امیرالمومنین خلیفۂ ثانی، عدل وانصاف ،حق گوئی وبیباکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروقؓ کی بے مثال حکمرانی اور عظیم شہادت


تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل اور فاتحین پیدا کیے جنہوں نے بہت سے انمٹ نقوش اس دنیا میں چھوڑے لیکن تاریخ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جیسے جرنیل اور فاتح کی کوئی مثال   پیش کرنے سے قطعاً قاصر ھے ۔ دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے طفلِ مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اسلامی تاریخ کی عظیم ھستی ، اُولوالعزم شخصیت، بے مثال حکمران اور  قائد، نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے جاں نثار صحابی ،امیر المؤمنین ،خلیفہ ثانی، عدل وانصاف ، حق گوئی وبیباکی کے پیکر مجسم ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی مبارک زندگی  اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت تھی۔  ھوتی بھی کیوں نہ ، آپ کو خدمتِ اسلام کے لیے خود  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اللہ تعالی سے مانگا تھا آپ کے قبول اسلام کے بعد  جہاں مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملا وھاں  خود رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ایک بے مثال رفیق وہمدرد نصیب  ہوا،،  آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زندگی اسلام لانے کے بعد صرف اور صرف  اسلام کے لیے وقف تھی ۔ بلاشبہ سیدنا عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ھوئے۔  آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے دورِ خلافت میں  اسلام  کے مختلف شعبوں میں بہت سی اصلاحات  فرمائیں اور  ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کے نظام کو بھی درست کیا۔اور بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔ اللہ تعالی نے آپ کو زھد  و تقوی ، خلوص و للہیت ، سادگی و بے نفسی، انکساری اور عاجزی جیسی بے شمار خوبیوں سے نوازاتھا۔ اللہ تعالی نے دنیا کے نظام کو چلانے اور انسانوں کی بہتر انداز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطا فرمایا  تھا ، آپ کی ان خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اسلام دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا ،جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں پر تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں ،ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت ،رعایا کی خبر گیری ،مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا ،ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا امتیاز تھا، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی مبارک زندگی کے ان گنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو انسانیت کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔ذیل میں صرف ان کی بے مثال حکمرانی سے متعلق چیزوں کو پیش کیا جاتا ھے اور اس سلسلے  میں ا ن کی سادگی اور انکساری کے پہلو پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے گی  تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ جس ھستی کو اللہ تعالی نے ایک بڑی سلطنت کا فرماں روا،اور منصب ِخلافت کا مسند نشیں بنایا تھا اُس نے ان تمام کے باوجود مخلوقِ خدا کی خدمت میں کس طرح اپنے آپ کو مٹادیا تھا اور لوگوں کی بھلائی اور فائدہ کے لیے کن کن چیزوں کو بروئے کار لایا تھا ۔ حقیقتاً فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہِ عامہ اور بہبودی بنی نوع انسان تھا۔


عدل و انصاف 

                سیدنا حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے دورِ خلافت میں عدل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی ،اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلایا ،مساوات و برابری ،اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔  ابن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے کہ : تم  حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر کیا کرو گے کیونکہ جب تم عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل وانصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔( اسدالغابہ)

ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر ؓرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہدہ کرے ،جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو  یہاں کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا ،اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم  نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشا ہ نہیں ہے ،البتہ ہمارے امیر ھیں  جو اس وقت مدینہ منورہ سے باہر کام کے لئے  گئے ہوئے ہیں ،قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المؤمنین سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دھوپ کی گرمی میں سخت ریت پر اپنے درہ کو تکیہ بنائے آرام فرمارہے تھے، پسینہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی پیشانی سے ٹپک رہا تھا ،جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمر  ؓرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا جاہ وجلال او ررعب سے وہ گھبراگیا اس نے کہاکہ ؛اے عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ! واقعی تو عادل حکمران ہے ،اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا خوف اور ڈر کے بغیر آرام کررہا ہے،اور ہمارے بادشاہ چونکہ رعایا پر ظلم کرتے ہیں اس لیے خوف و ہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے ،میں اگر یہاں قاصد بن کر نہ آیا ھوتا تو ابھی مسلمان ہوجاتا ،لیکن میں واپس جاکر اسلام قبول کروں گا۔


زہد و تقوی اور سادگی

            اللہ تعالی نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطافرمایا تھا اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقوی میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا ، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے جس حال میں چھوڑا تھا  اسی نہج پر پوری زندگی گذرجائے ،عمدہ کھانوں ،بہترین غذاؤں اور اسبابِ تنعم سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا ،ان لوگوں کے لیے روزانہ تین روٹیوں کا انتظام ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بطور سالن کے روغن زیتون پایا ،کبھی گھی ،کبھی دودھ ،،کبھی خشک کیا ہوا گوشت جو باریک کرکے ابال لیا جاتا تھا ،کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ایک روز ہم سے کہا کہ اے قوم ! میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری وناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں ،اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا،تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہوجاؤں میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں؛لیکن میں نے اللہ تعالی کا یہ فرمان سن رکھا ھے کہ : اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعم بھا۔( طبقات ابن سعد)

لباس و پوشاک میں بھی اسی طرح کی سادگی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اختیارکی جو ہر ایک کے لیے نہایت حیرت انگیز اور ایمان افروز ھے۔حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ خطبہ دے رہے تھے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے ۔  اس طرح  کے بے شمار واقعات آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی سیرت مبارکہ میں موجود ہیں۔


رعایا کی خبر گیری

            حضرت عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حکمرانی کرنے اور نظام سلطنت کو چلانے کا بےمثال انداز دیا ہے ،ایک حاکم کی کیا فکریں ہونی چاہیے اور رعایا کی خبر گیری کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرناچاہیے اس کو بہتر طور پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پیش کیا اور بتایا کہ جس کے دل میں خوف ِخدا،اور آخرت کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ تخت اور حکومت کے ملنے کے بعد اپنی عوام کی فکروں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا معمول تھا کہ آپ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے ،جب لوگ آرام وراحت کے لیے گھروں میں چلے جاتے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حالات سے آگہی حاصل کرنے اور پریشان حالوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے باضابطہ چکر لگاتے ،اور جوکوئی مصیبت زدہ ملتا ،پریشان حال نظر آتا، مسافر یا اجنبی غم کا شکار دکھائی دیتا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ خاموشی سے کام انجام دے جاتے اور احساس تک ہونے نہیں دیتے کہ یہ وہی عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ھے  جس کی عظمت کے ڈنکے پورے عالم میں بج رہے ہیں۔ایک رات آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  گشت کررہے تھے کہ مدینہ منورہ  کے تین میل فاصلہ پر مقام حراء پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکارہی ہے اور اس کر پاس بیٹھے دوتین بچے رورہے ہیں ، پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی ،اس نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ان کو بہلانے کی خاطر میں نے خالی ہانڈی چولہے پر چڑھادی ہے ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی وقت مدینہ منورہ آئے ،آٹا ،گھی ،گوشت اور کھجوریں لے کر نکلے ،ساتھ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھا اس نے کہا کہ میں لیے چلتا ہوں ،مجھے دیدیجئے۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھاؤ گے۔پھر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ خود ہی سامان لے کر اس عورت کے پاس آئے،اس نے کھانا پکانے کا انتظام کیا،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ خود چولہا پھونکتے تھے ،کھانا تیار ہواتو بچوں نے کھایا اور بچے خوشی خوشی اچھلنے لگے ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔( خلفائے راشدین ) رات میں گشت کے دوران آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے شمار پریشان حالوں  کی امداد کی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقصد بھی یہی تھا کہ تنہائیوں میں ناجانے کتنے لوگ پریشانی سے دوچار ہوں گے تو ا ن کے کام آیا جائے ،اس سلسلہ میں بہت واقعات ہیں جس سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ہمدردی اور فکرمندی اور رعایا کی خبر گیری کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔


خدمتِ خلق کا نرالا انداز

            حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ؓکے خدمت خلق کا انداز بھی بڑا نرالا تھا ،گلیوں میں گشت لگاتے ہی تھے ،نظام خلافت ایسا بنایا تھا کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہنے پائے ،حکام اور عمال بھی ایسے متعین فرمائے تھے جو ہروقت رعایا کی راحت رسانی کی فکر میں کوشاں رہتے ،ساتھ میں خود امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے میں لگے رہتے ،بلکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زندگی پوری انسانیت کی خدمت میں گذری ،اسی میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مزہ آتا اور دل کو سکون و راحت نصیب ہوتی۔حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں میں نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ ایک گھر میں داخل ہوگئے ،اس کے بعد دوسرے گھر میں داخل ہوئے ،صبح میں نے اس مکان میں داخل ہو کر دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھی بیٹھی ہے،میں نے اس بوڑھی سے پوچھا کہ وہ کون تھے تجھے معلوم ہے ؟اس نے کہا کہ وہ اسی طرح میرے پاس آکر میری ضروریا ت کو پوری کرکے چلے جاتے ہیں اور صفائی ستھرائی کر کے واپس ہوجاتے ہیں۔میں نے کہا کہ وہ تو عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   ہیں۔( مناقب عمر بن الخطاب) 

ایک رات آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  مدینہ منورہ کے ایک راستے سے گذررہے تھے تو ایک خیمہ لگاہوا نظر آیا جو کل نہیں تھا  ،اس کے باہر ایک بدوی بیٹھا ہوا ہے اور اندر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فوری اس کے قریب گئے ،حال دریافت کیا، رونے کا سبب معلوم کیا ،اس نے کہا کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی خاتون نہیں جو اس مشکل وقت میں میر ی مدد کرسکے۔حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  گھر تشریف لائے اہلیہ محترمہ حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آج تمہیں نیکی کمانے کا ایک موقع دیا ہے، کیا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گی؟بیوی نے کہا کہ ضرور آپ بتلائیے! کیا کام ہے ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا کہ ایک اجنبی عورت دردزہ میں مبتلا ہے اس کے پاس کوئی عورت نہیں لہذا تم جلدی سے ضرورت کاسامان لے کر میرے ساتھ چلو،حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے ساتھ نکل گئی ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ہانڈی خود اٹھالی ، وئاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا خیمہ کے اندر چلی گئی ،باہر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے آگ جلا کر ہانڈی چڑھادی ،کچھ دیر بعد اندر سے آواز آئی کہ امیر المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  !اپنے دوست کو بیٹے کی خوشخبری سنادیجئے۔جیسے اس دیہاتی نے امیر المؤمنین کا لفظ سنا تو گھبرا گیا،آپ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، اطمینان رکھو،پھر جو کھانا تیار ہوا تھا اندر دے دیا کہ اس خاتون کو کھلایا جائے ،اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اس بدوی سے کہا کہ تم بھی کھالو بہت دیر سے بھوکے ہو اور یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ صبح آجاؤ،بچے کا روزینہ مقرر ہوجائے گا۔ سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی مبارک زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے خاموشی کے ساتھ لوگوں کی مدد کی ،پریشان حالوں کی خدمت کی اور محتاجوں کی ضروریات کی تکمیل فرمائی۔


 رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک

            سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  ھر وقت  اپنی رعایا اور دوسرے افراد کی راحت رسانی کی فکر میں رہتے اور ان کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے۔  آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  خادموں اور غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے کہ غلام و آقا ،مالک و مملوک کا فرق نہیں ہوتا اور ان کو آرام پہنچانے میں آگے رہتے ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  جن کی عظمت سے باطل کے دل لزرتے اور بدن کانپتے تھے وہ اتنے رحم دل اور خیر خواہ تھے کہ ان کی رحم دلی اور خیر خواہی سے غلام بھی سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  جب حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو صفوان بن امیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے دعوت دی ،اور کھانا ایسے بڑے برتن میں لایاگیا جس کو چا ر آدمی اٹھا سکتے تھے ،خادموں نے کھانا لاکر رکھ دیا اور واپس ہونے لگے ،حضرت عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں کھاؤ گے تو ان خادموں نے کہا کہ نہیں ہم بعد میں کھا لیں گے۔یہ بات سن کر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالی لوگوں پر رحم کرے یہ ابھی تک طبقات میں بٹے ہوئے ہیں ؟پھر خدام کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ چناںچہ سب نے کھانا کھایا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے عیسائی اور غیر مسلم خادموں اور غلاموں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور خیر خواہی کا معاملہ فرمایا اور ان کی راحت کا ہورا پورا اہتمام فرمایا۔


حیوانی مخلوق پر رحم

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  دین کے معاملہ میں جتنے سخت اور مضبوط تھے ،رہن سہن کے لحاظ اور حقوق کی ادائیگی کے اعتبار سے اتنے ہی نرم اور رحم دل تھے ،ذمہ داری کو پورا کرنے ،اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لیے تڑپنے والے تھے ،آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی رحم دلی اور خیر خواہی انسانوں کے علاو ہ جانوروں پر بھی تھی، جانوروں پر زیادہ بوجھ ڈالنا ،ان کو غیر ضروری استعمال کرنا،ان کے چارہ کا صحیح انتظام نہ کرنا آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو بہت ہی ناگوار  گذرتا،اور کسی ایک جانور کا بھی مالک کی بے جا زیادتیوں کا شکار رہنا بھی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو رنج و غم میں مبتلا کردیتا تھا ،خو ف و خشیت اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ:اگر بکری کا کوئی بچہ فرات کے کنارے مرگیا تو  اللہ تعالی قیامت کے دن عمر سے سوال کرے گا۔  احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو ایک بڑی فتح کی خو ش خبری دینے حاضر ہوئے، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے پوچھا کہ تمہارا قیام کہاں ہے؟ہم نے جگہ بتائی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  ہمارے ساتھ اس مقام پر آئے اور ہماری سواریوں کے قریب آکر ان کو دیکھنے لگے،پھر فرمایا کہ کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے؟تم جانتے ہو کہ ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے؟ان کو کھلا کیوں نہیں چھوڑدیا تاکہ یہ زمین پر چل پھر سکیں۔ایک مرتبہ آپ نے مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر فرمائی ،آپ کے غلام یرفأ نے لمبا سفر کرکے مچھلی حاضر کی اور آکر اپنی سواری کا پسینہ پوچھنے لگا ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے دیکھ کر فرمایا کہ عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی خواہش پوری کرنے میں ایک جانور کو اس قدر تکلیف اٹھانی پڑے۔اللہ کی قسم !عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  اسے نہیں چکھے گا۔ یہ حالت ہے اس عظیم المرتبت انسان کی اور اس بے مثال شخصیت کی کہ جس کی دین کے معاملہ میں شمشیر بے نیام ہوجاتی،اور حق کے سلسلہ میں آہنی تلوار لیکن مخلوق کا مسئلہ ہوتا یا انسانوں کی بھلائی اور جانوروں کی خیر خواہی کا سوال تو پھر اپنے آپ کو اس درجہ مٹادیتے کہ دنیا والے ان کی اداؤں پر آج بھی رشک کرتے ہیں ،اللہ تعالی نے ان حضرات کو کچھ اس انداز میں تیار فرمایا تھا کہ دنیا ہر دور میں ان سے سبق سیکھے اور راہِ عمل کو استوار کرے۔


بیت المال  کا مستحکم نظام 

            آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے خدمت خلق کے میدان میں جو اہم کام انجام دیئے اس میں نظام بیت المال کا استحکام بھی ہے ،حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اپنی خلافت میں جو بیت المال قائم فرمایا تھا ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اس کے نظام کو مضبوط و مستحکم فرمایا اور اصول وضابطوں کے ساتھ اس کو جاری کیا ،اپنی اولاد کے مال و دولت کو اس میں لگا دیا اور خود سادگی کی زندگی گذاردی۔ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کرلیاتھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ،چنانچہ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے تقریباً  ۱۵ھ میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منور میں بہت بڑا خرانہ قائم کیا، دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں  اور ہر جگہ اس محکمہ کے افسر مقرر ہوئے۔صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال جس قدر رقم جمع ہوجاتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعداختتامِ سال صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت الما ل میں منتقل کردی جاتی تھی ،صدر بیت المال کی اہمیت کا اندازہ اس سے  ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے صرف اس کی تعداد سالانہ تین کروڑدرہم تھی۔( خلفائے راشدین)


 واقعۂ شہادت

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے  شہادت کی موت آئے اور تیرے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا شہر نصیب ہو۔اللہ تعالی نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی دعا کو قبول فرمایا اور اس کا عجیب انتظام فرمایا۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کا ایک مجوسی غلام فیروز نامی تھا،اس نے ایک مرتبہ اپنے مالک حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی شکایت کی کہ وہ مجھ سے زیادہ محصول طلب کرتے ہیں ،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اس بے جا شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی ،اس نے غیض و غضب میں ایک تیز خنجر تیار کیا اور نمازِ فجر میں چھپ کر آکربیٹھ گیا،جب حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے تکبیرکہی، اس نے اس زورسے تین وار کیے جس سے امیر المؤمنین سیدناعمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  گر پڑے ،موت و حیات کی اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ،نماز مکمل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو کہا کہ قاتل کا پتہ لگاؤ کہ کس نے مارا ،ابولؤلؤ نے تقریبا تیرہ صحابہ کو زخمی کردیا اور جب وہ بالکل گرفت میں آچکا تو از خود خنجر مار کر ہلاک ہوگیا،حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ۲۶/ذی الحجہ۲۳ھ کو خنجرمارا گیااوریکم محرم الحرام ۲۴ھ کو شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیا،آپ کی خلافت دس سال پانچ مہینے اکیس دن رہی۔(طبقات ابن سعد)


اگلے خلیفہ کا انتخاب

حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا، یا امیر المؤمنین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کے لئے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجئے اس موقع پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا خلافت کے لئے میں ان چھ صحابہ کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں۔ پھر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے چھ صحابہ کے نام بتائے۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت سعد بن وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں۔ ( تاریخ الخلفاء)


تدفین

حضرت عمرو بن میمون رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کا قصہ ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا  کی خدمت میں جا کر سلام کرو اور ان سے کہو عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دونوں ساتھیوں (حضوراکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) کے ساتھ (حجرہ مبارک میں) دفن ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ عمر بن خطاب کہنا اور اس کے ساتھ امیرالمومنین نہ کہنا۔ کیونکہ میں آج امیرالمومنین نہیں ہوں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  کی خدمت میں گئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہیں سلام کر کے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نے اس جگہ پر دفن ہونے کی اپنے لئے نیت کی ہوئی تھی۔ لیکن میں آج حضرت عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی (یعنی ان کو اجازت ہے) جب حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما  واپس آئے تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا تم کیا جواب لائے ہو؟ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا (اس وقت) میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ پھر فرمایا جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کو اٹھا کر (حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے دروازے کے سامنے لے جانا پھر ان سے دوبارہ دفن کرنے کی اجازت طلب کرنا اور یوں کہنا کہ عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  (حجرہ میں دفن ہونے کی) اجازت مانگ رہے ہیں اور اگر وہ اجازت دیں تو مجھے اندر لے جانا (اور اس حجرہ میں دفن کر دینا) اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے واپس کر کے مسلمانوں کے  عام قبرستان میں دفن کر دینا۔

جب حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے کو اٹھایا گیا تو (سب کی چیخیں نکل گئیں اور) ایسے لگا کہ جیسے آج ہی مسلمانوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے گھر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما نے سلام کر کے عرض کیا کہ عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (اندر دفن ہونے کی) اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے اجازت دے دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دفن ہونے کا شرف عطا فرما دیا۔ 

Share: