میزبانِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی تاریخی حیثیت


ھجرت کے بعد  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے جس مکان میں نزول فرمایا یہ مکان بھی اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ھے ۔ درآصل یہ مکان یمن کے ایک بادشاہ تبع حمیری نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد سے ایک ھزار سال پہلے بنوایا تھا گویا مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کسی اور کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے ھی گھر میں نزول فرمایا تھا یہ مکان چونکہ اس وقت حضرت ابو آیوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا اور وھی اس گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ  رہائش پذیر تھے  اس لئے انہیں میزبانِ رسول کہا جاتا ھے ۔  یمن کے اس بادشاہ کا بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ روایت کیا گیا ھے جو درج ذیل ھے : -


یمن کے بادشاہ تُبّع حمیری کا قصہ

حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے “بیت اللہ “ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا کافی علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر بیت اللہ کے متعلق کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف پر ریشمی غلاف چڑھایا جو خانہ کعبہ پر چڑھایا جانے  والا پہلا غلاف تھا ۔  اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔ 

پھر یہ بادشاہ یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہی علماء نے جو کتبِ سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے کتابوں میں پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے تو ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ھو گی۔ 

یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے لئے یہاں پر چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس ھی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے ایک دو منزلہ بہت ھی  عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائیں  تو یہی مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے رخصت ھو گیا ۔ 

وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  ایک ہزار سال بعد پیش ہوا۔  کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ پڑھیے اور عظمتِ حضورآکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شان دیکھئے:


کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے 

شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  طرف 

 اما بعد: 

اے اللہ کے حبیب  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پرایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے  ساتھ آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) اس کے سچے رسول ہیں۔“

شاہ یمن نے یہ خط اشعار کی شکل میں لکھا تھا جس کے عربی الفاظ مندرجہ ذیل ھیں 


شاہ تبع کے اشعار

شهدت على أحمد أنه رسول

شهدت على أحمد أنه رسول

من الله بارئ النسمْ

فلو مد عمري إلى عمرہ

لكنت وزيرا له وابن عمْ

وجاهدت بالسيف أعداءه

وفرجت عن صدره كل غمْ


شاہ یمن نے یہ خط لکھ کر اس پر اپنی مہر بھی لگائی تھی اور شاہ کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں رکھا اور جب حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی کے سامنے  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا کہ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  انہیں دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حیران ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ خط دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سن  کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔ سبحان اللہ!) 

(میزان الادیان، تاریخ ابن عساکر)


Share: