اللہ تعالی کی سخت پکڑ اور حضرت لوط عليه السلام كي قوم

 اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌO 

بے شک تیرے  رب کی پکڑ بہت سخت ھے (سورہ البروج) 

الله تعالى اپنے بندوں پر بہت رحيم هيں أن کی خطاؤں کو  معاف فرماتے رهتے هيں اور اُنہیں ڈهيل ديتے رهتے هيں لیکن جب بنده  اللہ پاک کی نافرمانیوں کی تمام حدود کو عبور كرجاتا هے تو پھر الله تعالى كي قہاری  كي صفت حركت ميں آتي هے اور اسے پکڑ لیا جاتا ھے اور يہ پكڑ بہت سخت هوتي ھے۔ 

آیتِ بالا میں رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یہی ارشاد فرمایا گیا کہ اے پیارے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ :  بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ جب ظالموں  کو اپنے عذاب میں  پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے اگرچہ یہ پکڑ کچھ عرصہ ظالموں  کو مہلت دینے کے بعد ہوتی ھے۔  انہیں  مہلت دینا عاجز ہونے کی وجہ سے نہیں  ھے بلکہ حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔  اس آیت مبارکہ  میں  ہر اس شخص کے لئے نصیحت ہے جو لوگوں  پر ظلم کرتا ہے کہ اگرچہ ابھی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی پکڑ نہیں فرمائی لیکن جب بھی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے ظلم کی وجہ سے اس کی گرفت فرمائی تو وہ بہت سخت ہو گی اور یہ گرفت دنیا میں  بھی ہو سکتی ہے اور آخرت میں  بھی اور دونوں مقامات پر بھی ، جیساکہ  حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو،خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا تو قیامت  کے دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس ظالم سے انتقام لے گا۔

   حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ھے کہ رسولِ اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں  آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔ 

 حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، سرورِ کائنات رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں  کرتا۔

 اللّٰہ تعالیٰ ظالموں  کو اپنے ظلم سے باز آنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں  ظالموں  کے ظلم اور شریروں  کے شر سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

اسی طرح  جب قومیں  اجتمائی طور پر اللہ کی نافرمانی میں حد سے بڑھ جاتی ھیں تو  پھر اللہ رب العزت کی سخت پکڑ کا ان قوموں کو سامنا کرنا پڑتا ھے۔ تاريخ ميں إيسي بہت سي مثاليں موجود هيں كه جب قوموں نے اللہ کی نافرمانی کی اور تمام حدود كو عبور كيا تو الله تعالى نے أنهيں سختی سے پکڑا اور قیامت تک کے لئے عبرت كا نشان بنا ديا - حضرت لوط عليه السلام كي قوم بھی أن بدقسمت قوموں ميں سے ایک هے جو حد سے زیادہ الله تعالى كي نافرمانيوں كي وجہ سے قہرِ إلہی كا نشانه  بنی ۔ 

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم انتہائی قبیح اور مذموم فعل میں مبتلا تھی  یعنی وه "ہم جنس پرست"  تھے -حضرت لوط علیہ السلام کے مسلسل سمجھانے  پر بھی یہ قوم ٹس سے مس نہ ہوئی اور آخرکار الله تعالی  کے ازلی طریقہ  کے مطابق سخت عذاب کا شکار ہوگئی -

قرآن پاک سے ایک چیز یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کے علاوہ دو مزید قبیح حرکتوں میں بھی مبتلا تھی - اس میں ایک مسافروں کا راستہ روکنا اور دوسرے اپنی محفلوں میں سرعام فحش گفتگو کرنا تھا - جیسا کہ الله تعالی  ارشاد فرماتے ھیں 

- أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ سوره العنکبوت ٢٩

کیا تم مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو اور راستے روکتے ہو اور اپنی محفلوں میں برے کام ، فحش گوئی  کرتے ہو - تو اُن کی قوم کے لوگ جواب میں یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو جاؤ ہم پر عذاب لے آؤ -

اگر آج  ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو  معلوم ھوتا  ہے کہ پہلا مذموم فعل یعنی “ہم جنس پرستی” تو مسلمانوں میں اتنا عام نہیں ہے اور الله سے دعا ہے کہ آئندہ بھی عام نہ ہو - لیکن باقی دو مذموم افعال یعنی لوگوں کا راستہ روکنا اور محفلوں میں فحش گوئی کرنا تو اتنا عام ھو چکا ہے کہ اب تو اس کو سرے سے گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا - کوئی سیاسی و سماجی جلسہ ہو یا احتجاجی تحریک ہو یا کسی کا بائیکاٹ کرنا ہو تو ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس سے ہمارے دوسرے مسلمان بھائیوں  کو کتنی تکیلف کا سامنا کرنا پڑے گا صرف اپنے جائز اور نا جائز مقاصد کو پورا کرنے کے لئے قوم لوط کے عمل کو اختیار کرنے سے گریز نہیں  کرتے -افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عام فہم لوگ تو ایک طرف لیکن ہمارے علم  اور دین کا فہم رکھنے والے لوگ بھی اسی صف میں کھڑے نظر آ تے ہیں - یہ سوچے بغیر کہ اس مذموم فعل کی وجہ سے کسی مسلمان بھائی کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے - اور اسی طرح محفلوں میں فحش گوئی کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اب تو یہ ایک عام فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے  حتیٰ کہ اگر دین کا فہم رکھنے والا کوئی شخص اس کو برا تصور کرتا بھی ہے تو اس کو روکنے کی کوئی سعی  کرنا ضروری نہیں سمجھتا  - ہم مسلمان سرے سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ عمل بھی قوم لوط کا عمل تھا.

قرآنِ مجید میں قوم لوط   کا ذکر سترہ مرتبہ آیا ہے۔ قومِ لوط کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا  جو بحر مردار کے ساحل پر واقع تھا، اورقریشِ مکہ اپنے زمانہ میں شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔

سدوم کے آس پاس یہ جو  پانچ نہایت خُوب صُورت شہر آباد تھے، ان میں سے ہر ایک کی آبادی ایک لاکھ نفوس سے زیادہ ہی تھی۔ یہ علاقے نہایت سرسبز و شاداب اور قدرت کی فیّاضی کا حسین شاہ کار تھے۔ باغات کی کثرت تھی، تو لہلہاتے کھیت یہاں کے باسیوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ قرب و جوار کی بستیوں کے باسی بھی اپنی معاشی و غذائی ضروریات کے لیے ان بستیوں کا رُخ کیا کرتے تھے ، مگریہ بات ان بستیوں کے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہ تھی۔ اُن کے خیال میں ان کی بستیوں میں پیدا ہونے والے پَھلوں، اناج اور سبزیوں پر صرف اُن ہی کا حق ہے۔ اُن کی شدید خواہش تھی کہ دوسری بستیوں کے لوگ اُن کے علاقوں میں نہ آئیں، لیکن یہ اُنہیں منع کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔ جب  کوئی قوم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شُکر ادا کرنے کی بجائے غرور و تکبّر اور عاداتِ بد میں مبتلا ہو جائے، تو ایسے لوگوں کے دِل و دماغ پر شیطان قابض ہو جاتا ہے اور پھر یہ ابلیس کے نقشِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ یہی حال اس قوم کا تھا یہ لوگ باھر سے آنے والوں کا راستہ روکنے کے لئے نت نئے نئے طریقے سوچتے رھتے تھے اسی طرح ایک دن بستی کے لوگ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے طریقۂ کار پر غور و حوض  کر رہے تھے کہ ابلیس لعین ایک بزرگ آدمی کی شکل میں اُن کی محفل میں  آ پہنچا اور اُنہیں اپنے مشوروں سے نوازنے لگا ۔ اس لعین نے بستی والوں کو کہا’’ اگر تم ان باھر سے آنے والے لوگوں سے پیچھا چُھڑانا چاہتے ہو، تو میرے مشورہ  پر عمل کرو۔‘‘ اجنبی بزرگ کی یہ بات سب نے نہایت توجّہ سے سُنی اور طریقہ بتانے پر اصرار کیا۔ ابلیس نے کہا کہ’’ میں کل تمہیں یہ طریقہ بتاؤں گا۔‘‘ دوسرے دن وہ ایک خُوب صُورت، نوعُمر لڑکے کے بھیس میں آیا اور اُنہیں اپنی عورتوں کی بجائے مَردوں کے ساتھ فعلِ بد کرنا سِکھایا۔اس طرح ابلیس کے کہنے پر اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ اُنہوں نے شیطان لعین کے مشورہ  پر ایک ایسا گناہ ایجاد کیا، جس کا حضرت آدم علیہ السلام کی اولادِ میں اِس سے پہلے کسی کو خیال تک نہیں آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السّلام کو نبی بنا کر اُس قوم کی اصلاح کے لیے بھیجا تھا ۔ حضرت لوط علیہ السلام  نے اُن کو توحید کی دعوت دی اور بے ہودہ حرکات سے منع فرمایا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’


وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٓ ٖ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَاَنْتُـمْ تُبْصِرُوْنَ (54) 

اور یاد کرو لوط کو، جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم بے حیائی کرتے ہو حالانکہ تم جانتے بوجھتے ہو۔

اَئِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ ۚ بَلْ اَنْتُـمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ (55) 

کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں پر خواہش کر کے آتے ہو، درحقیقت  تم لوگ جاہل ہو۔

 (سورۃ النمل)

حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کی عادتِ بد کی وجہ سے بڑے فکر مند رہتے اور دن رات اُنہیں نصیحت و تبلیغ کرتے رہتے، لیکن قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ وہ مزید ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ فخریہ انداز میں یہ کام کرنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ حضرت لوط  علیہ السلام کے ساتھ بھی سخت رویّہ رکھتے اور اُن کی باتوں کا مذاق اُڑاتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور قومِ لوط ؑ نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ۔ جب اُن سے اُن کے بھائی، لوطؑ نے کہا کہ’’ تم کیوں نہیں ڈرتے، مَیں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور مَیں تم سے اِس (کام )کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ (اللہ) ربّ العالمین کے ذمّے ہے۔ کیا تم اہلِ عالَم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، اُن کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔‘‘ (سورۂ الشعرا 160-166) اُنہیں حضرت لوط ؑ کا سمجھانا بُرا لگتا تھا۔ چناںچہ اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’اگر تم ہمیں اِسی طرح بُرا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے، تو ہم تم کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے ’’

قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يَا لُوْطُ لَتَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ (167)

وہ کہنے لگے’’ اے لوطؑ ! اگر تم باز نہ آؤ گے، تو (ہم تم کو) شہر بدر کر دیں گے۔‘‘ (سورۂ الشعراء)

جیسا کہ اُوپر بیان ھوا کہ  یہاں کے باشندے فواحش اور  بہت سے گناہوں  میں مبتلا تھے،  دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ  دنیا کی سرکش، متمرد  اور بداخلاق قوم   تھی، ان سب  برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم اس خبیث عمل یعنی ھم جنس ہرستی  کی موجد بھی تھی،  دنیا کی قوموں میں اس عمل کا  اس سے پہلے کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے  اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ  اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو کرتے رہتے تھے۔ان حالات میں  حضرت  لوط علیہ السلام نے اس قوم کو  ان کی بے حیائیوں  اور برائیوں پر ملامت کی اور شرافت وطہارت کی زندگی کی رغبت دلائی،  اور  ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں  اور  پچھلی قوموں کی بداعمالیوں کے نتائج  اور ان پر آئے ہوئے عذاب بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا   طنز کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: " یہ بڑے  پاک باز  بنتے ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو" اور بارہا  سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: "ہم تو نہیں مانتے ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ"،  

ادھر یہ ہورہا تھا  اور دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالی کے فرشتے انسانی شکل میں  آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع  کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔  یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ شاید یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے،  تو مہمانوں نے کہا: آپ  گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں۔ آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور قومِ لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے فرمایا:کیا تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں حضرت لوط علیہ السلام جیسے اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی موجود ھیں ؟ فرشتوں  نے جواب دیا  کہ ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی  بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کا خاندان  اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے حضرت لوط  (علیہ السلام) کی بیوی کے وہ  قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔

 فرشتے حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے پاس  سے روانہ ہوکر  سدوم پہنچے  اور  حضرت لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان  ہوئے، اور یہاں یہ  فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں  تھے، حضرت لوط  علیہ السلام نے  ان کو دیکھا  تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی،  ابھی  وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم  کو حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے خبر کر دی  اور وہ حضرت لوط علیہ السلام کے  مکان پر چڑھ دوڑے  اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، حضرت لوط  (علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ  نہ مانے تو انہوں نے سخت پریشانی میں کہا:  "کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا" ۔   فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ  آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور ان کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات  اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد حضرت لوط  علیہ السلام  اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے تاھم ان کی بیوی  عذابِ الہی کا شکار ھو گئی،  جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چیخ   نے ان کو تہہ وبالا  کر دیا ،  پھر ان کی آبادی کو اوپر  اٹھا کر  زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور اس طرح گزشتہ قوموں کی طرح یہ قوم بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

قرآن کریم کی سورۃ 'العنکبوت میں اللہ تعالیٰ نےقوم لوط کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ قوم لوط پرعذاب نازل کیا گیا مگر ان کے تباہ شدہ شہروں  کی نشانی کو آنے والے انسانوں کے لیے عبرت کے طورپر باقی رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ 

وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَآ اٰيَةً بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (35) 

اور ہم نے عقلمندوں کے لیے اس بستی کی واضح نشانی  باقی چھوڑ دی  

قرآن کریم کی اس وضاحت ( کہ اللہ تعالی نے اس کی واضح نشانی باقی رکھی ھے ) کے باوجود قوم لوط کے تباہ شدہ شہروں کے بارے میں آج تک حضرت انسان کسی واضح نتیجہ  تک نہیں پہنچ پایا تاھم  حال ہی میں امریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے دس سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کےتباہ ہونے والے شہر کے کھنڈرات دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے  ھیں ۔ واللہ عالم ۔ ماھرین کے مطابق  قوم لوط کے تباہ شہر"سدوم" کے یہ کھنڈرات "تل الحمام" کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ  کا کہنا ہےکہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی۔

اللہ تعالیٰ کے شان  دیکھیں کہ امریکا، جو ہم جنس پرستی کے مادر پدر آزاد کلچر اور سیکس فری سوسائٹی کا سرپرست و رُوح رواں ہے، آج اُسی ملک کے ماہرین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ساڑھے تین ہزار سال بعد ہم جنس پرستی کے موجد شہر کی باقیات دریافت کروا کر یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ تم آج جو کچھ کررہے ہو، اللہ اس سے لاعلم نہیں ۔ تم سے پہلے بھی اس فعلِ بد کے مرتکب سرکشوں، نافرمانوں، ملعونوں اور ہر خائن و خاسر کو  عبرت کی مثال بنایا گیا ھے اور اگر اللہ تعالی اب بھی چاھے تو تمہیں بھی اسی انجام سے دوچار کر سکتا ھے ۔ 

آخر میں نبی کریم صل الله علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ملاحظہ فرمائیں

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:

 من تشبہ بقوم فہو منہم۔

جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے.  (سنن أبي داؤد،

غور کا مقام ھے کہ کیا ہم میں سے کوئی اس بات کا خواہش مند ھو سکتا ھے کہ قیامت کے دن وہ قومِ لوط کے اعمال کی پیروی کے جرم میں قوم لوط کے ساتھ اُٹھایا جائے؟  ۔ یقیناً اس کا جواب نفی میں ھو گا ۔ اللہ پاک ھر مسلمان کی حفاظت فرمائے اور کافروں کی مشابہت سے محفوظ رکھے  ۔ آمین

اللہ پاک ہمیں ہر برے عمل  سے بچنے اور گناہوں سے معافی طلب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔ 

Share: