مسنون استخارہ
جب کوئی جائز اہم معاملہ درپیش ہو اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کے لیے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ہمیں ’’نمازِ استخارہ‘‘ کی تعلیم دی ہے۔ جس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن یا رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو، دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے تلقین فرمائی ہے،اگر کسی شخص کو استخارہ کی دعا زبانی یاد نہ ہوتو کتاب سے دیکھ کر بھی یہ دعامانگی جاسکتی ہے۔ استخارہ کی مسنون دعا یہ ہے:
"اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لاَأَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَأَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِيْ الْخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ بِه".
ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہوں اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے ) بہتر ہے ، تو اسے میرے لئے مقدر فرمائیے ، اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے ، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے ) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لئے مقدر فرمادے ، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے
دعاکرتے وقت جب”هذا الأمر“پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الأمر“کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر“یا ”هذا النکاح“ یا ”هذه التجارة“ یا ”هذا البیع“کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر“ کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔
استخارہ کے بعد جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو دوسرے دن یہی عمل کرے اگر دل کا خلجان ابھی بھی باقی ھو تو تیسرے دن حتی کہ سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ اللہ پاک اس کام میں خیر ڈال دیں گے۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص مقرر نہیں ھے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن یہ خیال رھے کہ استخارہ کے بعد سونا ضروری نہیں ھے اور اگر سو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں ھے۔ سونے کی صورت میں خواب کا آنا یا خواب میں کچھ نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات تو قلبی رجحان اور اطمینان کی ہے۔ لہذا جس طرف قلبی رحجان ھو وہی قدم آٹھائے
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں مختصر استخارہ کا ایک مسنون طریقہ
سنت استخارہ کا تفصیلی طریقہ تو وہی ہے جس کو سطور بالا میں ذکر کیا گیا ھے اور اکثر کتب میں یہی استخارہ تفصیل سے مذکور ھے لیکن قربان جائیے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ذات پاک پر کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرما دیا تاکہ کسی بھی صورت میں استخارہ کی برکات سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل سطورِ بالا میں استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ،
بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے استخارہ کی ایک مختصر دعا تلقین فرمائی ھے ،وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ․ (ترمذی - کنز العمال)
اے اللہ ! میرے لیے آپ پسند فرما دیجیے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ،
بس یہ دعا پڑھ لے ،
اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ․(صحیح مسلم)
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہُمَ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ․ (ترمذی)
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے ،
ان دعاؤں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لے کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکے تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دے کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔
مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ کے بارے میں یہ مذکور ھے کہ آپ کا ساری عمر یہ معمول رہا ھے کہ جب بھی کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں تھا اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لیے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لیے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لیے انسان کو ھمیشہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کر لے ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔(اصلاحی خطبات)
استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہذا اس بات کی کوشش کرنی چاھیے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، استخارہ کسی دوسرے سے کروانے کی بجائے خود کیا جائے یہی اس کا بہتر طریقہ ھے ۔ اس سلسلہ میں محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے حضرات علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بنائے ، آمین یا رب العالمین