وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اور ہم نے آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
لفظ “عید” کی تعریف
لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ (المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵) ”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ)۔
ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح تاریخ
تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛البتہ تاریخ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں صرف ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دینے کے لئے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ھے ۔
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یومِ ولادت ِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا یومِ پیدائش جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس عالمِ میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں:
(۱)عید الفطر
(۲) عید الاضحی۔
یہ ارشاد اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابوداؤد ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷) اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا ھے اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتداء
فقیہ اللامت حضرت مفتی محمود حسن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مروجہ مجلسِ میلاد نہ تو قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ ھی حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتھدین و محدثین سے اورنہ اولیاءِ کاملین سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔
اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو یعنی ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید)
بریلوی عالم کا اعتراف
بریلوی حضرات کے ایک مشہور عالم قاضی فضل احمد رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ 604 ھ سے جاری ہے“۔(مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً)
عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم
بعض لوگوں خیال کرتے ہیں کہ ھمیں عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے سے منع کرکے گویا ذکر نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے منع کیا جا رھا ھے نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعة) لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ)
بالفاظِ دگرمیلاد مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ ، دیوبند)
یومِ ولادتِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ کرام رضون اللہ تعالی عنھم کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے صحابہ کرام اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔(سورة المائدة)
آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔
نیز ارشادِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری، مسلم)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود، ترمذی ، ابن ماجہ)
کیا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ)
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالانکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام ، امداد الفتاویٰ))
اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ و نظام الفتاویٰ) ،
غرض یہ کہ ر سول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔ یہ ایسے ھی ھے جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔(جامع الفتاویٰ)
المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ)۔
’ اہل ِ حدیث علماء کا موقف
جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ِمروجہ رسوم کے ساتھ مجلس ِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا انعقاد ازروئے قرآن و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ)۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:کہ ہم مجلسِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کرنا تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ)۔
مفتیِ اعظم سعودی عریبیہ کا فتویٰ
شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مسلمانوں کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالانکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے محفلِ میلاد النبی نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی ہے وجہ ھے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ)۔
اللّٰھم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ․
اللہ پاک ھمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین