*اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)*
بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم ھی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
قرآن پاک اللہ تعالی کی وہ عظیم کتاب ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے بندے اور رسول محمدﷺپر نازل کیا اور اسے مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت کا سبب بتایا، یہ وہ کتاب ہے جس سے متعلق ہر چیز عظیم ہے، قرآن پاک کو اللہ تعالی نے قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت اور بھلائی کے لیے نازل کیا اور اسی لیے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی اور اس قرآن پاک کو ہر قسم کے نقص، عیب، کمی بیشی، لغو، فضول اور باطل چیزوں سے پاک رکھا، گمراہوں اور باطل افکار کے حاملین نے قرآن پاک کی شکل و صورت تبدیل کرنے اور اس میں خرد برد کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے ہر موقع پر اپنی ذمہ داری ادا کی اور اس کتاب کو محفوظ رکھا اور قیامت تک محفوظ رکھے گا۔
حقیقت یہ ہے کسی بھی کتاب کو مکمل یاد کرنا اور پھر اُسے یاد رکھنا بڑا دشوار گزار کام ہے لیکن یہ قرآن ہاک کا امتیاز اور اعجاز ہے کہ اللہ پاک نے اس کو یاد کرنا بڑا آسان کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی آسانی سے اسے اپنے سینے میں محفوظ کر لیتے ہیں ۔ قرآن مجید حفظ کرنا ایک مقدس عمل ہے اسی لئے علماء کرام نے حفظِ قرآن پاک کے لئے چند اصول و ضوابط بیان کئے ہیں۔ اگر حفظِ قرآن کریم کا طالب ان اصول و ضوابط کو اپنا لے تو وہ باذن اللہ حافظِ قرآن اور حاملِ قرآن کے لقب سے ملقب ہو سکتا ہے ، یہ اصول و ضوابط حقیقت میں چند کبار حفاظ کرام کے تجربوں کا خلاصہ ھیں جسے آپ کے سامنے ذیل کے سطور میں پیش کیا جا رہا ہے :
( 1)
خالص اللہ کے لئے نیت کرنا
دین کے ھر معاملہ میں اخلاصِ نیت کا ھونا ضروری اور لازمی ھے ۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ھے کہ اعمال کا دارومدار یقیناً نیتوں پر ھے ۔ قرآن پاک حفظ کرنےکا ارادہ کرنے والے کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنی نیت خالص اللہ کے لئے کرے کہ حفظِ قرآن پاک سے میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے۔ کیونکہ جس نے ریا کاری اور شہرت کے لئے یا کسی اور دنیاوی مقصد کے لئے قرآن پاک حفظ کیا وہ گنہگار ہے ایسے شخص کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اور ایسا شخص اجر و ثواب سے محروم رہے گا۔ (صحیح مسلم )
(2)
اللہ تعالی سے توفیق مانگنا
قرآن پاک حفظ کرنا یقیناً بہت بڑے شرف کی بات ہے، جس شخص کو یہ شرف حاصل ھو جائے اس کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ ؟ یہ کلام اللہ ھے اس کی باتیں سراسر نور ہیں، یہ اللہ کا نور ہے ۔ یہ جاننا چاھیے کہ شرف والی چیزیں اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر نصیب نہیں ہوتیں ، اس لیے حفظ کے طالب کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالی سے اپنے لئے اس کی توفیق مانگے ۔ خوب خوب دعاؤں کا اھتمام کرے ۔ صدقہ کرے تاکہ اللہ تعالی اس کے لیے یہ مرحلہ آسان فرما دے۔
(3)
شوق ، جذبہ اور پختہ عزم
کہتے ہیں کہ شوق جذبہ اور پختہ عزم انسان کو ترقی پر لے جانے کے لیے نہایت ہی ضروری ھیں ، اگر ایک طالب کے اندر قرآن مجید حفظ کرنے کا شوق ہے اور عزم بھی پختہ ھے تو یہ چیز اس کے لیے اس مرحلے کو آسان بنا دے گی ، ورنہ تجربہ یہ ہے کہ بعض حفظ کے طالب علم شعبۂ حفظ میں آٹھ آٹھ نو نو سال لگا دینے کے باوجود بھی مکمل قرآن پاک حفظ کرنے میں کامیاب نہ ھو سکے۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ ان کے اپنے اندر شوق نہیں تھا اور انہیں زبردستی شعبۂ حفظ میں داخل کر رکھا تھا، کیونکہ ماں باپ اور گھر والے اپنے بچے کو حافظ دیکھنا چاہتے تھے لیکن بچے کا اپنا کوئی شوق نہیں تھا، تو شوق کا ہونا قرآن مجید کے حفظ کے لیے نہایت ہی ضروری ہے ۔ والدین کو چاھیے کہ بچے کو حفظ شروع کروانے سے پہلے اس کی تربیت کریں اس کے اندر قرآن پاک کی اھمیت اُجاگر کریں تاکہ بچے کے دل میں اس کا شوق و زوق پیدا ھو جائے ، پھر ایسا بچہ اس مرحلے کو بہت جلد اور آسانی سے طے کر لے گا ۔
(4)
گناہ اور معصیت کے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا
حفظ کے طالب کے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ وہ گناہ اور معصیت کے کاموں سے مکمل اجتناب کرے ، اس سے اللہ تعالی کی تائید و نصرت ان شاء اللہ اُس کے شامل حال رہے گی۔ قرآن کا علم یقیناً علم نورِالٰہی ہےاورگناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے انسان علم سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
شکوت إلى وکیع سوء حفظي
فأرشدني إلى ترك المعاصي
وأخـبرني بأن الـعــلم نـور
ونور الله لا يهدى لعاصی
میں نے اپنے استاد وکیع سے کمزور حافظہ کی شکایت کی تو آپ نے مجھے ترک معاصی کی نصیحت فرمائی اور آپ نے یہ بتایاکہ علم ایک نور ہے اوراللّٰہ کا نور گناھوں میں مبتلا شخص کو نہیں دیا جاتا۔
(5)
قرآنِ پاک حفظ کرنے کے لئے ماھر اُستاد کا انتخاب کرنا
قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے استاد کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جائے ایسے استاد کا انتخاب کیا جائے جس کی اپنی منزل پختہ ہو اور جس کی روحانی تربیت آچھی طرح ھوئی ھو ۔ کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے ایک ماہر استاد کی نگرانی اور شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺکو اس امت کے لیے معلم بھی بنا کر بھیجا گیا تھا، یہی معاملہ قرآن مجید کے حفظ کرنے کا بھی ہے کہ ایک بہترین معلّم اور حافظ کی موجودگی ایک طالب کے حق میں حفظ کے مرحلے کو نہایت ہی آسان بنا دیتی ہے کیونکہ ایسا استاد اپنے شاگرد کی نفسیات اور حالات دیکھ کر اسے سبق سنانے، اعادہ کرنے اور اس میں پختگی لانے کے گُر اور طریقے سکھاتا اور بتاتا رہتا ہے جس سے اس طالب کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور وہ بڑے ہی ذوق و شوق سے اپنی دُھن میں مگن سبق یاد کرتا ہے اور سب سے پہلے سنانا اس کا مقصد بن جاتا ہے، وہیں اگر استاد اچھا نہ ہو یا بے مقصد استاد ہو یا بس وقت گزاری کرنے کے لیے آ گیا ہو تو ایسے استاد صرف طلبہ کا بیڑا غرق کرنے کے لیے آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ طلبہ کا بھی نہایت ہی قیمتی وقت برباد کر جاتے ہیں، اس لیے اگر کوئی طالب قرآن حفظ کرنا چاہتا ہے تو اس مرحلے کی آسانی کے لیے اسے ایک اچھے استاد کا انتخاب ضرور کرنا چاہیے۔
(6)
حفظِ قرآن پاک کے لئے ایک ہی طباعت والا مصحف استعمال کرنا
حفظ قرآن پاک کے لئے ایک ہی طباعت والا مصحف (قرآن مجید) استعمال کیا جائے تاکہ حفظ کرنے والے کے ذہن میں صفحہ کا پورا نقشہ محفوظ رہے۔
(7)
حفظِ قرآن پاک سے پہلے تلفظ کی درست آدائیگی کا اہتمام کرنا
قرآن پاک حفظ کرنے سے پہلے اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ قرآن پاک کے الفاظ اور اس کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے اس کی درست ادائیگی ہو، حروف، الفاظ اور مخارج کا خیال رکھا جائے، اس لیے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک حفظ کرنے والا طالب قرآن یاد تو کر لیتا ہے لیکن غلط تلفظ کی وجہ سے وہ کسی لفظ یا آیت کو ویسے ہی یاد کر بیٹھتا ہے جیسے وہ اس کی ادائیگی کر رہا تھا، اس سے بسا اوقات الفاظ کی تبدیلی سے زیادہ معنیٰ کی تبدیلی ہو جاتی ہے اور’’ قلب‘‘’’ کلب‘‘ ہو جاتا ہے یعنی دل کتّا بن جاتا ہے، اس لیے حفظ کے آغاز سے پہلے ناظرہ پر خصوصی توجہ کرنی چاہیے تاکہ حفظ کا معاملہ آسان ہو جائے۔
(8)
حفظِ قرآن پاک کے لئے اوقات مقرر کرنا
حفظِ قرآن پاک کے لئے اوقات مقرر کیے جائیں پھر ان اوقات میں حفظِ قرآن پاک کا اہتمام کیا جائے ، بہتر یہ ھے کہ حفظِ قرآن پاک کے لئے فجر سے پہلے کا وقت یا فجر کے فورا بعد کا وقت یا پھر مغرب کے بعد کا وقت اختیار کیا جائے کیونکہ یہ اوقات حفظِ قرآن پاک کے لئے انتہائی مناسب ھیں ۔
(9)
کسی مجرّب قاری کی تلاوت سن کر حفظ کرنا
سیکھنے اور یاد کرنے کا ایک کارآمد طریقہ جو ماہرین نے بتایا ہے کہ کسی آچھے قاری کی تلاوت سننے سے بھی یاد کرنے اور یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے، قرآن پاک کی تلاوت سن کر آپ اپنے لیے حفظ کے مرحلے کو آسان کر سکتے ہیں اور جو حفظ کر چکے ہیں اسے باقی بھی رکھ سکتے ہیں،
(10)
حفظِ قرآن پاک کے لئے عمر کا مناسب حصہ
عمر کے ابتدائی مرحلے میں قرآن پاک حفظ کرنا آسان ھوتا ھے جس کے لئے مناسب وقت سات سال سے پندرہ سال کی عمر کا ہے کیونکہ اس عمر میں سہولت و آسانی کے ساتھ معلومات و محفوظات ذہن قبول کر لیتا ہے ، اس لئے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم جو قارئ القرآن مشہور ہوئے انہوں نے اپنے بچپن میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت میری عمر دس سال کے قریب تھی اور میں اس وقت قرآن پاک حفظ کر چکا تھا۔ تاھم اگر بچپن میں اس سعادت سے محرومی رھی ھو تو جوانی بلکہ بڑھاپے میں اگر ھمت کر لی جائے تو ان شاء اللہ یہ سعادت ضرور نصیب ھو جائے گی ۔ اس کی تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ھیں ۔ حال ھی میں ایک سعودی شخص کے خبر وائرل ھوئی ھے کہ اُس نے 85 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی ھے ۔
(11)
وقت دینا صبر اور انتظار کرنا
انسان فطرتاً جلد باز ہے اور ہر کام میں اسے جلدی ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ بھی جلدی چاہیے ہوتا ہے اور وہ اچھے نتیجے کی تلاش میں رہتا ہے لیکن ہر چیز چاہ لینے سے نہیں ہوتی اور نہ ہی چھو منتر کے ذریعے ہر چیز کا حصول ممکن ہوتا ہے، بطور خاص جب اس چیز کا تعلق علم کی دنیا سے ہو تو یہ وقت طلب معاملہ ہے، بعض والدین جب اپنے بچوں کو حفظ کے سفر کا مسافر بناتے ہیں تو ان کی منشا اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ بچہ جلدی سے حافظ قرآن بن جائے، پھر اسی پریشر میں اس طالب کا ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے، ذہن کچھ اور چاہتا ہے اور گھر والے کچھ اور، اسی ادھیڑ بن میں رہنے کی وجہ سے ایک طرف اس بچے کی نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے اور دوسری طرف ذہن مکمل کام نہ کرنے کی وجہ سے اس کے حفظ کا دورانیہ امید سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے، اسی لیے ہر طالب اور اس کے والدین کو چاہیے کہ وہ اس مرحلے کو وقت دیں، صبر کریں، انتظار کریں، امید سے زیادہ وقت لگ رہا ہے تب بھی کوئی بات نہیں، کیونکہ اگر وقت زیادہ لگنے کی فکر میں پڑے تو یہ وقت مزید لمبا ہوتا چلا جائے گا پھر کوئی بہتر نتیجہ ہاتھ نہیں آئے گا۔
(12)
قرآنِ پاک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا
اگر کوئی طالب یہ چاہتا ہے کہ قرآن حفظ کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن مجید سے اپنے آپ کو محبت و عقیدت کی حد تک جوڑ لے، جیسے کہ ایک محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ایسے ہی قرآن حفظ کرنے والے کا بھی رویہ ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی میں ہر جگہ صرف قرآن ہو، اس کی باتوں میں قرآن، اس کے سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور اوڑھنے بچھانے کی جگہوں تک قرآن کی رسائی ہو جائے، اسے خواب بھی آئیں تو ان کا تعلق بھی قرآن سے ہی ہو، جب ایک طالب اپنے آپ کو قرآن سے اس حد تک جوڑ لے گا تو قرآن کی برکت اسے ملے گی اور حفظ کا یہ مرحلہ اس کے لیے آسان اور بہت ہی آسان کر دیا جائے گا، ورنہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ طالب جب تک درس گاہ میں ہے یا جب تک مدرسہ میں ہے تب تک تو قرآن سے اپنا تعلق رکھتا ہے لیکن جیسے ہی چھٹیاں آتی ہیں وہ اپنے گھر جاتے ہی بالکل آزاد ہو جاتا ہے اور قرآن کھول کر بھی نہیں دیکھتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے یاد کرنا تو دور وہ یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا ہے اور واپس مدرسہ جانے کے بعد اسے پچھلا یاد کر کے سنانے میں اچھا خاصا وقت لگانا پڑ جاتا ہے،اس لیے ہر طالب کو چاہیے کہ وہ قرآن سے چمٹ کر رہے اور اپنی سوچ اور چال ڈھال کا مرکز و محور اسی کتاب کو بنا لیں نتیجتاٍ یہ کتاب آپ کو اپنی برکتوں سے نواز کر آپ کو قرآن کا حافظ بنا دے گی۔
(13)
یاد کرنے سے پہلے کئی بار پڑھنا
شعبۂ حفظ کے اکثر طلبہ قرآن مجید یاد کرتے ہوئے ایک غلطی کر جاتے ہیں اور وہ غلطی یہ ہے کہ انہیں جب سبق یاد کرنا ہوتا ہے تو بس اسی چکر میں رہتے ہیں کہ جلدی سے کب یاد ہو جائے، جبکہ سبق یاد کرنے کے لیے جو ضروری چیز ہے وہ بھول جاتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ طالب پہلے ایک ٹارگٹ متعین کر لے پھر اس پورے حصے کو کئی بار پڑھے بلکہ بار بار پڑھے، خیال رہے کہ یاد کرنے کی نیت سے ابھی نہیں پڑھنا ہے، پھر جب اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے خود اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اُس پورے متعین کردہ آیات کے بہت سے الفاظ اس کے ذہن میں بیٹھ چکے ہوں گے، پھر ایک آسانی اور ہوگی کہ وہ آیات بار بار پڑھنے کی وجہ سے اس کی زبان کے لیے سہل ہو جائیں گی اور وہ طالب جب یاد کرنے کی نیت سے ان آیات کو پڑھنا شروع کرے گا تو پھر وہ خود دیکھے گا کہ پہلے کی بنسبت اس بار یاد کرنے میں اسے زیادہ آسانی ہوئی۔ حسب استطاعت روزانہ سبق لیا جائے اور استاد کو سنایا جائے پختہ یاد نہ رہنے کی صورت میں وہی سبق پھر دوبارہ یاد کر لیا جائے۔
(14)
یاد کیے ہوئے حصوں کا مسلسل اعادہ کرتے رھنا
کسی بھی چیز کو ذہن و دماغ میں باقی رکھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے بار بار یاد کیا جائے، اس کا تذکرہ ہو اور اس سے متعلق باتیں ہوں، یہی معاملہ قرآن مجید کے حفظ کرنے کا بھی ہے کہ جو حصہ ایک طالب یاد کرتا جا رہا ہے اسے بار بار دہرائے، اس کا اعادہ کرے چاہے آواز کے ذریعے، ہونٹوں کو ہلا کر یا بس یونہی ذہن کی اسکرین پر لا کر یکبارگی اس پورے حصے کو پڑھ جائے جسے اس نے یاد کیا ہے۔ قرآن پاک حفظ کر لینے کے بعد روزانہ ایک سیپارہ یا آدھا سیپارہ سنایا جائے تاکہ قرآن پاک بھول نہ سکے۔ یقین کریں کہ یہ عمل بہت ہی آسان اور نہایت ہی کارگر ہے لیکن شعبہء حفظ کے طلبہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کو سنانے کے لیے نہ کہا جائے تو وہ اعادہ ہی نہ کریں، بس وہ سبق پر توجہ دیتے ہیں اور اسی بنا پر وہ آگے تو بڑھتے جاتے ہیں لیکن پیچھے کا سب صاف ہوتا چلا جاتا ہے، ایسے طلبہ کو چاہیے کہ وہ مسلسل یاد کیے ہوئے پاروں اور سورتوں کا اعادہ کرتے رہیں چاہے استاد کو سنانا ہو یا نہ سنانا ہو، یہ چیز آپ کے لیے حفظ کے مرحلے کو آسان بھی کرے گی اور پختگی میں بھی بہت معاون ثابت ہوگی۔حفظ شدہ سورتیں یا آیات بار بار دوہرائی جائیں ایسا کرنے سے اچھی طرح حفظ ہو جائے گا۔
(15)
سمجھ کر پڑھنا اور تلاوت کرنا
قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی زبان عربی نہیں ہے بلکہ اکثریت عجمیوں کی ہی ہے جن کا عربی زبان سے کوئی تعلق ہی نہیں، اسی لیے ہر کوئی نہ عربی بول سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی تلاوت اس کے لیے آسان ہوتی ہے، اگر ایک طالب عربی زبان سمجھتا ہو اور بطور خاص قرآن مجید کی آیتوں کے معانی سمجھنے پر وہ قادر ہو تو حفظِ قرآن کے لیے یہ چیز نہایت ہی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، گزشتہ لاک ڈاؤن کے دوران کتنے ایسے واقعات سننے میں آئے کہ فلاں عالم جو حافظ نہیں تھے انہوں نے حفظ کر لیا، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ممکن ہوا؟ جواب یہ ہے کہ انہیں عربی زبان آتی ہے، وہ بول سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، عربی گرامر اور قواعد سے وہ واقف ہیں اس لیے قرآن حفظ کرنے کا مرحلہ ان کے لیے آسان ہو گیا، ایسے ہی کوئی بھی طالب اگر عربی زبان جانتا ہے تو اس کے لیے حفظ کرنا یقیناً آسان ہوگا، آیات کا معنی و مفہوم سمجھنے سے بھی حفظ کرنا آسان ہو جاتا ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن پاک حفظ کرنے والا ان آیات کا ترجمہ و تفسیر پڑھے جن کو وہ یاد کرنا چاہتا ہے۔
(16)
حفظِ قرآن کی بشارتوں کا یقین رکھنا
حفظِ قرآن پاک کے طالب علم کو ان بشارتوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو حافظِ قرآن کے حق میں دی گئی ہیں، یاد رہے ان تمام بشارتوں اور فضیلتوں کا مستحق وہی شخص ہوگا جو قرآن کریم کو یاد کرکے اس کی تلاوت کا اھتمام کرتا رھے گا اور اس کی روشنی میں زندگی گزارےگا۔
(17)
یاد کیا ھوا قرآن پاک نوافل میں پڑھنا
قرآن کریم کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لیے حفاظ کرام کو چاہیے کہ کثرت سے نوافل پڑھیں اور اس میں جتنا ممکن ھوسکے قرآن پاک پڑھیں یہ طریقہ اس معاملے میں بڑا مجرب اور کارآمد ہے، بہت سے افراد نے اس پر عمل کیا ہے اور انھیں توقع سے بڑھ کر نتائج حاصل ہوئے ہیں، اس صورت میں قرآن پاک تو یاد ہونا ہی ہے ساتھ ساتھ نوافل و تلاوت کا عظیم ذخیرہ بھی نامۂ اعمال میں جمع ہو جائےگا، خصوصا تہجد اور مغرب کے نوافل میں اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
(18)
دعائے ختم القرآن المجید کا اہتمام کرنا
دعائے ختم القرآن المجید کا خاص اہتمام کریں یہ وہ دعا ہے جو ہمارے یہاں کے نسخوں میں آخر میں لکھی ہوئی ھوتی ہے، گو وہ ایک مختصر سی دعا ہے؛ تاہم اثرانگیزی میں بہت بلند ہے، اس دعا کے مضامین میں اللہ تعالی سے قرآن کی پختگی کی درخواست و طلب ہے، اور ظاہر ہے قرآن میں پختگی کی سعادت اسی کو حاصل ہوگی جسے اللہ نوازنا چاہےگا؛ لہذا ہر حافظ کو اس دعا کے خاص اہتمام کے ذریعے اللہ تعالی سے قرآن کریم کے یادداشت و پختگی کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔
(19)
قرآن پاک چلتے پھرتے پڑھنا
حفظِ قرآن کریم کے طالب کو ہمیشہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے اور لیٹے قرآن پاک پڑھتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ تاکہ ہر حال میں قرآن کریم پڑھنے کا تجربہ حاصل ہو جائے جو یاد رکھنے کے مرحلے میں معاون ثابت ھو گا ۔ اگراس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو یقینا پوری زندگی قرآن پاک کی الفت و محبت میں بسر ہوگی اور قرآن پاک کی برکت سے زندگی بھی خوشحالی میں گزرےگی اور قرآن کریم بھی ان شاء اللہ پختہ یاد رہےگا۔
(20)
محنت اور مسلسل کوشش کرنا
کہتے ہیں کہ بنا محنت کے کچھ نہیں ملتا، کھانا آپ کے سامنے ہو لیکن آپ کی کوشش کے بنا وہ آپ کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا، منزل جتنی عظیم اور مقصد جتنا اونچا ہو محنت اور کوشش بھی اسی کے بقدر ہونا چاہیے، ایک طالب جو قرآن حفظ کرنا چاہتا ہے اور وہ اس راستے پر چل پڑا ہے تو کوشش اور محنت کے بنا وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، اسے چاہیے کہ وہ اس چیز کو کھانے کی طرح اپنی روٹین میں شامل کر لے تاکہ مقصد تک پہنچنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔
قرآن حفظ کرنے کے یہ بیس آسان طریقے اس مضمون کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے ھیں ،ان کے علاوہ اور بھی طریقے بیان کیے جاتے ہیں اور کیے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہر ان بیس اہم طریقوں کے تذکرے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے، ان پر بہت آسانی سے عمل کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام طریقے حفظ کے ماھرین کے تجربے سے ثابت شدہ ہیں، اگر کوئی ان پر عمل کرتا ہے تو ان شاء اللہ یہ طریقے اُس کے لیے مفید ثابت ہوں گے اور اس کے لیے حفظ کا معاملہ ان شاء اللہ آسان ھو جائے گا۔
ھمارے ھاں یہ بھی ایک المیہ ھے کے اُستاد بچوں پر بہت زیادہ تشدد کرتے ھیں ۔ آئے دن اس طرح کی خبریں وائرل ھوتی رھتی ھیں اور پھر تشدد سے بہت سے بچے قرآن پاک سے باغی بھی ھو جاتے ھیں اور پھر کھبی بھی حفظ کی طرف نہیں آتے ۔ حفظ کے طالب علموں ہر تشدد کرنا ایک غلط پریکٹس ھے ۔ آساتذہ کرام کو اس سے اجتناب کرنا چاھیے اور مدارس کی انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری ھے کہ وہ اساتذہ کرام کو بچوں کو مار پیٹ کرنے کی آجازت نہ دیں ۔ واضح رہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے ، بے جا مار پیٹ سے بچے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا ، اور زیادہ مارنا تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے ، ایک تو یہ کہ اس سے بچہ کے اعضاء کمزور ھو جاتے ہیں، دوسرایہ کہ بچے ڈرکے مارے سارا پڑھا ھوا بھی بھو ل جاتے ہیں ،تیسرایہ کہ بچے جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں تو بے حیا بن جاتے ہیں، پھرمار سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی کے لیےانعام دینےاور محبت کا طریقہ زیادہ سود مند ہے، اور زیادہ مارنا تعلیم وتربیت کے لیے مفید طریقہ نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت نرمی اور محبت سے فرمائی ہے، اپنے خدام سے بھی رسول اللہ ﷺ کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔ اس لیے حتی الامکان نرمی اور شفقت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ اور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہوتو تدریجاً ھلکی پھلکی سزا دے مثلاً ؛ ملامت کرنا ، ڈانٹنا، کان کھینچنا، ہاتھ سے مارنا وغیرہ۔
نیز مدرسہ میں بچوں کو سبق، سبقی پارہ اور منزل یاد نہ ہونے پر یا مدرسہ کی چھٹی کرنے پر درج ذیل سزائیں دی جاسکتی ہے:
(1)ان کی کچھ وقت کے لیے چھٹی بند کردی جائے، اس کا بچوں پر کافی اثر ہوتا ہے۔
(2) کھڑا کردیا جائے۔
(3) اٹھک بیٹھک (اٹھنا بیٹھنا) کرایا جائے۔ یہ آخری دو سزاؤں میں جسمانی اور اخلاقی دونوں اصلاحیں ہوجاتی ہیں، یعنی ورزش بھی ہوجاتی ہے، تنبیہ بھی ہوجاتی ہے، لیکن اس میں بھی اس کی رعایت کی جائے کہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔
اللہ ہم سب کو قرآن پاک سے محبت کرنے اور اس کے حقوق پوری طرح ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین