رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری
وادی رانونا میں جمعہ کی نماز سے فارغ ھو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ناقہ پر سوار ھوئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے مدینۃ الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) یعنی شہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) پڑگیا۔ جسے مختصراً مدینہ اور ادباً مدینہ منورہ اور مدینہ طیبہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا۔ گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے ۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد پر جتنا خوش دیکھا، اتنا کسی اور موقع پر نہیں دیکھا…
مدینہ کی تاریخ میں یہ عجیب مبارک دن تھا، بنو نجار اور تمام انصار ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ تھے،روساء اپنے اپنے محلوں میں قرینے سے ایستادہ تھے، پردہ نشین خواتین گھروں سے باہر نکل آئی تھیں، مدینہ منورہ کے حبشی غلام جوش مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھارہے تھے اورخاندان نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر "طلع البدرعلینا" کا خیر مقدمی ترانہ گارہی تھیں غرض اس شان و شوکت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا شہر میں داخلہ ہوا کہ وداع کی گھاٹیاں مسرت کے ترانوں سے گونج اٹھیں اور مدینہ کے در و دیوار نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے راستے میں دونوں طرف آ کھڑے ہوئے اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد کا منظر دیکھ سکیں ۔ عورتیں اور بچے خوشی میں یہ اشعار پڑھنے لگے:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا للہ دَاعِ
أَیھاَ ا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِءْتَ بِالْأَمْرِ الْمُطَاعِ
ترجمہ:’’چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پکارنے والا اس سر زمین پر باقی ہے، ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ اے آنے والے شخص (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ایسے احکامات لیکر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے ۔‘‘
خاندان بنی نجار (جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ٹھہرے اس ) کی عورتیں اور لڑکیاں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں دیکھا اور کھڑے ہو گئے ان کے ہاتھوں میں دف تھا جسے وہ بجا بجا کر یہ شعر گارہی تھیں ۔
نحن جوارِ من بنی النجار
ھم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں
یاحبذا محمد من جار
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہی اچھے پڑوسی ہیں ہمارے
یہ اشعار تقریباً تمام اصحاب سیر نے اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں
اور ذیل کے دو اشعار فقہ شافعی کی اردو کتاب “المبسوط “ مولفہ مولانا احمد جنگ حیدر آباد نے ذکر کئے ہیں ۔
اشرق البدر علینا واحتفت منہ البدود
ہم پر چودہویں کا چاند طلوع ہوا اور سارے چاند ماند پڑگئے
مثل حسنک ماراینا قط یاوجہ السرور
تیرے حسن وجمال جیسا حسن وجمال ہم نے نہیں دیکھا کبھی اے ہنس مکھ چہرے والے
امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اُوپر والے اَشعار تبوک سے واپسی پر پڑھنے والیوں کی طرف منسوب کئے ہیں ،لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ محدثین نے مدینہ منورہ کے استقبال سے ھی ان کا تعلق جوڑا ہے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ، جس کی نظیر سر زمین مدینہ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ انصارِ مدینہ اگر چہ بہت زیادہ دولت مند نہ تھے لیکن ہر ایک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انصار کے جس مکان یامحلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں تشریف لائیے ! مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو۔ یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اورا س مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں منبر ھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نیچے نہیں اترے یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی۔ پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نیچے تشریف لائے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ننہیال والوں، یعنی بنو نجار کا محلہ تھا اور یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خود بھی ننہیال میں قیام فرما کر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔ اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے عرض معروض شروع کی لیکن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرمانے لگے : آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے۔ ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی ا للہ تعالی عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی۔ چنانچہ یہ اونٹنی انھی کے پاس رہی۔
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ہمارے کس آدمی کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے ؟ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میرا ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! یہ رہا میرا مکان اور یہ رہا میرا دروازہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور ہمارے لیے قَیْلُولہ کی جگہ تیار کردو۔ انہوں نے عرض کی:آپ دونوں حضرات تشریف لے چلیں اللہ برکت دے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سات ماہ تک یہیں قیام فرمایا یہاں تک کہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہوئے تو امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کے ساتھ ان حجروں میں قیام فرما ہوگئے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد، سیرت ابن ہشام)
چند دنوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہااور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ اور ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا بھی آگئیں۔ ان سب کو حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھیں لے کر آئے تھے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس باقی رہ گئیں تھیں انہوں نے آنے نہیں دیا۔اور وہ جنگ ِ بدر کے بعد مدینہ منورہ آئیں (صحیح بخاری)
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی عمر مبارک ترپن سال ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے۔ البتہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کا آغاز رمضان ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے
میزبانِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی تاریخی حیثیت
ھجرت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے جس مکان میں نزول فرمایا یہ مکان بھی اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ھے ۔ درآصل یہ مکان یمن کے ایک بادشاہ تبع حمیری نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد سے ایک ھزار سال پہلے بنوایا تھا گویا مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کسی اور کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے ھی گھر میں نزول فرمایا تھا یہ مکان چونکہ اس وقت حضرت ابو آیوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا اور وھی اس گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے اس لئے انہیں میزبانِ رسول کہا جاتا ھے ۔ یمن کے اس بادشاہ کا بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ روایت کیا گیا ھے جو درج ذیل ھے : -
یمن کے بادشاہ تُبّع حمیری کا قصہ
حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے “بیت اللہ “ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا کافی علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر بیت اللہ کے متعلق کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف پر ریشمی غلاف چڑھایا جو خانہ کعبہ پر چڑھایا جانے والا پہلا غلاف تھا ۔ اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہ بادشاہ یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہی علماء نے جو کتبِ سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے کتابوں میں پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے تو ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ھو گی۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے لئے یہاں پر چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس ھی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے ایک دو منزلہ بہت ھی عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائیں تو یہی مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے رخصت ھو گیا ۔
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا۔ کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ پڑھیے اور عظمتِ حضورآکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے
شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف
اما بعد:
اے اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پرایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) اس کے سچے رسول ہیں۔“
شاہ یمن نے یہ خط اشعار کی شکل میں لکھا تھا جس کے عربی الفاظ مندرجہ ذیل ھیں
شاہ تبع کے اشعار
“شهدت على أحمد أنه رسول
شهدت على أحمد أنه رسول
من الله بارئ النسمْ
فلو مد عمري إلى عمرہ
لكنت وزيرا له وابن عمْ
وجاهدت بالسيف أعداءه
وفرجت عن صدره كل غمْ
شاہ یمن نے یہ خط لکھ کر اس پر اپنی مہر بھی لگائی تھی اور شاہ کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں رکھا اور جب حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی کے سامنے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا کہ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حیران ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ خط دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سن کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔ سبحان اللہ!)
(میزان الادیان، تاریخ ابن عساکر)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے حالاتِ زندگی
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ انصار کے سرکردہ صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ھیں اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لقب سے مشہور ھوئے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا جس جگہ اونٹنی بیٹھے گی۔ وہیں آپ مقیم ہوں گے۔ اونٹنی ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے کے سامنے بیٹھی۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پہلے نیچے قیام فرمایا پھر بعد میں حضرت ابو آیوب رضی اللہ تعالی عنہ کی درخواست پر اوپر والی منزل میں منتقل ھو گئے اور سات ماہ تک یہاں قیام پذیر رہے
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کا آصل نام خَالِد بن زيد تھا ۔ ابو ایوب آپ کی کنیت تھی ۔ قبیلۂ خزرج کے خاندان نجار سے تھے، سلسلۂ نسب یہ ہے، خالدبن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبد عوف خزرجی، خاندان نجار کو قبائل مدینہ میں خود بھی ممتاز تھا، تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی وہاں ننہالی قرابت تھی اس نسبت نے اس خاندان کو مدینہ کے دوسرے قبائل سے ممتاز کر دیا تھا، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ اس خاندان کے رئیس تھے۔
ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ ان منتخب بزرگان مدینہ میں سے ہیں، جنھوں نے ھجرت سے پہلے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی تھی۔ جب مکہ مکرمہ سے دولتِ ایمان لیکر پلٹے تو اپنے اہل و عیال، اعزہ واقربا اوردوست واحباب کو ایمان کی تلقین کرتے رھے ان کی تبلیغ و تلقین سے ان کی بیوی بھی حلقۂ اسلام میں داخل ھو گئیں ۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں پر آمن ماحول عطا فرما دیا اور مسلمان مکہ اور اطراف سے آ آ کر مدینہ منورہ میں پناہ گزین ہوئے۔ ربیع الاول کے مہینے میں نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے تیرہویں سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔ اہل مدینہ منورہ بڑی بیتابی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد کا انتظار کررہے تھے،،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کچھ دنوں قباء میں رونق افروز رہے،اس کے بعد مدینہ کا عزم فرمایا،اللہ اکبر!۔ اب ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مہمانی کا شرف کس کو حاصل ہو، جدھر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا گذر ہوتا لوگ "اَھلا وسھلا مرحبا "کہتے ہوئے آگے بڑہتے اور عرض کرتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ گھر حاضر ہے ؛لیکن کارکنانِ قضا وقدر نے اس شرف کے لئے جس گھر کو منتخب کیا تھا وہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کا کاشانہ تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا" خلواسبیلھا فانھا مامورۃ" یعنی اونٹنی کو آزاد چھوڑدو ،وہ خدا کی جانب سے خود منزل تلاش کرلے گی، آخر کار ناقۂ قصوا نے خانۂ ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے سفر کی منزل ختم کی ،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ سامنےآئے اور درخواست کی کہ میرا گھر قریب ہے اجازت دیجئے اسباب اتارلوں، ، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو اس فخر لازوال کے حصول سے جو مسرت ہوئی ہوگی اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں تقریبا سات مہینے تک فروکش رہے ،اس عرصہ میں حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے نہایت عقیدت مندانہ جوش کیساتھ آپ کی میزبانی کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنی اور زائرین کی آسانی کی خاطر نیچے کا حصہ پسند فرمایا تھا، ایک دفعہ اتفاق سے کوٹھے پر پانی کا جو گھڑا تھا وہ ٹوٹ گیا چھت معمولی تھی ڈر تھا کہ پانی نیچے ٹپکے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تکلیف ہو، گھر میں میاں بیوی کے اوڑھنے کے لئے صرف ایک ہی لحاف تھا، دونوں نےلحاف پانی پر ڈال دیا کہ پانی جذب ہوکر رہ جائے،باایں ہمہ یہ تکلیف ان میزبانوں کے لئے کوئی بڑی زحمت نہ تھی کہ اسلام کی خاطر اس سے بڑی بڑی اورشدید تکلیفوں کے تحمل کا وہ عزم کرچکے تھے،تاہم یہ خیال کہ وہ اوپر اورخود حاملِ وحی نیچے ہے،ایسا سواہانِ روح تھا،جس نے حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ اورام ایوب رضی اللہ تعالی عنہا کو ایک دفعہ شب بھر بیدار رکھا اور دونوں میاں بیوی نے اس سو ادب کے خوف سے چھت کے کونوں میں بیٹھ کر رات بسر کی،صبح حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوررات کا واقعہ عرض کیااور درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اوپر اقامت فرمائیں جان نثار نیچے رہیں گے؛چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے درخواست منظور فرمالی اوربالاخانہ پر تشریف لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جب تک ان کے مکان میں تشریف فرمارہے،عموما ًانصار یا خود حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے،کھانے سے جو کچھ بچ جاتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیج دیتے تھے، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی انگلیوں کے نشان دیکھتے اورجس طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نوش فرمایا ہوتا وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے ،ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تناول نہیں فرمایا،مضطربانہ خدمت اقدس رضی اللہ تعالی عنہ میں پہنچے اورنہ کھانے کا سبب دریافت کیا،ارشاد ہوا کھانے میں لہسن تھا اور میں لہسن پسند نہیں کرتا،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا"فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا تَكْرَه"جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کو ناپسند ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں بھی اس کو ناپسند کروں گا
ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مہاجرین وانصار کو باہم بھائی بھائی بنادیا،اس موقع پر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو جس مہاجر کا بھائی قرار دیا وہ یثرب کے اولین داعیِ اسلام حضرت مصعب بن عمیر قریشی رضی اللہ تعالی عنہ تھے،
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں دیگر اکابر صحابہؓ کی طرح برابر کے شریک رہے اوراس التزام سے کہ ایک غزوہ کے شرف شرکت سے بھی محروم نہیں رہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مشہور غزوات میں پہلا غزوہ بدر ہے، حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ اس میں شریک تھے،بدر کے بعد وہ احد، خندق،بیعت الرضوان وغیرہ اور تمام غزوات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جہاد میں صرف ہوا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہدِ خلافت میں جو لڑائیاں پیش آئیں، ان میں سے جنگ خوارج میں وہ شریک تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں مدائن تشریف لے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ کی ذات پر جو اعتماد اورآپ کی قابلیت وحسن تدبیر کا جس قدر اعتراف تھا وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین چھوڑ گئے اوروہ اس عہد میں امیر مدینہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد صحابہ کرام ؓ کو ان کی سابقہ حسنِ خدمت کی بنا پر بارگاہ خلافت سے حسب ترتیب ماہانہ وظائف ملتے تھے،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کا وظیفہ پہلے چار ہزار درہم تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بڑھا کر بیس ہزاردرھم کردیا، پہلے آٹھ غلام ان کی زمین کی کاشت کے لئے مقرر تھے،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے چالیس غلام مرحمت فرمائے
حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ کا نام حضرت ام حسن بنت زید انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا ہے وہ مشہور صحابیہ تھیں ،ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کے بطن سے صرف ایک لڑکا عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ تھا،اس حسن خدمت اور محبت کی یادگار میں جو آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ذات سے تھی،تمام اصحابؓ اوراہل بیت آپ سے محبت وعظمت کے ساتھ پیش آتے تھے،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے،اسی زمانہ میں حضرت ابو آیوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات کو بصرہ تشریف لے گئے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اقامت کے لئے اپنا گھر خالی کردیا تھا، میں بھی آپ کے لئے اپنا گھر خالی کردوں اوراپنے تمام اہل وعیال کو دوسرے مکان میں منتقل کردیا اور مکان مع اس تمام سازوسامان کے جو گھر میں موجود تھا آپ کی نذر کردیا۔
امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت میں عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالی عنہ مصر کے گورنر تھے،حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو دو مرتبہ سفرِ مصر کا اتفاق ہوا، پہلا سفر طلب حدیث کے لئے تھا،انہیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں،صرف ایک حدیث کے لئے حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے عالم پیری میں سفرِ مصر کی زحمت گوارا کی ،مصر پہنچ کر پہلے حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر گئے، حضرت مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر پائی تو جلدی سے گھر سے باہر نکل آئے اور معانقہ کے بعد پوچھا کیسے تشریف لانا ہوا، حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مکان بتا دیجئے، مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رخصت ہوکر عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر پہنچے ان سے "سترالمسلم" کی حدیث دریافت فرمائی اورکہا کہ اس وقت آپ کے سوا اس حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں، حدیث سن کر اونٹ پر سوار ہوئے اور سیدھے مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔
دوسری بار غزوۂ روم کی شرکت کے ارادہ سے مصر تشریف لے گئے،فتح قسطنطنیہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بشارت دے گئے تھے امرائے اسلام منتظر تھے کہ دیکھئے پیشنگوئی کس جانباز کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے،شام کے دارالحکومت ہونے کے سبب سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا سب سےزیادہ موقع حاصل تھا،چنانچہ ۵۲ھ میں انہوں نے روم پر فوج کشی کی، دیگر اصحاب کبار کی طرح حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس پرجوش فوج کے ایک سپاہی تھے،مصر وشام وغیرہ ممالک اسلام کے الگ الگ دستے تھے، مصری فوج کے سربراہ گورنر مصر مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالی عنہ تھے ،ایک دستہ نضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ کے ماتحت تھا، ایک جماعت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے زیر قیادت تھی ،رومی بڑے سروسامان سے لڑائی کے لئے تیار ہوئے اورایک فوج گراں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے بھیجی ،مسلمانوں نے بھی مقابلہ کی تیاریاں کیں، ان کی تعداد بھی دشمنوں سے کم نہ تھی، جوش کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک مسلمان رومیوں کی پوری پوری صف سے معرکہ آرا تھا، ایک صاحب کے جوش کی یہ کیفیت تھی کہ رومیوں کی صفوں کو چیر کر تنہا اندر گھس گئے اس تیور کو دیکھ کر عام مسلمانوں نے بیک آواز کہا کہ یہ صریح آیت قرآنی"لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) کے خلاف ہے،حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھے اورفوج کو مخاطب کرکے فرمایا،لوگو! تم نے اس آیت شریفہ کے یہ معنی سمجھے؟ حالانکہ اس کا تعلق انصار کے ارادۂ تجارت سے ہے،اسلام کے امن و فراخی کے بعد انصار نے یہ ارادہ کیا تھا کہ گزشتہ سالوں میں جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو جو نقصانات اٹھانے پڑےہیں ان کی تلافی کی جائے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پس ہلاکت جہاد میں نہیں؛بلکہ ترک جہاد اور فراہمی مال میں ہے۔
عاصم بن سفیان ثقفی غزوہ ٔسلاسل میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلے تھے،ابھی منزل مقصود سے دور تھے کہ اختتام جنگ کی خبرآئی انہیں نہایت افسوس ہوا اوروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دربار میں گئے ،اس وقت حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ اورعقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بھی موجود تھے، ان کی موجودگی میں عاصم نے حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے مسئلہ دریافت کیا، ان دونوں بزرگوں سے نہیں پوچھا،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ ناگوار ہوا،اس لئے انہوں نے مسئلہ کا جواب دیکر عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے تصدیق کرائی کہ ان کو کسی قسم کا خیال نہ پیدا ہو۔ ابن اسحق (مولیٰ بنی ہاشم)اور بعض دوسرے بزرگوں میں یہ بحث تھی کہ نبیذ کس کس برتن میں بنا سکتے ہیں؟اورقرع کے بارے میں بحث چل رہی تھی، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو لوگوں نے ان کے پاس ایک آدمی کو تحقیق مسئلہ کے لئے روانہ کیا،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مزفت میں نبیذ بنانے کی ممانعت کی ہے،اس شخص نے قرع کا لفظ دہرایا مگر حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر یہی جواب دیا۔ حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے حب علم اورنشر معارف کی انتہا یہ ہے کہ بستر مرگ پر بھی ان کی زبان اشاعت حدیث کا مقدس فرض ادا کررہی تھی،وفات سے قبل انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے دو حدیثیں روایت کیں، جو پہلے کبھی انہوں نے بیان نہیں کی تھیں، ان کی رحلت کے بعد عام اعلان کے ذریعہ سے وہ لوگوں تک پہنچائی گئیں
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے مجموعہ اخلاق میں تین چیزیں سب سے زیاہ نمایاں تھیں،حبِّ رسول ، جوش ایمان اور حق گوئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو جو محبت تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ جو آداب وہ ملحوظ رکھتے تھے، میزبانی کے ذکر میں وہ واقعات گزرچکے ہیں۔
وفات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد جان نثاروں کیلئے روضہ اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے سوا اورکیا شئے مایۂ تسلی ہوسکتی تھی؟ ایک دفعہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے روضہ اطہر کے پاس تشریف رکھتے تھے اوراپنا چہرہ ضریح اقدس سے مس کررہے تھے، اس زمانہ میں مروان مدینہ کا گورنر تھا وہ آگیا اس کو بظاہر یہ فعل خلافِ سنت نظر آیا؛ لیکن حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ مروان واقف رموز نہ تھا،اصل اعتراض کو سمجھ کر آپ نے فرمایا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اینٹ اور پتھر کے پاس نہیں آیا۔ جوشِ ایمان کو تم اوپر دیکھ چکے ہو ،غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں سے کسی غزوہ کی شرکت سے وہ محروم نہ تھے ،اسی برس کی عمر میں بھی وہ مصر کی راہ سے بحرہ روم کو عبور کرکے قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف تھے۔ حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ حکومت اورامارت کا دبدبہ وشان بھی اس سے باز نہیں رکھ سکتا تھا، ایک دفعہ مصر کے گورنر عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو خود صحابی تھے کسی سبب سے مغرب کی نماز میں دیر کردی ،حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے اٹھ کر پوچھا "ما ھذا الصلوۃ یا عقبہ؟" عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کیسی نماز ہے؟ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ایک کام کی وجہ سے دیر ہوگئی،آپ نے کہا تم صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہو ، تمہارے اس فعل سے لوگوں کو گمان ہوگا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسی وقت نماز پڑہتے تھے ؛حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مغرب کے وقت تعجیل کی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحب زادے عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی جنگ میں چار قیدیوں کو ہاتھ پاؤں بندھواکر قتل کرادیا، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس قسم کے وحشیانہ قتل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے اور میں تو اس طرح مرغی کا مارنا بھی پسند نہیں کرتا۔ غزوہ ٔروم کے زمانہ میں جہاز میں بہت سے قیدی افسر تقسیمات کی نگرانی میں تھے، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ ادھر سے گذرے تو دیکھا قیدیوں میں ایک عورت بھی ہے جو زار زار رو رہی ہے ،حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے سبب پوچھا،لوگوں نے کہا کہ اس کا بچہ اس سے چھین کر الگ کردیا گیا ہے،حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر عورت کے ہاتھ میں دیدیا ،افسر نے امیر سے اس کی شکایت کی ،امیر نے باز پرس کی تو بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس طریقہ ستم کی ممانعت کی ہے اور بس۔ حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی حریت ضمیر کا یہ فطری تقاضا تھا کہ جو بات اسلام کے خلاف دیکھیں اس پر لوگوں کو متنبہ کریں؛چنانچہ جب وہ شام اورمصر تشریف لے گئے اور وہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہوئے دیکھے تو بار بار کہا کیا کہوں؟ یہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہیں ؛حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی حیا کا یہ حال تھا کہ کنوئیں پر نہاتے تو چاروں طرف سے کپڑا تان لیتے تھے ۔
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کا فضل وکمال کا یہ عالم تھا کہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے مسائل دریافت کرتے تھے،حضرت ابن عباس، ابن عمر، براء بن عازب،انس بن مالک، ابوامامہ ،زید بن خالد جہنی،مقدام بن معدی کرب، جابر بن سمرہ، عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنھم وغیرہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے تربیت یافتہ تھے،حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے،تابعین میں سعید بن مسیب ،عروہ بن زبیر، سالم بن عبداللہ،عطاءبن یسار،عطا بن یزید لیثی،ابوسلمہ عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ علیہم ،بڑے پایہ کے لوگ ہیں،تاہم وہ حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے عام ارادتمندوں میں داخل تھے۔
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کو فضل وکمال میں مرجعیت عامہ حاصل تھی،صحابہ کرامؓ جب کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو ان کی طرف رجوع کرتے تھے،ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اورمِسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ میں اختلاف ہوا کہ محرم حالت جنابت میں غسل کرتے وقت سر ہاتھ سے مل سکتا ہے یا نہیں، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال تھا سر دھوسکتا ہے،مگر مِسور رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے کہ سردھونا جائز نہیں ،دونوں بزرگوں نے عبداللہ بن حسین کو حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں بھیجا، حسن اتفاق یہ کہ وہ اس وقت غسل ہی کررہے تھے، عبداللہ نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اپنا سر باہر نکال کر ملنا شروع کیا اورفرمایا کہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسی طرح غسل کرتے تھے۔
آپ کی وفات 42ھ 662ء میں ہوئی سفر جہاد میں عام وبا پھیلی اور مجاہدین کی بڑی تعداد اس کے نذر ہو گئی، ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس وبا میں بیمار ہوئے، آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک ممکن ھو سکے وہاں میرا جنازہ لیجا کر دفن کرنا، چنانچہ وفات کے بعد اس کی تعمیل کی گئی، تمام فوج نے ہتھیار بند ھو کر رات کو لاش قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے دفن کی، دفن کرنے کے بعد مزار کے ساتھ کفار کی بے ادبی کے خوف سے اس کو زمین کے برابر کر دیا گیا ، صبح کو رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ رات آپ لوگ کچھ مصروف سے نظر آتے تھے، بات کیا تھی، مسلمانوں نے کہا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے ایک بڑے جلیل القدر دوست نے وفات پائی، ان کے دفن میں مشغول تھے؛ لیکن جہاں ہم نے دفن کیا ہے تمہیں معلوم ہے، اگر مزار کے ساتھ کوئی گستاخی تمہاری طرف سے روا رکھی گئی تویاد رکھو اسلام کی وسیع الحدود حکومت میں کہیں ناقوس نہ بچ سکے گا ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کا مزار دیوار قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اب تک زیارت گاہ خلائق عام ہے، ۔
جاری ھے ۔۔۔۔۔