يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا [الأحزاب: (71)
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی ۔‘‘
(سورہ الاحزاب)
*برکت کی مختصر تعریف*
لفظ “برکت “ ھمارے ھاں عام استعمال ھوتا ھے ۔ ایک دوسرے کو برکت کی دعائیں دی جاتی ھیں تو یہ بھی جاننا ضروری ھے کہ برکت کسے کہتے ھیں؟ یعنی برکت سے کیا مراد ھے ؟ تو برکت کی مختصراً تعریف یہ ھے کہ “ برکت ‘‘ اللہ کا خاص فضل ہے جو انسان کے پاس وہاں وہاں سے آ پہنچتا ہے جہاں سے اسے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ سو ہر وہ کام جس میں غیر محسوس طریقے سے اضافہ اور کثرت نظر آئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت ڈال دی گئی ہے۔ برکت اللہ کا عطیہ ہے جو انسان کو مادی اسباب سے ماورا عطا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب اللہ کسی کی عمر میں برکت ڈال دیتا ہے تو اس کو اطاعت کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے دیتا ہے یا اس میں بہت سی بھلائیاں جمع کر دیتا ہے اور جب اللہ صحت میں برکت ڈال دیتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ آدمی کی صحت کو پائیدار کر دیتا ہے۔ اور جب مال میں برکت ڈالتا ہے تو اس کو بڑھا کر زیادہ بھی کر دیتا ہے اور صالح بنا کر بھی دیتا ہے۔ اور صاحب مال کو خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی توفیق دے دیتا ہے اور جب اولاد میں برکت ڈالتا ہے تو اولاد کو نیک بنا دیتا ہے اور صاحب اولاد کو اولاد کا حسن سلوک نصیب کرتا ہے۔ جب اللہ بیوی میں برکت دیتا ہے تو اس کو خاوند کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیتا ہے یو ں کہ جب وہ اسے دیکھے تو خوش ہو جائے، جب وہ گھر سے باہر ہو تو اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کام میں برکت دیتا ہے تو اس کے اثرات کو وسعت پذیر کر کے اس کے فوائد زیادہ کر دیتا ہے۔ اللہ کے لئے اخلاص اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ؐ کی اتباع جیسے اعمال سے بڑھ کر کوئی برکت والاکام نہیں ہو سکتا۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’ ہر چیز جو اللہ کے لئے نہیں ہوتی برکت اس سے اٹھالی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی برکت والاہے اور ہر برکت اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ مسند احمد میں حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ جب میری اطاعت کی جائے تو میں خوش ہوتا ہوں، جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکتیں عطا کرتا ہوں اور میری برکتوں کی کوئی انتہاء نہیں۔
الحمدللہ! اللہ کا احسان ہواکہ اس نے ہمیں ایک ایسے دین سے وابستہ کیا جس نے اپنے ماننے والے کو زندگی گزارنے کے لیے عمدہ اصول بتائے، جس کو مدِّنظر رکھ کر ہر آدمی اطمینا ن اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی کی کشتی کو کنارے لگا سکتا ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ایسے طریقے نہ بتائے ہوں جس سے ہماری تجارت میں برکت ہو، تو آئیے ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں اور صحابہ کرام و اسلا ف کے آثار میں اور بزرگوں کے تجربے میں ان کو تلاش کریں قرآن کریم چونکہ ہمارے لئے خدائی رھنمائی ہے لہٰذا سب سے پہلے قرآن پاک ہی میں اس کو تلاش کریں ۔
تقوی آختیار کرنا:
قرآن پاک میں ارشادہے:
ۚ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّـٰهَ يَجْعَلْ لَّـهٝ مَخْرَجًا (2)
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔
وَيَرْزُقْهٝ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٝ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۚ
اور اسے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے، بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے،
پتہ چلا کہ اگرہم بھی اپنی تجا رت میں ہونے والی پریشانی سے نکلناچا ھتے ہیں تو سب سے پہلے متقی یعنی اللہ سے ہر حال میں ڈ رنے والے بن جا ئیں، تقو یٰ کسے کہتے ہیں؟ اللہ کی چاہت اور مر ضی پرچلنے کو، او نامرضیات سے بچنے کو تقوی کہا جاتا ھے لہٰذااگر ہم اپنی تجارت میں کذب بیانی دھوکہ دہی، جھو ٹی قسم، سودخوری رشوت خوری ،ظلم ،غضب، چوری ،خیانت ،حرام چیزوں کی خرید و فروخت سے اجتناب کرتے ہیں، تو ہماری تجارت میں خو د بخود برکتیں نازل ہونے لگیں گی ۔
ھمیشہ اللہ کا شکر کرتے رھنا:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7)وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(8)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔اور موسیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ناشکرے ہوجاؤتو بیشک اللہ بے پرواہ ،خوبیوں والا ہے۔
اس آیت سے اللہ تعالیٰ یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ انسان جب تجارت کرے اور تجارت کے بعد جو کچھ بھی نفع مل جائے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے، تو اللہ تجارت میں برکتوں کو نازل کرے گالہٰذا جوبھی تھوڑا بہت ہاتھ لگے اس پر اللہ کا شکر بجا لائے آپ کی تجارت میں خود بخود نفع بڑھنے لگے گا۔
سود سے اجتناب اور صدقہ و خیرات کا اھتمام :
يَمْحَقُ اللّـٰهُ الرِّبَا وَيُـرْبِى الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِـيْمٍ (276)
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔
(سورہ البقرہ)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ سود کے ذر یعہ اگرچہ ظاہر ی نظر سے مال میں زیادتی نظر آتی ہے، لیکن حقیقتاً وہ زیادتی اور اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کمی ہوتی ہے، کیونکہ سود کے سبب مال اور جان پر جو غم اور پر یشانیاں پے در پے آتی رہتی ہیں اور وہ حرام کے مال کے ساتھ دوسرا مال بھی اس کے پیچھے خرچ ہوتاہے۔ اللہ ہم سب کو سود جیسی تباہ کن بیماری سے حفاظت فرمائے۔آمین!
پھر اللہ پاک نے قرآن ہاک میں آگے ارشاد فرمایا: ویربی الصدقات یعنی صدقات کو بڑھوتری دیتاہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صدقہ خیرات دینے سے ظاہراً اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مال میں کمی ہوگئی، لیکن حقیقت میں مال میں اضافہ ہوتاہے کیونکہ اللہ رب العزت صدقہ کی برکت سے مال میں برکتوں کو ڈال دیتا ہے، اور مالی پریشانی اور رزق میں تنگی کو دور کردیتا ہے یہ تو دنیا کا معاملہ ہے اور آخرت میں صدقہ کی نیکیاں پھر الگ ہوں گی اللہ رب العزت ہمیں اپنے راستہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔
اور قرآن پاک کی اس آ یت مبارکہ کو آ پ تاریخ کے آ ئینے پر پرکھ سکتے ہیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ صحابہ کرام میں حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے راستہ میں بے دریغ اور بے حساب مال خرچ کیا تو ان کے مال میں اضافہ ہی ہو تا گیا اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے راستہ میں بے تہاشا مال خرچ کیا تو ان کے مال میں بھی کبھی ہم نے کمی کے بارے میں نہیں پڑھابلکہ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخر ت میں بھی اللہ کی جانب سے خوشنودی کا سر ٹیفکیٹ مل گیا۔ان کے واقعات کو آپ سیرت صحابہ اور سیرالصحابہ وغیرہ میں تفصیل کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔
ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ:
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِـيْمٍ (10)
اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے۔
تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (11)
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور تم اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
(سورہ الصف)
اس آیت میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آوے اورپھراپنی جان ومال کواس کے راستے میں لگا دے، پتا چلا کہ ایمان میں پختگی اور ثابت قدمی، جہاد فی سبیل للہ سے بھی انسانی حا لات درست ہوجاتے ہیں اور رزق میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
ذکراللہ، ادائے زکوة اور اہتمامِ نماز اور خوفِ آخرت :
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْـهِـمْ تِجَارَةٌ وَّّلَا بَيْـعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّـٰهِ وَاِقَامِ الصَّلَاةِ وَاِيْتَـآءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ (37)
ایسے آدمی جنہیں سوداگری اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰۃ کے دینے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔
لِيَجْزِيَهُـمُ اللّـٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَهُـمْ مِّنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (38)
تاکہ اللہ انہیں ان کے عمل کا اچھا بدلہ دے اور انہیں اپنے فضل سے اور بھی دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔
(سورہ النور)
یعنی صالحین تو وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے ذکر کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوة دینے سے نہ تو سوداگری اورنہ ہی خرید و فروخت غافل کرتی ہے، وہ ڈرتے ہیں اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ ) کے سبب الٹ جائیں گے، آنکھیں(اوپر چڑھ جائیں گی )تاکہ اللہ رب العزت ان کو ان کے اعمال کا بہتر ین بدلہ دیوے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی کر دیو ے، اور اللہ رب العز ت جسے چاہتے ہیں بے حساب رزق عطا فر ماتے ہیں ۔
ہماری زندگی کا مقصد دین اور تقوی عبادت اور ذکراللہ ھے نہ کہ دنیا ، مال اور عیش وعشرت جیسا کہ قرآن پاک کی یہ آیت بتارہی ہے یعنی تجارت وخرید و فروخت ان کو اللہ کے ذکر سے (جو مقصود موٴمن ہے )غافل نہیں کرتی ۔
مشاھدے کی بات ھے کہ اس زمانہ میں اکثر مسلمانوں نے تجارت کو مقصودِ اصلی بنا لیا ھے جس کے نتیجے میں آپس میں محبت کے رشتے بہت کمزور ہوگئے ھیں اور اس کے ساتھ ساتھ جھگڑوں اور فتنوں کا ایک عظیم طوفان برپا ہوگیا ھے ۔ایک شاعر کا کہنا ہے۔
کل تک محبتوں کے چمن تھے کھلے ہوئے
دو دل بھی آج مل نہیں سکتے ملتے ہوئے
مگر آج کل اکثر مسلمانوں کی خصو صا مغرب زدہ اور یورپ سے متأثر تعلیم یافتہ لوگوں کے شب وروز حرکات وسکنات افعال وکردار اقوال واعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ہی انہیں محبوب ہے اور وہی ان کا مقصود ہے مذہب کو یہ لوگ محض اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے مصالح دنیا محفوظ رہیں باقی دین کو حیثیت سے اختیار نہیں کرتے اگر ایسا ہوتا تو دینی امور کوازخود اختیار کرتے اور انہی کو پسند کرتے دوسری قوموں یعنی یورپی اقوام کی تقلید نہ کرتے اور ان کی طرف نہ دیکھتے،پس ان لوگوں کی بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو اصل مقصود اور دین کو تابع فرما دیتے ہیں حالانکہ اس آیت میں تلہیھم تجارة ولابیع عن ذکراللّٰہ کے اسلوب سے صاف معلوم ہوتا ھے کہ مسلمان کے لئے دنیا مقصودنہیں بلکہ دین ہی اصل مقصود ہے اگر دنیا مقصود ہوتی تواللہ تبارک وتعالیٰ یوں فرماتے: لایلہیم ذکراللّٰہ عن التجارة و البیع یعنی ذکراللہ کی مشغولیت ان کو تجارت سے غافل نہ کرتی لیکن اللہ نے یوں نہیں فرمایا بلکہ یوں فرمایا کہ تجارة ولابیع عن ذکر اللّٰہ کے ذکرسے غافل نہیں کرتے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصودِ اصلی دین ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو دین کا پابند اور تابعدار بناتا ہے تو اس پہ رزق کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جیساکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے اس آیت میں ایک قانون بیان کیا جوپابندی سے صوم و صلاة کرے، اور فریضہٴ زکوة ادا کرے، اور اللہ سے ڈرتا رہے، تو اللہ ربّ العزت اس کو بہترین بدلہ دیتا ہے اور پھر آگے فرمایا: ویزیدھم من فضلہ اور اپنے فضل سے اضافہ کرتا ھے یعنی حلال رزق کی طرف، سیجزی سے اشارہ کیا اورزیادتی کی طرف ویزیدھم سے اشارہ کیا، کیوں کہ اس آیت میں اگراس کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو فضل سے مراد رزق ہوناچاہیے کیونکہ پہلے تجارت کا تذکرہ اوربعد میں واللہ یرزق من یشاء یعنی اللہ جس کو چاہے بے حساب رزق عطا کردیوے کاتذکرہ بتا دیتا ہے کہ فضل سے مراد رزق ہوگا، اورآگے بڑھ کرًیوں کہا جا سکتا ہے کہ لاتلھیھم سے نماز اور زکاة میں اخلاص کی طرف اشارہ ہو کیونکہ مخلص کے مد نظر ہمیشہ آخرت ہوتی ہے اور قرآن کہتا: یخافون یوما یعنی وہ آخرت سے ڈرتے ہیں اور لیجزیھم پھر اس کے بعد ویزیدھم اور پھر آگے ویرزق من یشاء سے بے حساب برکت فی الرزق کی طرف اشارہ ہے اوراس کے نمونہ تاریخ میں حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی صورت میں موجود ہے ۔
استغفار کی کثرت:
سورہ نوح میں اللہ رب العزت ایک اولوالعزم او رصاحب صبرجمیل پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کاان کی قوم کو نصیحت وموعظت کاذکرکرتے ہوے فرماتے ہیں:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّهٝ كَانَ غَفَّارًا (10)
پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔
يُـرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا (11)
وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا۔
وَيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَّّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهَارًا (12)
اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا۔
سورہ النوح)
یعنی نوح علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اس پروردگار سے استغفار کرو یعنی گناہوں کی بخشش طلب کرو بیشک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے،(استغفار کی برکت سے) تم پرمسلادھار بارش برسائے گا۔ اور مال اور اولاد کے ذیعہ تمہاری امداد کرے گا اور تمہارے لئے باغات کی ریل پیل کردیگا اور نہروں کوجاری کردیگا۔قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار سے رزق میں برکات اترتی ہیں اور اولاد کی بھی ولادتیں ہوتی ہیں کیونکہ اک ایسا جلیل القدر نبی جس کی دعوت ساڑے نو سو سال رہی وہ نبی اپنی قوم کو یہ بات کہہ رہا ہے اور پھر قرآن جیسی عظیم کتاب اس کو نقل کررہی ہے، پتہ چلا کہ یہ ایک لازمی امر ہے کہ استغفارسے رزق میں برکات اور انوار کا ورود ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو دوسری جگہ اس طرح فرمایا کہ:
وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُعَذِّبَـهُـمْ وَاَنْتَ فِيْـهِـمْ ۚ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ مُعَذِّبَـهُـمْ وَهُـمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (33)
اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرے ہوتے ہوئے عذاب دے، اور اللہ عذاب کرنے والا نہیں حالانکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔
یعنی اللہ رب العزت آپ کے ان کے درمیان ہوتے ہوے انہیں عذاب نہ دے گا، اور وہ استغفار کر رہے ہوں تب بھی اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں۔اس آیت سے معلو م ہوا کہ اگر کسی قوم کے افراد برابر استغفار میں لگے رہے تو اس پر قہرِ خداوندی نہیں اترتا چا ہے وہ قحط کی صورت میں چاہے وہ تنگی رزق کی صورت میں ہو یا چاہے وہ طاعون، سارس اور مہلک امراض کی صورت میں ہو۔ بہرحال استغفار کی برکت سے آدمی اپنے رزق میں برکت نازل کروا سکتاہے اور ساتھ ہی ساتھ اور بھی ان گنت فائدے اس کے ضمن میں پاسکتاہے ۔اب استغفار کا طریقہ کیا ہو اور اس کے الفاظ کونسے افضل ھیں تو اس کے لئے ”اوراد و ظائف“ کی کتابوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ھے ۔
صبح سویرے تجارت شروع کرنا :
صبح کا وقت بڑا با برکت وقت ہے اس میں بہت زیادہ برکتیں اور رحمتیں ہیں لہٰذا تاجر کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد بستر کو چھوڑ دے اور ہو سکے تہجد پڑھے ورنہ فجر کی نماز کا ضرور اہتمام کرے پھر کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت میں صرف کرے اور کچھ دیر ذکر خداوند ی میں صرف کرے اور پھر بجائے دوبارہ سونے کے اگر اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی کم سے کم دو رکعت ہی اداکر لیوے اس سے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یا ابن آدم رکع لی رکعتین فی اول النھار اکفک آخرہ۔
یعنی اے ابن آدم! تو میرے لیے دو رکعت دن کے ابتداء حصہ میں پڑھ لے میں دن کے آخری حصہ تک تیرے لیے کا فی ہو جاؤں گا ۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! میرے دن آغازکونیک عمل کا حصّہ بنا کہ مجھے نیک عمل کی توفیق ہو جائے تاکہ سارادن اللہ کی نصرت اور مددمیرے ساتھ رہے حضرت مولا نا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں کہ ہمارے حضرت ڈاکٹرعبدالحی صاحب رحمة الله عليه فرماتے تھے کہ اللہ تعالی نے صبح کا وقت ایسا بنایا ہے کہ اسی کائنات کی ہرچیزمیں نئی زندگیاں آتی ہیں کہ سوتے ہوے لوگ بیدار ہوتے ہیں کلیاں چٹکتی ہیں غنچے کھلتے ہیں پھول کھلتے ہیں پرندے جاگتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہ وقت نئی زندگی عطاکرنے والاہے اگراس نئے وقت کواللہ کے ذکرمیں گزاروگے تو تمہارے قلب کے اندر رجوع الی اللہ کا نور پیدا ہوگا اتنا نور اتنا نور کہ دوسرے اوقات میں ذکر کرنے سے حاصل نہ ہوگا۔ پھر حضرت والا (یعنی مولانا تقی عثمانی صاحب ) تحریرفرماتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ فجر کے وقت مسلمانوں کی کسی بستی سے گزر جاؤ تو ہر گھر میں تلاوت قرآن کریم کی آوازآیا کرتی تھی چاہے وہ عالم کا گھر ہو یاجاہل کا اسی سے معاشرے میں نورانیت محسوس ہوتی تھی لیکن اب افسوس یہ ہے کہ اگرمسلمانوں کی بستی سے گزرو توتلاوت کے بجائے فلمی گانے کی آوازیں آتی ہیں، فا العیاذ باللہ۔ صبح کے وقت ہمارا حال ایک شاعر مجیدی لاہوری مرحوم اپنے اشعار میں اپنے زمانے کی تصویر کشی کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔پہلے لوگ سویرے اٹھتے تھے، اور اٹھ کر قرآن پڑھاکرتے تھے، نو بجے اٹھتے ہیں اور اٹھ کر ڈان پڑھتے ہیں جب دن کا پہلا حصہ ہی ایسے بڑے کا م میں لگا دیا اور اللہ کے ذکر سے غا فل ہوگئے تو پھر سارے دن کے کاموں میں نور کہا ں سے آئے گا ؟ بہرحا ل اللہ نے صبح کے وقت میں بڑ ی بر کت رکھی ہے اور بڑا نور رکھا ہے اگر انسان اس وقت کو تلاوت میں اللہ کے ذکر میں لگائے توانشاء اللہ اس کا نو ر حاصل ہوگا ۔
صبح کے وقت میں برکت ہے:
ایک حدیث میں ہے نبی کر یم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ”بارک اللّٰہ لامتی فی بکورھم“ یا پھر یہ الفاظ ہے ”اللّٰھم بارک لامتی فی بکورھم“ یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے صبح سویرے میں برکت رکھی ہے یا اللہ میرے امت کے صبح کے وقت میں برکتیں نازل فرما۔
اور یہ بات آپ صلى الله عليه وسلم نے صرف ذکر یا عبادت کی حد تک نہیں فرمائی بلکہ ایک شخص جو تاجر تھے ان سے آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ تم صبح سویرے اپنی تجارت کے کام کو انجام دیا کرو وہ صحابی فرماتے ہیں حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے یہ ارشاد سننے کے بعد میں نے اس پر عمل کیا اور صبح ہی اول وقت میں تجارت کا عمل شروع کیا کرتا تھا تو اللہ نے مجھے اس کی برکت سے اتنا مال عطافرمایا کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے ۔
کاروبار مندہ ھونے کا ایک اھم سبب
درآصل ھماری ساری قدریں ھی الٹی ہوگئ ھیں ۔ دن کے گیارہ بجے تک بازار بند رہتا ہے گیارہ بجے کے بعد کاروبار شروع ہوتا ہے گیارہ بجے کا مطلب دوپہر گویا دن کا ایک پہرتوبیکار نیند اور غفلت کی حاکت میں گزر جاتا ھے نہ نماز نہ ذکر نہ تلاوت بلکہ گناہوں میں گزر جاتا ھے ، کہیں فلم دیکھنے میں، کہیں سریل دیکھنے میں، کہیں گانے سننے میں، کہیں گپ شپ میں، پھر ہر شخص کے زبان پر یہ رونا کہ کاروبار مندہ ہے کہا ں سے کاروبار چلے اور مندہ ختم ہو جبکہ بھائی تونے ہی تلاوت اور ذکراللہ اور نماز میں مندہ کررکھاہے جس ذات کی قدرت میں کاروبار ہے جیسا کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ان اللّٰہ ہوالباسط القابص المسعر الرزاق اللہ رب العزت وہ ہی رزق میں فراخی اورپھیلاوٴ کرنے والا، وہ ہی کاروبار میں مندہ ڈالنے والا، وہی قسمتوں کو متعین کرنے والے اور رزق دینے والاہے، اب جب ہم نے ہی اپنے تعلقات کو اس ذات کے ساتھ کمزور کردیا جبکہ کارو بارمیں ترقی دینا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے توپھر وہ بھی ہم پر کیوں برکتوں کو نازل کریگا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ذات بابرکات سے تعلق قائم کیا جائے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بتائے ہوئے راستہ کواپنایا جائے اورصبح سویرے نماز ذکر تلاوت وغیرہ سے فارغ ہوکر اپنی تجارت کاآغاز کیا جائے پھر دیکھو کیسی برکتیں نازل ہوتی ہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فجرکے بعد سونے سے منع فرمایا وہ روایت یہ ہے:ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوفجر کے بعد متصلا سوتے ہوئے دیکھا تو ان کو جگا دیا اور فجرکے بعدسونے سے منع فرمایا۔ اللہ ہم سب کو حزب اللہ والے گروہ میں داخل فرمادیوے اور دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران فرمائے۔
آمین یا رب العالمین ۔