عیدِ غدیر خم کی حقیقت

 وطنِ عزیز میں بدعات اور خرافات  کی کوئی کمی نہیں ھر قسم کی بدعات اور خرافات آپ کو یہاں ملیں گی ۔ ان بدعات میں ھی ایک بڑی بدعت “عید غدیر خم “کی بھی ھے جس کی بازگشت آجکل ھمارے  ملک کی قومی اسمبلی میں بھی سنائی دے رھی ھے ۔ اس بدعت کی ابتدا  کرنے والا ایک متعصب رافضی حاکم معزالدولۃ تھا ۔ اس لعنتی شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغداد میں  اس دن عید منانے  کا حکم دیا تھا اوراس کانام "عید خُم غدیر" رکھا تھا ۔ یہ دن چونکہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی تاریخِ شہادت بھی ھے اس لئے اس لعنتی نے بغضِ عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ میں خوشی منانے کے لئے اس نئی عید کا آجراء کیا تھا اور سنّیوں  کو دھوکہ دینے کے لئے بہانہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے آس خطبہ کو بنایا تھا جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر دیا تھا جس میں خصوصیت سے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل بیان کیے گئے تھے 

غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور یہ اس وقت بمنزلہ ایک چوراہے کے تھا اس کی قریب ھی ایک تالاب تھا ۔ تالاب کو عربی میں غدیر کہا جاتا ھے اس لئے اس مقام کا نام غدیر خم پڑ گیا ۔ مکہ مکرمہ  سے آنے والے حجاج کے راستے اس مقام سے  الگ الگ ہوتے تھے مکہ اور یمن جانے والوں کا راستہ جنوب میں جاتا تھا ۔ عراق اور ہندوستان وغیرہ کو جانے والوں کا راستہ مشرق کو جاتا تھا ۔  مغربی ممالک اور مصر وغیرہ کا راستہ مغرب کی سمت  تھا اور مدينة  منورہ شمال کی جانب تھا ۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  حجۃ الوداع سن 10 ہجری کو مکہ مکرمہ سے واپس ہوئے اور مقامِ غدیر خم پر پہنچے تو یہاں کچھ وقت کے لئے  قیام فرمایا کیونکہ اس مقام کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ساتھ حج پر جانے والے صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم الگ الگ ہونے والے تھے اس لئے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہاں پر ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر مقامِ غدیرخُم پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا ، اور اس خطبہ میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی نسبت یہ ارشاد فرمایا تھا :  "من کنت مولاه فعلي مولاه"یعنی جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست  ہے۔

اس خطبہ کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  حضور کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچ گئے تھے ۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   پر اعتراض کیا تھا ، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا گیا تھا  ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی تصویب فرمائی، بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انہیں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چنانچہ ان حضرات کے دل حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بہت ھی محبوب ہوگئے تھے ۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں،  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چنانچہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا:

 «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، 

قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ"

یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ 

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ !آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ 

حضراتِ شیخین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سمیت تمام صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھم اجمعین کے دل میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات پیدا ھو گئے تھے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کامقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ   نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشاد فرمانا  حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں تھا ، بلکہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز  حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لیے تھا ۔ اورالحمدللہ!اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی محبت کو اپنے ایمان کا جز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

یہ تھی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مذکورہ بالا  خطبے اور ارشاد کی حقیقت لیکن  ایک گمراہ فرقہ نے اس سے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرنا شروع کر دیا، اور چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا گیا تھا ، اس لیے بظاھر ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے یہ گمراہ فرقہ عید مناتا ھے، اوراسے ’’عید غدیر‘‘ کانام دیا جاتا ھے۔جیسا کہ اوپر بیان ھوا کہ اس دن عید کی ابتدا  کرنے والا ایک  متعصب حاکم معزالدولۃ گزرا ھے ، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عید منانے  کا حکم دیاتھا اوراس کانام "عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت ھی نہیں ھے کہ اس پر بحث کی جائے ، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفۂ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کا دن بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ لا علمی  کی بنا پر بعض نا سمجھ سنّی حضرات بھی اس میں شریک ھو جاتے ھیں ۔ اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس بدعت اور اس طرح کی دیگر خرافات سے قطعی طور پر دور رہیں۔ 

دینِ اسلام میں صرف دو عیدیں  ہیں:  ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ۔  ان دو کے علاوہ دیگر تہواروں  اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے دو عیدوں کے علاوہ  باقی  خود ساختہ تہوار نہ تو منانا جائز ھیں  اور نہ ھی ان میں کسی طرح کی شرکت درست ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ واقعۂ غدیر خم کی بنیاد پر 18/ ذی الحجہ کو عید کا دن قرار دینا بالکل غلط ، ناجائز بلکہ حرام ھے ہے اس کا حکم نہ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ھمیں دیا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم سے اس کا  کوئی ثبوت ملتا ہے بلکہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی اپنی پوری زندگی میں کبھی اس دن کو بطور عید نہیں منایا جبکہ اس واقعہ کے تیس سال تک حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ با حیات رہے۔  چھبیس سال بلا خلافت اور ساڑھے چار سال ان کی خلافت رھی ۔ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں بھی اس کو کھبی نہیں منایا ۔ کم از کم یہ خلافت کے ایام میں تو 18/ذی الحجہ کو بطور عید منا سکتے تھے ؟ لیکن انہوں نے ایسا کھبی نہیں کیا ۔ ان کے بعد بھی کئی صدیوں تک اس کو بطور عید نہیں منایا گیا۔  351 ہجری میں ایک متعصب حاکم معز الدولہ نے بغداد میں سب سے پہلے اس کو منایا اور اس کا نام عید غدیر خم رکھا اور یہ سب جانتے ہیں کہ یہ بادشاہ نہایت بد کردار اور متعصب شیعہ تھا اور یہ سب کچھ اُس نے بغضِ صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمُ  میں ھی کیا تھا ۔ 

اللہ پاک ھمیں صحابہ کرام رضوان  اللہ تَعَالٰی عَنْہُم  سے سچی عقیدت و محبت نصیب  فرمائے 

(آمین یا رب العالمین )

 

Share: