ھمارے ھاں کچھ نام نہاد واعظین اور نعت خوان حضرات حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ایک منگھڑت اور باطل واقعہ پورے. شوق اور جوش و خروش سے بیان کرتے ھیں اور سامعین سے خوب داد اور مال وصول کرتے ھیں ۔ عوام الناس سے لے کر خواص تک یہ منگھڑت واقعہ بہت مشہور ھو چکا ہے کہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے کلمات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے تھے ؛ ایک مرتبہ آپ کو اذان دینے سے روک دیا گیا اور جب آپ نے اذان نہیں دی تو سورج ہی نہیں نکلا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی “سین” اللہ تعالی کے نزدیک “شین” ہے ۔ اس واقعے کو کچھ مقررین بڑے شوق و جوش سے بیان کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو بھی ایسی مسالےدار روایات سننے میں بڑا مزہ آتا ہے ۔ کئی معتبر علماء نے اس روایت کا رد کیا ہے اور اسے موضوع و منگھڑت قرار دیا ہے لیکن پھر بھی کچھ مقررین اپنی عادت سے مجبور ہیں ۔ مقررین کی پیشہ ورانہ مجبوری اُنہیں ایسی روایات چھوڑنے نہیں دیتی ۔
یہ منگھڑت واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ : بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے نبی کریم ص صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے اذان کے بارے میں شکایت کی کہ وہ کلمات اذان میں مخارج کما حقہ اداء نہیں کرتے ، تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ان کو اذان دینے سے معزول کردیا ،اور دوسرے صحابئ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مقرر کیا ، جب صبح کا وقت ہوا تو سورج طلوع نہیں ہوا ، تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متحیر و پریشان ہوگۓ کہ سورج کیوں طلوع نہیں ہوا ، پھر کیا تھا حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ آسمانوں پر کہرام مچ گیا گیا ہے ، اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جب تک حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اذان نہیں دینگے اس وقت تک سورج طلوع نہیں ہوگا ۔
اس حدیث کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اذان میں "اشهد" کی جگہ "اسهد" (شین کی جگہ سین) پڑھتے تھے ۔ اس میں اکثر لوگ یہ الفاظ بطورِ حدیث کے پیش کرتے ہیں (قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : إنَّ سين بلالٍ عند الله شينًا ۔ بیشک حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا "اسهد" کا سین اللہ تعالی کے یہاں شین ہے ۔
اس روایت کے متعلق علمائے محققین کی آراء ذیل میں نقل کی جاتی ہیں :
یہ واقعہ مولانا روم رحمہ اللہ نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے جس میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے خلوص کا ذکر کیا گیا ہے ۔ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مؤذنِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور جلیل القدر صحابی ہیں اُن کے بے شمار فضائل حدیث کی کتابوں میں مذکور ھیں لیکن یہ بات کہ انہوں نے فجر کی اذان نہیں دی تھی تو رات ہی ختم نہیں ہوئی تھی ، بالکل بے بنیاد اور غلط ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض دفعہ فجر کی اذان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نہیں دیتے تھے بالخصوص رمضان المبارک میں کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رمضان المبارک میں فجر کی اذان حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ دیا کرتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سحری کی اذان دیتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے ثابت ہے ۔ (صحیح بخاری )
دوسری بات جو احادیث مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ ایک مرتبہ دورانِ سفر (خیبر سے واپسی پر) حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سوئے ہوئے تھے کہ سورج نکل آیا ۔ مکمل حدیث ملاحظہ کریں :-
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ حارث بن ربعی سے روایت بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : ہم (خیبر سے واپسی پر) رات کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو بعض لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یہاں پڑاؤ ڈال لیں تو بہتر ہو گا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : اخاف ان تناموا عن الصلاة ۔ میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری آنکھ نہ لگ جائے اور نماز کے لیے نہ اٹھو ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جگا دوں گا ، پھر سب لیٹ گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پشت اپنی اونٹنی سے لگائی اور نیند کے غلبے سے سو گئے پھر سب سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جاگے ، اس وقت سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آیا تھا یعنی سورج طلوع ہو رہا تھا، تو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : بلال ! آپ نے تو کہا تھا : میں تمہیں جگا دوں گا ؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ: مجھے ایسی نیند کبھی نہیں آئی تھی ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ يَا بِلَالُ ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ ۔
(صحیح بخاري، صحیح مسلم)
اللہ نے جب چاہا تمہاری جانیں قبض کر لیں اور جب چاہا پھر تم کو دے دیں، بلال! اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو ۔‘‘
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے وضو کیا ، جب سورج بلند ہو کر سفید ہو گیا آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی ۔
احادیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے وہاں سے کوچ کیا اور دوسری جگہ جا کر نماز پڑھی ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان نہیں دی تھی تو صبح ہی نہیں ہوئی تھی ، خلاف حقیقت ہے ۔
علامہ ابن كثير رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب الأحكام الكبير میں لکھتے ہیں (لا أصل له) اس قسم کے الفاظ کی کوئی حقیقت اور اصل نہیں ہے،بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے ۔ علامہ ابن كثير اپنی دوسری کتاب البداية والنهايۃ میں لکھتے ہیں : ليس له أصل ۔
امام ملا علی قاری حنفی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب الأسرار المرفوعة میں لکھتے ہیں : قيل لا أصل له أو بأصله موضوع ۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اصل سے ہی موضوع اور من گھڑت ہے ۔ امام القاوقجي اپنی کتاب اللؤلؤ المرصوع صپر لکھتے ہیں : ليس له أصل ۔
امام علامہ الزرقاني رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب مختصر المقاصد پر لکھتے ہیں کہ : باطل , لا أصل له , بل كان فصيحا ۔ یعنی یہ یہ تو باطل ہے ، کوئی اصل نہیں ہے ، اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ تو فصیح تھے ۔
ان تمام اقوال سے یہ معلوم ہوگیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا اذان میں مخارج کا کما حقہ اداء نہ کرنے کی جو روایت واعظین میں مشہور ہے وہ موضوع اور من منگھڑت ہے ، نیز حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ فصیح تھے جیسے کہ المقاصد الحسنۃ میں ہے اور اس کی تائید حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے
امام شیخ عبد الرحمن سخاوی رحمة اللہ علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد برہان سفاقسی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے علامہ جمال الدین المزی رحمة اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبانوں پر تو مشہور ہے لیکن ہم نے کسی بھی کتاب میں اسے نہیں پایا ۔ (المقاصد الحسنة ) امام سخاوی رحمة اللہ علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اسی طرح علامہ جمال الدین المزی کا قول گزر چکا ۔ (المقاصد الحسنة ص397، ر582)
امام عبد الوہاب شعرانی رحمة اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اصول میں ہم نے اس بارے میں کوئی تائید نہیں دیکھی ۔ (البدر المنیر ) امام شعرانی رحمة اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ۔ (البدر المنیر )
امام ملا علی قاری حنفی رحمة اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (الاسرار المرفوعة )
امام بدر الدین زرکشی رحمة اللہ علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ : حافظ جمال الدین المزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (اللآلی المنثورۃ)
امام ابن المبرد المقدسی رحمة اللہ علیہ اس روایت کو لکھنے کے بعد علامہ جمال الدین المزی رحمة اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ مستند کتب میں اس کا کوئی وجود نہیں (التخریج الصغیر والتحبیر الکبیر)
امام اسماعیل بن محمد العجلونی رحمة اللہ علیہ اس روایت کو لکھنے کے بعد امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین المزی رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا ۔ (کشف الخفاء ) امام عجلونی رحمة اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ۔ (کشف الخفاء )
اس روایت کا رد ان کتب میں بھی موجود ہے : “تمیز الطیب من الخبیث”، “تذکرۃ الموضوعات للھندی”، “الدرر المنتثرۃ للسیوطی”، “الفوائد للکرمی”، “اسنی المطالب” ۔
علامہ شریف الحق امجدی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : یہ واقعہ بعض کتابوں میں درج ہے لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع، منگھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری))
علامہ عبد المنان اعظمی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان سے معزول کرنے کا ذکر ہم کو نہیں ملا بلکہ عینی جلد پنجم، صفحہ نمبر 108 میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے لیے سفر اور حضر ہر دو حال میں اذان دیتے اور یہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں حضرات کی آخری زندگی تک مؤذن رہے ۔ (فتاوی بحر العلوم)
مولانا غلام احمد رضا رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : یہ واقعہ موضوع و منگھڑت ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کلمات اذان صحیح (طور پر) ادا نہیں ہو پاتے تھے ۔ (فتاوی مرکز تربیت افتا)
ان دلائل کے بعد اس روایت کے موضوع و منگھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا ۔
ان تمام تر تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں توتلا پن نہیں تھا ، کہ مخارج ادا کرنے میں دشواری ہو ، بلکہ آپ تو فصیح اور بلند آواز تھے، جیسا کہ مذکور حدیث سے ثابت ہوا ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ کسی بھی مستند کتب حدیث و سیر میں موجود نہیں ھے ، علماء نے لکھا ہیں کہ یہ واقعہ موضوع اور منگھڑت ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، باطل ہے ۔ اس لئے اس منگھڑت واقعہ کو بیان کرنے سے مکمل اجتباب کرنا ازحد ضروری ھے ۔