نماز میں کمی کرنا یا ناقص ادا کرنا

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَهُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي فَطَفَّفَ فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ مُنْذُ كَمْ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ قَالَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ مَا صَلَّيْتَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ لَمِتَّ عَلَى غَيْرِ فِطْرَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُخَفِّفُ وَيُتِمُّ وَيُحْسِنُ

سنن نسائی 

حضرت حذیفہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، انھوں نے ایک آدمی کو ناقص نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے پوچھا: تو کتنے عرصے سے ایسی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: چالیس سال سے۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: یقین کر چالیس سال سے تو نے نماز پڑھی ہی نہیں اور اگر تو اسی قسم کی نماز پڑھتا پڑھتا مر جاتا تو حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دین پر فوت نہ ہوتا۔ پھر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے: بلاشبہ انسان ہلکی نماز پڑھنے کے باوجود مکمل اور اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے۔

تشریح :

 (۱) وہ شخص نماز تیز تیز پڑھتا تھا اور اطمینان و سکون نہیں کرتا تھا۔ 

بخاری میں ہے: [لایتم الرکوع والسجود] ’’وہ رکوع و سجود مکمل نہیں کر رہا تھا‘‘ (صحیح البخاري 

یہ روایت مصنف عبدالرزاق (حدیث: ۳۷۳۲، ۳۷۳۳) میں بھی ہے۔ اس میں ہے کہ وہ ٹھونگیں مار رہا تھا۔ ’’ینقرفیھا‘‘

ایک اور روایت میں اس قسم کی نماز کو ’’ٹھونگے مارنے‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسے منافق کی نماز بھی کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم) اس لیے حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس نماز کو کالعدم قرار دیا ہے اور جب نماز ہی نہ ہوئی تو اس کی موت اسلام کی موت نہیں کیونکہ نماز کے بغیر دین نہیں۔ ممکن ہے آپ نے زجر کے طور پر سخت الفاظ استعمال کیے ہوں تاکہ وہ کامل نماز پڑھے

۔ (۲) ہلکی نماز سے مراد قراءت میں تخفیف ہے۔ رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ مکمل ہونے چاہئیں، یعنی تمام ارکان میں سکون و اطمینان اختیار کیا جائے

۔ (۳) نماز میں کمی کرنا یاناقص ادا کرنا حرام ہے ۔ 

(۴) جو شخص نماز کے ارکان و واجبات مکمل نہ کرے، اسے بے نمازی ہی شمار کیا جائے گا۔ 

(۵) جب صحابی سنۃ محمد افطرۃ محمد کہے تو وہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے۔

Share: