اسلام، حقوقِ انسانی اور مسئلہِ غلامی
اللہ تعالی نے حضرت انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے آفضل مخلوق بنایا اور اس کو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا اور زمیں اور جو کچھ زمین میں ھے ، اس کی ملکیت اور تصرف میں دی جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ھے
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا
وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا
اللہ پاک نے اس جہان میں سب کچھ انسان کے لئے بنادیا لیکن انسان کو صرف اپنے لئے ہیدا کیا کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ھی عبادت کرے اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرےبصورت دیگر اسے مجرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سخت سزا بھی اسے ملے گی
جانور پیدا کئے ہیں تیری وفا کے واسطے
چاند سورج اور ستاروں کو ضیا کے واسطے
کھیتیاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے
یہ جہاں تیرے لئے ہے اور تُو خُدا کے واسطے
آج مغرب اپنی کج فہمی اور کوتاہ بینی (جو جرمِ شرک و کفر کا لازمی نتیجہ ھے ) کی وجہ سے جس مسئلہ پر اسلام کو سب سے زیادہ مطعون ٹھہرا رہا ہے اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے،وہ مسئلہ غلامی ہے ۔ مغرب کا اس مسئلہ کو اچھالنا دراصل اسلامی احکام کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ غلامی کے بارے میں جو نقطہ نظر اسلام نے دیا ہے وہ اس کے کامل و برتر، روشن خیال، بلند ظرف ہونے کی بڑی واضح دلیل ہے اور اسلام میں غلامی کا جو تصور اس کا دشمن (مغرب) پیش کررہا ہے، وہ سراسر غلط اوربے بنیاد ہے۔
یہ قرآنِ مجید کا اعجاز ہے کہ ربّ العالمین نے اس میں اسلام کے قانونِ غلامی کو نہایت تفصیل اور وضاحت سے بیان کردیا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے:-
قُلْ اِنِّـىْ عَلٰى بَيِّنَـةٍ مِّنْ رَّبِّىْ وَكَذَّبْتُـمْ بِهٖ ۚ مَا عِنْدِىْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ ۚ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّـٰهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْـرُ الْفَاصِلِيْنَ (57)
کہہ دو میرے پاس تو میرے رب کی طرف سے ایک دلیل ہے اور تم اس کو جھٹلاتے ہو، جس چیز کو تم جلدی چاہتے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، اللہ کے سوا اور کسی کا حکم نہیں ہے، وہ حق بیان کرتا ہے، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(الانعام)
پھر وہ حقوق کسی مفسر یا فلسفی کے استنباط کانتیجہ نہیں بلکہ صریحاً وہ حقوق موجود ہیں جن کا تحفظ مطلوب ہے۔ پھر اسلام کا قانونِ غلامی، عدل و انصاف کا ایسا نمونہ ہے جس میں عدل کی وسعت درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔ اس سے بڑھ کر کیا انصاف ہوگا کہ اسلام جہاں غلام کویہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آقا کے حقوق پورے کرے، وہاں آقا کوبھی یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے غلام کے حقوق پورے کرے اور اسے خبردار کرتا ہے کہ روزِقیامت تجھے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔
اصولاً اور عملاً اسلام کا قانونِ غلامی وہ واحد قانون ہے جس نے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کا جامع تصور دیا بلکہ وہ شخصی اغراض اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شروع دن سے ان حقوق کا محافظ اور علمبردار بھی ہے اور اس نے غلام اور آقا کے درمیان مساوات ،یکسانیت اور باہمی رحم دلی اور ہمدردی کا ایسا تعلق پیدا کردیا ہے جس سے عظمت ِاسلام کی ایسی دلکش اور خوبصورت تصویر صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے جو دھوکہ ، فراڈ، مبالغہ اور لوگوں کے لئے ملمع ساز ی سے یکسر پاک ہے۔اس کے برعکس مغرب کا انسانی حقوق کا نعرہ سراسر، فراڈ، دھوکہ اور صریح ڈھونگ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کیلئے رچایا گیا ہے
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ان انسانی حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں جو فقہاءِ اسلام نے شریعت ِمحمدی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی روشنی میں ’غلاموں‘ کے بارے میں مدوّن کئے ہیں :
اسلام وہ مذہب ہے جس نے کسی بھی شخص کو محض نسل، وطن، رنگ، زبان اور دین و مذہب کی بنیاد پر غلام بنانا حرام قرار دیا ہے۔جب مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا وجہ مارا تھا تو حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے برسرعام اس کو سزا دی اور ساتھ ہی گورنر کو قہرآلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا:
”متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا“
”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کیا ہے، جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا“
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرة رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:
”ثلاثة أنا خصمهم يوم القيٰمة وذکرمنهم ورجل باع حرّا فأکل ثمنه“ ”روزِ قیامت تین شخص ایسے ہوں گے کہ میں ان کے خلاف وکیل بن کر اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گا، ایک ان میں سے وہ شخص ہوگا جس نے کسی آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی ہوگی۔“
اسلام غلامی کا سبب صرف شرک و کفر کو قرار دیتا ہے کیونکہ جو شخص اللہ کے احکام او رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے فرمان کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے، وہ خواہ شکل و صورت کے لحاظ سے پوری کائنات سے حسین کیوں نہ ہو اور حسب و نسب ، جاہ وجلال او رمقام و مرتبہ کے اعتبار سے لوگوں سے معززکیوں نہ ہو،لیکن درحقیقت ایسا شخص انسان کہلوانے کا بھی روادار نہیں ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے بلکہ وہ عظمت ِآدم اور شرفِ انسانیت کی سطح سے گر کر ڈھور ڈنگروں بلکہ ان سے بھی حقیر ترین مخلوق کا فرد بن چکا ہے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
أوْلٰئِکَ کَالأنْعَامِ بَلْ هُمْ أضَلّ”
یہ لوگ جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر۔“
چونکہ کفر اور شرک اسلام کے نزدیک ظلم عظیم ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ
بے شک شرک البتہ بہت بڑا ظلم ہے“
وَالْکَافِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرة:۲۵۴
”یقینا کافر لوگ ھی ظالم ہیں“
لہٰذا اس جرم کا مرتکب ظالم اور مجرم ہے ۔ جرم کی سزا بھی اس کی نوعیت کے حساب سے ھوتی ھے یعنی جس درجہ کا جرم ھو گا اُسی درجہ کی سزا ھو گی چوری اور زنا وغیرہ کے مجرم اپنی سزا بھگت کر چھوڑ دیے جاتے ھیں کیونکہ ان جرائم کا تعلق رعیت سے ھوتا ھے لیکن بغاوت کا جرم ناقابلِ معافی ھوتا ھے کیونکہ یہ جرم براہ راست حکومت کے مقابلے میں ھوتا ھےبالکل اسی طرح چونکہ تمام جہانوں کا مالک صرف ایک اللہ ھے اور اللہ تعالی کے نزدیک اُس کی ذات و صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا جرم ھے اور شرک کا جرم ناقابلِ معافی ھے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے:-
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ افْـتَـرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (48)
بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا جو اس کا شریک ٹھہرائے اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے بخشتا ہے، اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑا ہی گناہ کیا۔
کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہیں کہ وہ وفادار اور باغی کی لئے ایک جیسا قانون بنائے ایسا عقل اور فطرت کے بھی خلاف ھے اور قوانین سلطنت بھی اس کی آجازت نہیں دیتے چناچہ ارشادِ ربانی ھے
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّـٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّـٰى يُؤْمِنُـوْا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۗ اُولٰٓئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖ وَاللّـٰهُ يَدْعُوٓا اِلَى الْجَنَّـةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۖ وَيُبَيِّنُ اٰيَاتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (221)
اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، اور مشرک عورتوں سے ایمان دار لونڈی بہتر ہے گو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں، اور البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا ہی لگے، یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
بہرحال کسی بھی متمدن حکومت میں فرمانبردار اور مجرم برابر نہیں ھوتے اسی طرح اللہ کے ھاں بھی یہی نظام ھے جیسا کہ آیت مبارکہ ھے
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ (35
پس کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے۔
پھر یہ بات بھی قابلِ غور ھے کہ اسلام ہر کافر کو غلام نہیں بناتا بلکہ صرف اس کافر کو غلامی کا طوق پہناتا ہے جو اسلام کے خلاف صف آرا، مسلمانوں سے برسرپیکار اور دعوة الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے ،جو دوسروں کو کفر و شرک کے ظلمت کدوں سے نکلنے اور اسلام کی تجلیات سے فیض یاب ہونے سے روکتا ہے۔ جو بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے اور اللہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے سے منع کرتا ہے اوراسلام کی تبلیغ کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایسے شخص کو غلام بنانا کسی طور بھی ظلم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
نیز جب کافر مسلمانوں سے برسرپیکار اور اسلام کے خلاف صف آرا ہوجائے تو تب بھی اسلام ہر کسی کو قطعاً یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ جس کو چاہے پکڑ کر غلام بنالے اور کہے: یہ میرا غلام ہے، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، حکیم و خبیر ذات نے اس کے لئے ایک ضابطہ اور قانون بنا دیا ہے کہ کس کافر کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں ۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص خلیفة المسلمین کی اجازت کے بغیر کسی کافر کو غلام نہیں بنا سکتا،گویا اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو امیرالمومنین کی صوابدید سے مربوط کرکے اسے ایک قانون اور ضابطہ کے تابع کردیا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ أوْزَارَهَا
(سورہ محمد)
پھر اس کے بعد ان پراحسان کرو یا تاوان لے کر چھوڑ دو
۔ پھر اس پر بس نہیں کیا بلکہ غلاموں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لئے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی اور اُس پر بہت بڑے اجر و ثواب کی نوید سنائی۔ اس کے علاوہ ان کی آزادی کے لئے مختلف دروازے کھول دیئے۔ مثلاً غلام کی آزادی کو کفارہ قرار دیا اور قتل، ظہار اور دیگر متعدد صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے لئے اس کفارہ کو واجب ٹھہرایا۔
آزادی کی ایک صورت’مکاتبت‘ کو جائز قرار دے کر غلام کو یہ حق دیا کہ وہ کچھ رقم دے کر اپنے آقا سے معاہدہ کرکے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کر لے اور پھر ایسے غلاموں کو رقم بہم پہنچانے کے لئے انہیں زکوٰة کا مستحق قرار دیا اور قرآن میں “فی الرقاب “ کے جملہ سے فرض زکوٰة میں سے ایک حصہ ان کے لئے مقرر کردیا۔اسی طرح لوگوں کو غلامی کے چنگل سے نکالنے کے لئے ایک اور نظام رائج کیا،جو کتب ِفقہ اسلامی میں’تدبیر‘کے نام سے معروف ہے۔ یعنی اگر آقا اپنے غلام سے کہہ دے کہ تو میری وفات کے بعد آزاد ہے تو شرعی لحاظ سے آقا کی وفات کے بعد کوئی شخص اسے غلام بنانے کا مجاز نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح اگر کوئی لونڈی اپنے آقا کے کسی بچے کو جنم دے تو وہ اس کے بعد آزاد تصور ہوگی اور آقا کے لئے اس کو غلام بنانا یا اسے بیچنا حرام ہوگا۔
پھر اسلام نے غلاموں کی آزادی پر اجر ِعظیم کی نوید سنائی۔ حتیٰ کہ خود نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے جب ایک باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں۔ پوچھا :میں کون ہوں؟ باندی نے کہا :آپ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ہیں۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اس کے آقا کو حکم دیا کہ اسے آزاد کردو، یہ موٴمنہ ہے۔ (مسلم)
البتہ اسلام نے جھوٹ اوراسلام قبول کرنے کے جھوٹے دعوؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے غلاموں کے محض اسلام میں داخل ہونے کو آزادی کا ضروری سبب قرار نہیں دیا۔
اسلام آقا پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ غلام کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ اگر اسے سواری کی ضرورت ہو تو اسے سواری مہیا کرے۔ پھر اخراجات کی یہ ذمہ داری اس کی محنت کا معاوضہ نہیں بلکہ اسلام اسے غلام کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ نیز آقا کے لئے حرام قرار دیا کہ وہ غلام کو ایسے کام کی مشقت دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ آپ نے فرمایا:
”للمملوک طعامه وکسوته ولا يکلف من العمل إلا ما يطيق“ (مسلم)
”غلام کو کھلاؤ اور پہناؤ اور اسے وہ کام نہ دو جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔“
اسی طرح شریعت نے غلام کو کسی ایسے کام کی مشقت سے دوچار کرنا حرام قرار دیا جو اس کی بیماری کا باعث بن جائے۔ پھر آقا کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ غلام کو آرام اور نماز کے لئے وقت فراہم کرے۔ امام طحاوی اپنی کتاب زاد المستقنع میں فرماتے ہیں:
”آقا کا یہ فرض ہے کہ وہ غلام کو قیلولہ، نیند اور نماز کے لئے وقت دے۔ اس کی اولاد سے ان کے بڑے ہونے تک کسی قسم کا کام نہیں لیا جائے گا، حتیٰ کہ شریعت نے انہیں مالِ غنیمت سے حصہ عطا فرمایا ہے ۔ اسی طرح اگرمالک اپنی وراثت کا کچھ حصہ غلام کے لئے مقرر کردے تو اسلام اسے اس وراثت کا حق دار قرار دیتا ہے۔“ فرمانِ لٰہی ہے:
﴿قَدْعَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِیْ أزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَکَتْ أيْمَانُهُمْ﴾(الاحزاب)
ہم جانتے ہیں کہ ہم نے موٴمنوں پر ان کی بیویوں اور مقبوضہ کنیزوں کے بارے میں کیا فرض کیا ہے۔
پھر غلام اپنے آقا کی جو خدمت انجام دیتا ہے اس کے عوض شریعت نے اس سے بعض شرعی احکام ساقط کردیئے ہیں۔ مثال کے طورپر غلام پر جمعہ اور حج اور بعض دیگر احکام فرض نہیں ہیں۔
اسلام غلاموں کے جسمانی حقوق کے ساتھ معنوی حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ لہٰذا ان کی توہین اور تحقیر کرنا اور انہیں مارنا حرام قرار دیا۔امام نووی نے اپنی کتاب ’ریاض الصالحین‘ میں غلام، جانور، عورت اور بچے کو بغیر کسی عذر کے مارنا اور مار میں حد ِادب سے تجاوز کرنے کی ممانعت کے ضمن میں حضرت ابومسعود بدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق ایک حدیث ذکر کی ہے اور امام مسلم نے بھی اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ھے ۔ حضرت ابومسعود بدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں:”میں ایک دفعہ اپنے غلام کو کوڑے سے پیٹ رہا تھا تو مجھے پیچھے سے آواز سنائی دی : ”اے ابومسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ! ہوش سے کام لو؟“ لیکن میں شدتِ غضب سے مغلوب ، آواز کو سمجھ نہ سکا۔ پھر جب آواز قریب ہوئی تو میں نے مڑ کر دیکھا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پکار رہے تھے: اے ابومسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، ہوش کرو! اے ابومسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہوش سے کام لو۔ میں نے سنا اورکوڑا زمین پر پھینک دیا ۔
پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :اے ابومسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ! اس بات کو قطعاً فراموش نہ کرناکہ جتنااختیار تجھے اس غلام پر ھے ، اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ اختیار ہے، میں نے کہا: اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ا آج کے بعد کسی غلام کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا اور اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ یہ سن کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اگر تو ایسے نہ کرتا تو آگ کی لپیٹ سے بچ نہ سکتا۔“ (مسنداحمد)
اسلام نے جس قدر غلاموں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، ا س کا اندازہ آپ ا کی اس وصیت سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے آخری وقت میں اپنی اُمت کو الوداع کہتے ہوئے فرمائی تھی، فرمایا:
الصلوة وما ملکت أيمانکم
نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا (مسلم
یقیناً یہ حدیث دشمنانِ اسلام کے تمام اعتراض کا نہایت بلیغ انداز میں ردّ کرتی ہے اور وہ مسلمان جو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان کے نظریاتی حملوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لئے پرتول رہے ہیں انہیں ثابت قدمی اور نیا ولولہ عطا کرتی ہے۔ اور وہ مسلمان جو مغربی پروپیگنڈے سے متاثرہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ قانونِ غلامی بتقاضا ضرورت مشروع کیا گیا تھا اور اب یہ منسوخ ہوگیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ھے اگر آج بھی اگر اسلامی جہاد ھو گا تو یہ قانون بھی اُسی طرح نافذ العمل ھو گا جسطرح رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم اور بعد کے ادوار میں تھا چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے :-
وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰی أمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسَ لاَ يَعْلَمُوْنَO (یوسف:۲۱
”اور اللہ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے ۔
رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے عہد میں غلاموں پر نہایت وحشیانہ مظالم توڑے جاتے تھے اور غلامی کی غلط صورتیں معاشرے میں اس طرح رَچ بس چکی تھیں کہ ان کا ختم کرنا فوری طور پر ممکن نہ تھا۔لہٰذا آپ نے ابتدائی طور پر اس طبقہ مظلوم کو ظلم و ستم سے بچانے کے لئے سخت ہدایات جاری فرمائیں اور ان کو وہ حقوق دیئے جس سے آقا اور غلام کی تمیز بالکل ختم ہوگئی۔
بہرحال مختصراً یہ کہ اسلام غلاموں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ھے اور غلاموں کو غلامی سے چھڑا کر آزاد زندگی میں لانے کی حوصلہ آفزائی کرتا ھے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی بے شمار مثالیں اس کی شاھد ھیں
جاری ھے ۔۔۔۔۔۔