كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ- وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ- فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ- وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(اٰل عمران
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے تو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اوردنیا کی زندگی سے دھوکہ نہ کھانے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ھیں :
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِىْ وَالِـدٌ عَنْ وَّّلَـدِهٖ ؕ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّّالِـدِهٖ شَيْئًا ۚ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَاۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (33)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن سے ڈرو جس میں نہ باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا، اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا میں نہ ڈال دے، اور نہ دغاباز تمہیں اللہ سے دھوکہ میں رکھیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ دنیا کی رنگینیوں اور اس کی لذّتوں میں کھونے کی بجائے اپنی آخرت کی تیاری میں مصروف رہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا’’ دنیا میں یوں رہو گویا تم مسافر ہو یا راہ چلتے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ جب تم شام پالو تو صبح کے مُنتظِر نہ رہو اور جب صبح پالو تو شام کی امید نہ رکھو اور اپنی تندرستی سے بیماری کے لیے اور زندگی سے موت کے لیے کچھ توشہ لے لو ۔( بخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کی رنگینیوں سے دھوکہ نہ کھانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ: اور ہرگزوہ بڑا فریبی تمہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں فریب نہ دے۔} یعنی گناہوں پر اِصرار کے باوجود شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال کر اللہ تعالیٰ کے عَفْو و کرم کے بارے میں تمہیں ہر گز فریب نہ دے کہ تم جو چاہو عمل کرو ،اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔بے شک گناہگار کی مغفرت ہو جانا ممکن ہے لیکن مغفرت کی امید پر گناہ کرنا ایسے ہے جیسے ناساز طبیعت کے درست ہونے کی امید پر زہر کھانا
اللہ تعالی نے دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے دیتے ھوئے فرمایا ھے
اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ؕ حَتّــٰٓى اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَـهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ اَهْلُـهَآ اَنَّـهُـمْ قَادِرُوْنَ عَلَيْـهَآۙ اَتَاهَآ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَـهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ ۚ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيَاتِ لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ (24)
دنیا کی زندگی کی مثال مینہ کی سی ہے کہ اسے ہم نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ سبزہ مل کر نکلا جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین سبزے سے خوبصورت اور آراستہ ہو گئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ اس پر بالکل قابض ہو چکے ہیں، تو اس پر ہماری طرف سے دن یا رات میں کوئی حادثہ آ پڑا سو ہم نے اسے ایسا صاف کر دیا کہ گویا کل وہا ں کچھ بھی نہ تھا، اس طرح ہم نشانیوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں۔
ان آیات مبارکہ میں دنیا کی رونق اور اس کی فنا ہونے والی چند روزہ زندگی پر بربادی اور بے رونقی کی مثال زمین کے سبزے سے بیان کی گئی ہے کہ آسمان سے بارش کاپانی برسا اور زمین لہلہا اٹھی اور طرح طرح کے پھل پھول سبزیاں اناج اور باغات پیدا ہو گئے اور انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے چرنے چگنے کی چیزیں چاروں طرف پھیل پڑیں۔ زمین ہری بھری اور سرسبز و شاداب ہو گئی ہر جانب ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی۔زمیندار خوش ہو گئے باغات والے پھولے نہیں سماتے کہ اس مرتبہ پھل اور اناج بکثرت ہے اور خوب ہی منافع حاصل ہوگا کہ یکا یک آندھیوں کی جھکڑ چلنے لگے بے موسمی طوفان بادوباراں اور برف باری ہوئی اولے گرے کھیتیاں برباد ھو گئیں کھڑی فصلیں تباہ و تاراج ہوئیں پھل تو پھل پتے بھی جل گئے ،درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، تازگی خشکی سے بدل گئی۔ کھیت اور باغات ایسے ہو گئے کہ گویا کبھی تھے ہی نہیں۔یہی حال دنیا کا ہے کہ روح آسمان سے آئی اورخاکی جسم میں داخل ہو گئی وہ جسم پیدا ہو کر توانا و جوان ہوا ۔ ماں باپ عزیز و اقارب سب یہ سمجھنے لگے کہ یہ شخص ہمیں فائدہ پہنچائے گا کہ ناگہاں آفت ارضی و سمائی نازل ہوئی اور وہ مرگیا گویا تھا ہی نہیں۔ لوگوں کی ساری اُمیدیں خاک میں مل گئیں۔ دنیاکی یہ سرسبز شادابی چند روزہ ہے، لہٰذا اس پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ آخرت کی زندگی جو کبھی ختم نہیں ہونے والی اس کے لئے انسان جدوجہد کرے اور اس کا عیش و آرام اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط رکھنے سے ہی حاصل ہو گا۔
دنیا کی زندگی ایک کھیل کود سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا :”دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا“ترمذی میں سہل بن عبداللہ کی روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکو اس دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا“صحیح مسلم میں مستورد بن شداد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی “ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا
دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ دنیا نے انسان کو اپنے ظاہری چمکدار چہرے کے ذریعے دھوکہ دیا ہے اور اسی چمک دمک کے نتیجے میں وہ آخرت کو بھول بیٹھاہے۔انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اسی دنیا میں رہے گا اور اسی کو ابدی خیال کرتا ہے، اپنی امیدوں کو اسی سے جوڑ لیا اور اپنی روح کو بھی اسی سے مربوط کر لیا۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے خسارہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی کبھی خسارہ ہو سکے گا۔یہی دنیا کی محبت تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے انبیائے کرامؑ اور ان کے اوصیاء ؑ کو جھٹلایا اور ان کے راستے سے انحراف کیا۔ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے یہ آزمائش کی جگہ ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا)(سورة الكهف ـ 7)
روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے ۔
دنیا ابدی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے یہ تو صرف ایک گزرگاہ ہے جس سے گزرتے ہوئے انسان آخرت سے متصل ہو جاتا ہے یعنی یہ وہ مقررہ راستہ ہے جس سے آخرت کی طرف جانا ہے۔ گویا یہ حضرت انسان کا اپنے سفر کا ایک سٹاپ ھے ۔ انسان پہلے عالم ارواح میں تھا جہاں اس کی صرف روح تھی پھریہ اپنے دوسرے سٹاپ یعنی ماں کے پیٹ میں آیا جہاں اس کا جسم بنا اور جسم میں روح ڈالی گئی پھر یہ اپنے سفر کے تیسرے سٹاپ یعنی دُنیا میں آیا جہاں اسے آچھائی اور برائی کے دونوں راستے بتا دیے گئے ۔ اسے یہ بھی بتا دیا گیا کہ اسے یہاں سے ھر صورت کوچ کرنا ھے اور اگلی زندگی کی تیاری بھی یہاں ھی کرنی ھے اور اسی تیاری نے اسکی اگلی اور ابدی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرنا ھے
یہاں کی مدت پوری کرکے اسے اپنے سفر کے چوتھے سٹاپ یعنی عالم برزخ پر ُرکنا ھے جسے عرفِ عام میں عالم قبر کہا جاتا ھے ۔یہ درآصل ایک امتحانی مرکز ھے یہاں پر اس کا امتحان ھونا ھے جو تین سوالوں پر مشتمل ھو گا چونکہ اس امتحان کا پیپر اسے دنیا میں ھی بتا دیا گیا تھا تاکہ یہ اس کی آچھی طرح تیاری کر لے اس لئے اس امتحان میں کامیابی کے لئے تمام سوالوں کا صحیح جواب مطلوب ھے یعنی اس امتحان میں کامیاب ھونے کے لئے سو فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی ھے ۔ یہاں کامیاب ھونے والا عیش وآرام میں رھے گا اور ناکام ھونے والا عذاب سے دوچار ھو گا
اس کے بعد یہ انسان اپنے سفر کے پانچویں سٹاپ یعنی عالم آخرت میں جائے گا جہاں میدانِ حشر میں اس سے دنیا کی زندگی کے ایک ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور جنت اور دوزخ کا فیصلہ ھو گا ۔ یہاں سے یہ حضرت انسان اپنے سفر کے چھٹے سٹاپ یعنی پل صراط پر پہنچے گا جہاں سے اھلِ ایمان جنت میں اور کفار جھنم میں داخل ھوں گے البتہ بعض اھلِ ایمان بھی اہنے گناھوں کی وجہ سے جھنم میں جائیں گے جو اپنی سزا بھگت کر جب اللہ تعالی کا حکم ھو گا جہنم سے نکل کر جنت میں چلے جائیں گے اور عالمِ ارواح سے شروع ھونے والا یہ انسانی سفر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا ۔ جنت اور جہنم یہ دو انسان کی ابدی قیام گاہیں ھوں گی ۔ یہاں ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی ھوگی۔ یہاں موت نہیں ھوگی۔ جنت والے جنت میں خوش و خرم نعمتوں میں رھیں گے اور دوزخ والے دوزخ میں سخت عذاب میں ھمیشہ ھمیشہ مبتلا رھیں گے ۔
احادیث مبارکہ میں بھی دنیا کی مذمت کی گئی ہے یہ مذمت دنیا کو دنیا برائے دنیا حاصل کرنے کی ہے اور اسی کو مقصد قرار نہیں دینا چاہیے۔اس دنیا کا لالچ اس مقصد سے دور کر دیتا ہے جو اللہ تعالی نے مقرر کر رکھا ہے اللہ فرماتا ہے:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ) (سورة الحديد ـ 20
جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔
دنیا کے ساتھ انسان کا معاملہ ایسے ہی ہونا چاہیے جو ایک مسافر کا ہوتا ہے جس نے اس کے ذریعے دوسری دنیا تک پہنچنا ہے۔یہ ایک مختصر راستہ ہے جس کے ذریعے ابدی آخرت تک پہنچنا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا وہ راستہ ہے جو اللہ نے ہمیں دکھایا ہے کہ اس پر چل کر اس کی رضا کو حاصل کر سکیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد گرامی ہے دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اس کے جو اللہ کی طرف لے جائے۔اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ آخرت کی طرف لے جانے کےعلاوہ کچھ نہیں ہے حضرت سجادؑ فرماتے ہیں:دنیا دو طرح کی ہے ایک دنیا وہ ہے جو ضروری ہے اور دوسری وہ ہے جو ملعون ہے۔یہ بات حضرت لقمانؑ کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحت کے بہت قریب ہے آپؑ نے فرمایا:اے بیٹے اس دنیا سے فقط پہنچانے جتنا لے لو اس کا انکار نہ کرو اگر انکار کرو گے تو لوگوں کے محتاج ہو جاو گے، دنیا دار نہ بن جاو کہ اپنے آخرت کو نقصان پہنچا بیٹھو۔
دنیا کی محبت کا مصداق انسان کا اس دنیا کا غلام ہو جانا ہے کہ انسان اس کا غلام بن جائے اور اس کی لہو و شہوت کا اسیر بن جائے اور اس کے مادی مفادات اور جنسی خواہشات اور مال کی محبت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس پر قناعت نہ کرے اور اس چیز کو حاصل کرنا چاہے جو اس کے دل میں آ رہی ہے اور اس کے ذریعے وہ موت کو بھی بھول جائے۔دنیا کی محبت اس قدر بڑھ جائے کہ اسے موت سے پہلے توبہ سے روک دے کہ بعد میں کر لوں گا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ اپنی آخرت کو بھول جاتا ہے۔
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے ایسی صورتحال سے خبردار کیا ہے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:میں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے بارے میں دو چیزوں سے فکر مند ہوں ایک تو خواہشات کی پیروی اور دوسرا لمبی آرزوئیں کرنا ۔جہاں تک خواہشات کی پیروی کی بات ہے یہ حق سے روکتی ہے اور جو لمبی آرزو کرتا ہے آخرت کو بھلا دیتا ہے۔اسی طرح نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانا ہے: سب سے بڑا گناہ دنیا کی محبت ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہر نافرمانی کی بنیاد دنیا کی محبت ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے داماد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:دنیا کی محبت فتنوں کی بنیاد ہے اور اصل امتحان ہے۔امام صادقؑ نے فرمایا: دنیا کی محبت ہر نافرمانی کی بنیاد ہے۔
دنیا کی مذمت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں کوئی عیب ہے جس کی وجہ سے یہ مذمت کی جا رہی ہے۔اصل میں عیب انسان کے اس دنیا کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہے کہ وہ اسے کیسے اختیار کرتا ہے۔دنیا امتحان کی تیاری کی جگہ ہے اس لیے یہ مذمت کا مورد نہیں ہےنہ اس کی محبت دنیا کی وجہ سے بری ہے یہاں بھی جو مذموم ہے وہ دنیا کی برائے دنیا ایسی محبت ہے جو انسان کو آخرت سے بھلا دے اور اس کی نظر میں اس کے رب کے مقام کو چھوٹا کر دے۔
دنیا کو کم حیثیت بتانے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس سے ترک دنیا کی دعوت دی جا رھی ھے اور یہ کہا جا رھا ھے کہ رہبانیت کو اختیار کر لیا جائے جبکہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش سرے سے نہیں ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے اللہ تعالی نے مجھے رہبانیت دے کر نہیں بھیجا بلکہ میری شریعت فطری آسودگی کی شریعت ہے،میں خود نماز پڑھتا ہوں،روزے رکھتا ہوں اور اپنی بیوی کے حقوق بھی پورے کرتاہوں۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان زہد اختیار کرے اور اس دنیا کی زین و زینت کا ہی دلدادہ نہ ہو جائے۔یہاں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی مذمت سے مراد اس کے ساتھ قلبی تعلق کی مذمت ہے۔اس قلبی تعلق کے نیتجے میں انسان اس دنیا کے تابع ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ندامت اور برے اخلاق جیسے حسد ،حرص، طمع،غرور،انانیت اور آخر میں حق کو فراموش کر دیتا ہے۔وہ موت کو بھول جاتا ہے اور خوف نہیں کھاتا۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ میں موت کو پسند نہیں کرتا؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے؟ اس نے جواب دیا جی ہے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اس مال کو دے دو گے؟ اس نے کہا نہیں ،اس پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا پس تم موت سے محبت نہیں کرو گے۔
روایت کی گئی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنھا سے سوال پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم موت کو پسند نہیں کرتے؟ آپ ؑ نے جواب دیا :آگاہ رہو تم نے ااپنی آخرت کو خراب کر لیا ہے ،تم نے اپنی دنیا کو آباد کر لیا ہے اب تم تعمیر کردہ سے تباہ کردہ کی طرف جانا ناپسند کرتے ہو۔
محبت دنیاکا علاج کیسے ممکن ھے ؟ یہ جان لینا بہت ضروری ھے کہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے لہٰذا اس میں پر سکون رہنے کے لیے خود کو مسافر رکھنا ضروری ہے ،اگر دنیا کو مستقل ٹھکانہ سمجھ کر اس سے دل لگا بیٹھے تو جدائی کے وقت بہت زیادہ غم اور تکلیف کا سامناہوتا ہے ۔ دنیا میں انسان کی حیثیت اس سوار کی طرح ہے جو درخت کی چھاؤں میں کچھ دیرآرام کرنے کے بعداسے وہیں چھوڑ کر اپنا سفر شروع کردیتا ہے۔دنیا کو اس نظر سے دیکھنے والے کا دل کبھی بھی دنیا کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا۔ دنیا سانپ کی طر ح ہے جو چھونے میں نرم و ملائم ہے لیکن اس کا زہرجان لیوا ھوتا ھے۔کیا عارضی نفع کے لیے دائمی تکلیف کو اپنا لینا دانائی ہے؟ جس طر ح پانی میں چلنے والے کے قدم سوکھے نہیں رہ سکتے اسی طرح دنیا سےالفت رکھنے والامصیبت و آفت سے چھٹکار ا نہیں پاسکتا اور آخرکار دنیوی محبت کی دیمک دل سے عبادت کی لذت و مٹھاس کوآہستہ آہستہ ختم کردیتی ہے۔طالب دنیا کی مثال سمند ر کے پانی سے پیاس بجھانے والے جیسی ہے،جس قدر وہ پانی پیتا ہے اتنا ہی پیاس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔جس طرح عمدہ اور لذیذ غذا کا انجام غلاظت اور گندگی ہے اسی طرح خوش نما دنیا کا انجام بھی تکلیف دہ موت پر ختم ہوتا ہے۔دنیا لوگوں کو دھوکا دیتی ہے اور ایمان کمزور کرتی ہے۔ دنیا میں حد سے زیادہ مشغولیت ،آخرت سے غافل ہونے کا سبب ہے۔
دنیا کی محبت دل سے کم کرنے کا علاج یہ ہے کہ دنیا کی ان حقیقتوں کو پیش نظر رکھےکہ دنیا سائے کی طرح ہےاور سائے سے دھوکہ کھانا حماقت ہے۔ دنیا خواب کی طرح ہےاور خوابوں سے محبت کرنا دانش مند ی نہیں۔ دنیا ظاہری زیب و زینت سے آراستہ بدصورت بوڑھی عورت کی طرح ہےلہٰذا دنیا کی اس اصلیت کو جان لینے کے بعد دنیا کا پیچھا کرنے والے کو ندامت و پشیمانی ہی ہوتی ہے۔یہ خرابی پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی بھی دنیا کی ظاہری خوب صورتی کو دل میں جگہ نہ دے۔
ایک حدیث مبارکہ ہے کہ تین چیزیں میت کے ساتھ جاتی ہیں۔اس کا خاندان، اس کا مال اور اس کا عمل۔ دوچیزیں تو لوٹ آتی ہیں اور ایک چیز ساتھ جاتی ہے ۔اس کے اہل عیال بھی لوٹ جاتے ہیں اور مال بھی اورباقی ساتھ رہ جانے والا اس کا عمل ہے۔
ایک اور حدیث نبوی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ آدمی کہتا ہہے میرا مال میرامال، اس کا مال تو اتنا ہے جو اس نے کھاپی لیا اور پہن لیا۔باقی مال تو اس کے وارثوں کا ہے۔ہم جو سمجھتے ہیں کہ یہ میرا مال ہے یہ سب دجل و فریب ہے۔ابدی زندگی میں تو نیک اعمال ہی جائیں گے۔آخرت میں حاضری لازمی ہوگی۔ایک جگہ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا کہ مجرموں سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں کتنے عرصہ رہے تھے۔وہ جواب دیں گے کہ شاید ایک دن یا اس کا بھی کچھ حصہ۔وہاں جاکر حقیقت کھلے گی کہ ہم تو فریب میں مبتلا تھے۔اصل زندگی تو یہ ہے ۔اس وقت حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے اس زندگی کے لئے کچھ کیا ہوتا۔لیکن وہ حسرت کسی کام نہ آئے گی ۔اس دنیا میں اس حقیقت کو جان لوگے تو فائدہ ہوگا۔
دُنیا میں اس وقت جتنے بھی جرائم اورگناہ ہیں، ان کا سبب دُنیا کی چاہت اور محبت ہے۔ دھوکہ بازی، چور بازاری، رشوت، مال ودولت کا لالچ، بدعنوانی، بدکاری، دُنیاوی لذتوں کے حصول کے لئے جائز و ناجائز کی پرواہ نہ کرنا دراصل یہ سب صرف دُنیا کی محبت ہے۔
انسان نے دُنیا پر محنت کی اور اس محنت کے نتیجہ میں جو کامیابیاں حاصل کیں ، بدقسمتی سے اسی کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھا اور موت کو بھلا بیٹھا حالانکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ جس چیز کو فراموش کر رکھا ہے تو وہ ہے موت۔ ہم شاید سمجھتے ہیں کہ جنہیں اپنے ہاتھوں سے دفنایا، موت تو صرف انہی کے لئے تھی، ہم نے تویہاں اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے حالانکہ دُنیا میں ہر انسان کے قیام کی ایک مخصوص و مختصر حد مقرر ہے، جسے مہلت کہا جاتا ہے اور ہمیشہ رہنے کی جگہ تو اس مختصر مدت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ مہلت اس لئے کہ اسی مختصر مدت اور وقفہ میں کئے گئے اعمال پر آخرت کا انحصار ہے ۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں، کہ دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہو اور اللہ کی محبت بھی سمائی ہو، یہ ھرگز ھو نہیں سکتا ۔ دونوں باتیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے کہ جب دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہو تو اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے داخل ہوسکتی ہے؟۔۔ اور جب اللہ کی محبت نہیں تو احکام الہی کی ادائیگی میں سستی، کاہلی، دشواری مشکل ہوگی اور حلال وحرام، جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوجائے گی، پھر کامیابی کا معیار صرف اورصرف مال و دولت بن جائے گا۔ دُنیا میں اس وقت جتنے بھی جرائم اورگناہ ہیں، ان کا سبب دُنیا ہی کی چاہت اور محبت ہے۔
حدیث ِ مبارکہ میں آتا ہے جس کا کم و بیش مفہوم کچھ یوں ہے : “دُنیاکی محبت ہر گناہ اورمصیبت کی جڑہے۔ چوری کرنا، خرید و فروخت میں دھوکہ اورفریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سود کھانا ، امانت میں خیانت کرنا، جوے بازی اور حرام چیزوں کی تجارت، بے گناہ لوگوں کو نہ صرف پریشان کیا جاتا ہے بلکہ ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کئے جاتے ہیں، گواہوں، وکیلوں، ججوں کو رشوت دے کر فیصلے اپنے حق میں کروالئے جاتے ہیں۔ ناجائز طریقہ سے مال غصب کرنا موجودہ دور میں عام سی چیز ہو گئی ہے۔ یہ سب دُنیا کی چاہت اور محبت ہی تو ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا ہوگا کہ یہ دُنیا ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں، بلکہ عارضی پڑاؤ اور منزل تک پہنچنے کے لئے ایک ذریعہ اورسبب ہے۔ اس دُنیا میں رہتے ہوئے اس مہلت کا احساس اور قدر ہے تو یقیناً یہ دُنیا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت اور ہم پر اللہ کافضل وکرم ہے اگر معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے، نشان منزل کے بجائے، اسے ہی منزل جان بیٹھے، باقی سب کچھ بھلا کر اسی کے حصول میں مگن ہوگئے تو باعث ہلاکت ہے۔ یعنی دُنیا کے معاملات اللہ کے احکامات کے مطابق چل رہے ہیں تو دُنیا کامیابی اور ہمیشہ کی عزت وسربلندی کا ذریعہ ہے، لیکن اگر صرف دُنیا ہی دل و دماغ پر مکمل طور پر راسخ ہوجائے کہ دن رات میں دُنیا کے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہ دے تو یہ دُنیا نقصان اورخسارہ کا باعث ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى (124)
اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا (125)
کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا۔
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (126)
فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا، اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے۔
وَكَذٰلِكَ نَجْزِىْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِاٰيَاتِ رَبِّهٖ ۚ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَاَبْقٰى (127)
اور اسی طرح ہم بدلہ دیں گے جو حد سے نکلا اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہیں لایا، اور البتہ آخرت کا عذاب بڑا سخت اور دیرپا ہے
(سورہ طہ)
دُنیا کی بہت ہی خوبصورت مثال دیتے ہوئے مولانا رومیؒ نے فرمایا کہ دُنیا کے بغیر انسان کا گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس دُنیا میں زندہ رہنے کے لئے بے شمار ضرورتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اوردُنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔ جیسے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی۔ اگر کوئی شخص خشکی پر کشتی چلاتا ہے تو نہیں چلے گی، اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے دُنیا ضروری ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے پیسہ چاہئے، کھانا چاہئے، پانی چاہئے، مکان چاہئے، کپڑا چاہئے ان سب چیزوں کی اس کوضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں دُنیا میں ہیں۔ لیکن جس طرح پانی کشتی کے لئے اس وقت تک فائدہ مند ہے جب تک پانی کشتی کے نیچے، دائیں اوربائیں طرف ہے، اس کے آگے اور پیچھے ہے۔ لیکن اگر وہ پانی دائیں بائیں کے بجائے کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو کشتی ڈوب جائے گی، تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح دنیا کا ساز و سامان جب تک ہمارے چاروں طرف ہے تو پھر کوئی ڈر نہیں اس لئے کہ ساز و سامان ہماری زندگی کی کشتی کو چلائے گا۔ لیکن جس دن دُنیا کا یہ ساز و سامان ہمارے دل کی کشتی میں داخل ہوگیا، اس دن ہمیں ڈبو دے گا۔بالکل اسی طرح جیسے پانی کشتی کے اردگرد ہو تو کشتی چلاتا ہے اور جب وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو کشتی ڈبودیتا ہے۔
اللہ کے احکامات سے غفلت اور روگردانی کے سبب نقصان و خسارہ اور ناکامی صرف آخرت کی ہی نہیں بلکہ دُنیا کی ناکامی اور نامرادی بھی ہے۔ اللہ کی یاد سے غافل، احکام الہی سے روگردانی اور دُنیا کی تمنا میں اندھا ہوجانے سے تنگی گھیرلیتی ہے اور روزی کی کشادگی کے باوجود انسان کا اطمینان اور سکون چھین لیا جاتا ہے، گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے موجود نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور آنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشاد کا مفہوم ہے، میری اُمت پر ایک ایسا وقت آئے گا، کفار میری اُمت پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے، صحابہ کرام نے پوچھا کیا تب ہم تعداد میں کم ہوں گے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا نہیں تعداد میں تو بہت ہوں گے، لیکن موت کے خوف اور دُنیا کی محبت میں مبتلا ہونگے۔ بدقسمتی سے ہرخاص و عام، بظاہر دین دار یا دُنیادار، عوام، رعایا، حکمران طبقہ سب کے سب دُنیا کی محبت میں گرفتار، دُنیا اور دُنیا کے مال کا دفاع کرتے نظرآئیں گے۔
ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ دُنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا، لیکن اللہ کی محبت سے دُنیا وآخرت دونوں سنورجاتے ہیں۔ اسلام میں کہیں بھی ترک دُنیا کا ذکر نہیں، بلکہ ترک دُنیا کوسخت ناپسند فرمایا گیا ہے ۔ لہٰذا دُنیا میں رہتے ہوئے، معاملات دُنیا چلاتے ہوئے، دُنیا کماتے ہوئے، تجارت، زراعت، حکومت کے ہوتے ہوئے آخرت کو فراموش کئے بغیر اس دُنیا کے سارے معاملات کے ساتھ آخرت کی بھلائی اور کامیابی بھی پیش نظررہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں بلکہ یہ عارضی پڑاؤ اورمہلت ہے تاکہ اس میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کی جائے۔
دنیا اور آخرت کی مثال ایک واقعہ میں یوں بیان کی گئی ھے کہ جنگل میں ایک شخص کے پیچھے شیر لگ جاتا ہے۔ وہ جان بچانے کے لیے ایک کنویں میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اسے کنویں میں ایک رسی لٹکی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ رسی سے لٹک جاتا ہے۔ اچانک اس کی نظر نیچے پڑتی ہے۔ وہ دیکھتا ھے کہ کنویں میں ایک اژدھا منہ کھولے بیٹھا ہوا ہے۔ اتنی دیر میں جب اُس کی نظر اوپر رسی پر پڑتی ھے تو دیکھتا ھے کہ دو چھوٹے کالے اور سفید چوہے کنویں میں لٹکتی رسی کو کتر رھے ھوتے ہیں۔ اسی اثناء میں اسے کنویں میں شہد کا ایک چھتہ بھی نظر آتا ہے جو اس کی دسترس میں ھے تو وہ شہد کے مزے لینے لگ جاتا ہے اور یہ بات فراموش کر دیتا ھے کہ اوپر شیر منڈلا رہا ہے۔ نیچے اژدھا منہ کھولے بیٹھا ہے اور دو چوہے اُس رسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس کے ساتھ وہ لٹک رھا ھے اور اس نے آخر کار نیچے ہی گرنا ہے۔
اس واقعہ میں ’شیر‘ موت ہے جو ہر وقت انسان کے پیچھے منڈلاتی رہتی ہے۔ ’اژدھا‘ قبر ہے جس میں ہر ذی روح نے جانا ہے اور ’دو چوہے‘ دن اور رات ہیں، جو انسان کی زندگی ’رسی‘ کو آہستہ آہستہ کتر رہے ہیں اور ’شہد‘ دنیا ہے، جس کی تھوڑی سی مٹھاس نے دنیا اور آخرت کا رونما ہونا بھلادیا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نے اپنے ایک شعر میں بہت خوبصورت انداز میں اسے بیان کیا ھے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی ، صبح دوامِ زندگی
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اس شعر کا واضح پیغام ہے کہ دنیا کی زندگی سب کچھ نہیں بلکہ اصل اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت کی ہے ۔لہذا ہمیں دنیا کی عارضی زندگی کے لئے کتنی محنت کرنی چاہیے اور آخرت کی دائمی زندگی کے لیے کتنی ؟ یہ فیصلہ ھم نے خود ھی کرنا ھے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کا علم اور فہم عطا فرمائے اور ہماری زندگی کو صحیح رخ پر چلائے اور ہمیں اس دنیوی زندگی اور آخرت کی زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
(آمین یا رب العالمین)