کی کنیت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھی وہ جہاد کے سلسلہ میں مصر تشریف لے گئے تھے ایک رات انھوں نے نبیذ پی لی ( نبیذ عرب کے محبوب مشروبات میں سے تھی ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو بھی یہ مشروب مرغوب تھا،چھوہارے یا کشمش وغیرہ کو پانی میں ڈال دیاجاتا تھا،اس کی مٹھاس پانی میں آجاتی تھی ۔ اسے رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نوش فرمالیتے تھے،صبح کا ڈالا ہوا شام میں اور شام کا ڈالا ہوا صبح میں پی لیتے تھے۔لیکن پانی میں اتنی زیادہ دیر ڈالے رکھنا اور چھوڑے رکھنا کہ گاڑھاپن اور نشہ آجائے یا جھاگ آجائےتو اس سے نشہ پیدا ہو جاتا  ہے اور رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نشہ کو حرام قرار دیا ہے،لہذا نشہ آورنبیذ پینا حرام ہے اور پہلی صورت میں غیر نشہ آور نبیذ پینا جائز ہے) تو نبیذ جس کا پینا فی نفسہ تو جائز ہے البتہ اگر اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو پھر اس کا پینا جائز نہیں ہوتا ۔ جو نبیذ حضرت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پی تھی ، اتفاقاً اس میں نشہ پیدا ہوگیا تھا (نشہ پیدا ہوجانے کا ان کو احساس پینے سے پہلے نہیں ہوا) جب پینے کے بعد اُن ہر نشہ طاری ہوگیا تو وہ پریشان ھو گئے  اور خوف آخرت اور اللہ پاک کے ڈر اور تقوی پرہیزگاری کی وجہ سے انہوں نے امیر مصر حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جاکر سارا واقعہ سنایا اور پھر خود ھی ان سے یہ درخواست کی کہ میرے اوپر نشہ آور نبیذ پینے کی شرعی حد جاری کردیجیے۔  امیر مصر حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حد جاری کرنے سے معذرت کردی مگر حضرت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر آپ نے حد جاری نہ کی  تو میں آپ کی شکایت اپنے والد  حضرت امیرالموٴمنین عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے کردوں گا تب آمیرِ مصر  نے اپنے گھر کے اندر  ھی ان پر حد جاری کر دی ۔ یہ بات جب امیرالموٴمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو معلوم ہوئی تو انھوں نے حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو سخت ملامت کی کہ آپ نے صاحبزادے پر گھر میں حد کیوں جاری کی ؟ یہ حد تو جہاں عوام الناس پر جاری کی جاتی ہے اسی میدان میں ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر بھی جاری ھونا  چاہیے تھی ،  امیرالموٴمنین حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اپنے بیٹے ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مدینہ منورہ طلب کیا  جب ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر خدمت ہوئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے قانون کے مطابق ان پر عام لوگوں کی طرح دوبارہ حد جاری فرمائی کیونکہ اُن کے نزدیک سر عام حد جاری  کرنا  ھی ضروری تھا اور بعد میں اتفاقاً  ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوگئے اور چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے موت کا وقت آ گیا تھا اس لئے اسی بیماری میں تقریباً ایک ماہ کے بعد ان کی وفات ہوگئی ۔  ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس واقعہ کے بعد بھی کم و بیش ایک ماہ  تک زندہ رھے۔ یہ   ظاھر سی بات ھے کہ انہیں تمام کوڑے زندہ حالت میں ھی لگائے گئے تھے لہذا لاش یا قبر پر کوڑے مارنے والی بات بھی بالکل خود ساختہ اور بے بنیاد ھے 

ھمیں اس بے بنیاد واقعہ کو بیان کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاھیے ورنہ روزِ قیامت اس کے لئے اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ  ھونا پڑے گا۔ اللہ تعالی ھم سب کی حفاظت فرمائے۔ 

آمین یا رب العالمین 

Share: