کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ھوتا

 يَا وَيْلَتٰى لَيْتَنِىْ لَمْ اَتَّخِذْ فُـلَانًا خَلِيْلًا (28) 

ہائے میری شامت! کاش میں نے فلاں (شخص ) کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

 لَّـقَدْ اَضَلَّنِىْ عَنِ الـذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِىْ ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا (29) 

اسی نے تو نصیحت کے آنے کے بعد مجھے بہکا دیا، اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے۔

قیامت کے دن نافرمان  کہے گا: ’’ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں  نے فلاں  کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالٰی کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ 


اچھی صحبت اور دوستی اختیار کرنے کی ترغیب اور بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی تاکید 

حدیثِ  مبارکہ میں  صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضع کیا گیا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه مرفوعًا: «إنما مَثَلُ الجَلِيسِ الصالحِ وجَلِيسِ السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، ونَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إما أنْ يُحْذِيَكَ، وإما أنْ تَبْتَاعَ منه، وإما أن تجد منه رِيحًا طيبةً، ونَافِخُ الكِيرِ: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه رِيحًا مُنْتِنَةً».   

 [متفق عليه] 

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: "اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنے والا۔ عطر فروش یا تو تمھیں عطر تحفے میں دے دے گا یا پھر تم اس سے خرید لو گے یا ( کم از کم )تمھیں ا س سے خوش بو تو آئے گی ہی۔ جب کہ بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا ڈالے گا یا پھر تمھیں اس سے بد بو آئے گی۔    

متفق علیہ

ہمارے پیارے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اس حدیث میں اچھی صحبت اپنانے کی ترغیب دی اور بتایا کہ اچھے ہم نشیں کی مثال عطر فروش کے جیسی ہے۔ یا تو وہ مفت میں آپ کو خوش بو دے دیتا ہے یا پھر آپ اس سے خوش بو خرید لیتے ہیں یا پھر آپ کو اس سے ویسے ہی خوشبو آتی رہتی ہے۔ جب کہ برا ہم نشیں بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ یا تو اڑ اڑ کر آپ پر گرنے والی چنگاریوں سے وہ آپ کے کپڑے جلا ڈالتا ہے یا پھر آپ کو اس سے ناگوار بدبو آتی رہتی ہے

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اچھے لوگوں  کی صحبت اختیار کرے اور اپنا دوست بھی اچھے لوگوں  کو ہی بنائے بے شک ہم میں ہر بندۂ مومن یہ امید رکھتا ہے کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا تو اس کے لئے اللہ کے نیک بندوں کو دوست بنانا ضروری ہے۔ اسی لئے ہمارے رب نے ہمیں نیک لوگوں کے پیچھے چلنے اور ان کے ساتھی بننے کی دعا کی تعلیم دی ہے، فرمایا:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ (5) 

ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔

صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (6) 

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے۔

لیکن افسوس کہ ھم  ہر نماز میں یہ دعا مانگتے ہیں، لیکن دوست بنانے کے سلسلے میں اپنی ہی مانگی ہوئی دعا کے مطابق عمل نہیں کرتے بلکہ فاسق و فاجر اور بعض مشرک و کافر کو دوست بنا لیتے ہیں۔ جبکہ نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مومن متقی پرہیزگار بندے کو دوست بنانے کی تلقین فرمائی ہے۔۔ بہت سی  احادیث مبارکہ میں  اچھی صحبت اختیار کرنے اور اچھے ساتھیوں  کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے یہاں  چند آحادیثِ مبارکہ  اور آیاتِ قرآنیہ ملاحظہ ہوں ،

حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون سا ساتھی اچھا ہے؟ارشاد فرمایا’’اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے۔(ابن ابی الدنیا)

…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ھے کہ حضور اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا ہم نشین وہ ہے کہ اسے دیکھنے سے تمہیں  خداُ یاد  آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں  زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں  آخرت کی یاد دلائے۔( جامع صغیر

حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل مومن کے علاوہ کسی کو ہم نشین نہ بناؤ اور تمہارا کھانا پرہیز گار ہی کھائے۔( ابوداؤد)

…حضرت ابو جحیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑوں  کے پاس بیٹھا کرو، علما ء سے باتیں  پوچھا کرو اور حکمت والوں  سے میل جول رکھو۔( معجم الکبیر، )

            دوستی کوئی عام  سی بات نہیں ہے۔ یہ مسلمان کے عقیدے کے اصول میں سے ایک اصل ہے۔ بچپن ہو یا جوانی ہو یا بڑھاپا ہو، دوست عمر کے ہر حصے میں انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان جسے چاہے اسے دوست بنالے اور اس سے اس کے ایمان، اس کے عقیدے، اس کے دین، اس کی زندگی اور اس کی دنیا و آخرت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہر ملنے والا یا ساتھ بیٹھنے والا دوست نہیں ہوتا۔ دوست خود بخود نہیں بنتا۔ دوست کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔

شادی اور دوستی یہ دونوں ایسے رشتے ہیں جن میں انسان اپنے پارٹنر کا انتخاب خود کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن امور میں انسان کو اختیار دیا ہے ان میں رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ اس لئے دوست بنانے کے معاملے میں شریعت میں واضح احکام موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ اپنے دوستوں کا انتخاب کرتے وقت ان پر شریعت کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔

مگر شرعی احکام کو جاننے سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ دوست کسے کہتے ہیں؟ تو دوست وہ ہوتا ہے جسے ہم پسند کرتے ہیں، جس کے ساتھ ہماری دلی محبت ہوتی ہے، جس کے ساتھ ہم اپنی دل کی باتیں، اپنے خیالات و جذبات، اپنا دکھ و درد شیئر کرتے ہیں۔ لیکن کسی کو دوست بنانے کے لئے ہماری پسند، ہماری محبت اور ہمارا دلی لگاؤ کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں بھی ایک مسلمان کو شریعت کا پابندی ہونا ضروری ہے۔ شرعاً کس بنیاد پر ہم کسی کو دوست بنا سکتے ہیں یہ جاننا بہت اہم ہے تاکہ ہم دیکھ لیں کہ اب تک ہم جسے دوست بنائے ہوئے ہیں وہ شرعی طور پر ہمارے دوست بننے کے لائق ہیں یا نہیں اور ان کے ساتھ ہم جنت میں جائیں گے یا وہ ہمیں جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔ چنانچہ فرمانِ خداوندی ھے

 وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ ‎

(سورة المائدة)

اور ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس حق بات پر جو ہمارے پاس آئی ہے ایمان نہ لائیں جبکہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ (جنت میں) داخل کرے گا" 

اس سے معلوم ہو اکہ اللہ کے نافرمانوں   اور برے لوگوں  کی صحبت اختیار کرنا،انہیں  اپنا دوست بنانا اور ان سے محبت کرنا دنیا  اور آخرت میں  انتہائی نقصان کا سبب ہے۔ اَحادیث میں  بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، چنانچہ اس سے متعلق چند اَحادیث  مبارکہ ملاحظہ ہوں ،

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔

( ابن عساکر )

یعنی جیسے لوگوں  کے پاس آدمی کی نشست وبَرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں ۔

حضرت علی المرتضیٰ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خودکو مشقت میں  ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں  پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اورجھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں  تک پہنچائے گا اور دوسروں  کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں  بولے گا۔( ابن عساکر)

             بعض نادان  قسم کے لوگ  مذھب بیزار لوگوں سے تعلقات قائم کرتے ھیں اور یہ کہتے  ہیں  کہ ہمیں  اپنے راستے  سے کوئی ہلا نہیں  سکتا، ہم بہت ہی مضبوط ہیں ،ہم نے ان سے تعلق ا س لئے قائم رکھا ھوا  ہے تاکہ انہیں بھی راہِ راست پر لے آئیں  ، یونہی بعض نادان تسکینِ نفس کی خاطر بے دین  عورتوں  سے نکاح کرتے ھیں اور یوں  کہتے ہیں  کہ ہم نے ان سے نکاح اس لئے کیا ہے تاکہ انہیں  بھی اپنے رنگ میں  رنگ لیں ،اسی طرح کچھ نادان گھرانے ایسے بھی ہیں  جو صرف دنیا کی اچھی تعلیم کی خاطر اپنے نونہالوں  کو مذھب بیزار  استادوں  کے سپرد کردیتے ہیں  اور بالآخر یہی بچے بڑے ہو کر بد مذہبی اختیار کر جاتے ہیں ، 

غیر مذہب والیوں  (یا والوں ) کی صحبت ایک  آگ سے کم نہیں ہے، الکثر دیکھا گیا ھے کہ ذی علم، عاقل، بالغ مردوں  کے مذہب (بھی) اس میں  بگڑ گئے ہیں ۔ عمران بن حطان رقاشی رحمہ اللہ کا قصہ مشہور ہے، یہ تابعین کے زمانہ میں  ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت (سے شادی کرکے اس) کی صحبت میں  (رہ کر) مَعَاذَاللہ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ (اس سے شادی کر کے) اسے سنی کرنا چاہتا ہے۔ جب صحبت کی یہ حالت (کہ اتنا بڑا محدث گمراہ ہو گیا) تو (بے دین  کو) استاد بنانا کس درجہ بدتر ہے کہ استاد کا اثر بہت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سپردگی یا شاگردی میں  اپنے بچوں  کو وہی دے گا جو آپ (خودہی) دین سے واسطہ نہیں  رکھتا اور اپنے بچوں  کے بددین ہو جانے کی پرواہ نہیں  رکھتا۔

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے“۔

 (سنن ترمذي)

یعنی مومن کو دوست بنانا ہے، تب ہی ہمارا ایمان، عقیدہ اور دین سلامت رہے گا اور اگر کھانا کھلانا ہے تو متقی و پرہیزگاروں کو کھلایا جائے ، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی متقی اور پرہیزگار شخص سے ہو کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوگی کل قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قیامت کب قائم ہوگی؟ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے کوئی بہت زیادہ اعمال تو جمع نہیں کر رکھے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ "میں اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں" ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: "انسان قیامت کے دن اس شخص کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے (إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)"

 (مسند احمد)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے“۔ 

(صحيح البخاري)

اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے“۔ 

(سنن ابي داود ، سنن ترمذي۔ )

حقیقتاً ہم کسی کی شخصیت دیکھ کر یا اس کی شکل و صورت کی وجہ سے اسے دوست نہیں بناتے بلکہ اس شخصیت کے اندر جو دل ہے اس کے اندر جو افکار و نظریات ہیں، جو اس کا عقیدہ و دین ہے، ہم اس سے دوستی کرتے ہیں۔


ذرا غور کیجئے آج ہم جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں جو ہمارے دوست ہیں، جو ہماری پہچان بن چکے ہیں، جو ان کا دین ہے وہی ہمارا دین ہے۔ اگر وہ لوگ گمراہ ہیں، اللہ و رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے نافرمان ہیں، شرک و بدعت اور دیگر معصیت میں پڑے ہوئے ہیں تو کل قیامت کے دن جو ان کا انجام ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا کیونکہ قیامت کے دن آدمی اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے کیونکہ دوست کی محبت دل میں بسی ہوتی ہے۔

اس لئے اللہ تعالٰی نے مومنوں کو تاکیدی حکم دیا ہے:

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۔  سورة المجادلة

“اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں”۔ ۔ ۔(22) سورة المجادلة

اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے دشمنوں سے دوستی نہ کرنے کا تاکیدی حکم اور بڑی سخت ممانعت ہے۔

اسی لئے عقلمند آدمی برے ساتھیوں کی صحبت سے اسی طرح بھاگتا ہے جیسے شیر سے بھاگا جاتا ہو کیوں کہ ان کے اندر کوئی خیر و بہتری نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والا انہی کی طرح بگڑ جاتا ہے۔ ارشاد ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ‎﴿٢٧﴾‏ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ‎﴿٢٨﴾‏ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ‎ ﴾ سورہ الفرقان)

اور اُس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی راه اختیار کی ہوتی (27) ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا (28) اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے

(29) سورة الفرقان

آج وقت ہے اپنے دوستوں کو پرکھ لیں، کہیں ان میں کوئی ایسا تو نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دشمن ہو، جو ہمارے دین پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ ہمیں شرک و کفر تک لے جانے والا ہو یا جس کی وجہ سے ہمارے ایمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں آج ہی اُس سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ کفر میں جو ظالم اپنے دوست کی اطاعت کرے گا حتی کہ اسی حالت میں مرجائے تو کل قیامت کے دن اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا "ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا"

(28) سورة الفرقان


اور ھمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی  ھمیشہ یاد رکھنا چاھیے

 (الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ 

‎﴾‏ سورة الزخرف)

آج کے) دوست اُس (قیامت کے) دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے پرہیزگاروں کے" ۔ ۔ ۔

بُرے دوستوں کی دوستی کل قیامت کے دن حسرت و ندامت کا باعث ہوگی جبکہ متقی اور پرہیزگار بندوں کی دوستی ہی وہاں کام آئے گی۔ موت کے وقت اگر برے دوست قریب ہوں تو بندہ کلمہ پڑھنے کی سعادت سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔

جیسا کہ صحیح  حدیث مبارکہ میں موجود ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت عمرو بن ہشام (ابوجہل) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا۔

 (صحيح البخاري ، صحيح مسلم)

لہذا آج ہم میں سے جو لوگ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں انہیں سمجھ لینا چاھیے کہ وہ اپنی طبعی زندگی گزار چکے ھیں اور اب باقی تو بونس لائف ھے جس کا کوئی بھروسہ ھی نہیں ۔ یقیناً  یہ لوگ موت  سے بہت قریب ھوتے جا رہے ھیں سو  انہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر خاص طور پر غور کرنا چاہئے اور برے دوستوں سے فوراً ہی چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے یا پھر کم از کم اپنے بچوں کو یہ وصیت تو ضرور کردینی چاہئے کہ بد عمل، غلط کار و بےدین قسم کے دوست اور رشتہ دار موت کے وقت ان کے قریب بھی نہ آنے پائیں بلکہ متقی و پرہیزگار لوگوں کو بلایا جائے جو موت کی سختی کے وقت انہیں کلمہ طیبہ کی تلقین کر سکیں  تاکہ انہیں اس آخری وقت میں کلمہ پڑھنے کی عظیم سعادت نصیب ہوجائے اور ان کی آخرت سنور جائے۔

 اللہ تعالٰی ہمیں  اللہ تعالی کے نافرمانوں   اور برے لوگوں  سے دوستی رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے محفوظ فرمائے اور نیک و پرہیز گار لوگوں  سے میل جول رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالٰی! ھم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین یا رب العالمین 

Share: