*تجوید کی تعریف*
لُغوی معنٰی
الاتیان بالجید یعنی کسی کام کا عمدہ کرنا، سنوارنا اورکھراکرنا۔
اصطلاحی معنٰی
ھو علم یبحث فیہ عن مخارج الحروف وصفاتھا وعن طرق تصحیح المعروف وتحسینھا ۔
تجوید کیا ھے ؟
یعنی علمِ تجوید اس علم کا نام ہے جس میں حروف کے مخارج اورانکی صفات اورحروف کی تصحیح (صحیح کرنے) اورتحسین (خوبصورت کرنے ) کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ۔
علمِ تجوید کا موضوع
کسی علم کے موضوع سے مراد وہ شئی ہے جس کے متعلق اُس علم میں بحث کی جاتی ہے۔ علم تجوید کا موضوع الف سے لیکر ی تک انتیس حروف ہیں کیونکہ اس علم میں ان ہی کے متعلق بحث کی جاتی ہے ۔
علمِ تجوید کی غرض وغایت
ہرعلم کی کوئی نہ کوئی غرض وغایت اورمقصد ہوتاہے ورنہ اس علم کا حصول بے سُود ہوگا۔ علم تجوید کی غرض وغایت یہ ہے کہ قرآن مجید کو اس کے نزول شدہ طریقے کے مطابق عربی لب ولہجہ میں تجوید کی پوری پوری رعایت کے ساتھ صحیح پڑھا جائے اورغلط ومجہول ادائیگی سے بچا جائے۔
علمِ تجوید کا حکم
اس کی تفصیل یہ ھے کہ یہ علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے اور قرآنِ پاک کو نازل شدہ طریقے کے موافق تجوید کے ساتھ پڑھنا فرض عین ہے ۔یعنی اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے حرف سے صحیح ممتاز ہو فرضِ عین ہے ۔
ثمرہ اورمقصود حقیقی
یعنی اللہ عزوجل کی خوشنودی اوردونوں جہاں میں سعادتمندی حاصل کرنا اسکا آصل مقصد اور ثمرہ ہے ۔
اصطلاحاتِ ضروریہ
1 … اِستعاذہ : اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِِ الرَّجِیْم پڑھنا
2 … بَسملہ : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا
3 … لحن : قواعدِ تجوید کے خلاف پڑھنا
4 … حُرُوف : الف سے لے کر یا تک سب حُرُوف ہیں جن کی تعداد ۲۹ ہے ان کو ’’ حُرُوفِ تہجّی‘‘ کہتے ہیں ۔
5 … حُرُوفِ متشابہ : وہ حُرُوف جن کی شکل ایک دوسرے سے ملتی ہو صرف نقطے کا فرق ہو جیسے ب، ت
6 … حُرُوف غیر متشابہ : وہ حُرُوف جن کی شکل ایک دوسرے سے نہ ملتی ہو جیسے ب، ج
7 … حُرُوف قریب ُ الصَّوت : وہ حُرُوف جن کی آواز دوسرے حرف سے ملتی ہو جیسے (ت، ط)(ث، س، ص)(ذ، ز، ظ)(ض، د)(ح، ھ)(ع، ء)(ق، ک)
8 … حُرُوف بعید الصَّوت : جن کی آواز دوسرے حرف سے نہ ملتی ہو جیسے ح، د، ج
9 … حُرُوفِ مُعجمہ یا منقوطہ : نقطے والے حرو ف جیسے ب، ج
10 … حُرُوف مہملہ یا غیر منقوطہ : جن پر نقطہ نہ ہو جیسیح، د، ر
11 … حُرُوف فوقانی : وہ حُرُوف جن کے اوپر نقطہ ہو جیسے ت، خ
12 … حُرُوفِ تحتانی : وہ حُرُوف جن کے نیچے نقطہ ہو جیسے ب
13 … حُرُوفِ مُتَوسِّطہ : وہ حُرُوف جن کے درمیان نقطہ ہو جیسے ج
14 … حرکت : زبر…َ زیر…ِ پیش…ُ میں سے ہرایک کو ’’حرکت‘‘ کہتے ہیں ۔ حرکت کی جمع حرکات ہے ۔ زبر اور پیش حرف کے اوپر جبکہ زیر حرف کے نیچے ہوتی ہے ۔ ان تینوں کی مثال اس کلمے میں موجود ہے خُلِقَ
15 … متحرِّک : جس حرف پر حرکت ہو اسے ’’ متحرک ‘‘ کہتے ہیں جیسے بَ بِ بُ
16 … فتْحَہ : زبر کو ’’ فتحہ‘‘کہتے ہیں جس حرف پر فتحہ ہو اسے ’’ مفتوح ‘‘ کہتے ہیں جیسے بَ
17 … کسرہ : زیرکو’’ کسرہ‘‘ کہتے ہیں ۔ جس حرف کے نیچے کسرہ ہو اسے ’’مکسور‘‘ کہتے ہیں جیسے بِ
18 … ضَمّہ : پیش کو ’’ ضمّہ ‘‘ کہتے ہیں جس حرف پر ضمّہ ہو اسے ’’مضموم‘‘کہتے ہیں جیسے بُ
19 … تنوین : دوزبر ( ً) دوزیر ( ٍ) دو پیش ( ٌ ) کو تنوین کہتے ہیں جس حرف پر تنوین ہو اسے ’’ مُنَوَّن ‘‘ کہتے ہیں ۔ تنوین نو ن ساکن ہوتا ہے جو کلمہ کے آخر میں آتاہے اس لئے تنوین کی آواز نون ساکن کی طرح ہوتی ہے ۔
20 … حُرُوفِ مدّہ یا ہوائیہ : ہوا پر ختم ہونے والے حُرُوف یہ تین ہیں ا ، و ، یساکن ماقبل حرکت موافق جیسے اُوْذِیْنَا ۔
21 … حُرُوفِ لین : نرمی سے اداہونے والے حُرُوف یہ دوہیں و ، ی ساکن ماقبل مفتوح جیسے بَوْ، بَیْ
22 … فتحہ اشباعی : کھڑے زبر (…ٰ)کو کہتے ہیں ۔
23 … کسرہ اشباعی : کھڑ ے زیر(…ٖ) کو کہتے ہیں ۔
24 … ضَمّہ اشباعی : اُلٹے پیش کو کہتے ہیں جیسے بٗ ۔
25 … سکون : سکون ’’ جزم ‘‘ ( …ْ) کوکہتے ہیں ۔ جس حرف پر سکون ہو اسے ’’ ساکن ‘‘ کہتے ہیں جیسے اَنْ
26 … تشدید : شد ( ّ)کو کہتے ہیں جس حرف پر شدہو اسے ’’ مُشَدَّد ‘‘ کہتے ہیں جیسے اَسَّ
27 … مخارج : منہ کے وہ حِصّے جہاں سے حُروف ادا ہوتے ہیں جیسے حلق ، لسان وغیرہ
28 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج : وہ حُرُوف جن کا مخرج ایک ہوجیسے ط، د، ت
29 … حُرُوف مختلف المخرج : وہ حُرُوف جن کا مخرج الگ الگ ہو جیسے ب، ج
30 … حُرُوف حلقی : وہ حُرُوف جو حلق سے اد ا ہوتے ہیں ء، ہ، ع، ح، غ، خ
31 … حُرُوف لہاتیہ : وہ حُرُوف جوکَوّے سے مُتَّصل زبان کی جڑاور تالو سے اداہوتے ہیں ق ، ک
32 … حُرُوفِ شَجْریہ : و ہ حُرُوف جوزبان کے درمیان اور تالو کے درمیان سے اداہوتے ہیں ج، ش، ی(ان حُرُو ف کو باعتبارِ مخرج ’’شجرِیَّہ‘‘کہتے ہیں ۔ شجر تالو کے اس حِصّے کو کہاجاتاہے جو دوجبڑوں کے درمیان اُوپراُٹھاہوا ہے )
33 … حرفِ حافیہ : وہ حرف جو زبان کے بغلی کنارے سے اداہوتاہے ض
34 … حُرُوفِ طرَفیہ یا ذلقِیہ : وہ حُرُوف جوزبان کے کنارے سے ادا ہوتے ہیں ل، ن، ر
35 … حُرُوف نِطْعیہ : وہ حُرُوف جوتالو کے اگلے حِصّے سے اداہوتے ہیں ط، د، ت
40 … حرف برّی : ہونٹوں کی خشکی سے اداہونے والا حرف : م
41 … صفت : حرف کی وہ کیفیت یا حالت جوحرف کو ادا کرتے وقت حرف کے ساتھ قائم ہو
42 … صفاتِ لازمہ : جوحرف کے لئے ہر وقت ضروری ہو ں جیسے حُروفِ مستعلیہ میں صفتِ استعلاء
43 … صفاتِ عارضہ : جو حرف میں کبھی ہو ں اور کبھی نہ ہوں جیسے (ر) کا کبھی پُراور کبھی باریک ہونا
44 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج ُ و متحد الصّفات : وہ حُرُوف جن کا مخرج اور صفات ایک ہوں جیسے مَدَدَ میں دال
45 … حُرُوف مختلف المخرج و مختلف الصّفات : وہ حُرُوف جو مخارج اور صفات کے اعتبار سے جداہوں جیسے ث ط
46 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج ُو مختلف الصّفات : وہ حُرُوف جن کا مخرج تو ایک ہو مگر صفات جداجدا ہوں جیسے ث ظ وغیرہ
47 … ترقیق : حرف کو باریک پڑھنا جیسیکَانَ میں الف
48 … تفخیم : حرف کو پُر پڑھنا جیسے قَالَ میں الف
49 … اظہار : نون ساکن ، تنوین اور میم ساکن کو ظاہر کرکے پڑھنا جیسیاَنْعَمْتَ
50 … اقلاب : نون ساکن اور تنوین کو میم سے بدل کر اخفاء کرناجیسے مِنْْم بَعْد
51 … اخفاء : ادغام او راظہار کی درمیانی حالت جیسے اَنْتَ
52 … ادغام : دو حرفوں کو ملادینا
53 … مُدغم : وہ حرف جسے دوسرے حرف میں ملایاگیا ہو جیسے عَبَدْتُّمْ میں د ال کو ت میں ملایا گیاہے ۔
54 … مُدغم فیہ : جس حرف میں ملایا گیا ہو ۔
55 … مثلین : ایسے دو حروف جو مخرج اور صفات میں متحد ہوں جیسے اِذْذَّھَبَ میں ذال
56 … متجانسین : ایسے دو حروف جن کا مخرج ایک ہو جیسے قَدْ تَّبَیَّنَ میں دال اورتا
57 … متقاربین : ایسے دو حروف جو مخرج اور صفات کے اعتبار سے قریب قریب ہوں ۔ جیسیمَنْ یَّنْظُرُ میں نون او ر یا
58 … خیشوم : ناک کا بانسہ
59 … غُنّہ : ناک میں آواز لے جانا
60 … ادغامِ شفوی : میم ساکن کے بعد دوسر ی میم آجانے کی صورت میں میم ساکن کو دوسری میم میں مدغم کرنا جیسے فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ
61 … اخفائے شفوی : میم ساکن کے بعد (ب) آجانے کی صورت میں میم ساکن کو اسکے مخرج میں چھپا کر ادا کرنا جیسے عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ
62 … اظہارِ شفوی : میم ساکن کے بعد(ب) اور(م) کے علاوہ کوئی اور حرف آجانے کی صورت میں میم ساکن کو اسکے مخرج سے ظاہر کرکے پڑھنا جیسے اَلَمْ نَشْرَحْ
63 … اثبات : حرف کو باقی رکھنا
64 … حذف : حرف کو ختم کرنا
65 … تسہیل : تحقیق اور ابدال کی درمیانی حالت ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیّ
66 … تحقیق : ہمزہ کو اس کے اصلی مخرج سے تمام صفات کے ساتھ ادا کرنا جیسے ءَ اَنْذَرْتَھُم
67 … ابدال : دوسرے ہمزہ کو ماقبل حرکت کے موافق حرفِ مدّ ہ سے بدلناجیسے ءَ اللّٰہ سے اٰللّٰہُ
68 … اِمالہ : زبر کو زیر اقور الف کو یا کی طرف مائل کرکے پڑھنا
69 … سکتہ : کسی حرف پر سانس توڑے بغیر تھوڑی دیر کے لئے آواز کو روک لینا
70 … حُرُوفِ ممدودہ : وہ حُرُوف جن پر مد ہو جیسے جَآئَ
71 … مَدّ : حرف کو اس کی اصلی مقدار سے لمباکر کے پڑھنا ۔
72 … قصر : حرف کو اس کی اصلی مقدار جتنا پڑھنا
73 … ماقبل : حرف سے پہلے والے حرف کو’’ماقبل ‘‘ کہتے ہیں ۔
74 … مابعد : حرف کے بعد والے حرف کو’’مابعد ‘‘ کہتے ہیں ۔
75 … وصل : ملاکر پڑھنا
76 وقف : کلمے کے آخری حرف پر سانس اور آواز دونوں کو روک کر ٹھہرجانا
77 … موقوف علیہ : جس حرف پر وقف کیاجائے
78 … ابتداء : جس کلمے پر وقف کیا اس سے آگے پڑھنا
79 … اعادہ : جس کلمے پر وقف کیا، رَبطِ کلام کے لئے اس سے یا اس سے پہلے والے کلمے سے پڑھنا
80 … وقف بِالْاسْکان : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیااس کو ساکن کر دینا ۔ یہ وقف تینوں حرکتوں میں ہوتا ہے ۔
81 … وقف بِالرّوْم : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیا اس حرف کی حرکت کا تہائی حِصّہ پڑھنا ۔ یہ زیر -ِ اور پیش -ُ میں ہوتاہے ۔
82 … وقف بالاشمام : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیااس کو ساکن کرکے ہونٹوں سے پیش کی طرف اشارہ کرنا ۔ یہ صرف پیش ( ُ) میں ہوتاہے ۔
83 … حُرُوفِ قَمَرِیہ : جن حُرُوف سے پہلے لامِ تعریف پڑھاجائے جیسے اَلْمَدِیْنَہ ، اَلْکِتاَبُ وغیرہ (یہ چودہ حُرُوف ہیں جن کا مجموعہ ہے اَبْغِ حَجَّکَ وَخَفْ عَقِیْمَہْ)
84 … حُرُوفِ شمسیہ : جن حُرُوف سے پہلے لامِ تعریف نہ پڑھاجائے جیسے اَلنَّجْمُ، اَلثَّاقِبُ وغیرہ ( حُرُوفِ شمسیہ بھی چودہ ہیں جو حُرُوفِ قمریہ کے علاوہ ہیں ۔ نوٹ : لامِ تعریف کے بعد الف نہیں آتااس لئے حُرُوفِ قمریہ وشمسیہ میں اسکا شمار نہیں )
85 … ترتیل : قواعدِ تجوید کے مطابق بہُت ٹھہرٹھہر کر پڑھنا ۔
86 … حدر : قواعدِ تجوید کے مطابق جلدی جلدی پڑھنا کہ جس سے حُروف نہ بگڑیں ۔
87 … تَدْوِیْر : ترتیل و حدر کی درمیانی رفتار سے پڑھنا ۔
88 … اجراء : قرآن کی تلاوت کرتے وقت تجوید کے قواعد کا الفاظِ قرآنیہ میں جاری کرنا ۔
89 … قوا عد تجوید : قواعد، قاعدہ کی جمع ہے اسکا لغوی معنی ’’بنیاد‘‘ہے ۔ قواعدِ تجوید سے مراد ’’وہ اصول وضوابط ہیں جن کے ذریعے حروف کو تجوید وقراء ت کے مطابق عربی لب و لہجہ میں پڑھنے کا طریقہ معلوم ہو ۔
90 … قِراء ت و رِوایت : مطلقاً قرآن کریم پڑھنے کو ’’ قراء ت ‘‘ کہتے ہیں ۔ اصطلاحِ قُرّاء میں وہ اختلافِ الفاظ(کسی لفظ کو پڑھنے کے مختلف طریقے ) جو ائمہ عشرہ(یعنی دس اماموں ) سے ثابت ہیں اسے ’’ قِراءت ‘‘ کہتے ہیں اور جو اختلاف الفاظ ان کے راویوں ( امام کی قراء ت کو نقل کرنے والوں ) کی طرف منسوب ہو اسے ’’روایت ‘‘ کہتے ہیں ۔
91 ہجّے : حرفوں کو آپس میں جوڑنے اور ملانے کو ’’ ہجّے ‘‘ کہتے ہیں ۔
92 … طُرُق : طُرُق ’’ طرِیق ‘‘ کی جمع ہے ۔ لغوی معنی’’راستہ ‘‘اور اصطلاحِ قُرّاء میں رُواۃ(راویوں ) کے بعد مشائخِ قُرّاء میں جو فروعی اختلافات ہوئے ان کو ’’ طُرُق ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ قراء تِ امام عاصم بہ روایت حفص میں دو طُرُق مشہور ہیں :
٭ طریقِ امام شاطبی ٭ طریقِ امام جزری ۔
بَرِّصغیر پاک وہندمیں روایتِ حفص بَطریقِ شاطِبی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے ۔
لحن
لغوی معنی
لحن کے لغوی معنی غلطی کے ھیں ۔
اصطلاحی معنی
اصطلاح قراء میں قرآن مجید کو غلط پڑھنا یا تجوید کے خلاف پڑھنا لحن کہلاتا ہے۔
لحن کی اقسام
بنیادی طور پر لحن کی دو اقسام ہیں لحن خفی اور لحن جلی
لحن خفی
لحن خفی وہ مکروہ غلطی ہے کہ جس سے بچنا بہتر ہے۔جیسے، رَبُّکَ کے ’’ر‘‘ کو پر کرنے کے بجائے باریک پڑھ دیا جائے۔
لحن جلی
لحن جلی، بڑی اور واضح غلطی کو کہتے ہیں۔ اس کی کل پانچ اقسام ہیں۔
1۔ حرف کو حرف سے بدل دینا، جیسے قُل کو کُل پڑھنا
2۔ کسی حرف کو بڑھا دینا یا کم کر دینا، جیسے کَتَبَ کو کَتَبَا پڑھنا۔
3۔ حرکات و سکنا ت کی غلطی کرنا، جیسے ، ألْحَمْدُ کو اَلَحَمْدُ پڑھنا۔
4۔ مشدّد حرف کو مخفّف کرکے پڑھنا۔ جیسے، یَزَکّیٰ کو یَزَکیٰ پڑھنا۔
5۔ مخفّف حرف کو مشدّد پڑھنا۔ جیسے، ذَکَرَ کو ذَکَّرَ پڑھنا۔
نوٹ: لحن جلی حرام غلطی ہے اور ایسی غلطی سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ایسی غلطی سے بچنا لازم ہے۔
اِسْتِعَاذَہ و بسملہ
اِسْتِعَاذَہ کی تعریف
’’ اِسْتِعَاذَہ ان کلمات کو کہتے ہیں جن کلمات کے ذریعے شیطان سے پناہ مانگی جائے جیسے ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ ۔ اِ س کو ’’ تَعَوُّذ ‘‘بھی کہتے ہیں ۔
اِسْتِعَاذَہ کا محل وحکم
قُرآن شریف کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے استعاذہ شرعاًمستحب ہے اور اس کے پسندیدہ الفاظ ’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ ہیں ۔ تعوذ کا محل یعنی پڑھنے کی جگہ ابتدائے قراء ت ہے ۔ اگر درمیانِ قراء ت میں کوئی کلامِ اجنبی ( وہ کلام جس کا تعلق قراء تِ قرآن سے نہ ہو) ہو گیااگرچہ سلام کا جواب ہی کسی کو دیا ہو تو پھر تَعَوُّذْ دوبارہ پڑھنا چاہیئے ۔
بسملہ کی تعریف
’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ پڑھنے کو بسملہ کہا جاتا ھے اسے تسمیہ بھی کہتے ہیں
تسمیہ کا محل وحکم
سوائے سورت توبہ کے ہر سورت کے شروع میں تسمیہ ضرورپڑھنا چاہیے کہ مستحب ہے ۔ امام عاصم کوفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِیْ( جوکہ قُرّاء سَبْعَہ یعنی سات مشہور قاریوں میں سے ہیں )کے نزدیک سورۂ براء ت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں تسمیہ ضرور پڑھنا چاہیے ۔
تلاوت کرنے سے پہلے تَعَوُّذ و تسمیہ پڑھنے کی صورتیں
جب کلامِ پاک کی تلاوت کا آغاز کیا جائے تو قراء ت کی ابتداء ، شروعِ سورت سے ہو گی یا سورت کے وسط( درمیا ن) سے یا دورانِ قراء ت کسی دوسری سورت کا آغاز ہوگا ۔ اس لحاظ سے ان کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں :
٭… ابتدائے قراء ت ، ابتدائے سورة ۔
٭… ابتدائے سورة ، درمیانِ قراء ت ۔
٭… ابتدائے قراء ت ، درمیانِ سورة ۔
پہلی صورت کا حکم
تلاوت کی ابتداء شروعِ سورة سے ہو تو تَعَوُّذ و تسمیہ دونوں پڑھنا چاہیے ۔ اس لئے کہ دونوں کا محل ہے ، لہذا دونوں ضروری ہیں اور پڑھنے میں وصل یعنی ملا کر پڑھنا اور فصل یعنی وقف کر کے پڑھنا دونوں جائز ہیں ۔
دوسری صورت کا حکم
تلاوت کے درمیان اگرایک سورة ختم کرکے دوسری سورة شروع کی جائے تو صرف بِسْمِ اللّٰہ شریف پڑھی جائے گی ۔
تیسری صورت کاحکم
اگر سورة کے درمیان سے تلاو ت شروع کی توتعوذ پڑھنا ضروری (بمعنی مستحب) ہے تسمیہ چاہے پڑھے یا نہ پڑھے ۔
تَعَوُّذ و تسمیہ کے فصل و وصل کی وُجوہ
پہلی صورت اور اس کا حکم
ابتدائے قراءت ، ابتدائے سورة
تلاوت کا آغاز ابتدائے سورة سے ہو تو اَعُوْذُ بِاللّٰہ اور بِسْمِ اللّٰہ کے وصل ( یعنی ملاکر پڑھنے ) اور فصل ( یعنی جدا کرکے پڑھنے ) کے لحاظ سے چار صورتیں بنتی ہیں اور چاروں صورتیں جائز ہیں :
٭ وصل کل ٭ فصل کل
* وصلِ اوّل فصل ثانی ٭ فصلِ اوّل وصلِ ثانی
وصل کل( سب کو ملانا)
تعوذ اور تسمیہ کو سورة کے ساتھ ملا کر ایک ہی سانس میں پڑھنا ۔ جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ
فصل کل ( یعنی تمام کو جدا کرکے پڑھنا)
تعوذ ، تسمیہ اور سورة کو علیحدہ پڑھنایعنی ہر ایک پر وقف کرناجیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِْ o قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ
وصلِ اوّل فصل ثانی(پہلے کوملانااور دوسرے کو جداکرنا)
تعوذ اور تسمیہ کو ایک ہی سانس میں پڑھنا اور سورة کو دوسرے سانس سے پڑھنا جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِِِ بِسْمِِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْo قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ
فصلِ اوّل وصلِ ثانی(پہلے کوجداکرنااور دوسرے کو ملانا)
تعوذ کوجُدا کرنا، تسمیہ اور سورة کو ایک ہی سانس میں ملا كر پڑھنا جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ
دوسری صورت اور اس کا حکم
درمیانِ قراءت ابتدائے سورة
اگرابتدائے سورة، درمیانِ تلاوت ہو تو تعوذ نہیں پڑھیں گے بلکہ صرف بسملہ ھی پڑھیں گے اس کی بھی چار صورتیں ہیں ان میں سے تین جائز اور ایک ناجائز ہے ۔
جائز صورتیں
وصل کل ۔ فصل کل ۔ فصلِ اوّل وصلِ ثانی
{1} وصل کل ( سب کو ملانا)
پچھلی سورة کی آخری آیت اور تسمیہ اوراگلی سورة کی پہلی آیت ان تینوں کو ملا کر ایک ہی سانس میں پڑھنا ۔ جیسے وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)
{2}فصل کل ( یعنی تمام کو جدا کرکے پڑھنا)
پچھلی سورة کی آخری آیت اور تسمیہ اوراگلی سورة کی پہلی آیت ان تینوں کو الگ الگ پڑھنا ۔ جیسے وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)
{3}فصلِ اوّل وصلِ ثانی(پہلے کوجداکرنااور دوسرے کو ملانا)
پہلی سورة کی آخری آیت کو جُدا اور تسمیہ اوردوسری سورة کی پہلی آیت کو ملاکر ایک سانس میں پڑھنا ۔ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)
ناجائز صورت
وصلِ اوّل فصل ثانی (پہلے کوملانااور دوسرے کو جداکرنا)
سورة کی آخری آیت اورتسمیہ کو ملا کر ایک ہی سانس میں پڑھنااور اگلی سورة کی پہلی آیت کو جُدا کرنایعنی الگ سانس میں پڑھناجیسی وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)بِسْمِ اللّٰہِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)
عدم جواز کی وجہ
یہ صورت ناجائز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بِِسْمِ اللّٰہ کا تعلق اور محل یعنی پڑھنے کی جگہ ابتدائے سورۃ ہے اور بِسْمِ اللّٰہ کو پچھلی سورۃ سے ملانے اور اگلی سُورۃ کو جُداکرکے پڑھنے سے بِسمِ اللّٰہ کا تعلق اور محل بدل جائے گا یعنی اس کا تعلق پچھلی سورة سے ہو جائیگا اس لئے یہ صورت ناجائز ہے ۔ یعنی اہل فن کے نزدیک ایسا کرنا دُرست نہیں ۔ (
درمیانِ تلاوت سورة توبہ شروع کرنے کی صورتیں
سُورۃُ الانفال یا کسی سورۃ کو ختم کرکے جب سورۃ توبہ شروع کی جائے تو تین جائز وجہیں بنتی ہیں :
٭ وقف ٭ وصل ٭ سکتہ
٭ وقف …جیسے اِنَّ اللّٰہَ بِکُّلِ شَیْئٍ عَلِیمْ(وقف) بَرَآء ۃٌ مِّنَ اللّٰہ
٭ وصل… جیسے اِنَّ اللّٰہَ بِکُّلِ شَیْئٍ عَلِیْمٌ بَرَآء ۃٌ مِّنَ اللّٰہ
٭ سکتہ…جیسے اِنَّ اللّٰہَ بِکُّلِ شَیْئٍ عَلِیْمْ(سکتہ) بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہ
تیسری صورت اور اس کا حکم :
اگرابتدائے تلاوت ، درمیانِ سورة سے ہوتو تعوذ پڑھناضروری (مستحب) ہے تسمیہ چاہے پڑھیں یا نہ پڑھیں ۔ اگر تسمیہ پڑھی جائے تو اس کی بھی چار صورتیں ہیں جن میں سے دوجائز اوردوناجائز ہیں ، ان کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
جائز صورتیں : {1}… فصل کل {2}… وصلِ اوّل فصل ثانی
ناجائز صورتیں : {1}… وصل کل {2}…فصلِ اوّل وصلِ ثانی
جائز صورتیں
{1}…فصل کل
تعوذ اور تسمیہ اور آیت کو جُدا جُدا تین سانسوں میں پڑھنا جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِْ oہُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ ج
{2}…وصلِ اوّل فصل ثانی :
تعوذ اور تسمیہ کو ملا دینا جب کہ آیت کو جدا کردینا ۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِِِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo ہُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ ج
ناجائز صورتیں
{1}… وصل کل :
تعوذ اور تسمیہ اور آیت کوملا دینا ۔ جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ
{2}…فصلِ اوّل وصلِ ثانی
تعوذکو علیحدہ کرنا اور تسمیہ اور آیت کوملاکر ایک ہی سانس میں پڑھنا ۔ جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ
عدم جواز کی وجہ
ملانے سے احتمال ہے کہ کہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کے ساتھ کسی ایسی چیز کا ذکرنہ آجائے جس کا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کے ساتھ ذکر کرنا بے ادبی ہے جیساکہ مذکورہ مثال سے ظاہر ہے ۔ ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملانے سے کہیں معنوی خرابی لازم نہ آئے ۔
اگر بِسْمِ اللّٰہ شریف تلاوت کے دوران پڑھی نہ جائے تو اسکی دو صورتیں بنتی ہیں :
۱٭ فصل 2٭وصل
1 فصل
یعنی اَعُوذ باللّٰہ اور آیت کو جدا کرکے پڑھنا جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ0 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا…
2 وصل :
تعوذ اور آیت کو ملا کر ایک ہی سانس میں پڑھنا جیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا…
ان میں پہلی صورت ’’ فصل‘‘ بہتر ہے کیونکہ استعاذہ قراء ت کا حصّہ ہے ۔ جہاں استعاذہ کو آیت سے ملانے میں معنی کے اعتبار سے خرابی لازم نہ آتی ہو یا بے ادبی کا احتمال نہ ہو وہاں ’’وصل‘‘ جائز ہے اور’’ فصل‘‘ بہتر ہے اور جہاں معنوی خرابی لازم آتی ہو جیسا كہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ یا آیت کے شروع میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یا نبی کریمصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کے ذاتی یا صفاتی ناموں میں سے کوئی نام ہوجیسے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْش اسْتَوٰی تووہاں ’’فصل‘‘ ضروری ہے ۔
سورة براء ت سے اگر تلاوت شروع کی تواَعُوْذُ بِاللّٰہ ، بِسْمِ اللّٰہ پڑھ لے اور جو اس کے پہلے سے تلاوت شروع کی اور سورة براءت آگئی تو پھر تسمیہ نہ پڑھے ۔
جاری ھے
(۷)