وَاصْبِـرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّـهُـمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٝ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْۚ تُرِيْدُ زِيْنَـةَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٝ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ اَمْرُهٝ فُرُطًا (28)
تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضامندی چاہتے ہیں، اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا، کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے، اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔ (سورہ الکہف)
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ھے
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً))[الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنا لیا جس نے اسے ہدایت اورصراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگا دیالیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلاہوا وقت واپس نہیں آتا ۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیااور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔
ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ھے
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب)
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔(حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے میں کئی آحادیثِ مبارکہ میں بہت ساری فضیلتیں وارد ھوئی ھیں چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
لا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلا يَأْكُلْ طعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘ [ابوداؤد،ترمذی]
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكمْ مَنْ يُخَالِل
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘ [ابوداؤد،ترمذی]
حضرت ابوموسی أشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
الرَّجُلُ يُحِبُّ القَومَ وَلَمَّا يَلْحَق بِهِمْ، قَالَ: المَرْءُ مع مَن أحبَّ.
جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
تنكح المراة لاربع: لمالها، ولحسبها، وجمالها، ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك".
عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔ ( بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں:
رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علی
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں
فقہ کے مشہور امام حضرت ابن قیم رحمہ اللّٰہ (جن کی اکثر اھلحدیث حضرات تقلید کرتے ہیں) تحریر فرماتے ھیں
صالحین کی صحبت تمھیں چھ طرح کے احوال سے دوسرے
چھ طرح کے احوال کی طرف منتقل کر دیتی ہے یعنی
شک سے یقین کی طرف
ریا سے اخلاص کی طرف
غفلت سے ذکر الٰہی کی طرف
رغبت دنیا سے رغبت آخرت کی طرف
بدنیتی سے خیر خواہی کی طرف
اور تکبر سے تواضع کی طرف
لہذااپنا بیٹھنا اُٹھنا صرف نیک اور صالحین کی صحبت میں رکھیں
اللہ تعالی عمل کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین