صدیوں پر محیط قوموں کی تاریخ میں ایسے دن بھی آتے ھیں جنہیں کھبی فراموش نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ دن ایک ہی بار آیا کرتے ہیں۔ مسلمانان ہندوستان کو اس دن کا صدیوں سے انتظار تھا اور نہ جانے کتنی نسلیں اس دن کو دیکھنے کی آرزو لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ہمیں یہ ملک بنا بنایا ملا اس لئے ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ اس ملک کے حصول کیلئے کس قدر جدوجہد کی گئی اور کتنی عظیم قربانیاں دی گئیں۔
پاکستان 14 اور پندرہ اگست کی درمیانی شب کو وجود میں آیا چنانچہ اس کا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست 1947ء کو منایا گیا۔ اسلامی کیلنڈرکی رو سے یہ چھبیسویں اور ستائیسویں رمضان کی درمیان شب تھی اور جب نصف شب 12 بجے ریڈیو سے اعلان ہوا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے تو یہ ستائیسویں رمضان المبارک اور شب قدر یعنی لیلة القدر کی مبارک اور عظیم رات تھی 15 اگست کو جمعة الوداع تھا اور یہ بھی ایک مبارک دن تھا ہم چودہ اگست کو یوم آزادی مناتے مناتے ستائیسویں رمضان کو بھول گئے ہیں حالانکہ اسی روز پاکستان معرض وجود میں آیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پندرہ اگست کو جب صبح آٹھ بجے ریڈیو پاکستان کی سروس کا آغاز ہوا تو سورہ آل عمران کی منتخب آیات تلاوت کی گئیں اور پھر محمد علی جناح کا پیغام نشر ہوا۔ قائداعظم نے پاکستان کے شہریوں کو مبارک باد دی اور نئی مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”آج جمعة الوداع کا مبارک دن ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لائیں اور پاکستان کو ایک عظیم سلطنت بنانے کے لئے دعائیں کریں“۔
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی اور اقتدار کی منتقلی کا اعلان کیا اور قائداعظم کو نئی مملکت کے قیام پر مبارکباد پیش کی۔ اس کے الفاظ تھے: ”آپ نے جس طرح آزادی حاصل کی ہے وہ ساری دنیا کے حریت پسند عوام کے لئے ایک مثال ہے“۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے گیارہ اگست 1947ء کو پاکستانی پرچم کی منظوری دی تھی، چنانچہ قائداعظم کی خواہش اور ہدایت پر چودہ اگست کو کراچی میں دیوبند کے عظیم سپوت مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا قومی پرچم لہرانے کی رسم انجام دی۔ مولانا ظفر احمد عثمانی ہندوستان کی ممتاز روحانی ومذہبی شخصیت مولانا اشرف تھانوی کے خواہر زادے تھے جبکہ مولانا شبیر احمد عثمانی حضرت تھانوی کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظم مولانا اشرف تھانوی کا کس قدر احترام کرتے تھے۔ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ان ممتاز روحانی و مذہبی شخصیات سے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا مقصد کیا پیغام دینا تھا۔ مقصد وہی تھا جن کا قائداعظم اپنی تقاریر میں ایک سو بار سے زیادہ اعادہ کر چکے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہو گا۔ قائداعظم نے پندرہ اگست 1947ء کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عبدالرشید سے بطور گورنر جنرل کا حلف اٹھایا اور اسی روز جناب لیاقت علی خان سے بطور وزیراعظم حلف لیا۔ پندرہ اگست کو ہی پاکستان کا پہلا گزٹ جاری ہوا جس میں قائداعظم کی بطور گورنر جنرل تقرری کا اعلان کیا گیا۔ اس پس منظر میں پاکستان کے پاس چوائس تھا کہ وہ اپنا یوم آزادی چودہ اگست کو منائے جس روز قیام پاکستان کا اعلان ہوا یا پندرہ اگست کو منائے جس روز پاکستان قائم ہوا پندرہ اگست ہندوستان کا یوم آزادی تھا، چنانچہ لیاقت علی خان کی کابینہ نے چودہ اگست کو پاکستان کا سرکاری یوم آزادی قرار دینے کا فیصلہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ آزادی ہند اور قیام پاکستان کے لئے چودہ اگست 1947ء کا دن کیونکر طے ہوا کیونکہ اس تاریخ کا اعلان کرنے والوں کو ہرگز علم اور احساس نہیں تھا کہ یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہو گا جس شب رات بارہ بجے قیام پاکستان کا اعلان ہو گا وہ شب القدر ہو گی جسے مسلمان مبارک ترین رات سمجھتے ہیں اور جس صبح پاکستان میں سورج طلوع ہو گا وہ جمعة الوداع ہو گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگلستان کے وزیراعظم ایٹلی نے فروری 1947ء میں پارلیمنٹ میں اعلان کیاتھا کہ ہندوستان کو جون 1948ء میں آزادی دی جا سکتی ہے۔ انگلستان کے وزیراعظم کا اعلان اپنی جگہ لیکن قدرت کو کچھ اور یہ منظور تھا اور ہونا وہی تھا جو قدرت کو منظور تھا۔ اگر لارڈ ویول ہندوستان کا وائسرائے رہتا تو شاید آزادی میں تاخیر کا سبب بنتا۔ مارچ 1947ء میں ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے بن کر آیا تو اس نے حالات کا جائزہ لینے اور ہندوستانی لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے کے بعد محسوس کیا کہ ہم آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ کر تباہی لا سکتا ہے۔ وہ جب دورے پر پنڈی کہوٹہ کے قریب ایک گاؤں دیکھنے گیا تو یہ دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہو گیا کہ سارا گاؤں فرقہ وارانہ فسادات کے سبب تباہ ہو چکا تھا، فریڈم ایٹ مڈنائٹ کی ایک تصویر میں اسے گھروں کے ملبے پر چلتے دکھایا گیا ہے۔ وہ پشاور پہنچا اور قلعے کی فصیل سے نیچے نظر ڈالی تو حدنظر تک برقع پوش خواتین کا جلوس دیکھا جو آزادی کے لئے نعرے لگا رہی تھیں۔ سیاسی اور معاشرتی صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان کو جلد از جلد آزاد کر دینا اور یہاں سے برطانوی اقتدار کا جلد رخصت ہو جانا ہی برطانیہ اور ہندوستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ دوسری جانب جنگ عظیم دوم نے کچھ اس طرح کا معاشی دباؤ انگلستان پر ڈالا تھا کہ انگلستان کے لئے اپنی کالونیز پر تسلط قائم رکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا منصوبہ بنایا، حکومت سے منظوری لی اور 2 جون 1947ء کو ہندوستان کے لیڈروں قائداعظم، نہرو، سردار بلدیو سنگھ سے ملاقات کر کے ٹرانسفر آف پاور کے منصوبے کو منظور کروا لیا۔ چنانچہ تین جون کو انتقال اقتدار کا سرکاری اعلان بھی کردیا لیکن اس میں انتقال اقتدار اور قیام پاکستان کی تاریخ اور دن کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ معاملات کو ڈھالنے کا قدرت کا اپنا انداز ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن اپنا کام کر جاتا ہے۔ تین جون کو تقسیم ہند اور انتقال اقتدار کا اعلان کرتے وقت ماؤنٹ بیٹن نے اپنی نشری تقریر میں صرف یہ کہا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ اسی حوالے سے ماؤنٹ بیٹن نے چار جون 1947ء کو پریس کانفرنس کی۔ یہ دوسرا موقعہ تھا کہ ہندوستان کے کسی وائسرائے نے پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی اس میں کوئی تین سو زائد غیر ملکی اور ملکی پریس کے نمائندے شریک ہوئے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کے بعد اسمبلی چیمبر دہلی تالیوں سے گونج اٹھا۔ اسی گونج میں ماؤنٹ بیٹن نے سوالات کی دعوت دی۔ لطف کی بات ہے کہ سوالات کا سارا رخ انتقال اقتدار کی تفصیلات کی جانب تھا۔ آخر میں ایک ہندوستانی نمائندے نے آخری سوال پوچھا: ”سر ٹرانسفر آف پاور کے لئے دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کے ذہن میں اس کے لئے کوئی تاریخ بھی ہو گی“؟ ماؤنٹ بیٹن خود اعتمادی کے گھوڑے پر سوار تھا۔ جواب دیا ”ہاں“ ہے۔ اخباری نمائندے نے پوچھا تو پھر سر وہ کونسی تاریخ ہے؟ ماؤنٹ بیٹن نے فریڈم ایٹ مڈ نائٹ Freedom At Mid Night کے مصنفین کو بتایا کہ میں انتقال اقتدار کی تاریخ کے بارے میں واضح نہیں تھا کیونکہ ابھی برطانوی پارلیمنٹ نے آزادی ہند قانون پاس کرنا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس میں کتنا وقت لگے۔ جب یہ سوال پوچھا گیا کہ تو ماؤنٹ بیٹن یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتا تھا کہ فیصلے کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے، چنانچہ وہ لمحہ بھر سوچ میں پڑ گیا کہ تاریخ کا مخمصہ کیسے حل کرے؟ ماؤنٹ بیٹن جنگ عظیم دوم میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا کا کمانڈر تھا اور اس نے برما کے جنگلوں میں دشمن کو شکست دی تھی۔ جنگ عظیم دوم یورپ میں تو مئی 1945ء میں ختم ہو گئی تھی لیکن جاپان کی فوجیں مزاحمت کرتی رہیں اور لڑائی جاری رہی۔ جاپان کی حکومت نے 14 اگست 1945ء کو شکست تسلیم کی اور ہتھیار ڈالنے کے لئے شرائط اپنے فیلڈ کمانڈرز کو پہنچائیں۔ چنانچہ جنگ عظیم دوم سرکاری طور پر چودہ پندرہ اگست 1945ء کی نصف شب ختم ہوئی۔ یہ تاریخ ماؤنٹ بیٹن کے ذہن، قلب اورلاشعور پر کندہ تھی۔ کیونکہ یہ انگلستان کی عظیم فتح کا دن تھا۔ چنانچہ اس نے پریس کانفرنس کے آخری سوال کے دباؤ کے جواب میں فوراً اعلان کر دیا: ”ہندوستان کو انتقال اقتدار پندرہ اگست 1947ء کو کر دیا جائے گا“۔ اسے اندازہ تھا نہ برطانوی حکمرانوں کو علم تھا کہ پندرہ اگست مسلمانوں کے ستائیسویں رمضان کا مبارک دن ہے اور 14-15 اگست کی شب… شب قدر ہے۔ یہ قدرت کا فیصلہ تھا اور یقین رکھیے کہ قدرت کے فیصلے بلاوجہ نہیں ہوتے۔