وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56)
اور ھم نے جن اور انسان کو پیدا کیا ہے تو صرف اپنی عبادت کے لیے۔ ( سورۂ ذاریات)
دُنیا کی ہر چیز انسان کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ھے۔ اب سُوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ انسان بھی کسی کے لئے بنا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب آیت بالا میں ہے گویا فرمایا گیا : اے انسان ! سب کچھ تیرے لئے ھے اور تُو ہمارے لئے ھے ، تمام مخلوق تمہارے لئے اور تُم خالِق کے لئے۔
بقول شاعر
جانور پیدا کئے ھیں تیری وفا کی واسطے
چاند سورج ستارے تیری ضیا کے واسطے
سرسبز کھیتیاں ھیں تیری غذا کے واسطے
یہ جہاں تیرے لیے اور تو خدا کے واسطے
معلوم ہوا کہ ہمیں دُنیا کے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ دُنیا ہمارے لئے بنی ہے اور ہم صرف اللہ پاک کے لئے بنائے گئے ھیں یعنی اللہ پاک کی عِبَادت کے لئے ، دِل میں اللہ پاک کی اور اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت بسانے کے لئے۔ اگر ہم دِل سے دُنیا کو نِکال دیں ، غَیرُ اللہ کی محبت دِل سے فَنَا کر دیں تو کیا ہو گا؟ تو ھمارا دل دِل پاک صاف ہو جائے گا ، دِل میں پاکیزگی آ جائے گی ، دِل نُورِ ایمان سے جگمگانے لگے گا ، ایمان کی حلاوت اور مٹھاس نصیب ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں مومنین ، کفار اور منافقین کا ذکر فرمایا ھے کہ مومنین نے قرآن پاک کی ہدایت سے نفع اٹھایا ، وہ غیب پر ایمان لائے ، نمازیں پڑھیں ، خدا کی راہ میں مال خرچ کیا اور دنیا و آخرت میں فلاح پائی ۔
لیکن کفارکفر پر ڈٹے رہے ، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں پر مہر لگادی ۔ اب انھیں ہدایت کی باتیں نہ سنائی دیتی ہیں اور نہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت کا دردناک عذاب ہے ۔
جو منافقین تھے انھوں نے اپنے کفر کو چھپا کر رکھا اور یہ گمان کرتے رہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور مومنوں کو دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رھے ھیں
سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (21)
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔
یایھاالناس ( اے لوگو ) یہاں مراد صرف مسلمان نہیں بلکہ تمام انسان مراد ہیں ۔ پھر فرمایا : اعبُدُوا رَبُّکم (عبادت کرو تم اپنے رب کی )۔ اب سوال یہ ہے کہ تمام لوگوں سے کیوں فرمایا گیا کہ عبادت کرو؟
مومنوں کے لیے فرمایا کہ عبادت کرو، توحید پر ، اللہ کی وحدانیت پر قائم رہـو ۔ اور کفار کو حکم دیا کہ توحید اختیار کرو یعنی پہلے ایمان لائیں پھر عبادت شروع کریں ، کیونکہ ان کے لیے عبادت سے پہلے ایمان لانا ضروری ہے ۔ اگر کسی شخص کو نماز کا حکم دیا جائے تو اس کے لیے پہلے لازم ہے کہ وہ وضو کرے ، پھر نماز پڑھے . اسی طرح کفار بھی پہلے اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائیں پھراس کی عبادت کریں۔
اسی طرح منافقین پہلے اپنے نفاق سے پکی سچی توبہ کریں ، اپنے دل کو صاف کریں اور پھر اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔ پھر فرمایا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( جس نے تمھیں پیدا کیا اور وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے اس امید پر کہ تم متقی اور پرہیز گاربن جاؤ )۔ اس بات میں ذرا برابر کوئی شک نہیں کہ اس پوری کائنات کاتخلیق کار اللہ تعالیٰ ہے اور اس آیت میں یہی بتایا گیا ھے کہ تمام انسانوں کو یہ تسلیم کرنا ہے کہ اُن کو اور ان سے پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔
اور کفار نے بھی اس بات کا تو اعتراف کیا کہ ان کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ اور اگر بالفرض کوئی کافر یا مشرک اس بات کا اعتراف نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بے شمار ایسے دلائل رکھے ہیں جن میں ذرا بھی غور و فکرکیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے کہ اللہ کے خالق اور رب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
یہ بات تو عام ذھن کا انسان بھی معمولی غور و فکر سے جان سکتا ھے کہ اس کائنات کا خالق کوئی انسان نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا جینا مرنا، ہمارے سامنے ہے ۔ یہ دریا ، سمندر، حیوانات، نباتات بھی خالق نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان کا بھی پیدا ہـونا ، فنا ہـونا ہمارے سامنے ہے ۔ سورج ، چاند اور ستارے بھی خالق نہیں ہو سکتے، یہ بھی ایک مقررہ نظام کے تحت گردش کر رہے ہیں ۔ جب اس پوری کائنات میں کوئی بھی چیز خالق اور رب نہیں ہے تو پھر ضرور اس کائنات کے علاوہ کوئی عظیم ہستی ہے جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے اور بے شک وہ اللہ ہی ہے۔ کیونکہ اسی نے یہ فرمایا ہے کہ وہ اِس پوری کائنات کو بنانے والا ہے ، اُسی نے دنیا والوں کے پاس انبیاء و رسول بھیجے ، کتابیں نازل کیں ، نبیوں اور کتابوں سے اپنی ذات کی پہچان کروائی اور یہ پیغام بھیجا کہ سب انسان اُس کی مخلوق ہیں اور ہم سب پر اُس کی عبادت لازم ہے ۔ اور یہ ہی ہماری زندگی کا اولین مقصد ہے ۔ اس مقصد کو پورا کر لیا تو دنیا و آخرت میں کامیابی کو اپنا مقدر بنالیا۔ اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ ساری کائنات بغیر کسی بنانے والے کے بن گئی ہے، خود بخود وجود میں آگئی ہے تو وہ صرف اتنا بتادے کہ مٹی کے تیل کا ایک چراغ بھی خود نہیں جلتا یہ آسمان پر اربوں ستارے خود بخود روشن کیسے ہـوگئے؟ یہاں ایک گلاس بھی خود چل کر نہیں آتا تو زمین سے چشمے خود بخود کیسے بن گئے؟ پھولوں میں رنگ و خوشبو، پھلوں میں ذائقہ اور یہ پوری کائنات کا مقررہ نظام کے تحت چلنا خود بخود کیسے ہـوگیا؟
ارشاد فرمایا گیا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س طلب میں مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو ۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ھیں ۔
’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)
تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ھے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( ملک:۱،۲)
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو کائنات کا سرتاج بنایا ہے بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان ھو اورعملِ صالح پر کاربند ہو، اگر انسان ان صفات کا حامل ھو جائے تو یہ فرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ توحید وعبادت انسان کا وہ بنیادی فریضہ ہے جس کی طرف دعوت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کتابیں اور صحائف نازل فرمائے اور مختلف اوقات و ادوار میں مختلف علاقوں میں انبیا و رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے تاکہ وہ لوگوں کو عبادتِ الٰہی کی طرف تو جہ دلاتے اور اس کی یاد دہانی کرواتے رہیں چنانچہ قرآن کریم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کا درس دیا تھا۔
سورۃ الانبیاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُـوْحِىٓ اِلَيْهِ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ (25)
اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔
سورہ یٰسین میں ارشادِ الٰہی ہے:
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يَا بَنِىٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ (60)
اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
وَاَنِ اعْبُدُوْنِىْ ۚ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ (61)
اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور یہی وہ راستہ ہے جس کی طرف تمام انبیائے کرام ؑ لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزلِ مقصود، یعنی جنت تک پہنچانے والا عمل ہے۔
سورۃ الاعراف میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیسے خطاب فرمایا تھا:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ؕ اِنِّـىٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ (59)
بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
مگر شرک انسان کی عقل کو بالکل ماؤف کر دیتا ہے۔اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رہتی، تب انسان کو ہدایت، گمراہی اور گمراہی، ہدایت نظر آتی ہے، چنانچہ قومِ نوح علیہ السلام کو بھی یہی قلبِ ماہیت ہوئی۔ ان کو حضرت نوح علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف اپنی قوم کو دعوت دے رہے تھے، نعوذ باللہ گمراہ نظر آتے تھے۔
اسی طرح سورۃالاعراف میں ھی قومِ عاد کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام ؑ کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے:
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۚ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (65)
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، سو کیا تم ڈرتے نہیں؟
یہ قومِ عاد جن کی رہائش یمن میں ریتیلے پہاڑوں میں تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بے مثال تھی، ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام جو اس قوم کے ایک فرد تھے، اس قوم کے نبی بن کر آئے۔
اسی سورۃ الاعراف ھی کی آیت73 میں قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُـمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَـةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۖ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّـٰهِ لَكُمْ اٰيَةً ۖ فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِىٓ اَرْضِ اللّـٰهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ (73)
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہیں تمہارے رب کی طرف سے دلیل پہنچ چکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے، اور اسے بری طرح سے ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑے گا۔
سورۃالعنکبوت میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:
وَاِبْـرَاهِيْـمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ وَاتَّقُوْهُ ۖ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (16)
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
سورۂ یٰسین میں اسرائیل کے ایک شخص، جس کا نام مفسرین نے حبیب نجار ذِکر کیا ہے، کے یہ الفاظ منقول ہیں:
وَمَا لِىَ لَآ اَعْبُدُ الَّـذِىْ فَطَرَنِىْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (22)
اور میرے لیے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
آپ اندازہ کریں کہ وہ کتنا نیک اور اﷲ کا عبادت گزار بندہ ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
سورۂ ہود کی ایک آیت میں امتِ مسلمہ کو حکم دیتے ہوئے نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زبانِ مبارک سے فرمایا:
اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّا اللّـٰهَ ۚ اِنَّنِىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْـرٌ (2)
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔
سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا (23)
اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کیساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے جس سے والدین کی اطاعت، ان کی حرمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ، یعنی ربوبیتِ الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعتِ والدین کے تقاضوں کو ادا کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔
سورۃالبقرہ میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وفات کے قریب اپنے بیٹوں سے پوچھا:
اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْۖ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰـهَكَ وَاِلٰـهَ اٰبَآئِكَ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ اِلٰـهًا وَّاحِدًاۚ وَّنَحْنُ لَـهٝ مُسْلِمُوْنَ (133)
کیا تم حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی تب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ واحد ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
سورۃالزمر میں اللہ رب العالمین نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مخاطب ہوکر فرمایا :
اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّـٰهَ مُخْلِصًا لَّـهُ الدِّيْنَ (2)
بے شک ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے پس تو خالص اللہ ہی کی فرمانبرداری مدِ نظر رکھ کر اسی کی عبادت کر
غرض تمام انبیا و رسل علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دی تھی، حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایا اور اپنے پسندیدہ دینِ اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا تو اپنی کتابِ خالد قرآنِ کریم میں یہ اعلان فرما دیا کہ جن و انس کی تخلیق کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رب یعنی پروردگار کی حیثیت سے پہچانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور انسان وجنات کی تخلیق کا مقصدِ حیات ہی عبادت قرار پایا ہے، جیسا کہ سورۃ الذاریات میں ارشادِ الٰہی ہے:اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
ہر انسان جو عاقل وبالغ اور صاحبِ ہوش و خرد ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے، اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور اپنے گریبان میں جھانکے بلکہ اپنے من میں ڈوب کر ’’سراغِ زندگی‘‘ پا جانے کی کوشش کرے اور اس کیلئے اپنے آپ سے پوچھے:٭میں اس دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟٭اس زمین پر میری ڈیوٹی کیا ہے؟٭مجھے ساری کائنات سے ممتاز کیوں بنایا گیا ہے؟
انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے، چاہے مومن ہو یا کافر کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے۔جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔
جب بحیثیت انسان، چاہے مسلم ہو یا کافر، اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری اور فوقیت و امتیاز حاصل ہے تو جب یہی انسان نہ صرف محض کلمہ گو مسلمان بلکہ باعمل مومن ہو تو اپنے ایمان و عمل اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ تمام مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے جس کا واضح ثبوت اسراء و معراجِ مصطفی کی جزئیات پر غور کرنے ہی سے مل جاتا ہے۔انسان اس پوری کائنات کا سرتاج ہے بشرطیکہ یہ انسان، صاحبِ ایمان اور ساتھ ہی ساتھ عملِ صالح پر کاربند ہو، اگر یہ محنت و عبادت کر نے والا ہے تو فرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا۔غرض انسان کو چاہیے کہ اس فوقیت وبرتری اور امتیاز کا سبب تلاش کرے، اپنی تخلیق و پیدائش کا مقصد ڈھونڈے اور اپنی ڈیوٹی و ذمہ داری کا سراغ لگا ئے۔ اہلِ ایمان وعمل کو تو اس کا جواب معلوم ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہر صانع کو اپنی مصنوعات کے بھید معلوم ہوتے ہیں کہ اس نے انھیں اس شکل و صورت میں کیوں تیار کیا ہے؟ انسان کا صانع یا خالق یعنی اس کا پیدا کرنے والا اور اس کے تمام ا مور ومعاملات کی تدبیر کر نے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا آیئے اپنے رب ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ:٭ اے اللہ! تونے اس کو کیوں بنایا؟٭کیا اسے صرف کھا نے پینے کیلئے بنایا گیا ہے ؟ ٭کیا اس کی تخلیق کا مقصد صرف لہو ولعب اور کھیل کود ہی ہے؟٭کیا اسے محض اس لئے وجود میں لایا گیا ہے کہ زمین پر چلے پھر ے اور زمین سے پیدا ہونے والی تمام اشیا کو بے دریغ استعمال کرے اور پھر مر کر مٹی ہو جائے اور قصہ ختم؟۔نہیں، ہر گز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
دورجدید کی حیرت انگیز ایجادات کے منفی استعمال کے باعث بہت سے مسلمان فسق وفجور میں اتنے مبتلا ہوچکے ھیں کہ ان کے پاس عبادت وذکر الٰہی کی فرصت بھی نہ رہی اور اس سنگین صورت حال کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں رزق کی تنگی اور معاشی بد حالی عروج پر ہے اور ہر دوسرا تیسرا شخص اخراجات پورے نہ ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ حدیث قدسی ہے رسول کریم خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے آدم کے بیٹے! تو میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لے، میں تیرے کو مال داری سے بھر دوں گا اور تری محتاجی کو دور کردوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے دل کو دنیا کے دھندوں سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو دور نہ کروں گا۔“(مسند احمد ، الترمذی)
اسی طرح صحیح ابن ماجہ میں حدیث قدسی ہے، فرمان الٰہی ہے”ابن آدم ! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہو جا، تو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور کردوں گا ، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔“
درج بالا حدیث قدسی آنکھیں کھولنے اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے ذریعہ ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ عبادت اور اعمال صالحہ کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے خود کو عبادت ، جو مقصد تخلیق ہے، اس کے لیے فارغ کرنا چاہیے۔ جو ایسا نہیں کرے گا اس کا نقصان بھی یہاں پر بتادیا گیا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں مزید الجھا کے، بے پناہ مشغول کردے گا اور مال کی برکت سلب کر کے محتاجی کے ایسے احساس میں مبتلا کردے گا کہ دولت ہوتے ہوئے ہمیشہ دولت کی کمی اور بھو ک محسوس ہوگی۔ اسی چیز کو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:”جس شخص کی نیت اور اس کا مقصد آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ غنی ومال داری سے اس کے دل کو بھردے گا اور اس کے پرا گندہ حال کو درست کر دے گا اور اس کے پاس دنیا ذلیل ہو کر آئے گی اور جس کی نیت وسعی عمل دنیا طلب کرنا ہوگا تو اللہ تعالیٰ فقر ومحتاجی کو اس کے سامنے کر دے گا، اس کے حال کو پرا گندہ کردے گا اور دنیا سے اس کو اسی قدر ملے گا جس قدر اس کے لیے پہلے سے مقدر ہوچکی ہے۔“(سنن الترمذی، مسند احمد)
قرآن مجید فرقان حمید کی سورة المنافقون آیت 9میں حکم الٰہی ھے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّـٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (9)
اے ایمان والو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا سو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہر کسی کو ہر حال میں وقت نکالنا ہوگا، خواہ وہ کتنا بھی مصروف اور منہمک آدمی کیوں نہ ہو۔ ایسا کرنے سے رب کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور زندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ دنیا کی مختصر زندگی دراصل آخرت کی تیاری کا ایک موقع ہے اور جو دنیاوی مشغولیت کو ہی ترجیح دیتا ہے، اپنی مصروفیات میں سے عبادت کے لیے خود کو فارغ نہیں کرتا ہے، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نا فرمان ہیں۔ انہیں اس نافرمانی کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ رب کی بندگی کے علاوہ کسی کو فرصت کے اوقات نصیب ہوں تو ان کو غنیمت جان کر فائدہ اٹھانا چاہیے، کیوں کہ انسان کی زندگی ختم ہوتی ھے تو وہ دنیا سے اٹھ جاتا ہے اور ایسی دنیا کی طرف کوچ کرجاتا ہے جہاں سے پھر لوٹ کر نہیں آنا۔ یاد رکھیں کہ جوانی، صحت ، مال داری، فرصت اور زندگی کی بڑی اہمیت ہے۔ چناںچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”
: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو،
جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
صحت کو بیماری سے پہلے
مال داری کو محتاجی سے پہلے
فراغت کو مشغولیت سے پہلے
اور زندگی کو موت سے پہلے“۔
بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، باقی دنیا کی تمام چیزیں اس لیے بنائی ہیں کہ بندہ عبادت کے کام میں ان سے مدد حاصل کرے۔ انسانی زندگی کا اصل مقصد صحت بنانا، مال جمع کرنا اور لہو ولعب نہیں۔ اس لیے ہر بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ عبادت الٰہی میں گزارے، اس کی ساری فکر اور پوری سعی اسی مقصد کے لیے ہونی چاہیے ، جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکر وسعی کی برکت سے اس کے تمام معاملات درست اور سارے امور قابل اطمینان رہیں گے۔
اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور باقی معاملات میں وہ آزاد ہے، بلکہ اصل یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ وہ سوتا اس لیے ہے، تاکہ عبادت میں راحت محسوس کرے، وہ کھاتا اس لیے ہے کہ عبادت کے لیے قوت حاصل کرے، وہ کماتا اس لیے ہے کہ اپنی اور اللہ کے بندوں کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرے۔ لہٰذا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ مال کمانے میں اس قدر لگ جائے کہ عبودیت کے اصل مظاہر جیسے نماز ، روزہ وغیرہ میں کوتاہی ہونے لگے، سونے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرے کہ عبادت کا وقت فوت ہوجائے، کھانے کا اس قدر رسیاہو جائے کہ فرائض کو چھوڑدے، ایسا ہو تو بندے نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کھو دیا اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے صحیح راستہ سے بھٹک گیا، نتیجتاً وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا۔
کاش! آج کا مسلمان درج بالا فرمان الٰہی کو سمجھتا اوراپنے مقصد زندگی کو پہچانتا اور دنیا کی حقیقت کو جان لیتا تو اس کے تمام مسائل حل ہوجاتے ، اس کے یہاں بے اطمینانی دور اور محتاجی ختم ہوجاتی اور وہ دنیا میں پر امن وپر سکون زندگی بسر کرتا ۔
یا اللہ! ھم یہ اقرار کرتے ھیں کہ تیرے سوا کوئی پیدا کرنے والا، پالنے پوسنے والا نہیں ہے ۔ توھی معبود برحق ہے۔ توھی اِس ساری کائنات کا تخلیق کار ہے۔ یا اللہ ! ہمیں زندگی کا مقصد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے، ہمارے تقویٰ کو مزید بڑھا دے ، ہمارے ایمان کو روشن کردے اورایمان پر مرمٹنے کا جذبہ عطا فرما دے ۔ (آمیں یا رب العالمین )