جہاد فی سبیل اللہ کے آداب اور اسلام کے جنگی آخلاقیات
آدابِ جہاد
گھر سے جھاد کے لئے نکلتے وقت اللہ کا نام لینا
آکڑ اور متکبرانہ چال سے گریز کرنا
آپس میں لڑائی جھگڑے سے مکمل اجتناب کرنا اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی مکمل آطاعت کرنا
جنگ میں صبر و تحمل کا مظاھرہ اور ثابت قدمی سے لڑنا
حالتِ جنگ میں ایک لمہے کے لئے بھی اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ ھونا
ارشادِ باری تعالی ھے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا لَقِيْتُـمْ فِئَةً فَاثْبُـتُـوْا وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (45)
اے ایمان والو! جب کسی فوج سے ملو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
وَاَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ ۖ وَاصْبِـرُوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ (46)
اور اللہ اور اس کے رسول (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم )کا کہا مانو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
وَلَا تَكُـوْنُـوْا كَالَّـذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِـمْ بَطَرًا وَّرِئَـآءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ وَاللّـٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ (47)
اور ان لوگوں جیسا نہ ہونا جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے، اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس پر احاطہ کرنے والا ہے۔
اپنی کثرت اور ساز و سامان پر مغرور نہیں ھونا اور قلت پر پریشان نہیں ھونا صرف اللہ تعالی پر بھروسہ کرنا کہ فتح و نصرت اسی کے ھاتھ میں ھے۔ارشادِ باری تعالی ھے
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّـٰهُ فِىْ مَوَاطِنَ كَثِيْـرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُـمَّ وَلَّيْتُـمْ مُّدْبِـرِيْنَ (25)
اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے، اور حنین کے دن، جب تم اپنی کثرت پر خوش ہوئے پھر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر ہٹ گئے۔
ثُـمَّ اَنْزَلَ اللّـٰهُ سَكِـيْنَتَهٝ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ وَعَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُـوْدًا لَّمْ تَـرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ۚ وَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكَافِـرِيْنَ (26)
پھر اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ) پر اور ایمان والوں پر تسکین نازل فرمائی اور وہ فوجیں اتاریں کہ جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو عذاب دیا، اور کافروں کو یہی سزا ہے۔
ثُـمَّ يَتُـوْبُ اللّـٰهُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (27)
پھر اس کے بعد جسے اللہ چاہے توبہ نصیب کرے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
بلندی پر چڑھتے ھوئے اللہ اکبر کہنا اور نیچے اُترتے ھوئے سبحان اللہ کہنا اور سواری پر سوار ھوتے ھوئے سواری کی دعا پڑھنا۔ارشادِ باری تعالی ھے
سُبْحَانَ الَّـذِىْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَـهٝ مُقْرِنِيْنَ O وَاِنَّـآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ O
وہ ذات پاک ہے جس نے ہمارے لیے اسے مطیع کر دیا اور ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے۔ اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں
جب اللہ پاک فتح نصیب کرے تو آمیرِ لشکر مجاھدین کی صفیں قائم کرکے ان الفاظ میں اللہ تعالی کا شکر اور حمد و ثنا بیان کرے اور تمام مجاھدین آمین کہیں
((اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلاَ هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلاَ مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلاَ مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ، وَرَحْمَتِكَ، وَفَضْلِكَ، وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لاَ يَحُولُ وَلاَ يَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّي عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَنَا، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الإِيمَانَ وَزِيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ مَفْتُونِينَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ، إِلَهَ الْحَقِّ [آمِينْ]
فتح کے بعد بطور فخر اسے اپنی طرف منسوب نہ کرنا۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم جہاد کے سفر سے واپسی پر یہ دعا پڑھتے تھے
لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے، اور سب تعریف اسی کے لیے ہے، اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے، ہم واپس آنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اپنے رب ہی کی تعریف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اور اپنے بندے کی مدد فرمائی، اور اس اکیلے نے تمام (مخالف) گروہوں کو شکست دیدی۔
(صحيح البخاري)
جنگی آخلاقیات پر ھدایاتِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم
غیر اہل قتال کی حرمت
اسلام نے محاربین کو مندرجہ ذیل دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے:
۱- اہل قتال
۲- غیر اہل قتال
اہل قتال وہ ہیں جوجنگ میں عملاًحصہ لیتے ہیں اور غیر اہل قتال وہ جو جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے مثلاًعورتیں،بچے ،بیمار،زخمی،اندھے ،مقطوع الاعضا یعنی معذور،مجنون، سیاح، خانقاہ نشین، زاہد، معبدوں اور مند روں کے مجاور ،ایسے ہی دوسرے بے ضررلوگ ۔ اسلام نے طبقہ اول کے لوگوں کو جہاد کے دوران قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقہ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ ایک مرتبہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ایک عورت کی لاش پڑی دیکھی تو ناراض ہو کر فرمایا کہ
«ماکانت هذه تقاتل » ''
یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی''
اور سالارِ فوج حضرت خالد کو کہلا بھیجا:
لاتقتلن امرأة ولاعسیفا
''عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔''
ایک دوسری روایت کے مطابق رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی عام ممانعت فرما دی:
فنهى النبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم عن قتل النساء والصبيان
رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے روک دیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:
«لاتقتلوا شیخًا فانیًا ولاطفلا صغیرًا ولاامرأة ولاتغلوا وضموا غنائمکم وأصلحوا وأحسنوا إن الله یحب المحسنین
'' کسی بوڑھے ضعیف ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل مت کرواور اموالِ غنیمت میں چوری نہ کرو۔ جنگ میں جو کچھ ہاتھ میں آئے سب کوایک جگہ جمع کرو۔نیکی اور احسان کرو، اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔''
فتح مکہ کے موقع پر آپ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے پہلے سے ہدایت فرمادی کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا، جو کوئی جان بچا کر بھاگے اس کا پیچھا نہ کرنا اور جو اپنا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے، اسے امان دینا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ''آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم جب کبھی فوج بھیجتے تھے تو ہدایت کردیتے تھے کہ معابد کے بے ضرر خادموں اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل نہ کرنا:
لاتقتلوا... أصحاب الصوامع
خلاصہ یہ کہ وہ تمام لوگ جو لڑنے سے معذور ہیں، قتال سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔لیکن اگر بیمار فوجوں کی رہنمائی کر رہا ہو، عورت جاسوسی کر رہی ہو، بچہ خفیہ خبریں لارہا ہو یا مذہبی رہنما فوج کو جنگ کا جوش وجذبہ دلارہا ہو،تو اس کا قتل جائز ہو گا۔
غفلت میں حملہ کرنے سے احتراز
عرب میں قاعدہ تھا کہ راتوں کواور خصوصاً رات کے آخری حصہ میں جب لوگ سو رہے ہوتے تھے دشمن اچانک حملہ کر دیتے تھے۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اس عمل کو بند کر دیا:
کان إذاجاء قومًا لم یغرحتی یصبح
''آپ جب کسی دشمن پر رات کے وقت پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہوتی حملہ نہ کرتے۔''
آگ میں جلانے سے ممانعت
عرب اور غیر عرب شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلادیا کرتے تھے۔ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اس وحشیانہ حرکت کو بھی ممنوع قرار دیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا:
«لاینبغي أن یعذب بالنار إلا ربّ النار
'' آگ کا عذاب صرف آگ کے رب کو ہی لائق ہے کہ وہ دے۔''
ایک مرتبہ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے زنادقہ کو جلا یا تھا حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُنہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا یہ حکم سنایا
لاتعذبوا بعذاب الله
آگ اللہ کا عذا ب ہے۔اس سے بندوں کو عذاب نہ دو ۔
ہاتھ باندھ کر قتل کرنے کی ممانعت
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے دشمن کو باندھ کر قتل کرنے اور تکلیف دے کر قتل کرنے سے منع کر دیا ۔عبید بن یعلی کا بیان ہے کہ ہم عبد الرحمن بن خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جنگ پر گئے تھے، ایک موقع پر ان کے پاس لشکر ِاعدا میں سے چار نوجوان پکڑے ہوئے آئے۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ انھیں باندھ کر قتل کیا جائے۔اس کی اطلاع حضرت ابو ایوب انصاری ؓرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہوئی تو اُنہوں نے کہا:«سمعت رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ینهی عن قتل الصبر فو الذي نفسي بیده لوکانت الدجاجة ماصبرتها»8
''میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے باندھ کرقتل کرنے سے روکا ہے ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر مرغی بھی ہوتی تو میں اسے باندھ کر قتل نہ کرتا ۔'' عبدالرحمن کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اسکے کفارہ میں چار غلام آزاد کیے۔
لوٹ مار کی ممانعت
جنگ ِخیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے نو مسلم نوجوان بے قابو ھو گئے اور اُنہوں نے غارت گری شروع کردی تو آپ نے عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ لشکر کو نماز کے لیے جمع کرو ۔جب لوگ جمع ہو گئے ، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے خطبہ دیا اور فرمایا
''تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہو جاؤ ،ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ جو اُن پر واجب تھا،وہ تم کو دے چکے۔''
عبد اللہ بن یزید روایت کرتے ہیں :
نهی النبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم عن النهبٰی والمثلة
'' نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے لوٹ مار اور مثلہ سے روکا ہے۔'' اورراستے میں لوگوں کے جانوروں کا دودھ بھی بلااجازت لینے کی ممانعت فرمادی۔
تباہ کاری کی ممانعت
فو ج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام، آتش زنی کرنا ، جنگجوؤں کے گروہوں میں عام ہے۔ اسلام اسے فساد قرار دیتا ہے اور اس کی کلی ممانعت قرآن میں ہے:
﴿وَإِذا تَوَلّىٰ سَعىٰ فِى الأَرضِ لِيُفسِدَ فيها وَيُهلِكَ الحَرثَ وَالنَّسلَ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الفَسادَ ٢٠٥ ﴾.... سورة البقرة
''جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کرے اور اللہ تعالی فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ''
مثلہ کی ممانعت
دشمن کی لاشوں کو بے حرمت کرنے اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے کو بھی اسلام نے سختی سے منع کیا ہے ۔عبد اللہ بن یزید انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں :
نھی النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم عن النهبی والمثلة
''نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے لوٹ مار اور مثلہ سے منع فرمایا ہے۔''
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فوجوں کو بھیجتے وقت جو ہدایات دیتے تھے، ان میں تا کید فرماتے:
لاتغدرو ا ولاتغلوا ولاتمثلوا
''بد عہدی نہ کرو غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو ۔ ''
قتل اسیرکی ممانعت
فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم جب شہر میں داخل ہونے لگے تو فوج میں اعلان کرادیا تھا :
لاتجهزن على جریح ولا یتبعن مدبرا ولا یقتلن أسیرا ومن أغلق بابه فهو آمن
''کسی مجروح پر حملہ نہ کیاجائے ۔کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے۔ کسی قیدی کوقتل نہ کیاجائے اورجو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے۔''
قتل سفیر کی ممانعت
سُفرا اور قاصدوں کے قتل کو بھی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم آپ نے منع فرمایا ہے۔ مسیلمہ کذاب کے قاصد جب اس کا گستاخانہ پیغام لے کر حاضر ہوئے تھے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا:
«لولا أن الر سل لا تقتل، لضربت أعناقكما
''اگر قاصدو ں کاقتل ممنوع نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن مار دیتا۔''
اسی سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جب کوئی شخص اسلامی سرحد پر پہنچ کر بیان کرے کہ میں فلاں حکومت کا سفیر ہوں اور حاکم اسلام کے پاس پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں تو اس کو امن کے ساتھ داخلہ کی اجازت دی جائے، اس پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے۔ اس کے مال ومتاع، خدم وحشم حتیٰ کہ اسلحہ سے بھی تعرض نہ کیاجائے؛ اِلّا یہ کہ وہ اپنا سفیر ہونا ثابت نہ کر سکے۔
بد عہدی کی ممانعت
غدر، نقض عہد اور معاہدوں پر دست درازی کرنے کی برائی میں بے شمار احادیث آئی ہیں جن کی بناپر یہ فعل اسلام میں بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا:
من قتل معاهدا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحها ليوجد من مسیرة أربعین عامًا
''جو کو ئی کسی معاہد کو قتل کرے گا، اسے جنت کی بو تک نصیب نہ ہو گی حالانکہ اس کی بو چالیس برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔ ''
بد نظمی اور انتشار کی ممانعت
اہل عرب کی عادت تھی کہ جب جنگ کو نکلتے تو راستہ میں جو ملتا ،اسے تنگ کرتے اور جب کسی جگہ اُترتے تو ساری منز ل پر پھیل جاتے تھے یہاں تک کہ راستوں پر چلنا مشکل ہو جاتا تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے آکر اس کی بھی ممانعت کر دی۔ ایک مرتبہ جب آپ جہاد کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے پاس شکایت آئی کہ فوج میں عہد ِجاہلیت کی سی بد نظمی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں نے راستہ کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے منادی کرائی:
من ضیق منزلا أوقطع طریقًا فلاجهاد لہ
جو کوئی راستہ کوتنگ کرے گا یا راہ گیروں کولوٹے گا اس کا جہاد نہیں ہوگا۔''
ایک دوسرے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
إن تفرقکم في هذه الشعاب والأودیة إنما ذٰلکم من الشیطان
''تمہارا اس طرح وادی میں منتشر ہوجانا ایک شیطانی فعل ہے۔''
ابوثعلبہ خشنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ اس کے بعد یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ جب اسلامی فوج کسی جگہ اُترتی تو اس کا گنجان پڑاؤ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک چادر تان لی جائے تو سب کے سب نیچے آجائیں۔
شورو ہنگامہ کی ممانعت
عرب کی جنگ میں اس قدر شورو ہنگامہ برپاہوتا تھا کہ اس کا نام ہی 'غوغا' پڑ گیا تھا ۔ اسلام لانے کے بعد بھی عربوں نے یہی طریقہ برتنا چاہا مگر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اس کی اجازت نہ دی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں :
''کنا مع رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم وکنا إذا أشرفنا علىٰ واد هللنا وکبرنا، ارتفعت أصواتنا، فقال النبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم : اربعوا علىٰ أنفسکم، إنکم لا تدعون أصم ولا غائبًا، إنه معکم إنه سمیع قریب
''ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے، جب کسی وادی پر پہنچتے تھے تو زور و شور سے تکبیر اور تہلیل کے نعرے بلند کرتے تھے۔ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے لوگو! وقار کے ساتھ چلو، تم جس کو پکار رہے ہو وہ نہ بہرہ ہے اور نہ غائب۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہے، سب کچھ سنتا ہے اور بہت قریب ہے۔ ''
وحشیانہ افعال کے خلاف ہدایاتِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم
فوجوں کی روانگی کے وقت جنگی برتاؤ کے متعلق ہدایات دینے کاطریقہ جس سے اُنیسویں صدی کے وسط تک مغربی دنیا نابلد تھی، ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے اُمی نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے جاری کیاتھا۔رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کسی سردار کو جنگ پر بھیجتے تو اسے اور اس کی فوج کو پہلے تقوٰی اور خوف خدا کی نصیحت کرتے، پھر فرماتے :
فاغزوا جميعا وفي سبیل الله، فقاتلوا من کفر بالله، ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیدًا
''جاؤ سب اللہ کی راہ میں لڑو ، اُن لوگوں سے جواللہ سے کفر کرتے ہیں۔مگر جنگ میں بد عہدی نہ کرو ، غنیمت میں خیانت نہ کرو ، مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔ ''
خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دی تھیں جن کو تمام مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:
1. عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں ۔
2. مثلہ نہ کیا جائے ۔
3. راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔
4. کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔
5. آبادیاں ویران نہ کی جائیں ۔
6. جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔
7. بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔
8. جو لوگ اطاعت کریں، ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان ومال کا ہے۔
9. اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔
10. جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔
اصلاحاتِ اسلامیہ کے نتائج
ان احکام کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ افعال سے پاک کردیا جواس عہد میں جنگ کا لازمی جزو بنے ہوئے تھے ۔ اسیرانِ جنگ اور سفرا کا قتل ، مُردوں کی بے حرمتی ، معاہدین کا قتل ، مجروحینِ جنگ کا قتل ، غیر اہل قتال کا قتل ،اعضا کی قطع و برید، آگ کا عذاب ، لوٹ مار، قطع طریق ، فصلوں اور بستیوں کی تخریب ، بد عہدی وپیمان شکنی، فوجو ں کی پراگندگی وبد نظمی ، لڑائی کا شور وہنگامہ، سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایک ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم ممکن نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے۔
اس اصلاحی تعلیم نے آٹھ سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے ،اس کابہترین نمونہ فتح مکہ ہے۔ ایک طاقت پر دوسری طاقت کی فتح اور خصوصاً دُشمن کے بڑے شہر کی تسخیر کے موقع پر وحشی عرب ہی نہیں بلکہ متمدن روم و ایران میں بھی جو کچھ ہوتا تھا، اسے پیش نظر رکھیے اس کے بعد غور کیجیے کہ وہی عرب جو چند برس پہلے تک جاہلیت کے طریقوں کے عادی تھے اسی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جس سے آٹھ ہی برس پہلے ان کو بری طرح تکلیفیں دے دے کر نکالا گیا تھا اور انہی دشمنوں پر فتح حاصل کرتے ہیں جنہوں نے ان فاتحوں کو گھر سے بے گھر کرنے پر قناعت نہیں کی تھی بلکہ جس جگہ اُنہوں نے پناہ لی تھی وہاں سے بھی ان کو نکال دینے کے لیے کئی مرتبہ چڑھ کر آئے تھے۔ ایسے شہر اورایسے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر کوئی قتل عام نہیں کیا جاتا، کسی قسم کی لوٹ مار نہیں ہوتی، کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو سے تعرض نہیں کیا جاتا، پرانے اور کٹر دشمنوں میں سے کسی پر انتقام کا ہاتھ نہیں اٹھتا،تسخیر شہر کی پوری کارروائی میں صرف چوبیس آدمی مارے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کہ دست درازی میں پیش قدمی خود ان کی طرف سے ہوئی۔
سالارِ فوج نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم داخلہ سے پہلے اعلان کر دیتے ھیں کہ جب تک تم پرکوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تم بھی ہاتھ نہ اُٹھانا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی منادی کی جاتی ہے کہ جو کوئی اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا، اسے امان ہے اور جوکوئی ہتھیار ڈال دے گا، اسے بھی امان ہے جو کوئی حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر پناہ لے گا اسے بھی امان ہے۔ پھرتکمیل تسخیر کے بعد فاتح سردار نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے سامنے دشمن ایک ایک کر کے لائے جاتے ہیں جنہوں نے ان کو تیرہ برس تک انتہائی اذیتیں پہنچانے کے بعد آخر جلاوطنی پر مجبور کیا تھا ۔ جو گھر سے نکالنے کے بعد اس کو اور اس کے دین کو دنیا سے مٹا دینے کے لیے بدر ع اُحد اور احزاب میں بڑی بڑی تیاریاں کر کے گئے تھے۔ یہ دشمن گردنیں جھکائے ہوئے آکھڑے ہوتے ہیں۔ فاتح مکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم اُن سے پوچھتے ہیں: اب تم کیا امید کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ مفتوح شرم ساری کے ساتھ جواب دیتے ہیں: أخ کریم وابن أخ کریم'' تو فیاض بھائی ہے اور فیاض بھائی کا بیٹا ہے۔''
اس پر فاتحِ مکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرماتے ہیں:
لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا أنتم الطلقاء
''جاؤ تم آزاد ہو آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔''
یہ صر ف مفتوحین کی جان ہی کی بخشش نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ فاتح مکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم اور اُن کی فوج نے اُن جائیدادوں کو بھی مفتوحین کے حق میں معاف کردیا تھا جو آٹھ برس پہلے ان ھی کی مِلک میں تھیں۔
حضرت ہبار بن اسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو فاتح مکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی جوان بیٹی سیدہ زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کاقاتل تھا، عاجزی کے ساتھ مسلمان ہوا اُسے بھی معاف کر دیا گیا ۔
حضرت وحشی بن حرب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جس نے فاتح ِ عظیم رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے نہایت محبوب چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قتل کیا تھا، مسلمان ہوااور بخشا گیا۔
حضرت ہندہ بنت عتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاُجس نے سیدنا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا کلیجہ چبایا تھا ، اپنی انتہائی شقاوت کے باوجود فاتحِ مکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے غیض و غضب سے محفوظ رہی اور آخرعفوو درگزر کا دامن اس کے لیے بھی وسیع ہوا۔
سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابو جہل کابیٹا حضرت عکرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو خود بھی بڑا دشمن اسلام تھا، مسلمان ہوا اٗسے بھی معافی مل گئ اور اُسے جلیل القدر صحابہ کی صف میں شامل کیا گیا۔
ان کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن ابی سرح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت کعب بن زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو سب کے سب فاتح کے جانی دشمن تھے، معاف کیے گئے
جاری ھے۔۔۔۔۔۔