حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ حدیث پاک میں بنی اسرائیل کے ایک عابدو زاہد شخص کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے اور یہ حدیث علّامہ جلال الدین سیُوطی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے
بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا عابدو زاہد شخص تھا، رات دن اللّٰہ کی عبادت کرتا تھا. چونکہ صاحب ِعیال تھا، اس لئے کمانے کا بھی کچھ دھندہ کرتا تھا، دُکان کی صورت میں تھوڑی سی تجارت تھی مگر اس کا دل اس میں اُلجھا رھتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ نہ ہو اور میں ہر وقت عبادت میں ہی لگارہوں مگر سوچتا کہ بیوی بچوں کا کیا کرے بہرحال ایک دن اسے جذبہ آیا اور ساری تجارت و دولت کو اس نے بیوی بچوں کے نام کیا اور خود فارغ ہوگیا اور سب سے رخصت ہوکر سمندر کے بیچ ایک چٹان پر پہنچ گیا. وہاں ایک ٹیلہ تھا، اس میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی باندھی کہ اب ہر وقت اس میں بیٹھ کر اللّٰہ کی عبادت میں مصروف رہوں گا ( خیال رھے کہ اسلام سے پہلے مذاہب میں رہبانیّت جائز تھی یعنی ساری دنیا کو آدمی چھوڑچھاڑکر ایک کونے میں جابیٹھے. اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی لھذا اب ایسا کرنا جائز نہیں ھے ) یہ شخص اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق وھاں جاکر بیٹھ گیا گویا اس نے بڑی بھاری عبادت کی چونکہ مخلص تھا اور صاحبِ دل تھا اس لئے سمندر کے بیچ والے ٹیلے پر جا کر بیٹھا جہاں کوئی جہاز کشتی وغیرہ نہ آجاسکے .....
حق تعالٰی شانہ نے اپنے فضل و کرم سے اُس کے لئے وھاں ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا اور اُسی ٹیلہ پر ایک انار کا درخت بھی اُگا دیا. اب اس عابد کا کام یہ تھا کہ روزانہ ایک انار کھالیا کرتا اور ایک کٹورہ پانی لیا کرتا اور دن رات عبادت میں مصروف. رھتا ۔
دن رات اسی طرح گزرتے گئے اس کی عمر پانچ سو برس ہوئی اور یہ پانچ سو برس اسی شان سے گُزرے، اب اس کے انتقال کا وقت آیا. اس نے حق تعالٰی شانہ سے درخواست کی کہ اے اللّٰہ تیرا فضل تھا کہ تو نے مجھے عبادت میں لگایا، اب میری خواہش ہے کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دیجئے تاکہ میرا خاتمہ عبادت کے اُوپر ھی ہو اور دوسری درخواست یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں میرے بدن کو قیامت تک محفوظ رکھئے گا، نہ زمین کھائے اور نہ کیڑے مکوڑے کھائیں تاکہ قیامت تک میں تیرا عبادت گزار بندہ ہی سمجھا جاؤں حق تعالٰی شانہ نے اسکی دونوں دعائیں قبول فرمائیں.
عین نماز کے اندر سجدے کی حالت میں اُس کا انتقال ہوا اور اس کا بدن بھی اللہ کے حکم سے محفوظ ہے. حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُس کا بدن آج تک محفوظ ہے لیکن حق تعالٰی نے اس ٹیلے کے اوپر بڑے بڑے گنجان درخت ایسے اگا دیئے ہیں کہ لوگ وہاں تک جاتے ہوئے ہیبت کھاتے ہیں اس لئے وہاں کوئی نہیں جاتا ہے ۔ مگر بدن آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا. وہاں نہ کوئی جانور جاتا ھے اور نہ کوئی انسان جاتا ہے۔ اسی حالت میں حق تعالٰی شانہ کے سامنے اس کی پیشی ہوگی. حق تعالی شانہ ارشاد فرمائیں گے کہ اے بندے میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا اور تجھے بڑے مقامات دیئے جنت میں جا، آرام کر، وہ بندہ عرض کرےگا کہ اے اللہ! میں نے تو ساری عمر تیری عبادت میں گزاری پھر بھی تیرے فضل سے ھی جنت میں جاؤں گا؟ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جارہا ہوں. اللہ فرمائیں گے کہ نہیں ہم اپنے فضل سے جنت میں بھیج رہے ہیں. وہ پھر کہے گا کہ نہیں اے اللہ ! پھر میری عبادت کس کام آئے گی میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں .
اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دیں گے اسے جہنم کے قریب لے جاکر کھڑا کردو. جہنم میں داخل نہیں کرنا اسے اتنی دور رکھو کہ جہنم کا راستہ وہاں سے پانچ سو برس کا ہو ملائکہ اسے لے جائیں گے اور لے جا کر کھڑا کردیں گے. جہنم کی طرف سے ایک گرم ہوا اور آگ کی لپٹ آئے گی اس کی وجہ سے وہ سر سے پاؤں تک خشک ہوجائے گا اور اسکی زبان پر کانٹے کھڑے ہوجائیں گے اور پیاس پیاس چلانا شروع کر دے گا اس وقت ایک غیبی ہاتھ ظاہر ہوگا جس میں ٹھنڈے پانی کا کٹورہ ہوگا، یہ عابد دوڑے گا اور کہے گا کہ اے خدا کے بندے یہ پانی مجھےدے دے میں بالکل مرنے کے حال میں ہوں- آواز آئے گی کہ پانی کا کٹورہ تو تجھے ملے گا لیکن اس پانی کے کٹورے کی قیمت ہے مفت میں نہیں ملے گا. وہ پوچھے گا اس کی کیا قیمت ہے؟ کہا جائے گا اس کی قیمت خالص پانچ سو سال کی عبادت ہے وہ اگر کوئی پیش کردے تو یہ پانی کا کٹورہ اسے مل جائے گا.
وہ عابد کہےگا کہ وہ تو میرے پاس ہے پانچ سو برس کی عبادت. چنانچہ وہ ہانچ سو سال کی عبادت دے کر پانی کا کٹورہ لے لے گا. پانی پی کر اس کی کچھ جان میں جان آئے گی.
حق تعالٰی فرمائیں گے اسے واپس لاؤ پھر اس کی پیشی ہوگی. حق تعالٰی دریافت فرمائیں گے کہ اے میرے بندے تیری پانچ سو سال کی عبادت کے صلے میں تو ہم آزاد ہوگئےھیں ۔ پانچ سو برس کی عبادت کے بدلہ میں تو نے ایک کٹورہ پانی لے کر پی لیا اور یہ قیمت بھی تو نے خود ھی تجویز کی لہٰذا اب یہ معاملہ تو تو برابر سرابر ہوگیا یعنی تیری عبادت کا صلہ تجھے مل گیا.
اب وہ جو تو نے لاکھوں دانے انار کے کھائے۔ اس ایک ایک دانے کا حساب دے ۔ اس کے بدلے میں کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟ کتنے سجدے کئے ہیں اور وہ جو ہزاروں کٹورے پانی کے پئے ہیں ایک ایک قطرے کا حساب دے. اُس پانی کے بدلہ کتنی عبادات کی ہیں؟ اور وہ جو ٹھنڈا سانس لیتا تھا ، جس سے زندگی قائم تھی، ایک ایک سانس کا حساب دے کہ اُس کے بدلہ کیا عبادات لیکر آیا ہے؟ اور وہ جو تیری آنکھوں میں ہم نے روشنی دی تھی تو تا حدِنگاہ ایک ایک چیز کو دیکھتا تھا. ایک ایک تارِ نگاہ کا حساب دے اس کے بدلے کتنی نیکیاں لایا ہے؟ پانچ سو برس کی عبادت کا صلہ تو ایک کٹورہ پانی ہوگیا. اب جو دوسری نعمتیں استعمال کی ہیں، ان کا حساب ھمیں دے. یہ عابد پتھرا جائے گا اور کہے گا کہ بیشک اے اللہ ! نجات تو آپ ہی کے فضل سے ہوگی. آپ کے فضل کے بغیر کسی کا عمل کسی کو بھی نجات نہیں دلائے گا. حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں برس عبادت بھی کرے گا تو وہ بھی اد وقت تک ذریعہ نجات نہیں بن سکے گی جب تک کہ فضلِ خدا وندی نہ ہو.......
#قصة مذكورة منقولة من كتاب "ذم الهوى" للإمام ابن الجوزي -رحمه الله-