(الف)
شوال کے چھ روزوں کی مشروعیت
ماہ رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، حدیث مبارکہ ہے:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ - رضي الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ .
ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:''جس نے رمضان کے روزے رکھے پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے،اس کو عمربھرکے روزوں کاثواب ملے گا،[صحیح مسلم]
(ب)
شوال کے چھ روزوں کی حکمت
ماہ شوال کے ان روزوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی رقم طراز ہیں :
’’أفضل التطوع ما کان قريبا من رمضان قبله و بعده و ذلک يلتحق بصيام رمضان لقربه منه و تکون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها و بعدها فيلتحق بالفرائض في الفضل و هي تکملة لنقص الفرائض و کذلک صيام ما قبل رمضان و بعده فکما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة فکذلک صيام ما قبل رمضان و بعده أفضل من صيام ما بعد منه‘‘
رمضان سے پہلے اوررمضان کے بعدسب سے بہترنفل وہ ہے جوماہ رمضان کے بالکل قریب ہو،رمضان سے قریب ترہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملادیاگیا،اورانہیں رمضان کے روزوں کے فورابعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے وبعد والی سنتوں کامقام دیاگیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملادی گئییں اوریہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہو ں گی اوررمضان سے پہلے اوربعد روزہ رکھنابھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے وبعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہترہیں[لطائف المعارف :١٣٨١]
ٹھیک یہی بات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے چنانچہ آپ حجة اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:’’والسر في مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب في الصلاة...‘‘ یعنی ان چھ روزوں کی مشروعیت کاراز یہ ہے کہ جس طرح نماز کے سنن ونوافل ہوتے ہیں جن سے نمازکافائدہ مکمل ہوتاہے،اسی طرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن ونوافل کے قائم مقام ہیں ''[حجة اللہ البالغة ]
(ج)
شوال کے چھ روزوں کے لئے ماہِ شوال کی وجۂِ تخصیص
رمضان کے بعد چھ روزو ں کے لئے ماہ شوال ہی کوکیوں منتخت کیاگیا؟اس سلسلے میں بعض علماء فرماتے ہیں :’’وخص شوال لأنه زمن يستدعي الرغبة فيه إلي الطعام لوقوعه عقب الصوم فالصوم حينئذ أشق فثوابه أکثر‘‘
ان چھ رورزوں کے لئے ماہ شوال کو اس لئے خاص کیاگیاکیونکہ یہ ایک ایسامہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب رہاکرتے ہیں کیونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے ہوتے ہیں ،لہٰذاجب کھانے کاشوق وخواہش شدت پرہو اوراس حالت میں روزہ رکھاجائے تواس کاثواب بھی زیادہ ہوگا
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وَقَالَ آخَرُونَ : لَمَّا کَانَ صَوْم رَمَضَان لَا بُدّ أَنْ يَقَع فِيهِ نَوْع تَقْصِير وَتَفْرِيط , وَهَضْم مِنْ حَقِّهِ وَوَاجِبِهِ نَدَبَ إِلَي صَوْم سِتَّة أَيَّام مِنْ شَوَّال , جَابِرَةٍ لَهُ , وَمُسَدِّدَة لِخَلَلِ مَا عَسَاهُ أَنْ يَقَع فِيهِ . فَجَرَتْ هَذِهِ الْأَيَّام مَجْرَي سُنَن الصَّلَوَات الَّتِي يُتَنَفَّل بِهَا بَعْدهَا جَابِرَة وَمُکَمِّلَة , وَعَلَي هَذَا : تَظْهَر فَائِدَة اِخْتِصَاصهَا بِشَوَّال , وَاَللَّه أَعْلَم‘‘
بعض اہل علم کاکہناہے کہ رمضان کے روزوں کے حقوق وواجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی وکمی ہوہی جاتی ہے ،اس لئے شوال کے چھہ روزے مستحب قراردئے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اورکمیوں کی تلافی ہوسکے گویاکہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جونمازوں میں واقع کمی وکوتاہی کودورکرنے کے لئے ہوتی ہیں ،اس سے ظاہرہوتاہے کہ ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کافائدہ کیاہے [تہذیب سنن أبی داود ]
(د)
شوال کے روزوں کے لئے عدد''چھ(٦)''کی وجۂ تخصیص
شوال کے ان چھ روزوں کی تعداد صرف چھ ہی کیوں ہے؟اس کی وضاحت حدیثِ مبارکہ میں موجود ہے
’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَي رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ کَانَ تَمَامَ السَّنَةِ (مَنْ جَاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا(انعام
ثوبان رضی اللہ عنہ اللہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:''جس نے عید الفطرکے بعدچھ روزے رکھے تواسے پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گا،جوایک نیکی کرتاہے اسے دس نیکیوں کاثواب ملتاہے''[سنن ابن ماجہ[
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہواکی ایک نیکی دس نیکی کے برابرہے،یعنی ایک روزہ دس روزہ کے برابرہے،اس لحاظ سے رمضان کے تیس روزوں کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملالئے جائیں توکل چھتیس(٣٦)روزے ہوتے ہیں ،پھران میں ہر روزہ جب دس (١٠)روزے کے برابر ہوگا،توچھتیس (٣٦)روزے تین سوساٹھ(٣٦٠)روزوں کے برابر ہوجائیں گے،اورچونکہ ایک سال میں کم وبیش (٣٦٠)دن ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ روزے پورے سال کے روزوں کے برابرہوئے۔ درج ذیل حدیث میں اسی چیز کی مزید وضاحت ہے:
''عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: " صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِکَ صِيَامُ السَّنَةِ "، يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ،
ثوبان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:رمضان کے ایک ماہ کاروزہ رکھنے سے دس(١٠)ماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اور(شوال کے)چھہ دنوں کاروزہ رکھنے سے دوماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اس لحاظ سے رمضان وشوال کے مذکورہ دنوں میں روزہ رکھنے سے پورے سال بھرکے روزوں کاثواب ملتاہے''[صحیح ابن خزیمة]۔
اب اگرہرسال رمضان کے روزوں کے ساتھ باقاعدگی سے شوال کے چھ روزے رکھے جائیں توہرسال، پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گااوراگریہی سلسلہ عمربھررہاتوگویاکہ اس طرح عمربھر کے روزوں کاثواب ملے گا،جیساکہ مسلم کی گذشتہ حدیث میں ہے''کَصِیَامِ الدَّہْرِ''۔
(ھ)
شوال کے چھ روزوں کورکھنے کاطریقہ
شوال کے ان چھ روزوں کوعید کے بعدفورارکھ سکتے ہیں اسی طرح بیچ میں اوراخیرمیں بھی رکھ سکتے ہیں ،نیزان روزوں کومسلسل بھی رکھ سکتے ہیں اورالگ الگ ناغہ کرکے بھی رکھ سکتے ہیں ،کیونکہ حدیث میں کسی بھی قسم کی کوئی تقییدوتعیین نہیں آئی ہے
حدیث میں شوال کے چھہ روزہ رکھنے کی فضیلت مطلقاواردہوئی ہے ،یہ روزے مسلسل ایک ساتھ رکھے جائیں یاالگ الگ ناغہ کرکے رکھے جائیں یاآخری دنوں میں ،ہرطرح جائزہے ،کیونکہ حدیث بغیرکسی تقیید کے مطلق وارد ہوئی ہے
یہ روزے عید کے بعدفوراہی رکھنے بھی ضروری نہیں ہیں ،بلکہ عید کے ایک دن بعد یاچنددنوں کے بعد بھی اسے رکھاجاسکتاہے
(و)
شوال کے روزے یارمضان المبارک کے فوت شدہ روزے
اگرشرعی عذرکی بناپرکسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے تویہ شخص پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گا،پھرشوال کے روزے رکھے گا،اس لئے کہ شوال کے ان چھہ روزوں کی فضیلت جس حدیث میں وارد ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ ''مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ''یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے ہمیشہ روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوگا،
لیکن اگرکوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضاء پہلے نہ کرسکے اورمخصوص نفلی روزوں کے وقت کے نکلنے کاڈر ہو،اس بنیادپروہ پہلے نفلی روزے رکھ لے پھربعدمیں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کرلے،تواس کے دونوں روزے صحیح ہوںگے۔
''...اگرکسی نے نفلی روزے پہلے رکھ لئے اورفوت شدہ روزوں کی قضاء بعد میں کی تو دونوں روزے صحیح ہوجائیں گے،لیکن اگرنفلی روزوں رکھے پھرفرض روزے نہیں رکھے تو اس پرمؤاخذہ ہوگا
(ز)
شوال کے روزوں کی قضاء
اگر کوئی شخص کسی بھی وجہ سے شوال میں شش عیدی روزے نہ رکھ سکے تو وہ شوال کے علاوہ دیگر ماہ میں ان کی قضاء نہیں کر سکتا کیونکہ شوال کامہینہ گذرجانے کے بعد ان کی قضاء مشروع نہیں ہے خواہ وہ عذر کی وجہ سے چھوٹے ہوں یابغیر عذر کے اس لئے کہ یہ روزے سنت ہیں اوران کا وقت شوال کے مہینے تک ھی محدود ھے ۔