وارثانِ جنّتُ الفردوس


اللہ تعالی نے اپنے مؤمن  بندوں کے لئے عالمِ آخرت میں جنتوں کی شکل میں بے شمار نعمتیں تیار کر رکھی  ھیں۔  ان تمام جنتوں میں جنت الفردوس سب سے آعلی و آرفع مقام کی حامل جنت ھے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ارشاد کا مفہوم ھے کہ اللہ تعالی سے جب بھی جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں مومنین کی بعض صفات کا ذکر فرمایا ھے  اور ان صفات کے حامل لوگوں کو جنت الفردوس کا وارث قرار دیا ھے جس میں وہ ھمیشہ ھمیشہ رھیں ھے چنانچہ اللہ تعالیٰ  کا ارشاد  ہے:

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَ (1) 

بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔

اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ (2) 

جو اپنی نمازوں  میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (3) 

اور جو لغو باتو ں سے منہ موڑنے والے ہیں۔

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُوْنَ (4) 

اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں۔

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِفُرُوْجِهِـمْ حَافِظُوْنَ (5) 

اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ (6) 

مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں پر اس لیے کہ ان میں کوئی الزام نہیں۔

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْعَادُوْنَ (7) 

پس جو شخص اس کے علاوہ طلب گار ہو تو وہی حد سے نکلنے والے ہیں۔

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِاَمَانَاتِـهِـمْ وَعَهْدِهِـمْ رَاعُوْنَ (8) 

اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدہ کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَلٰى صَلَوَاتِـهِـمْ يُحَافِظُوْنَ (9) 

اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْوَارِثُوْنَ (10) 

وہی وارث ہیں۔

اَلَّـذِيْنَ يَرِثُـوْنَ الْفِرْدَوْسَۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (11) 

جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔


اللہ تعالیٰ  جو انس وجن اور تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے، جو خالق ومالک ورازقِ کائنات ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جو انسان کی رگ رگ سے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی کامیابی اور جنت الفردوس کے حصول کے لیے آیاتِ مذکورہ بالا میں چند  صفات ذکر فرمائی ہیں کہ اگر کوئی شخص واقعی کامیاب ہونا چاہتا ہے اور جنت الفردوس کا وارث بننا چاھتا ھے تو وہ اس دنیاوی فانی زندگی میں موت سے قبل محنت کرکے ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کر لے ۔ ان اوصاف کے حامل ایمان والے جنت کے اُس حصہ کے وارث بنیں گے جو جنت کا اعلیٰ وبلند حصہ ہے، جہاں ہر قسم کا سکون واطمینان وآرام وسہولت ہے، جہاں ہر قسم کے باغات، چمن، گلشن اور نہریں پائی جاتی ہیں، جہاں خواہشوں کی تکمیل ہے، اس جنت کو قرآن وسنت میں جنت الفردوس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے کہ جس کے بعد کبھی ناکامی، پریشانی، دشواری، مصیبت اور تکلیف نہیں ہے، لہٰذا ہم دنیاوی، عارضی ومحدود خوشحالی کو فلاح نہ سمجھیں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کے لیے کوشاں رہیں۔ ایمان والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا، حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو آخری رسول  تسلیم کیا اور آپ   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔ انسان کی کامیابی کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی شرط اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لانا ہے، اس کے علاوہ انسان کی کامیابی کے لیے جو سات اوصاف اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمائے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:


 ۱:- خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی

خضوع کے معنی ظاہری اعضاء کو جھکانے (یعنی جسمانی سکون) اور خشوع کے معنی دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنے کے ہیں۔ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کی طرف دھیان رکھیں اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آجائے دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ غرضیکہ ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صحابی  بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر (رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس آئے اور) رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سلام کیا۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی، ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھررسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو آکر سلام کیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُنہوں عرض کیا یا رسول اللہ!  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اُس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اُٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ (صحیح بخاری)


۲:- لغو یعنی فضول کاموں سے اجتناب

لغو اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو، یعنی جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ لغو کاموں کو کرنا تو درکنار اُن سے بالکل دور رہنا چاہیے۔ ہمیں ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہیے قطع نظر اس کے کہ وہ مباح ہو یا غیرمباح، کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 

من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه 

انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کو چھوڑدے۔ (ترمذی) 


۳:- زکوٰۃ کی ادائیگی

انسان کی کامیابی کے لیے تیسری اہم شرط زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہی دیا ہے۔ سورۃ التوبہ میں اللہ  تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کماحقہٗ زکوٰۃ نہیں نکالتے، اُن کے لیے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا 

وَالَّـذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الـذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَـهَا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ فَبَشِّرْهُـمْ بِعَذَابٍ اَلِيْـمٍ (34) 

 اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

يَوْمَ يُحْـمٰى عَلَيْـهَا فِىْ نَارِ جَهَنَّـمَ فَتُكْـوٰى بِـهَا جِبَاهُهُـمْ وَجُنُـوْبُـهُـمْ وَظُهُوْرُهُـمْ ۖ هٰذَا مَا كَنَزْتُـمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُـمْ تَكْنِزُوْنَ (35) 

جس دن وہ دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی، یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو اس کا مزہ چکھو جو تم جمع کرتے تھے۔

یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور اُن کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پر اللہ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اُس کو ادا نہیں کرتے، اُن کو یہ بتادیجئے کہ ایک دردناک عذاب اُن کا انتظار کررہا ہے۔ پھر اگلی آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی ، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گا اور اُس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لیے جمع کررہے تھے۔ 


۴:- شرم گاہوں کی حفاظت

اللہ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح کو مشروع کیا ہے۔ انسان کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوتِ نفس کو تسکین دینا قابلِ ملامت نہیں، بلکہ انسان کی ضرورت ہے، لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَسَآءَ سَبِیْلًا ۟O

خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وه بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راه ہے.

اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کر لے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جا سکے۔ شہوتِ نفس کو تسکین دینے کے لئے اگر جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرے  تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ 

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا بد نظری ہے۔ آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت سے اختلاط، مخلوط تعلیم، بے پردگی،اور انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں، کیونکہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مردوعورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔


۵:- امانت کی ادائیگی

امانت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اُٹھائی ہو اور اس پر اعتماد وبھروسہ کیا گیا ہو، خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے۔ حقوق اللہ سے متعلق امانت فرائض وواجبات کی ادائیگی اور محرمات ومکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانت میں مالی امانت کا داخل ہونا تو مشہور ومعروف ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی کو بتلائی تو وہ بھی اس کی امانت ہے، اذنِ شرعی کے بغیر کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ اسی طرح کام کی چوری یا وقت کی چوری بھی امانت میں خیانت ہے، لہٰذا ہمیں امانت میں خیانت سے ھر صورت بچنا چاہیے۔

دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک “ امانت داری “ بھی ہے۔ اسلام میں امانت داری کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے : 

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ

بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں اُن کے سپرد کرو

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’چار  عادتیں جس کسی میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں  سے ایک بھی عادت ہو تووہ (بھی) نفاق ہی ہے جب تک اسے چھوڑ نہ دے (وہ یہ ہیں): جب اُسے امین بنایا جائے تو وہ (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔‘‘(بخاری)


۶:- عہد وپیمان پورا کرنا

عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملہ میں لازم قرار دیا جائے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں، یعنی کوئی شخص کسی شخص سے کوئی چیز دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً ضروری ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ اگر ہم کسی شخص سے کوئی عہد وپیمان کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا

( بنی اسرائیل)

اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔

انسان اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفائے عہد کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ بلاشبہہ دینِ برحق دونوں حقوق کی ادائیگی سے عبارت ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے اس آیت میں جس عہد یا وعدہ کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دونوں عہد کے پورا کرنے کی بار بار تاکید بھی ہے


۷:- نماز کی پابندی

کامیاب ہونے والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی بھی پوری نگرانی رکھتے ہیں، یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات پر اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے، مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ 

 ’’نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت)

اسی طرح حدیث میں ہے کہ: ’’ایک شخص نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اس کی نماز عنقریب اس کو اس برے کام سے روک دے گی۔‘‘ (مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزار) 

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی کامیابی کے لیے ضروری سات اوصاف کو نماز سے شروع کیا اور نماز پر ہی ختم کیا، اس میں اشارہ ہے کہ نماز کی پابندی اور صحیح طریقہ سے اس کی ادائیگی انسان کے پورے دین پر چلنے کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں سب سے زیادہ نماز کی ہی تاکید فرمائی گئی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ تمام احکام اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل  علیہ السلام کے واسطہ سے دنیا میں اُتارے، مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ معراج کے موقعہ پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر حضرت جبرائیل  علیہ السلام کے واسطہ کے بغیر نماز کی فرضیت کا تحفہ اپنے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے آمین، ثم آمین۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی طبیعت میں کامیابی کی چاہت رکھی ہے، چنانچہ ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔کامیابی کسے کہتے ھیں یہ بھی اللہ تعالی نے قرآن ہاک میں واضح الفاظ میں بیان فرما دیا  چنانچہ فرنانِ الہی ھے 

كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(185)

ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔

یومِ آخرت میں دوزخ سے بچ کر جنت میں جانے والے ھی کامیاب لوگ تصور ھوں گے اور جنت الفردوس میں داخل ھونے والوں کی کامیابی کا تو کہنا ھی کیا۔  اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کامیابی‘ ایمان کے بعد سات صفات میں مضمر ہے، یعنی اگر قیامت کے دن ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں۔ ان سات اوصاف سے متصف ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس کا وارث بتلایا ہے۔ لفظ ’’وارث‘‘ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کے وارث کو پہنچنا قطعی اور یقینی ہے، اسی طرح ان سات اوصاف والوں کا جنت الفردوس میں داخلہ یقینی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان سات اوصاف کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت الفردوس کا وارث بنائے،

آمین یا رب العالمین 

 

Share: