حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ھوئے آپ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے خالہ زاد بھائی ہیں، آپ کی ولادت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ھی ہوگئی تھی لیکن انھیں شرف صحابیت حاصل ھوا یا نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ھے اکثر کی رائے یہی ھے کہ آپ کو شرفِ صحابیت حاصل نہیں ھو سکا واللہ عالم !
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورحکومت میں ان کو افریقہ کا گورنر مقررفرمادیا تھا اورانہوں نے افریقہ کے کچھ حصوں کو فتح کرلیا اوربربری لوگ جو اس ملک کے اصلی باشندے تھے ان میں سے بہت سے دامن اسلام میں آگئے ۔ اُن کی بہادری اور حربی معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ ان سے بہت سی کرامات کا ظہور ھوا جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ھے
ایک پکار سے جنگل کے درندے فرار
انہوں نے اس ملک میں اسلامی فوجوں کے لئے ایک چھاؤنی بنانے اور ایک اسلامی شہر آباد کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن اس مقصد کیلئے ماہرین حربیات وعمرانیات نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہاں ایک نہایت ہی خوفناک او رگنجان جنگل تھا جو جنگلی درندوں اورہرقسم کے موذی اورزہریلے حشرات الارض اورجانوروں کا مسکن اور گڑھ تھا ۔ اس موقع پر حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عجیب کرامت کا ظہور ہوا۔
مروی ہے کہ حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس لشکر میں اٹھارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم موجود تھے ۔ آپ نے ان سب مقدس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو جمع فرمایا اوران مبارک ھستیوں کو اپنے ساتھ لے کر اس خوفناک اورگھنے جنگل میں تشریف لے گئے اوربلند آواز سے یہ اعلان فرمایا:”اے جنگل کے درندو!اورموذی جانورو!ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے غلام ہیں اورہم اس جگہ ایک چھاؤنی بنانا چاھتے ھیں اور ساتھ ھی اپنی ایک بستی بسا کر آباد ہونا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب یہاں سے نکل جاؤ ورنہ اس کے بعد ہم تم میں سے جس کو یہاں دیکھیں گے قتل کردیں گے ۔”
اس اعلان کے بعد اس آواز میں اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا تاثیر تھی کہ سب درندوں اورحشرات الارض میں ہل چل مچ گئی اورغول درغول اس جنگل کے جانور جنگل سے نکلنے لگے ۔ شیر اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے ، بھیڑیے اپنے پلوں کو لئے ہوئے، سانپ اپنے سنپولیوں کو کمرسے چمٹائے ہوئے جنگل سے باہر نکلے چلے جا رھے تھے اوریہ ایک ایسا عجیب ہیبت ناک اوردہشت انگیز منظر تھا جو اس سے قبل کھبی نہ دیکھا گیا تھا اور نہ ھی یہ کسی کے وہم وگمان میں تھا کہ ایسا بھی ممکن ھو سکتا ھے غرض پورا جنگل جانوروں سے خالی ہوگیا اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور پورے لشکر نے اس جنگل کوکاٹ کر ۵۰ھ میں ایک فوجی چھاؤنی اور شہر آباد کیا جس کا نام ”قیروان” ہے جو اب بھی موجود ھے یہ شہر اسی لئے مسلمانوں میں بہت زیادہ قابل احترام شمار کیا جاتاہے کہ اس شہر کی آبادکاری میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس ہاتھوں کا بہت زیادہ حصہ ہے اور یہی و جہ ہے کہ ہزاروں جلیل القدرعلماء ومشائخ اس سرزمین کی آغوش خاک سے اٹھے اور پھر اسی مقدس زمین کی آغوش لحد میں دفن ہوکر اس زمین کا خزانہ بن گئے ۔ (معجم البلدان تذکرہ قیروان)
گھوڑے کی ٹاپ سے چشمہ جاری ھونے کی کرامت
حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ کرامت بھی بہت ہی حیرت انگیز اور عبرت خیز ہے کہ افریقہ کے جہادوں میں ایک مرتبہ ان کا لشکر ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں دور دورتک پانی نایاب تھا جب اسلامی لشکر پر پیاس کا بہت زیادہ غلبہ ہو ااورتمام لوگ تشنگی سے مضطرب ہوکر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے تو حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعامانگی ۔ ابھی آپ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ آپ کے گھوڑے نے اپنے کھر سے زمین کو کریدنا شروع کردیا۔ آپ نے اٹھ کر دیکھاتو مٹی ہٹ چکی تھی اورایک پتھر نظر آرہا تھا ۔ آپ نے جیسے ہی اس پتھر کو ہٹایا تو ایک دم اس کے نیچے سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا اور اس قدر پانی بہنے لگا کہ سارالشکر سیراب ہوگیا اور تمام جانوروں نے بھی پیٹ بھر کر پانی پیا اور لشکر کے تمام سپاہیوں نے اپنی اپنی مشکوں کو بھی بھر لیا اور اس چشمہ کو بہتا ہوا چھوڑ کر لشکر آگے روانہ ہوگیا۔
(معجم البلدان تذکر ہ قیروان)۔