حیات وخدمات
یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ بر صغیر میں جتنی اہم اور تاریخ ساز شخصیات نے جنم لیا ان میں بلا شبہہ علمائے دیوبند ھر لحاظ سے سرفہرست ہیں، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کی علمی، دینی، سیاسی، تحریکی اور فکری جدوجہد کے دو ایسے عظیم نام ہیں۔ جن کے تذکرہ کے بغیر اس خطہ کے کسی ملی شعبہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، اور خاص طور پر دینی و سیاسی تحریکات کا کوئی بھی راہنما یا کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ سے ہو ان سے راہنمائی لیے بغیر آزادی کی عظیم جدوجہد کے خدوخال سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا ۔ ساداتِ عظام اور خانوادۂ مدنی میں بہت سی قابلِ ذکر ہستیاں ظہور پذیر ہوئیں ، جو سب کے سب علم و تقویٰ کے حامل تھیں ، لیکن خالقِ کائنات نے اس خاندان پر مزید احسان یہ فرمایا کہ آخری دور میں ایک ایسی عہد ساز، رجال کار شخصیت کو وجود بخشا ، جسے آگے چل کر ایک مجاہدِ جلیل، محدثِ کبیر ، جانشینِ شیخ الہند، خلیفۂ گنگوہی، اور مدرسِ مسجدِ نبوی متعارف ہونا تھا ، یعنی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکت ۔
آپ اگر ایک طرف تقویٰ و طہارت میں شانِ قطبیت رکھتے تھے تو دوسری جانب ارشاد و طریقت میں شانِ مجددیت کے حامل تھے ۔ ایک طرف دریائے علم و عمل کے شناور تھے تو دوسری جانب میدانِ سیاست کے شہسوار بھی تھے۔ نیز ایک طرف اتباعِ سنت، اخلاقِ نبوت، سیرتِ صحابہؓ اور اُسوۂ مشائخ کا سرچشمہ تھے ، تو دوسری جانب جذباتِ حریت، ترقیِ ملت، حبِ وطن ،ہمدردیِ خلقِ خدا ، غمخواریِ نوعِ انسانیت، اور ایثار و قربانی جیسے عمدہ شمائل و خصائل سے سرشار تھے ، اس لیے کہ آپ کا قلب حاملِ شریعت اور عمل تفسیرِ شریعت تھا ، ذکراللہ آپ کی روح ، اتباعِ شریعت آپ کی جان، ایثار آپ کی فطرت، حلم و بردباری آپ کی جبلت ،اور جُود و عطا آپ کی خصلت تھی، مختصر یہ کہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
ولادت و تسمیہ
آپ کی ولادت باسعادت ۱۹ شوال ۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۸ء کو قصبہ بانگرا ناؤ میں ہوئی، آپ کا اسم گرامی’’ حسین احمد‘‘ اور تاریخی نام ’’چراغ محمد‘‘ رکھا گیا۔
شجرۂ نسب
حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سید ہیں۔ آپ کا شجرہ حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتاہے۔ آپکا شجرہ کچھ یوں ہے:
حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سید پیر علی بن سید جہانگیر بخش بن شاہ انور اشرف بن شاہ مدن الیٰ شاہ نور الحق۔
شاہ نور الحق،، مخدوم شاہ سید احمد توختہ تمثال رسول ترمزی جوزجانی لاہورہ کی اولاد میں سے تھے اور وہ سید محمد مدنی المعروف بہ سید ناصر حکیم ترمذی کی اولاد سے تھے اور وہ تاج العارفین سید حسین اصغر بن امام الساجدین زین العابدین ابن امام الشہید کربلا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہم کی اولاد میں سے تھے۔
آغازِ تعلیم
آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار کی زیرِ نگرانی ہوئی، جب پانچ برس کے قریب ہوئے تو آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو قاعدہ بغدادی اور عم پارہ پڑھایا، اور قرآن مجید کے پانچ پارے ان ہی سے پڑھے، گھریلو تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکول کی تعلیم بھی حاصل کی، اس طرح سے کہ اس میں امتیازی پوزیشن حاصل کی، اور جب آپ ۱۳ سال کے ہوئے،تو آپ ۱۳۰۹ھ میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور اپنے بڑے بھائی مولانا صدیق احمد صاحب اور مشفق استاذ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں رہ کر حصولِ علم اور کسبِ فیوض میں منہمک رہے۔ آپ اپنے زمانۂ طالب علمی میں اپنے تمام زملاءِ درس و رفقاءِ زمن میں سب سے لائق و فائق اور ممتاز رہے، اور ہمیشہ امتحانات میں اعلیٰ نمبروں سے فوزیاب اور کامیاب رہے، یہاں تک کہ ساڑھے چھ سال تک تعلیم پاکر علوم و فنون میں بامِ عروج حاصل کرکے ۱۳۱۶ھ میں دارالعلوم سے فارغ ہوئے، اس قلیل عرصہ میں آپ نے ۱۷فنون پر مشتمل درسِ نظامی کی ۶۷کتابیں پڑھیں، علمِ نبوت کے نیرِ اعظم بن کر دارالعلوم کے درودیوار کو منور کیا۔
اتالیق و اساتذہ
زمانۂ طالب علمی میں ہر ایک استاذ کی نظرِ شفقت آپ پر پڑتی تھی، تمام اساتذہ کی دل و جان سے خدمت کرتے تھے، آپ کے اساتذہ میں بطور خاص استاذ الاساتذہ مرجع العلماء شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا عبد العلی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ، مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں ۔
درس وتدریس
دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے، رخصتی کے وقت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایسی نصیحت کی تھی کہ جس کا آپ نے تادمِ زیست اہتمام کیا، وہ یہ کہ ’’پڑھانا ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے ایک دو ہی طالب علم کیوں نہ ہوں۔‘‘ مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا اور کم و بیش چودہ برس مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں خدمتِ درس انجام دیتے رہے، اور اس دوران تین دفعہ ہندوستان کا سفر ہوا، جس میں چار سال صرف ہوئے، پھر شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ مالٹا کی جیل میں اسیر ہوگئے۔ اسارتِ مالٹا سے واپسی کے بعد امروہہ کے مدرسہ جامع مسجد میں تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے، پھر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر کلکتہ کے لیے روانہ ہوگئے ، کراچی کے مشہور مقدمہ تک تدریس میں مشغول رہے، پھر گرفتاری کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک تقریباً چھ سال بنگال میں اور سلہٹ کے جامعہ اسلامیہ میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے پڑھاتے رہے، اس ۳۱ سالہ زمانۂ تدریس میں ہزاروں افراد ( تلامذہ اور مسترشدین) آپ کے فیضِ علمی سے مستفید ہوئے۔
تصوف و طریقت
جب علومِ ظاہری سے آراستہ ہونے کے بعد علومِ باطنی کی فکر دامن گیر ہوگئی، تو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے اظہارِ خیال کیا، تو انہوں نے سید العارفین حضرت مولانا رشید آحمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب رہنمائی فرمائی، تو تعمیلِ حکم میں اُن سے بیعت ہو گئے ، اور روحانی کمالات کا اکتساب کیا، بالآخر ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، پھر اس کے بعد آپ کے وعظ و ارشاد ، بیعت و تلقین کے ذریعے لاکھوں افراد کی اصلاح ہوئی، اور ہزاروں طالبینِ حق اور رہ نوردانِ سلوک و طریقت آپ کے روحانی و باطنی کمالات و ملکات سے فیض یاب و سیراب ہوئے، ۱۶۷ حضرات آپ کی طرف سے اجازت و بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے :
تحریکِ آزادی میں خدمات
آپ نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں تحریکِ ریشمی رومال، تحریکِ خلافت اور جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے قائدانہ کردار ادا کیا، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ملّی قیادت کا فریضہ انجام دیا اور ان کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اور حصولِ آزادی کی خاطر چار بار قید و بند کی آزمائش سے ہمکنار ہوئے اور تقریباً ساڑھے سات سال اسیرِ فرنگ رہے۔ آپ نے آزادی کے لیے جہاں بےشمار قربانیاں دیں اور کوششیں کیں، ان سب میں آپ کی بنیادی فکر یہ رہی کہ آپس میں اختلاف نہ ہو، ملک کے اس وفادار اور جانباز سپاہی نے جب سے حصولِ آزادی کے لیے جد وجہد کی زمام کو تھاما، تب ہی سے ملک میں بسنے والے تمام طبقات اور جماعتوں کے مابین تشدد واختلاف اور تفریق وامتیاز کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ،اور ہر اعتبار سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمہوریت، اور اتحاد ویکجہتی کا وہ سنہرا درس دیا، جو ناقابلِ فراموش ہے اور کسی دیدہ ور سے مخفی بھی نہیں، نیز تمام برادرانِ وطن کے سامنے اپنی اس فکر کا اظہار بےدریغ الفاظ میں کرتے ہوئے کہا :
’’ ہندوستان کبھی بھی سیاسی اور ملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا ہے، اس کی حکومتیں مسلم حکمرانوں کے زیرِ اثر رہی ہوں یا ہندو فرمانرواؤں کے زیرِ نگیں، کبھی بھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوسکیں۔‘‘
(شیخ الاسلام ایک سیاسی مطالعہ)
آپ کی یہ جمہوری فکر یہیں پر تام نہیں ہوتی، بلکہ تحریکِ آزادی کی شبانہ روز جدوجہد کوجمہوری رنگ وروغن سے آشنا کرنے کے لیے ۱۹۴۵ء میں سہارنپور کی سرزمین سے تمام طبقات کو اُخوت وبھائی چارگی اور جمہوریت کا درس ان الفاظ میں دیتے ہوئے کہا :
’’میرے محترم! وطن اور ابنائے وطن کی بربادی اور اس کے اسباب کسی خاص مذہب، کسی خاص برادری، کسی خاص شخص تک محدود نہیں ہوسکتے، وطن اور ملک کی بربادی جملہ ساکنینِ ملک کو برباد کرے گی اور کررہی ہے، ناؤ ڈوبتی ہے تو اس کے تمام سوار ڈوبتے ہیں، گاؤں میں آگ لگتی ہے تو سبھی گھر جلتے ہیں، اسی طرح یہ غلامی ومحکومیت جملہ اہلِ وطن کو موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے، کیا اس میں فقط ہندو مرے، یا فقط مسلمان مرے؟ نہیں، سبھوں کی بربادی ہوئی، ایسے وقت میں ہر ادنیٰ سمجھ والا بھی اپنے داخلی وخارجی جھگڑوں کو چھوڑکر ضروری سمجھتا ہے کہ مصیبتِ عامہ کو سب سے پہلے زائل کردینا چاہیے، اس وقت تک چین نہ لینا چاہیے اور نہ اپنے داخلی وخارجی جزئی جھگڑوں کو چھیڑنا چاہیے، جب تک یہ مصیبت نہ ٹل جائے۔‘‘
حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے سوانحی اوراق میں موجود یکجہتی اور جمہوری فکر کی بابت آپ کا قرآن پاک سے یہ لطیف استدلال آج بھی ہمارے لیے خضرِ طریق کی حیثیت رکھتا ہے کہ:
وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّـٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْۚ لَا تَعْلَمُوْنَـهُـمُ اللّـٰهُ يَعْلَمُهُـمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُـمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (60)
اور ان سے لڑنے کے لیے جو کچھ قوت سے اور صحت مند گھوڑوں سے جمع کرسکو سو تیار رکھو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کے سوا دوسروں پر رعب پڑے، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے، اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے تمہیں (اس کا ثواب) پورا ملے گا اور تم سے بے انصافی نہیں ہوگی۔
یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ مسلمانانِ ہند کے لیے اتحاد ضروری ہے، کیونکہ وہ فوج جس کے ذریعہ ہم دشمن کو لڑاسکتے ہیں اور اس کے پتھریلے دماغ کو پگھلاسکتے ہیں، وہ اہلِ ہند کے لیے ظاہری حیثیت سے اتحادِ ہند ومسلم اور صرف اتحادِ ہند ومسلم ہے، اس لیے یہ اتحاد اور قومی یکجہتی مذہبی حیثیت سے جائز ہی نہیں، بلکہ ضروری بھی ہوگا۔
(حیاتِ شیخ الاسلام)
مالٹا میں قید
شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا تو ان کے ہمراہ چار شاگرد و ان کے قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا وحید احمد مدنیؒ ، مولانا عزیزگل پیشاوری ؒ اور سید حکیم نصرت حسین مالٹا بھی تھے۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا انگریزی گورنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا جان تو چلی جائے گی مگر آپکی خدمت سے جدا نہیں ہوں گے۔
حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور ان کی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبر و شکر کیساتھ جھیل رہے تھے۔
ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط میں کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجہ چاہیے تھا۔
جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد کل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔
مالٹا کی قید کے دوران حفظِ قرآن مجید
حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے مالٹا کی قید کے دوران میں 10 ماہ میں قرآن مجید یاد کرکے حضرت محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کو تراویح کے بعد نوافل میں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح نصف جمادی الاول سے یاد کرنا شروع کیا اور ربیع الاول میں پورا یاد کر کے محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کو اگلے رمضان میں سنادیا۔ اس دوران میں والد کی وفات اور دیگر کنبہ کی موت کی خبر نے بہت گہرا صدمہ و دکھ پہنچایا۔
آزادی کے معرکے میں سیاسی طریقہٴ کار
انگریزوں سے مقابلے میں تشدد اور مقابلہ بالسیف (سلطان ٹیپو، سراج الدولہ اور ۱۷۵۷/ سے ۱۸۵۷/ پھر اُس کے بعد قریبی زمانے میں معرکہٴ شاملی، نیز حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ اورآپ کے برسوں بعد سبھاش چند بوس) سب کا تجربہ ناکام ثابت ہوچکا تھا۔ ۱۹۲۰/ میں مالٹا سے واپسی کے بعد حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے ایک ہوشیار تجربے کار جرنیل کی طرح میدان جنگ کا نقشہ اور جنگ کی ٹیکنک بدل دی، اب آپ نے ملک میں سرگرم سیاسی پروگرام عدم تشدد، خلافت اور کانگریس کی پالیسی کو اپنالیا، چنانچہ ہندومسلم اتحاد، ترکِ موالات، بائیکاٹ، عدم تعاون فوج میں شرکت سے ہندوستانیوں کو روکنا، مغربی مصنوعات کی جگہ دیسی مصنوعات کا استعمال یہ موٹے موٹے عنوانات اور افعال تھے جو ہندوستان ک ماحول میں شدّت سے رائج تھے اور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے اسے اپنالیا اور پھر پورے اذعان ویقین کے ساتھ استحکام ومضبوطی سے اس پر قائم رہے۔ یوں تو حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی خدمات آپ کی شخصیت آپ کی خصوصیت کے مختلف پہلو ہیں، ہر پہلو پر تصنیف کی کئی کئی جلدوں میں گفتگو ہوسکتی ہے، حدیث وقرآن کے عالم اس کے معانی ومطالب کے رمز آشنا، ازہرہند دارالعلوم کے شیخ الحدیث، روحانیت میں پیر طریقت اور رئیس الاولیا، ریشمی رومال تحریک کے اہم سپاہی، مہمان نوازی، اخلاق، اخلاص تحریک خلافت کے داعی اعظم، ہندومسلم اتحاد کے مضبوط حامی وداعی وغیرہ وغیرہ سیکڑوں ابواب ہیں، ہم ان میں سے چند اہم کی طرف اشارہ کرکے خدمات عالی میں نذرِ عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔
جمعیة علماء ہند
جو جمعیة علماء ھند کی کسی حیثیت سے بھی خدمت کرے گا ان شاء اللہ اللہ تعالی کے ھاں اجر کا مستحق ہوگا
(حضرت حسین آحمد مدنی )
حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی تمام سرگرمیوں، عملی سیاست، اصلاح وتبلیغ کا مرکزی اسٹیج مسلمانوں کی تاریخی جماعت، جمعیة علماء ہند تھی، اس جماعت کی سرپرستی قیادت بطور صدر حضرت ہی انجام دیتے رہے، جمعیة علماء اپنے زمانے میں ملک کے بعض اہم معاملات میں صحیح فیصلہ لینے میں کانگریس کو اور دوسری تنظیموں کو پیچھے چھوڑ چکی تھی؛ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کانگریس اور دوسری جماعتیں حکومت برطانیہ سے محض رعایتیں مانگ رہی تھیں، گفت وشنید اور اصلاحات کی طلب گار تھیں، بوریہ نشین علماء کی اس جماعت نے جس کے رہبر، قائد اور پالیسی میکر صدر حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ تھے، آگے بڑھ کر ببانگ دُہل ”آزادیٴ کامل“ کا مطالبہ کیا، یاد رہے جمعیة علماء ھند نے ۱۹۲۶/ میں یہ انقلابی اعلان کردیا تھا؛ جبکہ کانگریس نے ۱۹۲۹/ میں یہ تجویز پاس کی، جمعیة کو یہ تقدم بھی حاصل ہے کہ اس کے ایک فرزند ملک کے شعلہ جوالہ انقلابی لیڈر مولانا حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۲۱/ ہی میں احمد آباد کانفرنس میں قصربرطانیہ میں یہ صور پھونک دیا تھا، واضح رہے کہ جناب حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ جمعیة علماء کی مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) کے ممبر اور جمعیة کے رہبر اعظم حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے وفادار تلمیذ وسپاہی مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی ہندوستان سے باہر حکومت موقتہ کے ہندوستانی ممبرتھے، اس طرح اس انقلابی اعلان کی اس اوّلیت کا اعزاز بھی جمعیة ہی کو حاصل ہے۔ حضرت مدنی کے سیاسی فیصلوں اور رجحان کے مطابق ہمیشہ جمعیة متحدہ قومیت کی شدّت سے حامی رہی۔
آزادی کے بعد کے حالات اور عمر بھر کی تگ ودو کا یہ نتیجہ دیکھ کر ملک میں خون کی ندیاں بہہ گئیں، اپنی قوم مایوسی اور قنوطیت کا شکار تھی اُسے آزاد ملک میں جینے کا حق بھی نہ مل سکا، بقول فیض احمد فیض مرحوم۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
ان حالات نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو مغموم ودل شکستہ کردیا تھا، یہ داستان بہت طویل ہوجائے گی کلیجہ خون بن کر آنسو کی جگہ آنکھوں سے بہنے لگے گا، بہتر ہے حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ایک مختصر، دل سوز بیان سے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھادیا جائے۔ فرمایا: ”ہماری اسکیم فیل ہوگئی، ہماری کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی؛ اگر مسلمان ہماری بات مان لیتے تو یہ تبادلہٴ آبادی نہ ہوتا اور یہ خون کی ندیاں نہ بہتیں۔“
(شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، - فرید الوحیدی)
اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری
حکیم ضیاء الدین نبیان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا فراغت تدفین کے کچھ دیر بعد آپ نے دارالحدیث کا رخ کیا۔ مجمع میں ہل چل مچ گئی تمام عمائدین نے سمجھایا کہ صدمہ بالکل تازہ ہے اور اس سے دل و دماغ کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ مگر آپ نے دارالحدیث میں پہنچ کر بخاری شریف کا درس شروع کر دیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ جاکر سمجھانے کی کوشش کی تو جواب دیا کہ: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اطمینان قلب اور کس چیز سے حاصل ہو سکتا ہے؟
حلیہ اور وضع قطع
’’آپ جسمانی صفتوں کے اعتبار سے اچھے درمیانہ قد کے تھے، پیشانی چوڑی اور کشادہ اور آنکھیں بڑی بڑی اور سیاہ ، ناک نہ زیادہ اُٹھی ہوئی اور نہ زیادہ لمبی ، بلکہ متوسط ، اور گندمی رنگ اور ہنس مکھ چہرے کے مالک تھے، نیز جسم مضبوط اور سینہ نہایت چوڑا تھا ، فطرۃً قوی، باوقار، با ہیبت، لیکن بگڑے یا سخت چہرہ والے نہ تھے ۔‘‘ ( ایک ہفتہ شیخ الہند کے دیش میں )
ازواج و اولاد
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے معاصرین میں جہاں بےشمار امتیازات و خصوصیات حاصل ہیں، تو وہیں یہ بھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں کل چار نکاح کیے: چنانچہ آپ کا پہلا نکاح موضع قتال پور ضلع اعظم گڑھ میں ہوا ،جن سے دو لڑکیاں ہوئیں، ایک کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا، اور جب آپ مالٹا میں اسیر ہوئے،تو آپ کے اہلِ وعیال ملکِ شام منتقل ہوگئے، وہیں پر دوسری بیٹی آسودۂ خاک ہوگئی ۔آپ کا دوسرا نکاح قصبہ بچھرایوں ضلع مرادآباد میں ہوا، ان سے دو صاحبزادے ہوئے : اخلاق احمد اور اشفاق احمد ، لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پہلا آٹھ سال اور دوسرا ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا، اور اہلیہ محترمہ کا بھی مدینہ منورہ میں ہی وصال ہوگیا۔پھر آپ نے دوسری اہلیہ کے انتقال کے بعد انہی کی چھوٹی بہن سے نکاح کیا، جن سے حضرت مولانا سید اسعد مدنی اور ایک صاحبزادی ہوئی، پھر قیامِ سلہٹ کے زمانہ میں صاحبزادی بھی جاں بحق ہوگئی ، حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی والدہ ماجدہ بھی ۱۳۵۵ھ میں دیوبند میں مالکِ حقیقی سے جا ملیں ۔ پھر اس کے بعد آپ کی چوتھی شادی اپنے چچازاد بھائی کی منجھلی صاحبزادی سے ہوئی، جن سے حضرت مولانا محمد ارشد مدنی دامت برکاتہم ، اور مولانا اسجد مدنی اور پانچ صاحبزادیاں ہوئیں۔
آپ کی چند مشہور اور اہم تصانیف
۱:-نقشِ حیات ۲جلدیں (خود نوشت سوانح)،
۲:-سفرنامۂ شیخ الہند،
۳:-الشہاب الثاقب،
۴:-مکتوباتِ شیخ الاسلام،
۵:-متحدہ قومیت،
۶:-الخلیفۃ المہدي في الأحادیث الصحیحۃ، وغیرہ۔
سیرت و اخلاق
ڈاکٹر عبد الرّحمان شاجہان پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم عمل کی دنیا میں عظیم الشان شخصیات کے ناموں کے ساتھ مختلف خصائل و کمالات کی تصویریں ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتی ہیں، لیکن مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا نام زبان پر آتا ہے تو ایک کامل درجے کی اسلامی زندگی اپنے ذہن و فکر ، علم اور اخلاق و سیرت کے تمام خصائل و کمالات اور محاسن و مھامد کے ساتھ تصویر میں ابھرتی اور ذہن کے پردوں پر نقش ہوجاتی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے؟ تو میں پورے یقین اور قلب کے کامل اطمینان کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو دیکھ لیجئے، اگر چہ یہ ایک قطعی اور آخری جواب ہے ، لیکن میں جانتا ہون کہ اس جواب کو عملی جواب تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان حضرات کا قلب اس جواب سے مطمئن نہیں ہو سکتا جنہوں نے اپنی دور افتادگی و عدم مطالعہ کی وجہ سے یا قریب ہوکر بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ،یا اس وجہ سے کہ کسی خاص ذوق و مسلک کے شغف و انہماک ، یا بعض تعصبات نے انکی نظروں کے آگے پردے ڈال دیئے تھے اور وہ حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کی رفعتوں ، سیرت کی دل ربائیوں اور علم و عمل کی جامعیت کبریٰ کو محسوس نہ کرسکے تھے اور انکے مقام کی بلندیوں کا اندازہ نہ لگا سکے تھے۔
یتیموں کی سرپرستی اور صلہ رحمی
مولانا فرید الوحیدی رحمۃ اللہ علیہ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے ان کی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے اپنی جیب سے گھر تعمیر کروایا۔ بھتیجے کی وفات کے بعد ان کی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اس کی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔
مستحقین کی خبر گیری
مولانا نجم الدین اصلاحیؒ تحریر کرتے ہیں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے سخاوت کا دریا بہتا رہا اور فیاضی کا سمندر موجزن رہا۔ کا محبوب مشغلہ ہی یہی تھا کہ دولت کو اللہ کے راستہ مین لتایا جائے اور نادار لوگوں کی ضروریوت پوری کی جائیں۔
طلبا کی ایک جماعت ایسی بھی تھی جس کی آپ مدد کیا کرتے تھے۔ میرے ہی کمرے میں ایک صاحب رہتے تھے جنہیں اصولا مدرسہ سے کھانا نہیں ملتا تھا میں نے ایک دن پوچھ لیا تا کہا کہ حضرت مدنی انتظام فرما دیتے ہیں۔
ایک مرتبہ آپ کی خدنت میں حاضر تھا دیگر حاضرین کی کافی تعداد تھی۔ عرضیاں پیش کی جارہی تھیں ایک طالب علم کی عرضی کو غور سے پڑھا پھر اسکے بعد دریافت کیا کہ تمہارے گھر تک سفر کا کرایہ کتنا ہے۔ اس نے کہا 15 روپے۔ پوچھا تمہارے پاس کتنے ہیں یا بالکل نہیں ہیں؟ اس نے جواب دیا 7 روپے، پھر نے جیب سے اسے 8 روپے عنایت کیئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سال بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا
مولانا عبد الحق مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کے لوگ سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحری کو بھی نہ آپ کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کے لیے کوئی خبر آئی؟ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے بات ٹالنے کی بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چاہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اٹھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا
وفاتِ حسرتِ آیات
حضرت مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۱۷ء سے ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ء تک کی اس چالیس سالہ مدت میں اُمت کی بےلوث اور بےنظیر خدمات سرانجام دیں، بالآخر ۱۳؍جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ ( ۵؍ دسمبر ۱۹۵۷ء) کو دستورِ خداوندی کے مطابق علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ آفتاب عالم تاب دیوبند کے اُفق پر غروب ہوگیا، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔ہزاروں عقیدت مندوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی، اور قبرستانِ قاسمی دیوبند میں تدفین عمل میں آئی ۔
پروردگارِ عالم ہمیں بھی حضرت کے علوم ومعارف کا کچھ حصہ نصیب فرمائیں اور اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں،
آمین یا رب العالمین