میرا ماضی - پانچویں قسط

 

 حفظِ قرآن اور میری مشکلات 

یہ ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ  تمام تر گھریلو  مشکلات کے باوجود آٹھویں جماعت  تک میری زندگی بہت ھی پُرسکون رھی تھی ۔ میں سکول کی پڑھائی میں ھمیشہ ٹاپر بچوں میں رھا تھا ۔ میرے آساتذہ میری بہت حوصلہ آفزائی کرتے رھتے تھے ۔ ھر طرف سے مجھے اپنی تعریفیں ھی سننے کو ملتی تھیں۔  اس اعتبار سے میں سکول  کی پڑھائی کو بڑی  حد تک انجوائے کر رھا تھا ۔ لیکن جونہی سکول کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ھوا اور میرا حفظِ قرآن کا سلسلہ شروع ھوا تو میں عجیب و غریب قسم کی ذھنی ٹینشنز کا شکار ھو گیا ۔ اس طرح میری زندگی میں سب کچھ ھی بالکل بدل کر رہ گیا تھا  ۔ سکول لائف کا سکون بھی مجھ سے رخصت ھو گیا اور پھر وہ سکون جو مجھے سکول لائف میں حاصل  رھا تھا ، کھبی بھی میری زندگی میں واپس نہ آسکا 

حفظ قرآن کے بارے میں جو پہلی مشکل مجھے ہیش آئی وہ یہ کہ میرے اُستاد قاری ابراھیم صاحب گوجرانوالہ کے رھنے والے تھے اور اُن کی فیمیلی گوجرانوالہ میں ھی قیام پذیر تھی اولاد تو اُن کی ھے نہیں تھی بس ایک بیوی تھی وہ جمعہ پڑھا کر یا پھر اگلے دن گوجرانوالہ چلے جاتے تھے اور تین دن سے پہلے واہس نہیں آتے تھے اس طرح وہ ایک ماہ میں دس سے بارہ دن گوجرانوالہ میں رھتے تھے اور گویا مہینے میں سبق بمشکل آٹھارہ دن ھی ھوتا تھا ۔ دوسرا گھر کے تمام کام بھی میرے ذمہ ھوتے تھے اس لئے بعض اوقات ان کی وجہ سے بھی ناغے  ھوتے رھتے تھے اور یکسوئی  بھی میسر نہیں ھوتی تھی ۔ 

جب تک میں اکیلا ھی تھا تو پھر بھی قاری صاحب کی طرف سے کچھ نہ کچھ توجہ ھوتی رھی تھی لیکن میرے چند ماہ بعد ایک اور لڑکا اقبال سکول چھوڑ کر حفظ کے لئے آگیا وہ سکول میں چل نہیں رھا تھا اس کے والدین نے یہ سوچ کر کہ سکول میں تو یہ چل ھی نہیں رھا میرے ساتھ قرآن  کریم حفظ کرنے کے لئے ڈال دیا شاید وہ حفظِ قرآن  کو سکول سے آسان سمجھ رھے تھے اس طرح پھر دیکھا دیکھی اور بچے بھی آ گئے تقریباٍ پانچ چھ بچے حفظ کے ھو گئے ۔ پھر ھماری مامی صاحبہ نے مجھے دیکھ کر اپنی بیٹی ثریا کو حفظ شروع کروا دیا تو قاری صاحب دو مرتبہ اُن کے گھر اُسے پڑھانے کے لئے بھی جایا کرتے تھے ۔ جتنے بچے بھی حفظ کے لئے آئے تھے سب ایک  ایک ایک دو دو  پارے کرکے بھاگ گئے البتہ اقبال میرے ساتھ موجود رھا لیکن بدقسمتی سے اقبال جسمانی طور پر جتنا صحتمند تھا دماغی طور پر اُتنا ھی کمزور تھا یعنی اُس کا دماغ بہت ھی کمزور تھا اُسے سبق کہ چند سطریں بھی یاد نہیں ھوتی تھیں یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے وہ میرے سے چند ماہ بعد  حفظ میں آ گیا تھا لیکن جب میرا  قرآن ختم کے قریب تھا اُس کے آبھی ڈھائی پارے ھی مکمل ھوئے تھے تاھم اُسے حفظ کا شوق بہت تھا اور اُس کے والدین  بھی چاھتے تھے کہ وہ کسی طرح حافظِ قرآن بن جائے ۔ جب اس کے والدین نے دیکھا کہ وہ حفظ میں یہاں نہیں چل رھا تو کسی کے مشورے پر اُنہوں نے اُسے سرگودھا کے ایک مدرسہ میں بیجھ دیا تاکہ وھاں پر وہ یکسوئی سے حفظ کر سکے وھاں سے چھ ماہ کے بعد گھر آیا تو اُس نے وھی ڈھائی  پارے دھرائے ھوئے تھے ۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ شاید قرآن پاک کو کھبی بھی مکمل نہ کر پاتا لیکن اللہ پاک نے اُس کی قسمت میں یہ سعادت لکھ دی ھوئی تھی چنانچہ وہ مدرسہ میں قیام کے دوران ھی ھیضہ میں مبتلا ھو کر انتقال کر گیا اس طرح اُسے شہادت  کا مقام بھی مل گیا اور قیامت والے دن اس کا  شمار حفاظ میں بھی  ھو گیا ۔ 

قاری ابراھیم صاحب کو یہ تو شوق بہت تھا کہ اُن کے پاس حفظ کے طالب علم ھوں لیکن حفظ کے لئے جس محنت کی ضرورت ھوتی ھے وہ بڑھتی  ھوئی عمر کی وجہ سے یہ محنت کرنے سے تقریباً قاصر تھے۔ اُن  کا پڑھانے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ صرف سبق سننے کی پابندی تو کرتے تھے تاھم سبقی پارہ یا منزل کی اُن کے ھاں نہ تو کوئی خاص ترتیب تھی نہ ھی اس کی وہ پابندی کرواتے تھے ۔ اگر سنا دیا تب بھی ٹھیک اگر نہ سنایا تب بھی ٹھیک ۔ اگر وہ سنتے بھی تھے تو بس اس طرح کہ وہ اس دوران خود آخبار یا کوئی کتاب وغیرہ پڑھتے رھتے تھے ۔ یا پھر اُن کے پاس کوئی نہ کوئی نمازی بیٹھا ھی رھتا تھا وہ اس کے ساتھ باتیں کرتے رھتے تھے۔  درآصل اُن کی ترتیب یہ تھی کہ ایک مرتبہ قرآن کریم کو سبقاً مکمل کروا دیا جائے پھر مراجعہ میں منزل پر آھستہ آھستہ محنت ھوتی رھے گی ۔ 

مجھے یہاں ایک اُلجھن یہ بھی تھی کہ مسجد کے نمازی اور دیگر لوگ بھی مجھے اپنے اپنے بے تکے مشوروں  سے خوب خوب نوازتے رھتے تھے جس کو کلمہ بھی صحیح طرح سے پڑھنا نہیں آتا تھا وہ بھی مجھے حفظِ قرآن  کے لئے اپنے مشورے دینا ضروری سمجھتا تھا کچھ تو ایسے ھوتے تھے کہ بعد میں آ کر پوچھتے بھی تھے کہ اُن کے مشوروں  پر عمل کیا یا نہیں اور پھر اپنی تنقید کی توپوں  کا رخ میری طرف کھول دیتے تھے میں ان بےتکے مشوروں اور بے جا تنقید سے بہت ھی تنگ تھا 

اسی طرح اگر میں کھبی بچوں  کے ساتھ کھیل رھا ھوتا اور کوئی نمازی مجھے دیکھ لیتا تو مجھے کہتا کہ تم حفظ بھی کر رھے ھو اور کھیل بھی رھے ھو گویا ان کے نزدیک حفظ کے طالب کو بالکل کھیلنا نہیں چاھیے۔ اس طرح کی اور بہت سی ٹینشنز سے مجھے مسلسل واسطہ تھا 

ایک ٹینشن مجھے اپنے سکول کے بچوں کی طرف سے بھی بہت ھوتی رھتی تھی کہ وہ آ کر بلا وجہ مجھے طعن تشنیع کرتے رھتے تھے کہ تمہارے گھر والوں  نے سکول سے ھٹا کر اس لئے حفظ میں ڈال دیا ھے تاکہ سکول کی فیس نہ دینی ہڑے  یا  سکول میں آپ بہت پھنّے خان بنے ھوئے تھے لیکن پڑھائی کا پتہ تو نویں جماعت  میں اب چلنا تھا کہ آپ کتنے ہانی میں ھو لیکن  اب آپ مسجد میں چھپ کر بیٹھ گئے ھو  وغیرہ وغیرہ۔  یہ عموماً وہ بچے ھوتے تھے جو فیل ھو ھو کر میرے سے بہت پیچھے رہ گئے تھے اور میرے سکول کے زمانے میں تو کھبی اُنہیں میرے سے کوئی بات کرنے کی ھمت نہیں ھوئی تھی لیکن اب اُن کو گویا موقعہ ملا تھا اور وہ گویا موقعہ کو غنیمت سمجھتے ھوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رھتے  تھے گویا  اپنی ناکامیوں کا بدلہ اب مجھ سے لے رھے ھوتے تھے 

گاؤں میں ختم پڑھنے کا رواج عام تھا کیا بریلوی کیا دیوبندی سب کے گھروں میں ختم پڑھا جاتا تھا،  اس وقت خود ھمارے گھر میں باقاعدگی سے ھر تہوار مثلاً شب برات اور ھر جمعرات وغیرہ  کو ختم شریف پڑھا جاتا تھاجو بعد میں میری مسلسل کوشش اور محنت سے یہ سلسلہ ختم ھوا ۔   گاؤں میں ختم شریف کا یہ ماحول اسقدر مضبوط تھا کہ انکار کی کسی کو ھمت نہیں ھوتی تھی ۔ میرے استاد صاحب پکے ٹھکے دیوبندی تھے لیکن وہ بھی ختم پڑھنے کے لئے انکار نہیں کر پاتے تھے تاھم مجھے وہ ختم نہ پڑھنے کی ھی نصیحت  فرمایا کرتے تھے فرماتے تھے کہ میری تو مجبوری ھے لیکن تمہاری کوئی مجبوری نہیں ۔  لیکن میرے لئے مشکل یہ ھوتی تھی اگر ختم کے لئے کوئی بلانے آتا اور میں انکار کر دیتا تو مرحومہ والدہ صاحبہ بھی اس کا بہت بُرا مناتی تھیں بلکہ بعض اوقات میری آچھی خاصی کلاس بھی لے لیتی تھیں ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ھمارے گاؤں کی ایک مذھبی اور ھر دلعزیز شخصیت مولوی عبدالعزیز صاحب کا انتقال ھو گیا وہ مجھے بھی بہت عزیز رکھتے تھے تو پہلے تو عقیدت کے اندھوں نے اُن کی مبینہ وصیت کے مطابق اُنہیں مسجد کے اندر دفن کرنے کا پروگرام بنا لیا،  جو بالکل ھی غلط تھا ۔ مجھ سمیت کچھ لوگوں نے مل کر اُن کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا اور مولوی صاحب کو عام قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔ اُن کے گھر والوں  کو مولوی صاحب کی تدفین کے حوالے سے مجھ پر بطور خاص شدید غصہ تھا کیونکہ مولوی صاحب اپنی زندگی میں مجھے بہت ھی عزیز رکھتے تھے تاھم پھر بھی مجھے بطورِ خاص اُن کے تیجھے کے ختم کے لئے بلایا گیا حالانکہ خود مجھے اس کی کوئی اُمید نہیں تھی ۔ والدہ صاحبہ مرحومہ بھی اس وقت مولوی  صاحب کے گھر پر دیگر خواتین کے ساتھ موجود تھیں ۔ میں نے ختم پڑھنے کے لئے جانے سے صاف انکار کر دیا تو خوب خوب شور مچا ۔ وھاں موجود خواتین نے والدہ صاحبہ سے بھی بہت گلے شکوے کیے اور خود والدہ صاحبہ نے بھی گھر آکر میری خوب کلاس لی کہ میری وجہ سے اُن کی خواتین  میں بے عزتی ھو گئی۔ اس موقعہ پر ھماری برادری کے کچھہ لوگوں نے مجھے وھابی جیسے القابات سے بھی نوازا۔ تاھم میں اپنی بات پر مضبوطی سے ڈٹا رھا اور ختم پڑھنے سے ھمیشہ انکار ھی کرتا رھا ۔ آھستہ آھستہ گاؤں کے کافی لوگوں کو اس بات کی سمجھ آنی شروع ھو گئی اور بہت سے لوگ ختم کو بدعت کہنے لگے اور ختم پڑھنے کو غلط کہنے لگے اور وقت کی ساتھ ساتھ گاؤں میں کم از کم دیوبندیوں کی اکثریت میں اس بدعت کا تقریباً قلع قمع ھو گیا 

گیا

Share: