بدنیتی اور بخیلی کا انجام

وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡ‌ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ‌ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌO

جو لوگ ان چیزوں میں بخل کرتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے دی ہیں وہ ہرگز یہ گمان نہ کریں کہ وہ ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ وہ ان کے حق میں بہت برا ہے عنقریب انکے گلے میں قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس کے ساتھ وہ بخل کرتے تھے آسمانوں اور زمینوں کا اللہ ہی وارث ہے اور اللہ تمہارے تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے ؏

بد نیتی اور بخیلی کا آپس میں بہت گہرا تعلق ھے کیونکہ انسان  کی پہلے نیت خراب ھوتی ھے پھر وہ بخیل بنتا ھے بلکہ انسان کی بدنیتی ھی تمام برائیوں کا دروازہ کھول دیتی ھے 

بد نیتی وہ  بُرا اور نفرت آنگیز عمل ہے جو برے ارادے یا دوسروں کو دھوکہ دینے کی نیت سے انجام دیا جاتا ھے  ۔ بدنیتی کی یہ تعریف شاید ہی کسی اور جگہ درست بیٹھتی ہو  یا نہ بیٹھتی ھو لیکن ھمارے معاشرے میں بزرگوں کی وفات کے بعد ان کی مکار اولاد کی مکاریوں پر سو فیصد  ٹھیک بیٹھتی ھے یہ مکاریاں دیگر ورثاء کے حقوق مختلف حیلوں بہانوں سے غصب کرنے کے متعلق بھی ھوسکتی ھیں اور مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنے ذرائع آمدن  میں سے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور غریبوں اور نادار لوگوں کی مدد اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے لئے جو طریقے جاری کیے ھوئے ھوں اُنہیں مکاری و عیاری سے ختم کرنے کے متعلق بھی ھو سکتی ھیں 

ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اس حوالے سے  ایک واقعہ درج کیا ھے جو بدنیتی اور بخیلی کی بھرپور عکاسی کرتا ھے وہ تحریر فرماتے ھیں کہ ایک شخص بڑا نیک اور سخی تھا۔ اس کا ایک باغ تھا، وہ اس باغ  کی آمدنی میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کو ہمیشہ پابندی سے ادا کرتا تھا۔ اس باغ کی پیداوار میں سے اپنے بال بچوں اور باغ کے خرچ نکال کر باقی پیداوار کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر ڈالتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے مال میں بڑی برکت دے رکھی تھی۔ اس کے انتقال کے بعد جب اس باغ کی وارث اس کی اولاد ہوئی تو بیٹوں نے باپ کے اس خرچ کا جو وہ اللہ کے راستہ میں کرتا تھا حساب کیا تو وہ اُن کے مطابق بہت زیادہ بنا۔

ان لوگوں نے آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ حقیقت میں ہمارا باپ بڑا ہی بے وقوف اور نادان شخص تھا۔ جو اتنی بڑی رقم مفت خوروں، غریبوں اور مسکینوں کو بلاوجہ دے دیا کرتا تھا۔ لہٰذا ہم ان غریبوں کو دیے جانے والے مال  کو کسی طریقہ سے روکیں اور باغ کی آمدنی میں سے ان کو کچھ نہ دیں تو جلد ھی ہمارے پاس بہت زیادہ مال جمع ہو جائے گا اور ہم سب مالدار ہو جائیں گے۔جب یہ مشورہ کر چکے اور اُدھر باغ کے پھل بھی پک کر تیار ھو چکے تھے یعنی  کھیتی تیار ہو گئی تھی تو رات ہی کو ان لوگوں نے ایک جگہ بیٹھ کر مشورہ کیا کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے ؟ کہ ھمیں کسی کو کچھ دینا نہ پڑے اُنہوں نے مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے رات کے وقت سب بھائی باغ میں جایا کریں  گے  اور رات ھی کو پھل توڑ کر لایا کریں گے  تاکہ کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔ چلتے وقت پچھلی رات کو ایک دوسرے کو جگا دیا کریں گے  اور چپکے چپکے دبے پاؤں اس طرح چلیں گے  کہ آس پاس کے لوگوں  کو اس کی خبر نہ ہونے پائے کہ آج پھل توڑنے کا دن ہے۔ ورنہ اپنے باپ کے دستور کے مطابق مجبوراً لوگوں کو دکھانے کے لئے ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا۔یہ سب  بھائی یہ منصوبے بنا کر کانا پھوسی کرتے ہوئے باغ کی طرف چلے تاکہ چپکے چپکے باغ کے پھل توڑ سکیں ۔ ادھر اللہ کا کرنا یہ ھوا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اس باغ پر خدا کا عذاب آیا اور آسمانی آگ نے تمام باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ نہ وہاں کوئی درخت رہا اور نہ سرسبز لہلہاتی کھیتیاں رہیں اور نہ پھل پھول رہے۔ سوائے راکھ کے  جھلستے ڈھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی یہاں باغ تھا ہی نہیں۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے اور یہ ماجرہ دیکھا تو ہکے بکے ہو کر رہ گئے اور حیران و پریشان ہوئے۔ پھر آپس میں کہنے لگے کہ شاید اندھیرے کی وجہ سے ہم راستہ بھول گئے ہیں لیکن پھر نشانات وغیرہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ باغ تباہ ھو چکا ھے اور کہنے لگے کہ یقیناً یہ ہماری بدنیتی اور بخیلی کے سبب یہ برباد کن اور برے نتائج نکلے ہیں۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ  ایک دوسرے کو ملامت  کرنے لگ گئے۔ “لیکن اب پچھتائے کیا ھوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

بخل کے پانچ اسبا ب ہیں اور ان کا علاج بھی اس طرح ہے،

بخل کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے،

بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے،

بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اْس کے اْخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔

بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ جل شانہ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس رب نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی رب میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔ 

بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کیلئے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا  ’’بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر 

(صحیح بخاری)


Share: