اُخروی زندگی کا پہلا مرحلہ اور قبر کا اِمتحانی پرچہ


یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ

ترجمہ: ''اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘

(سورہ ابراھیم)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا  یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ''اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔

(صحیح مسلم )

قبر عالمِ آخرت کا پہلا سٹاپ ہے جسے عالمِ برزخ بھی کہا جاتا ھے ۔ اس کے بارے میں سیدنا حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ.

قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔   (ترمذي،  طبراني)


جب ابن آدم مر جاتا ھے اور اس کی روح نکل جاتی ھے اور اسے قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ اس وقت آخرت کے سب سے پہلے مرحلے میں ہوتا ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۔ روایت میں ھے کہ  حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ان کی داڑھی مبارک بھیگ جاتی تھی جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ جنت اور جہنم کے ذکر سے تو اتنا نہیں روتے جتنا قبر کے ذکر سے روتے ہیں تو وہ فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے جو اس سے نجات پا گیا اس کے لۓ باقی منازل بھی آسان ہیں اور اگر اس سے نہ بچ سکا تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی سخت ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں نے کوئی منظر نہیں دیکھا مگر قبر اس سے بھی زیادہ خطرناک اور گھبراہٹ میں ڈالنے والی ہے ۔

  (ترمزی ، ابن ماجہ اور صحیح الجامع )

قبر میں ھر شخص کے پاس دو فرشتے آئیں گے اور وہ اس سے اس کے متعلق پوچھیں گے کہ وہ دنیا میں اپنے رب اور دین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا ایمان رکھتا تھا اگر تو اس نے صحیح  جواب دیا تو یہ اس کے لۓ بہتر ہو گا اور اگر صحیح  جواب نہ دے سکا تو وہ اسے بہت سخت اور شدید قسم کی مار ماریں گے ۔ اگر تو وہ اچھے لوگوں میں سے ہو گا تو فرشتے اس کے پاس چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ آئیں گے اور اگر فسادی لوگوں میں سے ہوا تو فرشتے اس کے پاس سیاہ چہرے لے کر آئیں گے اور یہی وہ فتنہ ہے جس کے ساتھ اس کی آزمائش ہو گی ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے ( اے اللہ میں سستی اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قرض اور گناہ سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میں عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قبر کے فتنہ اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور فقراء اور غناء کے شریر فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ شر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو ڈال اور میرے دل کو گناہوں سے ایسے پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری پیدا کر دے جس طرح تو نے مشرق ومغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے  (صحیح بخاری )

اب رہا یہ سوال کہ وہ کون سے تین سوالات  ہیں جو کہ فرشتے قبر میں مردے سے پوچھیں گے تو  ذیل میں اسے مختصراً بیان کیا جاتا ہے ۔


قبر کا پہلا سوال


سوال: من ربك - تيرا رب كون هے؟ 

جواب: ربي الله - ميرا رب الله هے

درآصل إس سوال کے جواب  كا تعلق  خالصتاً دل كے إيمان ويقين سے هے  جس کے لئے ہمحنت اسی زندگی میں ھونی ھے جیسا کہ كلمه طیبہ ھمیں تمام مخلوق كي نفي كركے إيك الله كي دعوت ديتا هے يعنی الله تعالى سے سب كچھ هونے اور الله تعالى كے غير سے الله تعالى كي مشيت كے بغير كچھ بهي نه هونے كا يقين همارے دلوں ميں آجائے يعني يه كه همارے دل كا يقين درست هوجائے حديث مباركه كا مفهوم هے كه تمهارے بدن ميں گوشت كا إيک لوتهڑا هے اگر وه صحيح رها تو تمام بدن صحيح رهے گا اور اگر وه خراب هوگيا تو تمام بدن خراب هو جائے گا گوشت كا وه لوتهڑا دل هے تو اگر دل كا يقين درست هو جائے تو پهر بدن كے أعمال بهي درست هوجائيں گے اور اگر دل كا يقين درست نه هوا تو پهرأعمال كا درست هونا بهي ناممكن هوگا تو همارا دل كا يقين درست هوجائے يعني يه يقين هو كه اگر تمام مخلوقات مل كر بھی هميں كوئى نفع دينا چاهيے ليكن اگر الله تعالى نه چاهيے تو وه إيسا كرنے كي قدرت نهيں ركهتي - إسي طرح اگر تمام مخلوقات هميں نقصان پهنچانے پر آكٹهي هوجائيں اور الله تعالى نه چاهيے تو وه نقصان نهيں پہنچا سكتيں تو گویا ھر قسم  كي مخلوق كي نفي كركے صرف الله تعالى پر يقين آجائے كه وهي همارا خالق هے وهي همارا مالك هے وهي همارا رازق هے وه سب كچھ كے بغير سب كچھ كرنے پر قادر هے اور مخلوق اس كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں كرسكتي زندگي اور موت كا مالك وه تنها الله هے عزت اور ذلت صرف وهي ديتا هے نفع و نقصان اس كے هاتھ ميں هے وه جب چاهے عزت كے نقشوں ميں ذليل كردے اور ذلالت كے نقشوں ميں عزت دے دے وه چاهے تو نمرود كو تخت پر بٹها كر جوتے مروا دے اور وه چاهے تو حضرت إبراهيم عليه السلام كے لئے آگ كو گلزار بنا دے ۔ وه جب چاهے تو دريا ميں سے حضرت موسى عليه السلام اور ان كي قوم كو راسته بنا دے اور وه جب چاهے تو اسي دريا ميں فرعون اوراس كي فوج كو غرق كر دے وه جب چاهے لاٹهي كو سانپ بنا دے اور جب چاهے سانپ كو لاٹهي بنا دے يه سب كچهـ الله كے هاتهـ ميں هے مختصراً يه كه الله تعالى جو چاهے جب چاهے جيسے چاهے كرنے پر قدرت ركهتا هے كوئى بهي دوسرا اس كي قدرت ميں شريك نهيں وہ * كن* كهتا هے تو *فيكون* هوجاتا هے كائنات كا سارا نظام صرف إيك الله كے هاتهـ ميں هے۔ 

الله تعالى صمد هيں صمد أس ذات كو كهتے هيں جو كسي بهي كام كے لئے كسي كا محتاج نه هو اور باقي تمام هر كام ميں اس كے محتاج هوں اور مخلوق كا مطلب يه هے كه وه هر كام ميں اپنے خالق و مالك ( يعني الله تعالى ) كي محتاج هے۔ المختصر يه كه قبر کے پہلے سوال کے جواب کے لئے ھم نے اسی دنیا میں پریکٹس کرکے  دل كے يقين كو درست كرنا ھے۔  تو همارے دل كا يقين درست هو جائے اور يه بات دل ميں پكي هوجائے كه جو كچھ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں هوتا يعني مخلوق كے چاهنے سے كچھ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هر صورت هوكر رهتا  ھے سو جو لوگ یہ یقین لے کر قبر میں جائیں گے تو وہ اس سوال کا جواب آسانی کے ساتھ دینے میں کامیاب ھو جائیں گے ۔ 

قبر آخرت كي منزلوں ميں پہلی منزل هے جس كے بارے ميں ارشادِ نبوي صلى الله عليه وآله وسلم  هے كه قبر يا تو جنت كا إيك ٹكڑا هے يا جهنم كا إيك گڑها - يه بهي حقيقت هے جو قبر كے إمتحان ميں كامياب هوگيا وه إن شاء الله باقي منزلوں ميں بهي كامياب هوتا چلا جائے گا . قبر ميں منكر ونكير كے سوالات كا سامنا هر شخص كو كرنا هے ان كے سوالات ميں پہلا سوال جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا إسي يقين كے بارے ميں هوگا

تو جس شخص نے إيك الله كا يقين إس دنيا ميں اپنے دل میں جمايا  ھوا هوگا وه فوراً جواب دے گا " ربي الله " يعني ميرا رب إيك الله هے اور جس شخص كا يقين الله كي بجائے دكان پر هوگا يا كاروبار پر هوگا يا ملازمت يا زمينداري پر هوگا يا سياست پر هوگا يا وزارت پر هوگا يا صدارت پر هوگا تو يه شخص "من ربك" كا جواب "ربي الله " دينے پر قادر نهيں هوگا كيونكه وهاں پر تو صرف اسي بات كو هي قبول كيا جائے گا جس كا دل میں  يقين وه لے كر گیا ھو گا “رب “ کا صحيح يقين لے كر إس دنيا سے جانا هميشه هميشه كي كاميابي كي دليل هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ O

نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآَخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ *

نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ O


بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے

ہم دنيا كي زندگانی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں یہاں جنّت میں تمہارے لئے وہ تمام چیزیں فراہم ہیں جن کے لئے تمہارا دل چاہتا ہے اور جنہیں تم طلب کرو گے

یہ بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پروردگار کی طرف سے تمہاری ضیافت کا سامان ہے

ايك دوسرے مقام پر ارشاد خداوندي هے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 0

بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے تو انهيں (قيامت كے دن) نه كوئي خوف هوگا اور نه هي وه غمگين هوں گے

اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے - آمین یا رب العالمین


قبر کا دوسرا سوال

سوال: ما دینک- تيرا دین کیا هے؟ 

جواب: دینی الاسلام - ميرا دین اسلام هے

اس سوال کا جواب درآصل اس کی گزاری ھوئی دنیاوی زندگی ھے کہ وہ دنیا میں کون سے طریقوں کو پسند کرتا رھا اور کون سے طریقے اپنا کر زندگی گزارتا رھا  اگر تو وہ اسلام کے طریقوں کو دل سے پسند کرتا تھا اور ان کو اپنانے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا رھا تھا اور اسلام کے سنہری آصولوں پر کسی دوسرے آصولوں کو فوقیت نہیں دیتا تھا  اور اسلام میں ھی اپنی کامیابی کا یقین رکھتا تھا  تو پھر وہ اس سوال کا جواب بآسانی دے سکے گا اور اگر زندگی میں اسلام کے آصولوں کو پس پشت ڈال کر  غیروں کے آصولوں  کو پسند کرتا رھا انہی کو اپناتا رھا انہیں میں کامیابی ڈھونڈتا رھا تو پھر معاملہ اس کے برعکس ھوگا۔ یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اللہ کے دربار میں صرف یہی مذھب قابل قبول ھوگا  اس کی تعلیمات کائنات انسانی کے لئے یکسر رحمت ومحبت ہے۔ جس کی اساس و بنیاد ایسے مضبوط و محکم اصولوں پر قائم ہے، جن کی صداقت دن کے اجالوں کی طرح روشن و عیاں ہے۔ اسلام صرف ایک سماجی حیثیت ھی نہیں رکھتا بلکہ اس سے بھی بلند تر عقائد و اعمال پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو حیات بعد الممات کی بنیادوں پر کائنات انسانی کو رشدوہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور معاش و معاد دونوں کی فلاح و بہتری کا پیغام سناتا ہے۔ آخر اس سچائی سے کون ذی عقل اور ہوش مند انکار کرسکتا ہے کہ انسانیت ترقی وبلندی کی معراج پر اسی وقت رسائی حاصل کرسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ تصور یقین محکم کی حیثیت اختیار کرلے کہ ذات واحد کے سوا عالم ہست و بود میں کوئی قابل پرتش نہیں، وجود و بقا، حیات وموت، عزت و ذلت، تربیت و ربوبیت، پروردگاری و پالنہاری وغیرہ سب صرف اور صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس سچائی کے منکشف ہوجانے کے بعد ایک دوسری حقیقت خود بخود نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ جب انسان کی زندگی ایک سب سے بلند وبالاتر طاقت کے قبضہ میں ہے تو بلاشبہ اسی بلند طاقت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ انسان کو یہ ہدایت اور رہنمائی دے کہ کس راہ پر چل کر وہ انسانی دنیا میں ایک سچا انسان اور خلق خدا کے لئے صحیح معنوں میں رحمت و رأفت کا پیکر بن سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر معراجِ انسانیت کے رتبہٴ عالی و مرتبہٴ سعادت تک پہنچنے کیلئے کونساراستہ سیدھا ودرست ہے؟ اس بات کو آشکارا کرنے کیلئے ارشاد فرمایا گیا

ربُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہ ثُمَّ ہَدَیٰ“ 

ہمارا رب ہی وہ ہے جس نے ہر چیز کو وجود عطا کیا پھر ہدایت و رہنمائی سے نوازا۔

اس لئے زندگی کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے ہم اپنی دنیوی ترقی اور معاشی سرافرازی کی جدوجہد کے ساتھ خداے وحدہ لاشریک لہ کے بتائے ہوئے نظام حیات (اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ“ (یقینا اللہ کا مقرر کردہ دین اسلام ہی ہے) کی تعلیم و تحصیل سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل اور بے پرواہ نہ ہوں تاکہ آنے والے دنوں میں ہمیں افسوس نہ ہو کہ ”یک لمحہ غافل بودم وصدسالہ راہم دورشد“

اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ ہمارے ملک  کا نظام حکومت جمہوری ولادینی ہے (یعنی ریاست کسی فرد کی مذہبی دینی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے گی) اس لئے خدائی نظام حیات سے آشنا اور بہرہ ور ہونے کے لئے من حیث القوم ہر ہر فرد پر یہ اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اگلی نسلوں کی فلاح و صلاح اور اسے خدائی نظام حیات دین اسلام سے وابستہ وپیوستہ رکھنے کے لئے مذہبی بنیادی تعلیم کا بار خود اپنے کاندھوں پر اٹھائے تاکہ کم سنی کے یہ نقوش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے لوح قلب پر ثبت رہیں اور زندگی کے میدانوں میں رواں دواں رہتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے دین کا دامن نہ چھوٹے۔ دین سے بھی وابستگی ہمارے ملی وجود اور انسانی دنیا میں ہمارے تشخص و امتیاز کا واحد ذریعہ ہے خدانخواستہ اگر ہمارے ہاتھوں سے دین کا دامن چھوٹ گیا تو پھر صحراؤں کے ذرات کی طرح بکھر کر دنیا کے نقشہ سے بے نام و نمود ہوجائیں گے۔

اس دنیا میں اگر کچھ لوگوں کو اسلامی  تعلیم کے نام سے الرجی ہوتی ہے تو ہونے دیجئے۔ تاریخ بارہا اس سچائی کو واضح کرچکی ہے کہ انسانیت کے باہمی تعاون و اشتراک اور صحیح معنوں میں اخوت انسانی و مساوات کا داعی ہر دور میں یہی اسلامی تعلیمات ثابت ہوئیں، اور یہی نہیں بلکہ بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ اسلامی عدم ثقافت سے آشنا ہوگا اسی قدر اس کے دل میں اپنے وطن اور وطن میں بسنے والوں کی محبت، خدمت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں خود جنگ آزادی کی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اخلاص وطن کی جدوجہد میں اسلامی علوم کے حاملین علماء حق نے جس بڑی تعداد کے ساتھ خود کو اور اپنے ماننے والوں کو دار و رسن کے لئے پیش کیا اور باہمی تعاون و اشتراک کا جو بلند کردار پیش کیا مذہب سے ناآشنا زندگی اس بے لوث کردار و عمل کا مقابلہ نہیں کرسکی۔

اس دنیامیں روٹی کا مسئلہ لاریب ایک مسئلہ ہے جس سے مشرق و مغرب کی فضائیں پرشور ہیں، دینی علوم ومذہبی افکار کے بغیر اسے بھی اطمینان بخش طریقہ پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ جو قومیں روٹی کے اس مسئلہ کو خدائی نظام معیشت سے بے نیاز ہوکر سلجھانا چاہتی ہیں وہ کس طرح کے تضاد اور کشمکش کی شکار ہیں ارباب علم و بصیرت سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے بہرحال ہم جب اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اسلامی تعلیم کی حفاظت و اشاعت ہمارا ایک عظیم مقصد ہونا چاہئے، اور اس بارے میں کتاب وسنت نے جو فرائض ہمارے ذمہ کئے ہیں اگر ہم انہیں انجام دینا شروع کردیں تو  قبر کا دوسرا سوال ھمارے لئے آسان ھو گا اور ہمارا مستقبل ہرخطرہ سے محفوظ ہوجائیگا۔

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

قُو اَنْفُسَکم واَہَلِیْکُم نارًا“ 

اے مسلمانوں تم (اعمال صالحہ کے ذریعہ) اپنے آپ کو اور (صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعہ) اپنی اولاد کو نار جہنم سے بچاؤ۔

اس عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا اہتمام کریں۔ چشم فلک نے ایک زمانہ وہ بھی دیکھا ہے کہ ہر مسلمان کا گھر دینی تعلیم کا مدرسہ تھا، ان کی مسجدیں، دینی تعلیم کی درسگاہیں تھیں، ان کے ہر قریہ اور ہر گاؤں میں دینی مکاتب اور مدرسے قائم تھے اور وہاں کے علماء تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ دینی تعلیم سے اس وابستگی نے انہیں دنیا کی تمام قوموں میں ممتاز و سربلند کردیا تھا۔ آج اسی احساسِ فرض کو دوبارہ زندہ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور بس اپنے عمل اور کردار سے انسانی دنیا کو باور کرانا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور مرنے کے بعد قبر اور حشر کی  کامیابی کا دارومدار اس کے آصولوں پر عمل پیرا ھونے میں ھی ھے

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے- آمین یا رب العالمین


قبر کا تیسرا سوال

سوال : مَن نَّبِیُّکَ -  تیرا نبی کون ہے؟

جواب: حضرت محمد (صلى الله عليه وآلہ  وسلم) هو نبيي . 

حضرت محمد صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نبی ھیں

                یا

سوال : مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُم؟ 

یہ کون مَرد ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ 


جواب : ھُوَ رَسُوْلُ اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

وہ تو رَسُوْلُ اللہ (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم )ہیں۔

قبر میں تین سوالوں کے بعد فرشتے کامیاب خوش نصیبوں اور ناکام بدنصیبوں سے ایک اور سوال بھی کریں گے ۔ کامیاب ہونے والوں سے فرشتے پوچھیں گے، ہمارے سوالوں کا جواب تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ جواب میں مومن کہے گ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ پھر آسمان سے پُکارنے والا پُکارتا ہے کہ میرا بندہ سچّا ہے لہٰذا اس کے لئے جنّت کا بستر بچھاؤ اور اسے جنّت کا لباس پہناؤ اور اس کے لئے جنّت کی طرف کا دروازہ کھول دو۔ پس اس کے لئے جنّت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اس تک جنّت کی ہوا اور وہاں کی خوشبو آتی ہے اور تاحدِّ نظر اس کی قبر میں فَراخی (کُشادَگی) کردی جاتی ہے۔  ناکام ہونے والے بدنصیبوں سے فرشتے پوچھیں گے، تم کیوں جواب نہیں دے پائے؟ جواب میں وہ کہے گا میں نے نہ جانا، نہ پڑھا ( یعنی قرآن) اور اس کو فرشتے ہتھوڑے ماریں گے اور وہ بری طرح چیخے گا اور اس کی آواز جن و انس کےعلاوہ ساری مخلوق سنے گی

تو معلوم ھونا چاھیے کہ قبر کے تیسرے سوال کا جواب بھی ایمان ویقین کے متعلق ھی ھے  جس نے اس دنیا میں حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم كے نوراني طريقوں ميں 100% كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين اپنے  دل  ميں جمایا ھو گا  اور انہی طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور انہی  طریقوں کے مطابق زندگی گزاری ھو گی تو وہ اس سوال کا صحیح جواب دے سکے گا  اور جس نے اس سے ھٹ کر یقین رکھا ھو گا  اور غیروں کے طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور زندگی غیروں کے طریقوں پر گزاری ھو گی وہ اس سوال کا جواب دینے ہر قادر نہ ھو سکےگا  تو ھمیں یہ پریکٹس بھی اسی زندگی میں کرنی ھوگی کہ همارے دلوں كا يه يقين بن جائے كه همارى إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقے خواه وه آمريكا سے آئے هوں ، روس سے آئے هوں ، چين سے أئے هوں يا كهيں سے بهي آئے هوں ان ميں يقيني ناكامي هے  اور اگر  ان نورانی طریقوں کو اپنا کر زندگی گزاری ھوگی تو آسانی سے اس سوال کا جواب دے پائے گا  ھمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر ہماری زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے موجود ہوں اور بالفرض  دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہانوں  میں کامیاب ہوجائیں گے. اور اگر  خدانخواستہ ہماری زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صلی اللی علیہ وسلم کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے. صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي المختصر یہ کہ ھمیں  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے طریقوں میں پوری پوری کامیابی  اور غیروں کے  طریقوں میں پوری پوری ناکامی کے اپنے دل کے یقین کو محنت کرکے بنانا ھوگا اور ان طریقوں کے مطابق ھی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ھو گی


قبر کے سوالات کس زبان میں ھوں گے؟


قبر میں مردے سے سوال کا ہونا اور مردے کا جواب  دینا تو صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، جس پر ایمان لانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

رھی یہ بات کہ یہ سوال و جواب کس زبان میں ہوں گے؟ اس بارے میں قرآن و حدیث میں کسی قسم کی ایسی صراحت موجود  نہیں ھے، جس بنا پر بالیقین یہ کہا جا سکے کہ فلاں زبان میں سوال و جواب ہوں گے لہذا بہتر تو یہی ہے کہ اس بارے میں توقف کیا جائے، اللہ رب العزت قادر مطلق ذات ہے، وہ  سوال جواب کے لیے کسی بھی زبان کا انتخاب کر سکتے ھیں ۔  تاہم بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ سوال و جواب ہر ایک سے اس کی اپنی زبان میں ہوں گے، اور بعض کی رائے ہے کہ یہ سوال جواب عربی زبان میں ھوں گے اور اللہ  تعالی عربی کا فہم اور اس پر تکلم  کی مردے کو قدرت عطا فرما دیں گے اس کے علاوہ بھی علماء کے کچھ اقوال ہیں، تاہم اس حوالے سے کوئی بھی آیت مبارکہ یا حدیثِ مبارکہ موجود نہیں ھے سو اس بارے توقف ھی کرنا سب سے بہتر ہے۔

مرنے کے بعد ملنے والی زندگی، اس دنیوی زندگی سے بہت ھی مختلف اور بہت زیادہ ”وسیع“ ہوگی۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ھے کہ جو زبان (زبانیں) بولنے پر ہم اس دنیا میں قدرت رکھتے  ہیں، مرنے کے بعد بھی صرف وہی زبان بول سکیں گے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ”کمیونیکیشن“ کے لئے ہم کسی زبان ہی کے محتاج ہوں۔ آخرت کی زندگی کو اس دنیوی زندگی جیسا نہ سمجھنا چاھیے ۔

لہٰذا ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ قبر میں ہم سے سوال و جواب کس زبان میں ہوں گے بلکہ ہمیں اصل فکر یہ ہونی چاہئے کہ جو سوال ہم سے پوچھا جائے گا، آیا ان کے جوابات کی تیاری ہم  اس زندگی میں کر رھے ھیں یا نہیں۔

 اے الله! ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرما  اور قبر کے سوالات ہم پر آسان فرما۔ 

آمین یا رب العالمین

Share: