لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)
آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ (سورہ الشوری)
دنيا ميں اولاد كي خواهش هر إيك إنسان كو هوتي هے اور پهر اولادِ نرينه كي خواهش بهي هر إيك كے دل ميں موجود هوتي هے ليكن الله تبارك تعالى كا اپنا إيك نظام هے كه كس كو اولاد يا اولاد نرينه ديني هے اور كس کو نهيں ديني ۔ يه تو الله تعالى كي مشيت هے كوئى دوسرا إس میں قطعاً كوئى مداخلت نهيں كرسكتا سو إيك مسلمان كو الله تعالى كي رضا پر هي راضي رهنا چاهيے - إنسان كے بس ميں كچهـ بهي نهيں - تاريخ ميں إيسي بہت سي مثاليں موجود هيں كه اولاد کے لئے جو لوگ دوسروں كا علاج كرتے تهے خود اولاد کی نعمت نہ پا سکے۔ اس طرح کی بھی بہت مثالیں تاریخ میں ملیں گی کہ جو لوگ دعوى كرتے تهے كه همارے علاج سے بيٹا پيدا هوگا ليكن وه خود اولادِ نرينه سے تمام عمر محروم رهے - سو وہی الله هے جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ایسی صورت میں ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کی قضا و قدر پر هي راضی رھے ۔
ھمارے معاشرے میں آج بھی اکثریت کا یہ حال ھے کہ بیٹے کی پیدائش پر تو بہت خوشیاں مناتے ھیں لیکن بیٹی کی پیدائش پر مغموم ھو جاتے ھیں ۔ یہ قبیح اخلاقی بیماری ھمارے ھاں ھندؤوں سے منتقل ھو کر آئی ھے ۔ شاید اسی اثر کا نتیجہ ھے کہ کچھ والدین اپنی پوری یا جزوی جائیداد اپنی زندگی میں ھی بیٹوں کے نام کروا دیتے ھیں اور بیٹیوں کو محروم کرکے اپنی آخرت برباد کرکے اس دنیا سے چلے جاتے ھیں حالانکہ بیٹیوں کا بھی والدین پر اُتنا ھی حق ھوتا ھے جتنا بیٹوں کا ۔ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات یہی ھیں کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر برابر حصہ دیا جائے جبکہ ترکہ کی صورت میں بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملتا ھے
بیٹی کو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی زبانِ مبارک سے رحمت کہا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا جب باپ گھر کوئی چیز لیکر جائے تو بچوں میں سے پہلے بیٹی کو دے اور بیٹا بھی اللہ تعالی کی عظیم نعمت ھے ، لہذا قیامت والے دن اس نعمت کا تو سوال ھوگا جبکہ بیٹیوں کے پرورش اور تربیت کرنے والے مسلمان کو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے جنت کی خوشخبری دی ھے گویا بیٹی نہ صرف دنیا میں والدین کی سب سے بڑی ھمدرد ھوتی ھے بلکہ آخرت میں بھی بخشش کا ذریعہ بنتی ھے چنانچہ إيك دفعه كا ذكر هے كه ایک مسلمان شخص کے ہاں صرف بیٹیاں هي تھیں- اسے اولادِ نرينه كي شديد خواهش تهي ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی۔ اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں- اب اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی۔ وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے - شیطان إبليس جو انسان کا ازلی دشمن ھے نے اس کو بہکایا كه يه عجيب عورت هے هر مرتبہ لڑکی هي پيدا كرتي هے چناںچہ شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آکر اس نے يه ارداہ کرلیا کہ اگر إس مرتبه بھی لڑکی هي پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو بغير كسي تاخير كے طلاق دے دے گا۔
يه شخص اُس دن جب رات کو سویا تو اس نے إيك عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے خواب ميں دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اور اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے۔ اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا ؟
اسے اب معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی وہ غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی . نیند سے بیدار ھوتے ھی اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعۃ
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی بهي عطا فرما۔
اس لئے جن لوگوں کا قضا و قدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ بھی سراسر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں جبکہ پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے، حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو لڑکیوں کے سلسلے میں کسی طرح آزمایا جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ لڑکیاں اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ بن جاتی ہیں (جامع ترمذی )
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلٰی لَاْوَائِھِنَّ وَضَرَّائِھِنَّ، وَسَرَّائِھِنَّ، اَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّة بِفَضْلِ رَحْمَتِه اِیَّاھُنَّ، فَقَالَ رَجُلٌ: اَوْ ثِنْتَانِ یَا رَسُوْلَ الله ؟ قَالَ: ’’اَوْ ثِنْتَانِ‘‘ فَقَالَ رَجُلٌ: اَوْ وَاحِدَة یَا رَسُوْلَ الله ؟ قال:اَوْ وَاحِدَة (مسند احمد)
جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی تنگدستی اور خوشحالی پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ ان بچیوں پر رحمت کرنے کی وجہ سے اس شخص کو جنت میں داخل کر دے گا۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ! اگر دو بیٹیاں ہوں تو؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: اگرچہ دو ہوں۔ اس نے پھر کہا: اور اگر ایک ہو اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ!؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: اگرچہ ایک بھی ہو۔
اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:”جس کی تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! اگر دو بیٹیوں کی کفالت کرتا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: پھر بھی واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا : اگر ایک بیٹی کی یا ایک بہن کی کفالت کرتا ہو ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: پھر بھی واجب ہے۔ (معجم الوسط)
اسلام سے پہلے جہالت کے زمانے میں عورت کی کوئی قیمت نہیں تھی ، وہ چاہے کوئی بھی ہو بلکہ عورت کو بچی پیدا ہونے کی شکل میں زندہ درگور کردیا جاتا تھا ، قرآنِ کریم میں اس کا ذکرموجود ہے۔ جب رحمت کائنات حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جملہ کائنات کےلیےرحمت للعالمین بن کر تشریف لائے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نےصنفِ نازک کووہ حقوق اور مقام ومرتبہ عطاکیا جو قبل ازاسلام کوئی تہذیب و مذہب دینے سےقاصر رہے۔
نبی كریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جب اس دنیا میں رحمت للعالمین بن كر تشریف لائے تو عورت کو وہ مقام دیا کہ عورت اگر بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے چنانچہ ارشادِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہے :
الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ.
( صحيح مسلم : 1467)
یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے
عورت اگر ماں ہے تو فرمایا اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ارشاد ہے۔
أنَّ جاهِمةَ جاءَ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ: يا رسولَ اللَّهِ ، أردتُ أن أغزوَ وقد جئتُ أستشيرُكَ ؟ فقالَ: هل لَكَ مِن أمٍّ ؟ قالَ: نعَم ، قالَ : فالزَمها فإنَّ الجنَّةَ تحتَ رِجلَيها
(صحيح النسائي: 3104)
حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ ( میرے والد محترم ) حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :’’ تیری والدہ ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا :’’ اس کے پاس ہی رہ ( اور خدمت کر ) ۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے ۔‘‘
عورت اگربہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار هے ۔ چنانچہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
مَنْ کُنَّ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثُ أخَوَاتٍ، أوْ بِنْتَانِ، أو أخْتَانِِ اِتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ حَتّٰی یُبِنَّ أوْ یَمُتْنَ کُنَّ لَه حِجَابًا مِنَ النَّارِ
(مسند أحمد: 9043 بسند صحیح )
جس کی تین بیٹیاں،یا تین بہنیں،یا دو بیٹیاں،یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ان کے ساتھ احسان کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے جدا ہو جائیں یا فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی۔
لوگ جس عورت کوزحمت اوررُسوائی کاسبب سمجھتے تھے۔سرورِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اسی عورت کوبیٹی کےروپ میں باپ کے لیے رحمت، بھائی کےلیےعزت،بیوی کےروپ میں شوہر کےایمان کی محافظ اور ماں کےقدموں تلےجنت کی بشارت عطاکی۔مگر اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش آج بھی بیٹی کو اپنے لئے عار محسوس کرتے ہیں ، حالانکہ بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہونا کافروں کی صفت بتائی گئی ہے چنانچہ قرآنِ مجید نے اِن ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
(سورۃ النحل: 59،58)
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں ھر مسلمان کے لئے بیٹی کی شان وعظمت معلوم کرنا ازحد ضروری ھے تاکہ لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ بیٹی کی محبت اور پیار پیدا ہوسکے ۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اسلام میں بیٹے اور بیٹی میں تفریق کی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح بیٹا والدین کے لیے نعمت اور ان کے پیار کا مستحق ہے اسی طرح بیٹی ان کے لیے رحمت اور ان کے پیار کی مستحق ہے ، اس فرق کو مٹانے کے لیے جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے لڑکیوں پر خصوصی شفقت کرنے کی ترغیب دی ہے تو پھر بیٹیوں کی پیدائش سے ہم کیوں پریشان ہوں،اُن کے وجود کو ہم کیوں بوجھل سمجھیں ، اُس کی پیدائش سے دل تنگ کیوں ہوں اور اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کی پرورش سے ہم کیوں تہی دامنی کا ثبوت دیں؟ بالخصوص جب کہ اسلام نے اُن کی پیدائش کو مصیبت و ذلت سمجھنے سے منع کیا ہے اور اسے کافروں اور مشرکوں کا فعل اور اُن کاشعار قرار دیا ہے۔
تمام مسلمانوں کو چاھیے کہ وہ اسلام میں بیٹی کے مقام کو سمجھیں ۔ والدین اپنی بیٹیوں کو اللہ تعالی کا خاص تحفہ سمجھیں ۔ان کی شان و عظمت جانیں ان کے مطابق ان سے سلوک کریں۔ بیٹیاں بھی اپنے مقام پر جو اُنہیں ملا ھے ، رب کا شکر ادا کریں اور ایسی ہی بیٹی بن کر دکھائیں جیسی اسلام کو ان سے توقع ہے۔ اس طرح شوہر، ساس، سسر، اور ان کے خاندان والے اپنے گھروں میں لائی گئی دوسروں کی بیٹیوں کے متعلق یاد رکھیں کہ بہت ہی قیمتی متاع ان کے سپرد کی گئی ہے ماں باپ نے اپنا کلیجہ ان کے حوالے کیا ہے اس کا خیال کریں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ۔ دنیا مکافاتِ عمل کا مقام ھے لہذا جو طرز عمل آپ دوسروں کی بیٹیوں کے لئے اختیار کریں گے وہی سلوک آپ کی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بھی ھونا قرینِ قیاس ھے لہذا اپنی بیٹیوں کے لئے کانٹے نہ بوئیں۔
والدین اور بھائیوں کو چاھیے کہ وہ اپنی اولاد اور بہنوں میں برابری کا سلوک کریں اولاد میں برابری نہ ہونے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینے کے باعث بچیوں کی نشوونما نفسیاتی الجھنوں ، حسد اور نفرت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسی بچیاں بے حس اور خود غرض ہو جاتی ہیں ۔ بہت سے والدین جو اپنے بیٹے کو نازونخرے سے پالتے ہیں اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور بیٹی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بات بات پہ ٹوکتے ہیں ۔۔ ایسی بیٹیاں احساس ذمہ داری سے محروم ہو کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے ۔ ان کی اس کیفیت کے ذمہ دار اُن کے وہ والدین اور سرہرست ھیں جو اُن کی حق تلفی کا سبب بن کر انہیں اس مقام تک پہنچا دیتے ھیں ۔ بہرحال ماں باپ کی اکثریت الحمدُ للہ بیٹیوں سے دلی محبت کرتی ھے ۔ اُن کی خوشیاں اُن کی بیٹیوں کی خوشیوں کے ساتھ وابستہ ھوتی ھیں بقول شاعر:
ہیں ماں باپ کی زندگی بیٹیاں
ہر اک آرزو ہر خوشی بیٹیاں
ہیں آنگن کی وہ روشنی بیٹیاں
نہ بھولیں کسی کو کبھی بیٹیاں
اللہ پاک سب کی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے حفظ وآمان میں رکھے
آمین یا رب العالمین