لاھور کے ایک گوالے کا سچا جذبۂ حج

 ماضی قریب میں حضرت مولانا محمد  ادریس  رحمة اللہ علیہ ایک بہت بڑے بزرگ ھو گزرے ھیں وہ جامعہ آشرفیہ لاھور کے شیخ الحدیث تھے انہوں نے معارف القرآن کے نام سے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی ہے۔ وہ ایک ممتاز فقیۂ وقت تھے اور اپنے زمانے کے چیدہ  چیدہ جید علماء کرام میں شمار ھوتے تھے

وہ لاھور کے ایک گوالے کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ وہ گوالا ایک سادہ سا نوجوان تھا اور دودھ بیچ کر اپنا گزارہ کیا کرتا تھا لیکن اس کے دل میں حج کرنے کی بہت زیادہ تڑپ تھی اُس کا جی چاھتا تھا کہ وہ کسی طرح مکہ مکرمہ پہنچ جائے چنانچہ جب لوگ حج کرکے واپس آتے تو وہ ان سے بڑے شوق اور محبت کے ساتھ سفر حج کے احوال پوچھتا تھا، حتیٰ کہ اس نے حج کے موسم میں لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ لوگ حج پر کیسے جاتے ہیں؟ کسی نے اسے بتا دیا کہ حج کے لیے کراچی سے جاتےہیں۔ چنانچہ اس نے لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ کراچی کیسے جاتے ہیں؟ کسی نے کہا کہ اسٹیشن سے جاتے ہیں، پھراس نے لوگوں سے پوچھا کہ اسٹیشن کہاں سے جاتے ہیں؟ کسی نے اس کو اسٹیشن پہنچا دیا۔ اب وہاں اسٹیشن پر پوچھتا پھر رہا تھا کہ مجھے کراچی جانا ہے، کراچی کیسے جاتے ہیں، وہ کئی دنوں تک لاہور اسٹیشن پرپھرتا رہا۔ بالآخر ٹرین کے ایک کنڈیکٹر گارڈ نے سوچا کہ یہ بے چارہ کئی دنوں سے پھر رہا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ کچھ تعاون کرنا چاہیے، چنانچہ اس گوالے سے کہا کہ تم میرے ساتھ ٹرین میں بیٹھ جاؤ ، میں تمہیں کراچی پہنچا دوں گا ۔ اس طرح وہ ٹرین کے ذریعے کراچی پہنچ گیا۔ کراچی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر اس نے پھر پوچھنا شروع کر دیا کہ مجھے حج پر جانا ہے، کیسے جاؤں ، کسی نے اسے حاجی کیمپ جانے کا راستہ بتا دیا اور وہ حاجی کیمپ چلا گیا۔ وہاں تو پورا شہر آیا ہوتاہے۔ لوگ روزانہ بحری جہاز پر سوار ہو کر جا رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ لوگوں کو سوار ہو کر جاتے دیکھتا تو اس کے جذبات کے سمندر میں اور زیادہ جوش آ جاتا۔ اگرچہ اس کے پاس سفر کے وسائل نہیں تھے، نہ ٹکٹ تھا، نہ پاسپورٹ تھا اور نہ ہی پیسے تھے مگر اس کے دل میں حج کرنے کا سچا جذبہ موجود تھا۔

چنانچہ وہ وہاں بھی یہی کہتا رہا کہ مجھے حج پر جانا ہے۔ ایک دن اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ جو حاجیوں کا سامان جہاز پر لےجانے والے قلی ہیں، ان کی ایک مخصوص وردی ہے اور ان کو اوپر جانے کی اجازت ہے، لہٰذا مجھے کسی قلی سے دوستی لگانی چاہیے، چنانچہ اس نے ایک قلی سے دوستی لگا لی اور اسے کہا، بھئی! آپ اپنی وردی مجھے دے دیں۔ میں بھی حاجیوں کا سامان اوپر پہنچاؤں گا۔ جب سامان ختم ہو جائے گا تو میں اپنے کپڑے پہن کر آپ کی وردی واپس بھیج دوں گا۔ میرا بھی کام بن جائے گا اور آپ کی وردی بھی واپس آ جائے گی۔ چنانچہ اس قلی نے اسے اپنی وردی دے دی اور وہ سامان اٹھانے کے بہانے اس جہازپر آتا جاتا رہا۔ جب سارا سامان ختم ہو گیا تو وہ جہاز میں ہی کہیں چھپ گیا اور اپنے کپڑے پہن کر قلی کی وردی واپس بھجوا دی۔ اب وہ وہیں پر ادھر ادھر وقت گزارتا رہا۔ وہاں تو ایک جہاز میں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں کیا پتہ چلے گا کہ کون کیا ہے؟  اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت تھی کہ پاسپورٹ اور ٹکٹ کے بغیر وہ جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو کر اللہ کا گھر دیکھنے جا رہا تھا۔ لوگ تو اپنے کمروں میں بستروں پر سوتے اور وہ بے چارہ بیٹھ بیٹھ کر وقت گزار لیتا۔ اس نے جہاز میں ایک بندے کے ساتھ واقفیت پیدا کر لی اور اسے کہا کہ بھئی! جب جدہ آئے تو مجھے بتا دینا۔ چنانچہ جب جدہ شہر کی روشنیاں سامنے نظر آنے لگیں اور بحری جہاز ساحل کے قریب پہنچ گیا تو اس آدمی نے کہا، وہ دیکھو جدہ آ گیا ہے۔ اس آدمی نے دیکھا کہ وہ نوجوان جہاز کے عرشے کے اوپر چڑھا اور کھڑے ہو کر سمندر کے اندر چھلانگ لگا دی۔ اسے تیرنا تو آتا نہیں تھا چنانچہ جب وہ نیچے گیا تو پھر اوپر ابھر ہی نہ سکا۔ جب اس آدمی نے دیکھا کہ یہ تو نظر ہی نہیں آ رہا تو وہ سمجھ گیا، کہ وہ نوجوان ڈوب گیا ہے اور اس نے دل میں سوچا کہ اچھا، اللہ کو یہی منظور تھا۔ جب اس آدمی نے حج کیا اور طوافِ زیارت کے بعد حرم شریف سے باہر نکل رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ وہ گوالا بھی حرم شریف سے باہر نکل رہا ہے اور اس نے عربوں جیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اس نے اس سے پوچھا، کیا آپ وہی ہیں جس نے سمندر میں چھلانگ  لگائی تھی؟ وہ کہنے لگا ہاں میں وہی ہوں۔ وہ وہاں ایک دوسرے کو خوب ملے۔ اس نے گوالے سے پوچھا کہ سناؤ تمہارے ساتھ کیا بیتی؟ اس نے کہا، میرے ساتھ چلو میں تمہیں آگے جا کر بتاؤں  گا۔ چنانچہ وہ آدمی اس کے ساتھ چل پڑا۔ جب وہ باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک بالکل نئی کار کھڑی ہے اور ڈرائیور انتظار کررہا ہے۔ گوالا کار کے اندر بیٹھا اور ساتھ اس آدمی کو بھی بٹھا لیا اور ڈرائیور ان کو ایک مکان کی طرف لے گیا جو بالکل نیا بنا ہوا تھا۔ اندر جا کر دیکھا کہ کوٹھی سجی ہوئی ہے۔ گوالے نے اسے ایک جگہ پر بٹھا دیا اور نوکر سے کہا کہ مہمان کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  لے آؤ ۔ چنانچہ وہ مشروبات اور پھل لے آیا۔  اس آدمی نے حیران ہو کر پوچھا، بھئی! مجھے بتاؤ کہ قصہ کیا ہے؟

وہ کہنے لگا کہ میں تمہیں قصہ بعد میں بتاؤں  گا پہلے یہ دیکھو کہ یہ کار بھی میری ہے، ڈرائیور بھی میرا ہے اور مکان بھی میرا ہے۔ اس نے پوچھا کہ بھئی! یہ سب کچھ تمہیں کیسے مل گیا؟ وہ کہنے لگا کہ ہے تو یہ راز کی بات لیکن چونکہ تم میرے محرم راز ہو اس لیے میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ کہنے لگاکہ میرے دل میں اللہ کا گھر دیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس شوق اور محبت میں میں نے یہ حیلہ کیا۔ جب میں جدہ پہنچا تو میں نے کہا، اے اللہ! بس میں اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے چھلانگ لگا دی۔ مجھے تیرنا تو آتا نہیں تھا، بس ایسے ہی ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے لہریں خود ہی دھکیل دھکیل کر ساحل کی طرف لے جاتی رہیں، میرے اندر بھی پانی چلا گیا اور میرے ہوش اڑ گئے۔ جب میں ساحل پر پہنچا تو نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ میں باہر نکلا اور وہیں لیٹ گیا۔ جب میں اٹھا تو صبح تہجد کا وقت تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو باہر جانے کے سب راستے بند تھے۔ ساحل کے ساتھ گرل لگی ہوئی تھی اور آگے دروازہ بند تھا میں وہیں گرل کے پاس بیٹھ گیا، میں نے دیکھا کہ اس گرل کے دوسری طرف کوٹھی نما ایک گھر ہے اور اس گھر کے صحن میں ایک گائے بندھی ہوئی ہے۔ دو آدمی اس گائے کا دودھ نکالنے کے لیے آئے مگر گائے ان سے مانوس نہیں تھی جس کی وجہ سے قابو نہیں آ رہی تھی، جب وہ دودھ نکالنے کے لیے بیٹھے تو گائے نے انہیں بیٹھنے ہی نہ دیا۔

وہ بڑی مصیبت میں گرفتار تھے۔ ایک آدمی گائے کو پکڑتا اور دوسرا تھن کو ہاتھ لگاتا تو گائے بھاگ کردوسری طرف چلی جاتی تھی وہ تقریباً آدھاگھنٹہ اس کے ساتھ کشتی کرتے رہے۔ میرا تو کام ہی یہی تھا۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں نے انہیں اشارہ کیا کہ اگر مجھے کہو تو میں اس کا دودھ نکال دیتا ہوں۔ وہ تو عربی بولتے اورسمجھتے تھے اس لیے ان کو اشارے سے ہی دودھ نکال دینے کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا آ جاؤ، میں نے کہا کہ یہ جنگلہ ہے میں تو نہیں آ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ وہ کوٹھی اس سی پورٹ کے ڈائریکٹر کی تھی اس کا ایک بیٹا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے ہدایت کی ہوئی تھی کہ اپنے بیٹے کو گائے کا دودھ پلایا کریں اس زمانے میں فیڈر کی ماں نہیں ہوتی تھی اس نے اسپیشل اپنے بیٹے کے لیے وہ گائے رکھی ہوئی تھی۔ گائے کے اندر دودھ تو ہوتا تھا مگر اسے نکالنے نہیں دیتی تھی۔ جس کی وجہ سے ڈائریکٹر اور اس کی بیوی کو بڑی پریشانی تھی کہ بچے کو دودھ پورا نہیں ملتا اب جب میں نے کہا کہ میں گائے کا دودھ نکال دیتا ہوں تو ان دونوں نے جا کر ڈائریکٹر سے کہا کہ یہاں جنگلے کے اندر مسافروں میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میں تمہیں دودھ نکال دیتا ہوں۔ اس نے کہا یہ چابی لو اور جا کر اسے لے آؤ۔ وہ گیٹ کا تالا کھول کر میرے پاس آئے اور مجھے ڈائریکٹر صاحب کے پاس لے گئے۔ جب میں نے گائے کو ذرا ہاتھ پھیرا اور اسے پیار کی بات کہی تو وہ مانوس ہوگئی۔ میں نیچے بیٹھ کر ان کو آٹھ دس کلو دودھ نکال کر دے دیا۔

جب ڈائریکٹر کی بیوی نے دیکھا تو وہ بڑی خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ آج تو میرا بیٹا سارا دن دودھ پئے گا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ اس بندے کو نہیں جانے دینا۔ جب ڈائریکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ میں تو پاکستان سے حج کرنے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ ہم تمہیں واپس نہیں جانے دیں گے، اس لیے کہ تم اچھا دودھ نکالتے ہو۔ میں نے کہا کہ میں دودھ تونکال دیا کروں گا لیکن میں نے حج بھی کرنا ہے، وہ کہنے لگا کہ تم فکر نہ کرو ہم تمہیں حج بھی کروا دیں گے۔ دوسرے دن اس کی بیوی نے اپنے والد کو فون کیا اور اسے ساری تفصیل بتا دی اس کے والد نے دو سو گائے بھینسوں کا باڑہ بنایا ہوا تھا۔ چنانچہ جب اس نے یہ بات سنی تو بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ ہمیں تو خود ایسے ٹرینڈ بندے کی ضرورت ہے۔ بعد میں اس نے ڈائریکٹر صاحب کو فون کیا اور کہا کہ اس بندے کو میرے پاس بھیج دو۔ اس نے کہا، جی بہت اچھا میں بھیج دیتا ہوں۔ چنانچہ ڈائریکٹر صاحب نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اپنے سسر صاحب کے گھر پہنچا دیا۔ اس کے سسر نے مجھے کہا کہ میں تمہیں یہاں رکھتا ہوں۔ تمہارے ذمے یہ کام ہے کہ تم صبح و شام میرے گائے بھینسوں کا دودھ نکال کر دیا کرو گے۔ جب دودھ دوہنے کا وقت آیا تو میں نے اس کو بیس پچیس گائے بھینسوں کا دودھ منوں کے حساب سے نکال دیا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ اتنا دودھ بھی نکل سکتا ہے۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ بس اب تم نے یہیں رہنا ھےاور میں نے اسے کہا کہ مجھے حج پر جانا ہے۔

وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد یہی کہتا کہ بس اب تم نے یہیں رہنا ہے لیکن میں جواب میں یہی کہتا کہ مجھے حج پر جانا ہے۔ میں تین دن وہاں رہا اور تینوں دن وہ مجھے بار بار یہی کہتا کہ تم نے یہیں رہنا ہے اور میں اس سے کہتا کہ مجھے حج پر جانا ہے، تیسرے دن وہ کہنے لگا، میاں! ہم تجھے حج بھی کروائیں گے لیکن تو نے رہنا یہیں ہے میں نے کہا کہ میں حج تو کروں لیکن باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ اس نے مجھے حج بھی کروا دیا ہے حج کرنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ میرا حج ہوگیا ہے اب مجھ گھر واپس جانا ہے، وہ کہنے لگا نہیں تو نے یہیں رہنا ہے۔ میں نے کہا کہ میرے تو بیوی بچے وہاں ہیں، اس نے کہا فکر نہ کرو، میں نے ایک نیا گھر بنایا ہے وہ گھر میں تجھے دیتاہوں۔ یہ میری نئی گاڑی ہے، یہ بھی تجھے دیتا ہوں اور یہ ڈرائیور ہے یہ بھی میں تجھے دیتا ہوں، اب تم اپنے بیوی بچوں کے نام اور ایڈریس بتا دو، میں پیغام بھیج دیتا ہوں اور آنے والے جہاز میں تمہارے بیوی بچے بھی پہنچ جائیں گے۔ پھر ایک حج کیا ہر سال حج کرتے رہنا۔ اب ایک ہفتے بعد میری بیوی بچے بھی میرے پاس پہنچ جائیں گے۔ میں نے حج بھی کر لیا ہے، اللہ نے گھر بھی دے دیا ہے اور گاڑی بھی دے دی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے گھر کو دیکھنے کی برکت ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی نعمتیں بھی عطا کر دی ہیں۔ اب میں یہیں رہوں گا۔ ہر سال بیت اللہ شریف کاحج کروں گا، 

یہ واقعہ سنا کر حضرت رحمة اللہ بہت حسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ بھئی! ہم سے تو وہ گوالا ھی اچھا کہ اس نے دودھ نکالنے کی برکت سے بیت اللہ شریف دیکھ لیا۔ سچ ہے کہ جب جذبہ سچا ہو تو پھر بات بھی بن ھی جاتی ھے 


ماخوذ از بیان حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی حفظہ اللہ


Share: