قسط نمبر (92) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 صیامِ رمضان المبارک


صیامِ رمضان المبارک کی فرضیت

روزے کی فرضیت کا حکم  دو ہجری میں تحویلِ قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا۔ آیتِ صیام شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْـهُـدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۗ يُرِيْدُ اللّـٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَۖ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَـبِّـرُوا اللّـٰهَ عَلٰى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ O

رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے، سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا، اور تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو (البقرة)


ہجرت کے بعد فرضیتِ صیام کی حکمت

ہجرت کے بعد روزے کو فرض کرنے کی حکمت یہ تھی کہ جب مسلمان توحید و رسالت، نماز اور ما قبل ہجرت نازل ہونے والے دیگر احکامِ قرآن پر عمل کرنے کے خوگر اور عادی ہوجائیں تو پھر انہیں روزہ کا حکم دیا جائے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب صیامِ رمضان المبارک کو فرض کیا گیا تو صومِ عاشورہ کا حکم منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان المبارک فرض ہو گیا تو اُسے چھوڑ دیا گیا


رمضان کی وجہ تسمیہ

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے۔ اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہذا رمض کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا، جن میں و ہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً  رمضان المبارک ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا، اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔

(مرقاة المفاتیح)

یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان کا لفظ رمض الصائم سے لیا گیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی۔ رمضان کو رمضان کا نام اس لئے دیا گیا کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔

(لسان العرب)


رمضان المبارک کی اھمیت ، مقصد اور فضیلت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود کوئی سیئات ومعصیات سے مجتنب ہوکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق ومخلوق کے نزدیک اشرف واکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقویٰ وپرہیزگاری ہے جو روزہ کا مقصدِ اصلی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ O أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ                                     (البقرۃ)

)اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘

تقویٰ کا معنی ہے: نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے، جیسا کہ ایک صحابیؓ نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم! مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے‘‘ ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’

علیک بالصوم، فإنہٗ لامثل لہٗ‘‘ (سنن نسائی) 

 روزہ رکھا کرو کہ اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔‘‘

 رمضان المبارک کا  مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔ 

رمضان المبارک  کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ 

پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ 

روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ 


 رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اھتمامِ رمضان المبارک اور اُمت کو  اس کی تعلیم اور تلقین 


۱:-حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔

۲:-حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا  رمضان  المبارک  کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔

۳:- آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ: ’’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔

۴:-آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘

افطار کی دعائیں

’’ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاء  اللّٰہُ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تربتر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔‘‘ 

 : ’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا۔‘‘

۵:-رمضان المبارک میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔

۶:-روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔

۷:-رمضان المبارک میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔

۸:-حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔


۹:-حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو۔

۱۰:-جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔

۱۱:-لیلۃ القدر کی دعا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔‘‘ ۔۔۔۔’’اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے۔‘‘

۱۲:-اگر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان المبارک کا ایک روزہ چھوڑدیا ، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔

۱۳:- رمضان المبارک  میں چار کام کثرت سے کیے جائیں: دو کام جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں: ۱:- ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت، ۲:-استغفار زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔اور دو کام جو ہر انسان کی ضرورت ہیں: ۱:- اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا جائے، ۲:-جہنم سے پناہ مانگی جائے۔

۱۴:-تراویح کے بارے میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارشاد ہے: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور جس نے رمضان المبارک  (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘

۱۵:-اعتکاف کے بارے میں آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان المبارک  میں (آخری) دس دن کا اعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دوعمرے کا ثواب ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق ومغرب سے زیادہ ہوگا۔‘‘

۱۶:- رمضان المبارک میں قرآن کریم کا دور اور جودوسخاوت کی جائے، اس لیے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم جود وسخاوت میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے اور رمضان المبارک  میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام  رمضان  المبارک کی ہر رات میں آکر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ 

۱۷:-روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں : مثلا: غیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ بات کرے تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے، جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتی ہے۔

یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو تقویت دینے کے لیے آتا ہے۔ رمضان کے اُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں، حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارشاد نقل کرتے ہیں:

’’إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ۔‘‘                                  (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ) 

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے: جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘

’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اور شیطانوں کا قید ہونا اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے، شیاطین کا بند ہونا اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں، جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان المبارک میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں،یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ۔‘‘        (نووی شرحِ مسلم)

الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے تووہ تمنا کریں کہ کاش! سارا سال رمضان  المبارک ہوجائے۔


رمضان المبارک کی چند خصوصیتیں 

۱:-سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘                                                      (البقرۃ)

رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘

۲:-اسی ماہ کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے: 

’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘  (القدر)

بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘

گویا رمضان المبارک اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ قرآن پاک رمضان المبارک  میں آیا تو رمضان المبارک کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان المبارک اور قرآن کریم کا جسم اور روح کاسا تعلق ہے۔ رمضان المبارک جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے:

ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام

کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام

اس لیے اکابرینِ اُمت نے رمضان المبارک  میں روزہ اور تراویح کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔

۳:-رمضان المبارک کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے:           یا باغی الخیر! أقبل ویا باغي الشر! اقصر۔‘‘ (مشکوٰۃ، 

’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے طالب! رُک جا‘ 

یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے باز آ جا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ رمضان المبارک  میں اہلِ ایمان کا عموماً رجحان اور میلان نیکیوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔ 

ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منبر سے قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے منبر کے پہلے درجہ پرقدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب دوسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب تیسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اُترے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: (یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم!) ہم نے آج آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے (منبرپرچڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: اس وقت جبرائیل علیہ السلام میر ے سامنے آئے تھے (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کامبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوجائے۔ میں نے کہا: آمین۔ (مستدرک حاکم )

رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک انسان کوشش کرے تو ایک رمضان المبارک سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہے، جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے اور یہ یقین کرکے رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں اور وہ تمام آعمالِ حسنہ کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا تو رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارشاد ہے:

’’من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا غفرلہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وماتأخر  (المؤطا ) 

جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے رمضان المبارک میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘

ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص وللّٰہیت اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔ 

۴:- دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ومددگار اور تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح سے رمضان المبارک کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے۔ اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔ 

۵:- روزہ جن چیزوں سے معمور کیا گیا ہے، اس کا لحاظ رکھا جائے۔ روزہ کا منشأ یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا جائے، یعنی روزہ کے ساتھ ساتھ تراویح ، اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ الحاجۃ، صلاۃ التسبیح، تلاوتِ قرآن، اللہ تعالیٰ کا ذکر، صدقہ، خیرات، عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش، شبِ قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایا جائے اور جتنا ہوسکے ان پر عمل کیا جائے۔

اس ماہ میں غریبوں، یتیموں ، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کامعاملہ کیا جائے، ان پر سخاوت کی جائے، یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے۔ یا ہوسکتا ہے ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کامقام حاصل کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمالیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔

بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھے کہ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں، رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔


 لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ زندگی میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے روزہ کا بڑا اثر ہے۔

اسی ماہِ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے تمام ِانسانوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ کریم أسمان دنیا پر نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد قرآنِ کریم میں ہے: 

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ()

یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق قرآنِ کریم سے ہر شخص کو ہدایت نہیں ملتی بلکہ قرآنِ کریم سے استفادہ کی بنیادی شرط تقویٰ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ، غرض رمضان المبارک اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔

اس ماہِ مبارک میں ایک رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ یہ مہینہ اللہ کی عبادت، اطاعت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور قرآنِ کریم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا دنیامیں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیاملے گا مگر روزہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا یا فرمایا کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔


ماہِ رمضان المبارک کا قرآنِ کریم سے خاص تعلق

قرآنِ کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن زیادہ كرنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو قرآنِ کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگانِ دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔

ماہِ رمضان کا قرآنِ کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآنِ کریم کا ماہِ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآنِ کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآنِ کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان المبارک میں نازل ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ مصحفِ ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان المبارک میں ہی ہوا ہے۔ نزولِ قرآن اور دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآنِ کریم لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر ۔ 

بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے۔

سورۂ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق....) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۂ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتر اہے، جیساکہ سورۂ الدخان کی آیت ۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ ليْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے) اور سورۂ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن يعني رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم لوح محفوظ سے سماءِ دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآنِ کریم کا خاص تعلق روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔

رمضان المبارک کا قرآنِ کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہِ رمضان میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا انتقال ہوا اس سال آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری ومسلم)


قرآنِ كريم اور رمضان المبارك کے درمیان چند مشترک خصوصیات

قرآنِ کریم اور رمضان المبارک کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآنِ کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ 

دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآنِ کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ ( احمد والطبرانی والحاکم)

تیسری خصوصیت جو رمضان المبارک اور قرآنِ کریم  دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قربِ الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔


اِحترامِ رمضان المبارک

علماء نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ:’’ ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو رمضان المبارک کے دن میں کھاتے دیکھا تو اُسے مارا کہ تونے رمضان المبارک کی حرمت کو باقی نہ رکھا، کہتے ہیں کہ پھر اسی ہفتہ اس کا انتقال ہوگیا تو شہر کے کسی عالم نے اُسے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے، اُس نے تعجب سے پوچھا: ’’میاں! تم یہاں کیسےپہنچ گئے؟ ‘‘ تو اس نے کہا: ’’جب میری موت کا وقت آیا تو حرمتِ احترامِ رمضان المبارک کی وجہ سے مجھے کلمہ پڑھا کر مشرف باسلام کردیا گیا، اور الحمد للہ! میرا خاتمہ ایمان پر ہوا۔‘‘    (نزھة المجالس)

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی صحیح معنوں میں قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کو قبول فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   کی شفاعت کے طفیل جنت الفردوس نصیب فرمائے۔

 آمین یا الہ العالمین 

جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: