اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ - فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔محرم الحرام کا مہینہ ان چار مہینوں میں شامل ہے جن کی حرمت ھر مسلمان پر واجب ہے اور اس ماہ میں جنگ کرنا، کسی کو ایذا دینا یا کسی کیخلاف جنگ میں شریک ہونا وغیرہ سے منع فرمایا گیا ہے۔اس مہینے کی جہاں حرمت ہے وہاں یہ مہینہ شہادتوں کا بھی ہے کہ اسی مہینے کے آغاز میں یکم محرم الحرام کو خلیفۂ ثانی، مرادِ رسول صلی الل علیہ وآلہ وسلم ، فاتح فلسطین جناب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت بھی ہے جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک بدبخت مجوسی غلام نے حالتِ نماز میں خنجر کے وار کر کے شہید کر دیا تھا۔ اسی مہینہ میں دس محرم الحرام کی تاریخ کو نواسۂ رسول صلی الل علیہ وآلہ وسلم ؐ جناب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی مظلومانہ شہید کیا گیا اور ان کے ساتھ ان کے خانوادے کو بھی ان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ شہید کر کے اسلام میں فرقہ واریت کا ایسا بیج بویا گیا کہ جو آج تک بند ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ ان عظیم ہستیوں نے اپنی جانیں اللہ کی رضا کے لئے قربان کرکے فرزندان اسلام کو ایک سبق دیا ہے کہ عظیم مقصد کے لیے قربانی دینی ھی پڑتی ہے اور قربانی دیئے بغیر کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کی ان دو شخصیات کا اور ان کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کریں تو ایک بات تو بڑی واضح ہوتی ہے کہ ان کی قربانیوں کا سب سے بڑا درس یہ ہے کہ اگر ہم اپنی ذاتی زندگی میں کوئی عظیم مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی ذاتی خواہشات کو عظیم مقاصد کے حصول کے لیے قربان کرنا ہی ہو گا اور قربانی کے بغیر کوئی بھی مقصد حاصل کرنا نا ممکن ہے یہی ان دوشخصیات کی زندگیوں کا خلاصہ ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے میدانِ کربلا میں دس محرم الحرام کو ایک عظیم مقصد کے لئے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج ھمارا طریقہ کار ملاحظہ ھو کہ محرم کا مہینہ آتا ہے تو ہم ایک مخصوص گروہ اور فرقے پر تنقید کرنا، ان سے بحث و مباحثہ کرنا، انکو برا بھلا کہنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے ھم واقعی وہ مقصد پورا کر رھے ھیں جس کے لئے کربلا میں ایک عظیم الشان قربانی دی گئی تھی ۔ ۔ تنقید برائے تنقید اور صرف جیتنے کیلئے بحث کرلینا کوئی نیکی نہیں ہے، نہ ہی ایسا کرنے سے حق بات اگے پہنچائی جا سکتی ھے۔
ھر شخص خود ھی غور وفکر کرے کہ امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ آخر کس مقصد کیلئے اتنی بڑی قربانی دے کر گئے تھے۔ ھر شخص اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ برائی اور ناانصافی کو ہاتھ اور زبان سے روکتا ہے ؟ یا کم از کم اسے دل سے ھی برا سمجھتا ھے جو کہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ھے
کیا ھم محرم الحرام کو رسول کریم صلی الل علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے مطابق گزارتے ھیں یا پھر محرم کے دنوں میں کھانے پکانے اور بانٹنے کو ہی دین کی خدمت سمجھ لیا ھوا ہے؟ مقامِ حیرت ھے کہ عبادت کرنے اور روزہ رکھنے کے دن 9 اور 10 محرم ہم کھانے بنانے اور بانٹنے میں لگا دیتے ہیں۔۔ کیا نبی کریم صلی الل علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے ہمیں محرم کے یہ دن ایسے ھی گزارنا سکھایا ھوا ھے؟ یہ تو رجوع الی اللہ کے دن ہیں۔ نہ کہ سنی سنائی اور خاندان محلے میں چلی آنے والی رسومات کو دیکھ کر طرح طرح کےکھانے بنانے اور بانٹنے کے دن!
ان رسومات کو اگر عبادت، ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جا رھا ھے تو پھر یہ یقیناً بدعت کا ارتکاب کیا جا رھا ھے ۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم سنتوں کو تازہ کریں تاکہ بدعات سے ھم نجات پا لیں ۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ھے کہ پھر اہل تشیع ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ تو بھائی کیا اُن کی پیروی کرنا ھمارے لئے ضروری ھے ۔ یہ انکا اپنا مذھب و مسلک ہے . وہ عنداللہ خود ھی جوبدہ ھوں گے ۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے مسلک ، قرآن اور نبی کریم صلی الل علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اتباع کو بھول کر ان گمراہ لوگوں جیسے ھی کام کرنے لگتے ہیں.... خدارا ہوش کے ناخن لیجیے ۔
ہم تو نبی کریم صلی الل علیہ وآلہ وسلم اور ان کے تمام اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم اور جان و مال سمیت ہر چیز نچھاور کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت رکھنے کے دعوے دار ہیں تو پھر ہماری عبادات اور معاملات کیوں ان کی طرح عملی طور پر رب کے احکام پر عمل کرنے ولے اعلی ترین رول ماڈلز کی طرح نہیں ھیں ؟ ھم اگر عادتاً عبادات کر بھی لیتے ھیں تو انکا اثر ھماری زندگیوں پر اور ھمارے معاملات پر کیوں نہیں پڑتا ؟ جھوٹ، ملاوٹ ، دھوکہ ، رشوت ، بد زبانی ، غیبت ، دوسروں کا حق کھانا، سود ، فیشن کے نام پر فحاشی، حسد ، ریاکاری سمیت معاملات میں کافروں سے بھی بد تر ہونے کی ، ہمارے معاشرے کی معاملات کے بگاڑ کی ایک لمبی لسٹ ھے مگر ہم پھر بھی محبتِ رسول صلی الل علیہ وآلہ وسلم و اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم کے دعوے دار اور جنتی ھونے کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ھیں ؟
اللہ ہم سب کو دین سمجھنے، صراط مستقیم پر چلنے ، نیک اعمال کی توفیق اور حسن خاتمہ کے ساتھ جنت الفردوس سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و اصحابہ اجمعین وسلم ۔