مخارج کا بیان
مخارج کی اھمیت و ضرورت
قرآن پاک کے حروف کو صحیح طریقہ سے ادا کرنے کے لئے مخارج کا جاننا بہت ضروری ھے ۔
مخرج کے لغوی معنی
نکلنے کی جگہ
مخرج کے اصطلاحی معنی
منہ کے جن حصوں یا جگہوں سے الفاظ ادا ہوتے ہیں ان کو مخارج کہتے ہیں ۔
مخارج کی تعداد
حروف کی تعداد اُنتیس ھے اور ان کے مخارج کُل سترہ ہیں
مخارج کی اقسام
بنیادی طور پر مخارج کی دو قسمیں ہیں :
٭مخارجِ مُحَقَّقَہ ٭ مخارجِ مُقَدَّرَہ
مخارجِ مُحَقَّقَہ کی تعریف
جومخارج حلق ، لسان اور شفتین میں ہوں انہیں مخارج محققہ کہتے ہیں ۔
مخارجِ مُقَدَّرَہ کی تعریف
وہ مخارج جن کا تعلق حلق، لسان اور شفتین سے نہ ہوں جیسے جوف دہن اور خیشوم ان کو مخارج مقدرہ کہتے ہیں ۔
اُصُولِ مخارج
حلق ، لسان، شَفَتَیْن، جوفِ دہن اور خَیشوم کے مجموعہ کو ’’اُصُولِ مخارج‘‘ کہتے ہیں ۔
مخارجِ مُحَقَّقَہ
حلقی مخارج
حلق میں تین مخارج ھیں اور ان سے چھ حروف نکلتے ہیں
مخرج {1}
اقصائے حلق
حلق کا پچھلا حصّہ یعنی سینے کی طرف والا
اس سے یہ حُروف نکلتے ہیں: ء اور ہ یعنی ہمزہ اور ھا
مخرج {2}
وسطِ حلق
یعنی حلق کا درمیان والا حصّہ اس سے یہ حُروف نکلتے ہیں: ع اور ح ، بے نقطے والے یعنی حرف عین اور حرف حا
مخرج {3}
ادنائے حلق
حلق کا وہ حصّہ جو منہ کی طرف والا ہےاس سے یہ حُروف ادا ہوتے ہیں: غ اور خ ، نقطے والے یعنی غین اور خا
حروفِ حلقیہ
مذکورہ بالا چھ حُروف یعنی ء،ہ،ع،ح،غ،خ کے مجموعہ کو حُروفِ حلقیہ کہتے ہیں کیوں کہ یہ چھ حُروف حلق کے مُختلف حصّوں سے ادا ہوتے ہی
لسانی مخارج
لسان (زبان) میں کل دس مخارج ہیں۔ اور ان سے اٹھارہ حروف ادا ہوتے ہیں۔
حروف لہاتیہ
مخرج {4}
زبان کی جڑ اور لہات یعنی کوّے سے متصل مقابل کا نرم تالو سے ’’ق‘‘ ادا ہوتا ہے۔ “ ق “پُر پڑھا جانے والا حرف ھے۔
مخرج {5}
زبان کی جڑ اور لہات یعنی کوے سے متصل سخت تالو سے ’’ک‘‘ ادا ہوتا ہے۔ “ک “باریک پڑھا جائے گا ۔
مذکورہ بالا دو حروف کو حروفِ لہاتیہ کہا جاتا ھے ۔
حروفِ شجریہ
مخرج {6}
وسط زبان اور وسط تالو سے تین حروف ’’ج‘‘ ’’ش‘‘ اور ’’ی غیر مدہ” ادا ہوتے ہیں۔ یہ خیال رھے کہ “ج” کی آدائیگی کے وقت زبان کا وسطی حصہ تالو کے وسط میں پوری طرح لگتا ھے جبکہ “ش” اور “ی غیر مدہ “ کی آدائیگی کے وقت زبان کا وسطی حصہ تالو کو نہیں لگتا بلکہ یہ تالو سے ذرا سا نیچے رھتا ھے ۔ ان تین حروف کو حروفِ شجریہ کہتے ہیں۔
دانتوں کے نام مع اقسام
اب جن حُرُوْفْ کے مخارج بیان کیے جاٸیں گے ان کا تعلق زَبان کے ساتھ ساتھ دانتوں سے بھی ہے لِہٰذا ذیل میں دانتوں کے نام مَع اَقسام بیان کیے جاتے ہیں۔ انہیں یاد کرنا بہت ضروری ھے کیونکہ آنے والے مخارج میں ان کی ضرورت پڑتی رھے گی۔
کُل دانت ٣٢ ہیں جن میں ١٢ دانت اور ٢٠ داڑھیں ہوتی ہیں۔ جن کی چھ اقسام ہیں:
١* ثَنَایَا
٢* رُبَاعِیَاتْ
٣* اَنْیَاب
٤* ضَوَاحِک
٥* طَوَاحِن
٦* نَوَاجِذْ
١۔۔ ثَنَایَا:۔ سامنے والے دو اوپر اور دو نیچے والے کُل چار دانت، اوپر والے دانتوں کو ”ثَنَایا عُلْیَا“ اور نیچے والے دانتوں کو ”ثَنَایَا سُفْلٰی“ کہتے ہیں۔
٢۔۔۔ رُبَاعِیات : ثنایا کے داٸیں باٸیں اوپر نیچے ایک ایک کُل چار دانت
٣۔۔۔اَنْیَاب : رُباعِیات کے داٸیں باٸیں اوپر نیچے ایک ایک کُل چار دانت۔
٤۔۔۔ضَواحِک: انیاب کے داٸیں باٸیں اوپر نیچے ایک ایک کل چار داڑھیں۔
٥۔۔۔طَواحِن: ضواحک کے داٸیں باٸیں اوپر نیچے تین تین کل بارہ داڑھیں
٦۔۔۔ نَوِاجِذُ: طواحن کے داٸیں باٸیں اوپر نیچے ایک ایک کل چار داڑھیں۔
آسانی سے یاد کرنے کے لیے دانتوں کے نام اور اقسام اشعار کی صورت میں پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔۔
ہے دانتوں کی تیس اور دو
ثنایا ہیں چار اور رُباعِی ہے دو دو
ہیں انیاب چار اور باقی رہے بیس
کہ کہتے ہیں قُرَّأ اَضْراس سب کو
ضواحک ہیں چار اور طواحن ہیں بارہ
نواجذ بھی ہیں ان کے بازو میں دو دو۔
اَضْرَاس ”ضَرصْ“ کی جمع ہے اور ضَرس کا معنٰی داڑھ اور اضراس کا معنٰی داڑھیں۔ اوپر والی داڑھوں ”اَضْراسِ عُلْیَا“ کہتے ہیں اور نیچے والی داڑھوں کو ”اَضْراسِ سُفْلٰی“ کہتے ہیں۔
حرفِ حافیہ
مخرج {7}
زبان کی طرف (کنارہ) جب اوپر والی داڑھوں سے ملائیں تو ’’ض‘‘ ادا ہوتا ہے۔ چاہے زبان کو دائیں طرف لگائیں یا بائیں طرف، دونوں طرف درست ہے لیکن بائیں طرف سے زیادہ آسان ہے۔ اسے حرفِ حافیہ کہا جاتا ھے۔
حروفِ طرفیہ
مخرج { 8}
طرفِ زبان ثنایا سے ضواحک تک مقابل کے تالو سے ’’ل‘‘ ادا ہوتا ہے۔
مخرج { 9}
طرفِ زبان ثنایا سے انیاب تک مقابل کے تالو سے ’’ن‘‘ ادا ہوتا ہے۔
مخرج { 10}
طرفِ زبان مائل بہ پشت مقابل کے تالو سے ’’ر‘‘ ادا ہوتا ھے یعنی زبان کی نوک اور اس کئ پشت مقابل کے تالو سے لگنے سے “ر” ادا ھوتا ہے۔
ان تین حروف کو حروف طرفیہ یا حروفِ ذلقیہ کہتے ہیں۔
حروفِ نطعیہ
مخرج { 11}
نوکِ زبان جب ثنایا علیاء کی جڑ سے ملائیں تو یہاں سے تین حروف ’’ت‘‘ ’’د‘‘ اور ’’ط‘‘ ادا ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ حروف نطع ( کُھردری جگہ ) کے پاس سے اداہوتے ہیں اس لئے ان تین حروف کو حروف نطعیہ کہتے ہیں۔
حروفِ لثویہ
مخرج {12}
نوکِ زبان جب ثنایا علیا ء کے کنارے سے ملائیں تو یہاں سے تین حروف ’’ث‘‘ ’’ذ‘‘ اور ’’ظ‘‘ ادا ہوتے ہیں۔ لثوی مسوڑوں کو کہتے ھیں اس لئے ان تین حروف کو بھی حروفِ لثویہ کہتے ہیں۔
حروفِ صفیریہ
مخرج { 13}
نوکِ زبان جب ثنایا سفلیٰ کے کنارے مع اتصال ثنایا علیاء سے ملائیں تو یہاں سے تین حروف ’’ز‘‘ ’’س‘‘ اور ’’ص‘‘ ادا ہوتے ہیں۔ ان تین حروف کی آواز سیٹی جیسی ھوتی ھے اس لئے ان کو حروف صفیریہ کہتے ہیں۔ انہیں حروفِ اسئلیہ بھی کہا جاتا ھے۔
شفتین
شفتین میں کل دو مخارج ہیں اور ان سے چار حروف ادا ہوتے ہیں۔
حروف شفویہ
مخرج{ 14 }
ثنایا علیاء کے کنارے اور نیچے والے ہونٹ کے تر حصے کو ملانے سے ’’ف‘‘ ادا ہوتا ہے۔
مخرج نمبر{ 15 }
اتصالِ شفتین یعنی دونوں ہونٹوں کو آپس میں ملانے سے تین حروف ’’ب‘‘ ’’م‘‘ اور ’’و‘‘ ادا ہوتے ہیں۔ تاھم ان تینوں کی ادائیگی میں کچھ فرق ہے۔
’’ ب‘‘ دونوں ہونٹوں کے تر حصے ملانے سے ادا ہوتا ہے۔
’’ م‘‘ دونوں ہونٹوں کے خشک حصے ملانے سے ادا ہوتا ہے۔
’’ و‘‘ دونوں ہونٹوں کو نامکمل گول کرنے سے ادا ہوتا ہے۔
“شفہ” عربی میں ھونٹوں کو کہا جاتا ھے اور یہ چاروں حروف ھونٹوں سے نکلتے ھیں ۔ اس لئے ان چار حروف کو “حروف شفویہ” کہتے ہیں۔
مخارجِ مُقَدَّرَہ
مخارجِ مقدرہ میں صرف دو مخارج ھیں “جوف دہن اور خیشوم “
جوف دہن
مخرج { 16 }
جوف دہن (یعنی منہ کا خالی حصہ) کا ایک مخرج ہے اور یہاں سے حروف مدّہ ادا ہوتے ہیں۔ منہ کے خلا سے حروف مدہ ادا ہوتے ہیں۔ مد کے معنی ہیں کھینچنا۔ حروف مدہ کل تین ہیں:
’’ ا ‘‘ الف سے پہلے زبر ہو۔
’’ و ‘‘ واو ساکن سے پہلے پیش ہو۔
’’ ی‘‘ یاء ساکن سے پہلے زیر ہو۔
نوٹ: حروف مدہ کو دو حرکت کے برابر کھینچ کر پڑھنا لازم ہے۔
خیشوم یعنی ناک کا بانسہ
مخرج {17}
خیشوم سے کوئی حرف ادا نہیں ہوتا۔ البتہ دو حروف ’’ن‘‘ اور ’’م‘‘ کی صفت غنّہ یہاں سے ادا ہوتی ہے۔ یہ غنہ زمانی ھے جب ’’ن‘‘ اور ’’م‘‘ مشدّد ہوں تو ان میں صفت غنّہ پائی جاتی ہے یعنی یہ غنّہ کا مخرج ہے۔ آواز کو ناک میں لے جا کر دو حرکت کے برابر ٹھہرانا غنّہ کہلاتا ہے۔
جاری ھے
{25}