قسط نمبر (89) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 مدینہ منورہ میں مہاجرین کے مکانات کی تعمیر

          مہاجرین کی سکونت کے لئے مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قریب مکانات کا انتظام کیا گیا تھا  چنانچہ رسولِ کریم   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنوزہرہ کو مسجد کی ایک جانب میں ایک خطہ عنایت فرمایا جس میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے حصہ میں ایک خُرمَاسِتان آیا جو اِن  کے نام سے مشہور ومعروف تھا۔ حضرت عبد اللّٰہ و عتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمُ پسرانِ مسعود ہُذَلی جو بنوزُہْرَہ کے حلیف تھے، ان کے لئے مسجد کے پاس ایک خطہ معین کیاگیا جو ان کے نام سے مشہور تھا۔ حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک وسیع قطعہ ملا، جس میں مختلف اقسام کے درختوں کی جڑیں تھیں وہ بقیع الزبیر کہلا تا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کے گھر وں کی جگہ ملی۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی مسجد کے قریب زمین دی گئی۔ اسی طرح حضرات عثمان بن عفَّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، خالد بن وَلید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ،مِقداد بن اَ سْوَد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور طفیل بن حارِ ث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہم کو زمینیں دی گئیں ۔

          ان قطعات میں سے جو زمینیں بے آباد، غیر مملوکہ تھیں وہ رسول  اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے بطور خود تقسیم فرمادیں اور جن قطعات میں انصار کے منازل و مکانات تھے وہ انہوں نے رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہبہ کر دیئے اور حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مہاجرین کو عطا فرمادیئے چنانچہ سب سے پہلے حضرت حارِثہ بن نعمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے مکانات بطور ہدیہ پیش کیے۔ بقولِ وَاقِدی منازلُ حارثہ کی جگہ ہی حضرات امہات المومنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجر ے بنے۔

 

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چراغ کی ابتداء

          مسجد نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حجرات میں راتوں کو چراغ نہیں جلتے تھے۔حضرت تمیم داری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام سراج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں کھجور کی ٹہنیوں اور پتو ں سے روشنی کی جاتی تھی۔ ہم قَنادِیل روغن  زیتون اور رسیاں لائے اور میں نے (قندیلوں کو لٹکا کر) مسجد میں روشنی کی۔ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ دیکھ کر پوچھاکہ ہماری مسجد کو کس نے روشن کیا ہے؟ تمیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: میرے اس غلام نے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا: اس کا کیا نام ہے؟ تمیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: فتح۔ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بلکہ اس کا نام سراج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہے۔ پس رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرانام سراج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رکھا ۔  یہ واقعہ نو ھجری یا اس کے بعد کا ھی ھو سکتا ھے کیونکہ حضرت تمیم داری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نو ھجری میں مسلمان ھوئے تھے گویا نو سال تک  مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں چراغ  کا انتظام نہیں تھا 


یہودیوں  کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات

  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ظہور سے پہلے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ بہت جلد ایک نبی ظاہر ہوں گے۔ ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی(یعنی حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نشانیاں بتایا کرتے تھے) ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں کو سابقہ قوموں کی طرح تہس نہس کردیں گے۔ جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کو تباہ کیا گیا۔ہم بھی تم لوگوں کو اسی طرح تباہ کردیں گے ۔‘‘ 

جب نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا ظہور مبارک ہوگیا تو یہی یہود حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنے لگے۔  جب اوس اور خزرج کے لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تو بعض صحابہ نے ان یہودیوں سے کہا: ’’ اے یہودیو! تم تو ہم سے کہا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ۔ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی۔ہم ان پر ایمان لاکر تم لوگوں کو تباہ و برباد کردیں گے لیکن اب جبکہ ان کا ظہور ہوگیا ہے تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ تم تو ہمیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا حلیہ تک بتایا کرتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ بات کہی تو یہودیوں میں سلام بن مشکم بھی تھا۔ یہ قبیلہ بنی نضیر کے بڑے آدمیوں میں سے تھا ۔اس نے ان کی یہ بات سن کر کہا: 

’’ ان میں وہ نشانیاں نہیں ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے تھے ۔‘‘ 

اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی یہ آیت مبارکہ نازِل فرمائی۔

وَلَمَّا جَآءَهُـمْ كِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللّـٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُـمْ وَكَانُـوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّـذِيْنَ كَفَرُوْاۚ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۚ فَلَعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الْكَافِـرِيْنَ O

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کتاب آئی جو تصدیق کرتی ہے اس کی جو ان کے پاس ہے، اور اس سے پہلے وہ کفار پر فتح مانگا کرتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ چیز آئی جسے انہوں نے پہچان لیا تو اس کا انکار کیا، سو کافروں پر اللہ کی لعنت ہے

اس بارے میں ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہودیوں کے ایک بڑے سردار مالک بن صیف سے فرمایا:’’میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی،کیا تورات میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ موٹے تازے’’حبر‘‘ یعنی یہودی راہب سے نفرت کرتا ہے،کیونکہ تم بھی ایسے ہی موٹے تازے ہو،تم وہ مال کھا کھا کر موٹے ہوئے ھو جو تمہیں یہودی لا لا کر دیتے ہیں۔‘‘ یہ بات سن کر مالک بن صیف بگڑ گیا اور بول اٹھا:

’’اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری۔‘‘ 

گویا اس طرح اس نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب تورات کا بھی انکار کردیا اور ایسا اُس نے صرف جھنجھلاہٹ کی وجہ سے بی توجھی میں کہا۔ دوسرے یہودیوں کو جب اس بات کا علم ھوا تو وہ  اس پر بہت بگڑے۔انھوں نے اس سے پوچھ گچھ کی اور کہا: ’’ہم نے تمہارے بارے میں ئہ کیا سنا ہے۔‘‘ جواب میں اس نے کہا:’’محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے غصہ دلا دیا  تھ بس میں نے غصہ میں یہ بات کہہ دی۔ لیکن یہودی اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ھوئے اور اس کی اس بات کو معاف نہ کیا اور اسے سرداری سے برخاست کر دیا  اور اس کی جگہ کعب بن اشرف کو اپنا سردار مقرر کر دیا ۔ 

اب یہودیوں نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو تنگ کرنا شروع کردیا،  وہ ایسے ایسے سوالات پوچھنے کی کوشش کرنے لگے جن کے جوابات ان کے اپنے خیال میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نہ دے سکیں گے۔مثلاً ایک روز انھوں نے پوچھا:

’’اے محمد( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) آپ ہمیں بتائیں،روح کیا چیز ہے؟۔‘‘

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سوال کے بارے میں وحی کا انتظار فرمایا،جب وحی نازل ہوئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:

’’روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے۔‘‘ 

یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَآ اُوْتِيْتُـمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا O

اور یہ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ھے

پھر انھوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب آئے گی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواب میں قرآن  پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی : 

یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ 

تم سے قیامت کو پُوچھتے ہیں کہ وہ کب کوٹھہری ہے(کب آئے گی) تم فرماؤ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اُسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا

یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے ایک سوال یہ  پوچھا:

’’آپ یہ بتائیں،اس وقت لوگ کہاں ہوں گے جب قیامت کے دن زمین اور آسمان کی شکلیں تبدیل ہوجائیں گی؟‘‘

اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے جواب دیا:

’’اس وقت لوگ پل صراط کے قریب اندھیرے میں ہوں گے۔‘‘ 

اسی طرح ایک مرتبہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے بادلوں کی گرج اور کڑک کے بارے میں پوچھا۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’یہ اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کا نگران ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑا ہے،اس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہوا اس طرف لے جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔‘‘

اسی طرح دو یہودی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے پاس آئے اور پوچھا:’’آپ بتائیے!اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو کن باتوں کی تاکید فرمائی تھی۔‘‘ جواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:

’’یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بدکاری نہ کرو،اور حق کے سوا(یعنی شرعی قوانین کے سوا) کسی ایسے شخص کی جان نہ لو جس کو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے،چوری مت کرو، سحر اور جادوٹونہ کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ،کسی بادشاہ اور حاکم کے پاس کسی کی چغل خوری نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ، گھروں میں بیٹھنے والی(پاک دامن) عورتوں پر بہتان نہ باندھو۔اوراے یہودیو! تم پر خاص طور پر یہ بات لازم ہے کہ ہفتے کے دن کسی پر زیادتی نہ کرو،اس لیے کہ یہ یہودیوں کا متبرک دن ہے ۔‘‘

یہ نو ہدایات سن کر دونوں یہودی بولے:’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ کے نبی ہیں۔‘‘ اس پر آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’تب پھر تم مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟‘‘انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں ڈر ہے،اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہودی ہمیں قتل کرڈالیں گے۔‘‘

دو یہودی عالم ملک شام میں رہتے تھے۔ انہیں ابھی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ظہور کی خبر نہیں ہوئی تھی۔دونوں ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے۔مدینہ منورہ کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:’’یہ شہر اس نبی کے شہر سے کتنا ملتا جلتا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے ہیں۔‘‘ اس کے کچھ دیر کے بعد انہیں پتا چلا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ظہور ہوچکا ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے اس شہر مدینہ منورہ میں آچکے ہیں۔یہ خبر ملنے پر دونوں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں،اگر آپ نے جواب دیدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’پوچھو!کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:

’’ہمیں اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی گواہی اور شہادت کے متعلق بتایئے۔‘‘

ان کے سوال پر سورہ آل عمران کی آیت مبارکہ نازل ہوئی۔آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ ان کے سامنے تلاوت فرمائی۔

شَهِدَ اللّـٰهُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلَآئِكَـةُ وَاُولُو الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ O

اللہ نے اور فرشتوں نے اور علم والوں نے گواہی دی کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی انصاف کا حاکم ہے، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں زبردست حکمت والا ہے۔

یہ آیت سن کر دونوں یہودی اسلام لے آئے۔اسی طرح  اسلام لانے والے یہودیوں  میں ایک اور بہت بڑے عالم حصین بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ۔ ان کا اسلامی نام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رکھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اپنے گھر گئے۔اپنے اسلام لانے کی تفصیل گھر والوں کو سنائی تو وہ بھی اسلام لے آئے۔


میثاقِ مدینہ

انسانی تاریخ کا پہلا تحریری وثیقہ

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ  میں سکون و اطمینان سے قیام پذیر ہوئے تو آپ کی خواہش ہوئی کہ مدینہ منورہ کے باسیوں کے درمیان تعلقات  مضبوط کریں۔ اس وقت آپ نے یہ تحریر تیار کرائی جسے پرانی کتابوں میں تو "کتاب" یا "صحیفہ" کہا گیا مگر جدید مؤرخین نے اسے "دستور" یا "میثاق" یا "وثیقہ" کا نام دے دیا ہے۔ 

چونکہ یہ میثاق نہایت اہم ہے اور موجودہ دور کے محققین نے اسے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حسن انتظام ، اسلامی حکومت کے نظم و ضبط، دوسری حکومتوں اور قوموں کے ساتھ تعلقات اور اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد قرار دیا ہے اور تمام قانون پسند افراد نے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اسے انتہائی سبق آموز، دوررس اور نہایت اہم دستاویز قرار دیا ہے۔ اختصار کے ساتھ اس کی تفصیلات  مندرجہ ذیل ھیں ۔ 

 رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ 

میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے یہود سے اپنی قیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ صدیوں سے  آباد تھے۔


میثاقِ مدینہ کی وجوہات

میثاق مدینہ کی اہم وجوہات یہ ہیں:

٭ مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

٭ مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔

٭ ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔

٭ اس معاہدے کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔

ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔


میثاقِ مدینہ کے اہم نکات

مسلمانوں سے متعلقہ شقیں

 ٭    مسلمان چاہے وہ قریش سے تعلق رکھتے ہوں یا یثرب سے، وہ مقامی ہوں یا باہر سے آکر یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہوں اور ان کے ساتھ مل کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، سب (بلا امتیاز) ایک امت شمار ہوں گے اور باقی لوگ دوسری امت۔ 

٭  مومنین کے تمام گروہ (مہاجرین ، بنو ساعدہ، اوسی وغیرہ) آپس میں دیت بھرنے ، قیدی چھڑانے اور باہمی حق و انصاف کے سلسلے میں ایک دوسرے سے پورا تعاون کریں گے اور مسلمان اپنے میں سے کسی غریب و نادار اور قرض و تاوان کے بوجھ تلے دبے ہوئے شخص کو تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ دیت اور فدیے میں اس سے بھر پور تعاون کریں گے۔ 

٭ اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے

 * مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔

۔* فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔

*قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔

* تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔

* تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔

٭ تمام مسلمان مومن ظالم کے خلاف یک جان ہوں گے اور سختی سے اس کی مخالفت کریں گے، چاہے وہ انھی کا بیٹا ہو۔ 

٭ سب مسلمانوں کی پناہ ایک ہوگی جو اللہ کے نام پردی جائے گی۔ ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو ایسی پناہ دے سکے گا اور سب پر اس کی تعمیل واجب ہوگی۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے مخلص دوست اور مددگار ہوں گے۔ 

٭   اگر کوئی یہودی  مسلمان ہوجائے تو نہایت ہمدردی کے ساتھ اس کی مدد کی جائے گی۔ اس کے متعلقین میں سے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا نہ ان کے خلاف کسی کی مدد کی جائے گی۔ 


مشرکین سے متعلقہ شقیں 

٭ کوئی مشرک کسی قریشی (اہل مکہ) کے جان مال کو پناہ نہیں دے گا اور ان کے خلاف مومنوں کی کاروائی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ 

٭ قریش اور ان کے حلیف اگر صلح کی پیشکش کریں تو ان سے صلح ہوسکتی ہے، البتہ جو قریشی مسلمانوں کی مخالفت  کریں اور آمادۂ جنگ رہیں ان سے کوئی صلح نہیں ۔ 

٭ قریش اور ان کے مددگاروں کو کسی قسم کی پناہ نہیں دی جائے گی۔


یہود سے متعلقہ شقیں 

٭ اگر مسلمانوں  کی کسی سے لڑائی یا مخالفت ہوگی تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ 

٭ بنو عوف کے یہودی مومنین کے حلیف شمار ہوں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہ سکتے ہیں ۔ ان کے غلاموں کو بھی انہی جیسے حقوق حاصل ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کو حاصل ہیں۔ 

٭ یہودیوں میں سے کسی کو حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اجازت کے بغیر معاہدے سے خارج نہیں کیا جاسکے گا۔ 

* یہودی اپنا خرچہ برداشت کریں گے اور مسلمان اپنا۔ اس میثاق پر دستخط کرنے والوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی لڑے گا تو سب ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ایک دوسرے کے خیر خواہ رہیں گے۔ اس کے تمام شرکاء مظلوم کی مدد کریں گے۔ 

*مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔

* مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔

*بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔

*ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔

*مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔

*تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

* یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

* مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔

*قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔

*یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔

* اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہوں گئے۔

*ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

*شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔


انتظامی شقیں 

٭ اس معاہدے میں شریک ہونے والے تمام فریقوں کے لیے یثرب (مدینہ منورہ ) حرم ہوگا۔ یہاں پناہ حاصل کرنے والا بھی شرکائے معاہدہ کے مانند ہوگا نہ کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا نہ جرم کا ارتکاب کیا جائے گا۔ شرکاء کی باہمی رضامندی کے بغیر کسی کو یہاں پناہ نہ دی جاسکے گی۔ 

٭ اس دستاویز پر دستخط کرنے والوں کے مابین کوئی جھگڑا یا اختلاف پیدا ہو جس سے معاشرے کے امن و امان  کو خطرہ لاحق ہو تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمائیں گے۔ 

٭ اس دستاویز پر دستخط کرنے والے ہر اس شخص کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کریں گے جو مدینہ پر حملہ آور ہوگا۔ 

*مدینہ کا کوئی باسی مدینہ میں رہے یا کسی کام سے باہر جائے اسے امن حاصل ہوگا، البتہ ظالم اور مجرم کو کوئی تحفظ نہیں دیا جائے گا ۔ اللہ تعالی کے رسول حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس  شخص کے حامی اور مددگار ہوں گے جو نیکی، وفاداری اور تقویٰ پر کار بند رہے گا۔  ( السيرة النبوية لابن هشام:)


میثاقِ مدینہ کی اہمیت

 ہجرتِ مدینہ منورہ سے پانچ ماہ بعد یہودِ مدینہ کے ساتھ “میثاق مدینہ”  طے ہوا اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقی و اشاعت میں مصروف ہوئے۔ دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو گئے اور ایک مرکزی نظام قائم ہو گیا۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکمران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فتح تھی۔

یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ تھا جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وآصحابہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔اور یہود کو مدینہ بدری اور قتل  کی سزا بھگتنی ہڑی 


 میثاق مدینہ پر ایک مختصر نوٹ 

انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلام کو مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے تا ھنوز نسل انسانی نے تہذیب و تمدن کے ارتقا کی بے شمار منزلوں کو طے کیا۔ اس سفر میں جو پیش رفت اسلام کے واسطے سے ہوئی وہ کسی دوسری مذہبی، علمی، فکری یا اصلاحی کاوش کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے فطرت کے عین مطابق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ نسل انسانی کی بقا اسلام کے اصول و ضوابط کی اتباع میں ہے اور ان اصولوں سے انحراف خودکشی کے مترادف ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جس ملک و ملت نے بھی اسلام کا اقرار کرتے ہوئے یا بغیر علانیہ اقرار کے، اسلام کے آفاقی قوانین کی پابندی کی ہے ترقی و عروج اس کا مقدر رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ وہ واحد معیار ہے جو اسلام کے آفاقی اصولوں کی عملی تعبیر و تشریح ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر گوشہ نسل انسانی کے لیے اپنے اندر رہنمائی کے ان گنت پہلو رکھتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحریک اسلام کے فروغ کے لیے دعوتی و تبلیغی، عسکری و جہادی، آئینی و دستوری اور سیاسی و معاہداتی مناہج کو اختیار فرمایا اور ان تمام تر اقدامات میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جدوجہد کی غایت جو احقاق حق، ابطال باطل اور غلبہ دین حق سے عبارت ہے موجود رہی۔ میثاق مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی و معاہداتی اور آئینی و دستوری جدوجہد میں ایک نمایاں اور اساسی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میثاق مدینہ نے جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کی مساعی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا وہاں ابدالآباد تک عالمی منظرنامے میں بھی اسلام کو ایک نمایاں اور بے مثال مقام دے دیا۔ میثاق مدینہ کو کائنات انسانی کا سب سے پہلا تحریری دستور ہونے کا مقام حاصل ہے۔ صحرائے عرب کے امی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت دنیا کو پہلے جامع تحریری دستور سے متعارف کروایا جب ابھی دنیا کسی آئین یا دستور سے ناآشنا تھی۔  622ء میں ریاست مدینہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ مگر یہ امر نہ صرف باعث حیرت بلکہ باعث صد تاسف بھی ہے کہ میثاق مدینہ کی اس تاریخی اہمیت کے اعتراف میں اکثر اہل مغرب نے حسبِ عادت بغضِ مسلم میں ہمیشہ تنگ نظری، تعصب اور علمی بخل کا مظاہرہ کیا۔ جب بھی عالمی تہذیب و تمدن کے ارتقا کا تذکرہ ہوا، اہل مغرب نے اسلام کے درخشاں دور اور اس کے کارناموں کو اُجاگر کرنے کی بجائے اسے پس منظر میں ڈالنے کوشش کی . بہرحال اعداءِ اسلام کچھ بھی کریں مسلمانوں کے لئے یہ جاننا ضروری ھے کہ  آصل حقیقت یہی ھےکہ انسانی تاریخ کا سب سےپہلا تحریری منشور وھی ھے جو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیا کو مدینہ منورہ میں متعارف کروایا اور جو “میثاقِ مدینہ” کے نام سے معروف ھے 

جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔

Share: