مسجد نبوى صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كى تعمير
جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی وہاں مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے ۔ یہ جگہ بنو نجار کے دو یتیم بچوں سہل رضی اللہ تعالی عنہ اور سہیل رضی اللہ تعالی عنہ کی ملکیت تھی ۔ اس سے پہلے یہ جگہ کھجوریں سکھانے کا میدان تھی ۔ یہ دونوں بچے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں پرورش پارہے تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی اس جگہ بیٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ یہ جگہ ہمارا ٹھکانہ بنے گی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان دونوں بچوں کو بلایا اور اس جگہ مسجد بنانے کے لئے ان سے سوداکرنا چاہا ۔(( حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا : " ابن عیینہ رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے ان کے چچا سے بات کی ( جس کی نگرانی میں وہ پرورش پارہے تھے ) کہ یہ جگہ ان سے خریدی جائے ۔ چچا نے ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے : " چچا آپ اس جگہ کو کیا کریں گے ؟ " اس لیے چچا کو مجبورا صحیح بات بتانی پڑی ، ( فتح الباري)
انھوں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم یہ جگہ اپ کے لئے ہبہ کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صلی اسے بطورِ ہبہ لینا مناسب نہ سمجھا ، پھر قیمت طے کی اور جگہ خرید لی ۔ بعد اذاں یہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔ ((صحيح البخاري)
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو بنو نجار کے سرداروں کو پیغام بھیجا ۔ وہ حاضر ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا :
يا بنى النجار ثامنونى بحائطکم بنو نجار
اے بنو نجار مجھ سے اس احاطے کی قیمت طے کرلو۔
وہ کہنے لگے نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالٰی سے لیں گے ۔ ((صحيح البخاري،)
ممکن ہے بنو نجار کے سرداروں کے ساتھ وہ دونوں بچے بھی آئے ہوں کیونکہ وہ انھی میں سے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں سے سودا طے کیا اور ان کے ساتھ ان کے چچا (اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ) کو بھی سودے میں شریک کیا ھو جن کی سرپرستی میں وہ بچے رہ رہے تھے جیسا کہ حدیث مین ذکر ہو چکا ہے ۔ ((فتح الباري)
بہرحال دس دینار قیمت طے ھوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حکم پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قیمت ادا کی
صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ اس جگہ مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں کچھ کھنڈر اور کھجوروں کے چند درخت بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حکم سے مشرکین کی قبریں اکھاڑدی گئیں ان کی باقیات کو کہیں دبا دیا گیا ۔ ، کھنڈر ہموارکر دئے گئے اور کھجور کے درخت کاٹ دئے گئے ۔ اس کے بعد قبلے والی دیوار کھجور کے درخت گاڑ کربنائی گئی اور دائیں بائیں کی دیواریں اور پتھروں سے بنائی گئیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے خود پتھر ڈھوئے ۔ ((صحيح البخاري)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی صحابہ کرام کے ساتھ اینٹیں اٹھاتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے :
ھذا الحِمالُ لَا حِمَالُ خَيبَر ھذا ابر ربنا و اطهر
یہ بوجھ جو ہم اٹھارہے ہیں خیبر ( کی کھجوروں ) کا بوجھ نہیں بلکہ یہ تو اے ہمارے رب ! نیک ترین اورپاکیزہ ترین کام ہے ۔
اللهم ان الاجر اجر الآخرۃ فارٖحم الانصار و المهاجرۃ
اے اللہ اصل ثواب تو وہ ہے جو آخرت مین ملے گا ، لہٰذا انصار و مہاجرین پر رحم فرما۔ ((صحيح البخاري،)
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پتھر اٹھاتے ہوئے یہ شعر پڑھتے تھے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے :
اللهم انه لاخير الا خير الآخرۃ
فانصر الانصار و المهاجرۃ
اے اللہ آخرت کی خیر و بھلائی کے سوا کوئی خیر کامل نہیں ،لہٰذا انصار و مہاجرین کی مدد فرما۔ ((فتح الباري)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں سے ایک کہنے والے نے یوں کہا :
لئن قعدنا و الرسول يعمل ذاک اذا للعمل المضلل
اگر ہم فارغ بیٹھے رہے اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام کرتے رہے تو یہ یقینا بہت غلط کام ہوگا ۔
(( یہ روایت ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کی اور مجمع بن یزید کی سند سے اس شعر کو زبیر رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے ، دیکھیے : ( فتح الباري)
لايستوی من يعمر المساجدا
يدأب فيها قائما و قاعدا
ومن يری عن التراب حائدا
یقینا جو شخص مسجدیں تعمیر کرتا ہے اور ان میں کھڑا یا بیٹھا مسلسل عبادت میں مصروف رہتا ہے اور جو شخص مٹی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ، یعنی تعمیر میں بھی حصہ نہیں لیتا اور عبادت بھی نہیں کرتا ، یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔
(( ان اشعار کو ابن حجر رحمہ اللہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سند سے بیان کیا ہے ۔ ( فتح الباري(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہر شخص سے وہی کام لیتے تھے جس میں وہ ماہر ہوتا تھا ۔ حضرت طلق بن علی حنفی یمامی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مسجد کی تعمیر میں مصروف صحابہ رضی اللہ عنھم سے فرماتے تھے اس یمامی کو مٹی کے قریب کرو ۔ یہ اپنے پاؤں سے خوب اچھی طرح مٹی کو گوندھتا ہے ایک روایت میں ہے میں نے بیلچہ پکڑا اور مٹی کو اچھی طرح نرم کر دیا ۔ شاید وہ آپ کو بہت پسند آئی تبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا مٹی تیا ر کرنے کی ذمہ داری اسی حنفی پر رہنے دو ۔ یہ تم سے سے زیادہ اچھی مٹی تیار کرتا ہے ۔ (( یہ دونوں روایتیں ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیں اور کہا : " اسے احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے " ( فتح الباري) . بیہقی کی روایت میں ہے اس یمامی کو مٹی کے قریب کرو ۔ یہ تم سے اچھا معمار ہے ۔ ((دلائل النبوة للبيهقي: اس روایت کی سند صحیح ہے ۔ )) .
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کی تعمیر میں بڑی سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے ۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے جبکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے ۔ ایک اینٹ اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیر ا ور فرمایا ؛ ابن سمیہ ! عام لوگوں کےلئے ایک اجر ہے لیکن تجھے دو اجر ملیں گے ۔ اور(دنیاکے ) زادِراہ سے تیرا آخری حصہ دودھ کا یک گھونٹ ہے اور تو باغی جماعت کے ہاتھوں قتل ہوگا۔ ((صحيح مسلم ))
یہ حدیث آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کی عظیم الشان دلیل ہے کیونکہ حضرت عمار رضی للہ تعالی عنہ واقعی اس فتنے میں شہید ہوئے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان برپا ہوا ۔ حضرت عمار رضی ا للہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں تھے اور عین اسی طرح شہید ہوئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بیان فرمایا تھا ((البداية والنهاية وفتح الباری
ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ابو غادیہ نے شہید کیا تھا ۔ )) .
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر بارہ دن جاری رہی . ((دلائل النبوة للبيهقي: یہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ۔ )) .
اس سے فراغت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ازواج مطہرات کےلئے بالکل اسی انداز میں کمرے تعمیرکئے گئے جو مسجد میں اختیار کیا گیا تھا ۔ کمروں کی تکمیل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر سے ان میں منتقل ہوگئے ایک کمرہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لئے اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لئے بنایا گیا . ((فتح الباري
آغاز میں یہی دو کمرے بنائے گئے تھے پھر جب کوئی اور خاتون آپ کے عقد میں آتی تھیں تو ان کے لئے الگ کمرہ بنادیا جاتاتھا ان کمروں کی اونچائی بھی زیادہ نہ تھی اورصحن بھی چھوٹے تھے . ((سبل الهدىٰ والرشاد) شامی نے لکھا : " ابن سعد رحمہ اللہ اور بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے شعب الایمان میں حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : " عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں جب کہ میں ابھی بلوغت کے قریب لڑکا تھا ، میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے کمروں میں جایا کرتا تھا ۔ میرا ہاتھ ان کمروں کی چھتوں کو چھو لیتا تھا ۔ )) . بعض کمرے کھجور کی شاخوں اور مٹی سے بنائے گئے تھے ۔اور بعض پتھر اور چونے سے ۔ چھتیں سب کی کھجور کی شاخوں سے ڈالی گئی تھیں .” جن کے نیچے صنوبر کے تنے بطور شہتیر رکھے گئے تھے .دروازوں کے کنڈے نہیں تھے ،((الرّوض الانف) سہیلی کا کہنا ہے کہ اس روایت کو بخاری نے اپنی ایک کتاب نقل کیا ہے ۔ )) .
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نہایت سادہ بنائی گئی تھی، بنیادیں تین ہاتھ تک پتھر کی تھیں ، دیواریں کچی اینٹوں کی، چھت بَرگِ خُرما کی قدآدم سے کچھ اونچی اور ستون کھجور کے تھے، قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا، تین دروازے تھے، ایک جانب کعبہ اور دو دائیں بائیں ۔ جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو جانب کعبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور اس کے مقابل شمالی جانب میں نیا دروازہ بنا دیا گیا۔ چونکہ چھت پر مٹی کم تھی اور فرش خام تھا اس لئے بارش میں کیچڑ ھو جایا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ رات کو بارش بہت ہوئی، جو نمازی آتا کپڑے میں کنکریاں ساتھ لا تا اور اپنی جگہ پر بچھا لیتا۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز سے فارغ ہو ئے تو فرمایا: ’’ یہ خوب ہے ‘‘ اور کنکروں کا فرش بنوا دیا ۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا تھا جو ایسے افراد کے لیے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔ اسے آصحاب صفہ کا چبوترہ کہا جاتا ھے
اصحابِ صفہ کا چبوترہ
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں بابِ جبریل کے ساتھ ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ جسے اصحابِ صفہ کا چبوترہ کہا جاتا ھے یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسکین وغریب صحابہ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در، اور جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی،کبھی کبھی ان کی تعداد ۸۰ تک پہونچ جاتی تھی۔ سورۃ الکہف کی آیت نمبر (۲۸) انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا۔
اس چبوترے پر ساری مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی طرح کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے ایک چھپر ڈال دیا گیا تھا۔ اس کو صفۃ المسجد کہا جاتا تھا جو بعد میں مختصر ہو کر ’’الصفّہ‘‘ کہلانے لگ
اصحاب صفہ
یہ صحابہ کرام اصحاب صفہ کہلاتے یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے کبھی 70 اور کبھی200سے زیادہ گویا یہ مدرسۂ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تھا ۔ ابو ذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی، صہیب، بلال، ابوہریرہ، عقبہ ابن عامر ، خباب ابن ارت، حذیفہ ابن یمان،ابو سعیدخدری، بشرابن خصاصہ، ابو موہبہ وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہماسی مدرسہ کے طالبِ علم تھے انہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی"
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ .
اور اپنے آپ کو ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ھیں
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ایک گروہ جو محض عبادت الہٰی اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر مہاجرین مکہ تھے اور فقر و غنا کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ اصحاب صفہ کہلاتے ہیں یہ چبوترہ ایک نبوی درسگاہ تھی اور جہاں کہیں تبلیغ و دعوت اسلام کی ضرورت ہوتی ان میں سے بعض حضرات کو بھیج دیا جاتا۔ قرآن شریف میں بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اور احادیث میں بھی ان کا ذکر ھے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی‘ یا لنگی (تہ بند) تھی‘ یا کمبلی‘ جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی‘ کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تھے تاکہ عورت نہ کھل جائے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ۔۔ سے اصحاب صفہ مراد ہیں جن کی تعداد سات سو تھی یہ سب نادار لوگ تھے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) : کی مسجد میں فروکش تھے نہ کسی کی کھیتی تھی نہ دودھ کے جانور نہ کوئی تجارت‘ نمازیں پڑھتے رہتے تھے ایک وقت کی نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں رہتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جن کی معیت میں مجھے ٹھرنے رہنے کا حکم دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے اہل بیت کے مقابلے میں ان کا حق مقدم سمجھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاتے اور بیچ کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرتے۔ جولوگ شادی کر لیتے تھے وہ اس زمرے سے نکل جاتے تھے۔ حضرت بلال، ابوذرغفاری، زید بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہم اسی گروہ سے تھے اور ہر وقت رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے باعث زیادہ تر احادیث انہی سے مروی ہیں
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اصحاب صفہ کے ایک سو ایک نام گنائے ہیں (جو ان کو معلوم ہو سکے) اور ایک مستقل رسالہ میں ان حضرات کے اسماء گرامی تحریر فرمائے ہیں، محدث حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب مستدرک میں چونتیس نام تحریر فرمائے ہیں، حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ نے حلیۃ الاولیاء میں 43 نام لکھے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحریر کے موافق ابن عربی اور سلمی نے بھی ان حضرات کے اسماء گرامی جمع کیے ہیں
محمد حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں جن حضرات اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں، وہ مندرجہ زیل ہیں :
(1) سلمان فارسی
(2) ابوعبیدہ ابن جراح
(3) عمار بن یاسر
(4) عبد اللہ بن مسعود
(5) مقداد بن الاسود
(6) خباب بن الارت
(7) بلال بن رباح
(8) صہیب بن سنان
(9) زید بن الخطاب(عمر فاروق کے بھائی)
(10) ابو کبشہ
(11) ابو مرثد الغنوی
(12) صفوان بن بیضاء
(13) ابو عبس بن جبر
(14) سالم مولی ابی حذیفہ
(15) مسطح بن اثاثہ
(16) عکاشہ بن محصن
(17) مسعود بن الربیع
(18) عمیر بن عوف
(19) عویم بن ساعدہ
(20) ابولبابہ بن عبد المنذر
(21) سالم بن عمیر
(22) ابو الیسر کعب بن عمرو
(23) خبیب بن یساف
(24) عبد اللہ بن انیس
(25) ابو ذر غفاری
(26) عتبہ بن مسعود
(27) ابو الدرداء
(28) عبد اللہ بن زید الجہنی
(29) حجاج بن عمرو الاسلمی
(30) ابو ہریرہ دوسی
(31) ثوبان مولیٰ محمد
(32) معاذ بن حارث القاری
(33) سائب بن خلاد
(34) ثابت بن ودیعہ
رضی اللہ تعالی عنھم
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آٹھ مبارک اور متبرک ستون
یوں تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چپہ چپہ نور فشاں ہے مگر ریاض الجنہ کے وہ آٹھ ستون جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کھجور کے تنوں سے بنوائے تھے جنھیں بعد میں سنگ مرمر کے کام اور سنہری مینا کاری سے نمایاں کر دیا گیا ہے خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہ آٹھ ستون روضہ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مغربی دیوار کے ساتھ سفید رنگ کے ذریعہ ممتاز کیے گئے ہیں یعنی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا وہ حصہ جو ریاض الجنہ کہلاتا ھے آٹھ مزین ستونوں پر مشتمل ہے جنہیں عربی زبان میں 'اساطین' کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہرستون کے جلی سنہرے حروف میں نام درج ہیں جن کے پس منظر میں ہرے رنگ کے سنہرے فریم بنائے گئے ہیں۔
ان ستونوں کے درمیان ھی " ریاض الجنۃ " ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "میرے گھر اور منبر کے درمیان مقام 'ریاض الجنۃ' ہے۔ یہاں آنے والے زائرین نماز اور نوافل کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے آٹھ ستون پرانے ناموں پر مشتمل ہیں۔ ان ستونوں کے ساتھ عہد نبوت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے کئی تاریخی واقعات وابستہ ہیں۔
ان ستونوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے گنبدکو تھام رکھا ہے۔ عہد نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں یہ ستون کھجور کے تنے پر مشتمل تھے جو بعد میں باقاعدہ تعمیراتی مواد سے بنائے گئے۔ 1440 سال کے دوران کھجور کے تنے سے بنائے گئے ستون مزین پتھروں میں تبدیل ہوگئے۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اساطین کے وہ نام جنہیں دور نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں لیا جاتا تھا، آج بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ہرایک ستون کے ساتھ کوئی واقعہ یا قصہ وابستہ ہے۔ ان کے نام سبز رنگ کی پلیٹ کے درمیان سنہری رنگ میں لکھے گئے ہیں۔
اسطوانہ المخلقہ /اسطوانہ الحنانہ
یہ ستون نبی پاک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مصلیٰ شریف کی ایک علامت ہے جسے 'المطیبہ المعطرہ' بھی کہا جاتا ہے۔اس ستون کے پاس صحابہ کرام کی نماز تواتر کے ساتھ ملتی ہے۔ سلمہ بن اکوع کی روایت کے مطابق المخلقہ ستون محراب نبوی (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) شریف میں واقع ہے۔ اس پرجلی الفاظ میں 'اسطوانہ المخلقۃ' کے الفاظ درج ہیں۔ روایات کے مطابق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل ادا فرمایا کرتے تھے۔ اسے استوانہ حنانہ بھی کہتے ھیں
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاریہ نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جیسے آپ کی مرضی۔انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ھوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیا تو وہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایا جا رھا ھو ۔ تنے کا رونا، فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھا۔ جسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔ (صحیح بخاری )
یہ ستون رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جدائی کے غم میں اس طرح رویا جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے کھو جانے پر روتا ہے - اونٹ کے بچے کے اس طرح رونے کو عربی میں ' حنانہ ' کہتے ہیں - اس رونے کی آواز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی سنی مگر وہ حیران تھے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے - رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب اس کھجور کے تنے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور وعدہ فرمایا کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا تو اسے قرار آیا –
حسن بصری رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا : مسلمانو بے جان لکڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شوق میں رو رہی ہے تو وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے متمنی ہیں کیوں نہ آپ سے جذب و شوق رکھیں؟ ((دلائل النبوة للبيهقي
اس ستون کو ' استوانہ مخلقۂ ' اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مبارک مقام پر ایک مرتبہ کسی شخص نے لا علمی میں تھوک دیا تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس عمل کو ناپسند فرمایا تھا اس کے بعداس تنے کو صاف کر کے بے انتہا خوشبو لگائی گئی جس کی وجہ سے اسے ' استوانہ مخلقۂ ' بھی کہا جاتا ہے - عربی میں ' مخلقۂ ' خوشبو کو کہتے ہیں - یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ' ریاض الجنۃ ' میں محراب رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے لگا ہوا ہے۔
یہ ستون آج بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں اسی نام سے موجود ہے جو محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی یاد دلاتا ہے۔ کجھور کی ایک لکڑی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی لیکن ہم ان کے امتی کہلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کتنا عمل پیرا ہیں۔ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صبح وشام غلامی رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا نعرہ لگانا بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سے پہلے غلامی کی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ غلام اپنی مرضی ، خواہشات کو آقا کے حکم پر قربان کردیتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہماری بھی یہی کیفیت ہے ؟؟ اگر یہی کیفیت ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ فکر پیدا کرنی چاہیے اور پختہ عزم کے ساتھ اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں غلامی رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ مسلمان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر قسم کی کامیابیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات ، آپ کی مبارک سنتوں پر چلنے میں ہے۔ اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی غلامی نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
اسطوانہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا
یہ ستون منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، قبررسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور قبلہ کی طرف تیسرا ستون ھے یہ ستون مہاجرین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مہاجرین یہاں پر جمع ہوتے تھے ۔اسطوانہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ریاض الجنہ کے وسط میں ہے۔یہی وہ ستون ہے جہاں آپ نے تحویل قبلہ کے چند دنوں بعد تک نماز پڑھائی ۔ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہاں پر نماز ادا فرماتےتھے۔اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم محراب کی طرف متوجہ ہوئے۔حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور ابن زبیر رضوان اللہ علیھم بھی وہاں پر نوافل ادا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری مسجد میں ایک ایسی جگہ ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے کی فضلیت کا علم ہو جائے تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں (طبرانی)
اس جگہ کی نشاندہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمائی تھی اسی مناسبت سے اسے اسطوانہ عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کہا جاتا ہے
اسطوانہ ابی لبابہ/ اسطوانہ توبہ
یہ منبر کی طرف سے چوتھا، قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دوسرا اور قبلہ کا تیسرا ستون ہے۔ اسے ستون ابو لبابہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔بنی قریظہ کی جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کے بعد ابو لبابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خود کو اس ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ یہ انصاری صحابی تھے‘ بنو قریظہ کے علاقہ میں ان کے باغات تھے۔ آل اولاد بھی وہیں تھی‘ اسلام سے پہلے یہ بنو قریظہ کے حلیف تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی ان کے سابقہ تعلقات اور لین دین باقی رہا‘ یہودیوں نے غزوۂ خندق میں مسلمانوں کے ساتھ جو بد عہدی اور غداری کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ غزوۂ خندق میں مسلمانوں کی فتح کا تصور بھی مشکل تھا‘ دس ہزار کا لشکر جرار جس نے یہودیوں کے ایماء پر مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی جس کے بچوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں‘ عورتوں کی کل تعداد پانچ ہزار سے زائد نہ تھی‘ اُسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کفر کی ساری طاقتیں اتحادی بن کر جمع ہو گئی تھیں۔ یہ ایک معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد تھی کہ مسلمان فتح سے ہمکنار ہوئے۔ دوران جنگ مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کرنا‘ حملہ آوروں کا ساتھ دینا‘ مسلمان عورتوں کے قلعے پر حملہ کا ارادہ کرنا‘ جنگ کی آگ بھڑکانا اور کافروں کو حملے پر اُکسانا معمولی جرائم نہ تھے کہ ان پر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندق سے واپس آئے تو جبریل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے‘ عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہتھیار رکھ دیئے ہیں مگر فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے۔ اٹھیے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً اعلان کرایا کہ جو شخص ہمارا مطیع اور فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کے انتظامی امور حضرت مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو سونپے اور بنو قریظہ کے دیار میں ’’انا‘‘ نامی کنویں کے قریب قیام فرمایا۔ یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ شروع ہوا تو ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچا‘ انہوں نے سوچا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے کیوں نہ اپنے حلیفوں سے مشورہ کر لیں ممکن ہے معلوم ہو جائے کہ ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ انہوں نے مشورہ کے لیے اپنے پرانے حلیف ابو لبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب کیا‘ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں ان کے پاس بھیج دیں تا کہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ جب وہ وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کے مرد ان کی طرف دوڑ پڑے اور عورتیں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ابو لبابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی حالت دیکھی تو ان پر رقت طاری ہو گئی۔ یہود نے ان سے مشورہ کیا کہ کیا ہم ہتھیار ڈال دیں؟ انہوں نے کہا: ہاں‘ مگر ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا‘ مراد یہ تھی کہ ذبح کر دیئے جاؤ گے۔ وہ غیر ارادی طور پر ذبح کا اشارہ تو کر بیٹھے مگر فوراً ہی احساس ہوا کہ یہ اشارہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کے سیدھے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچے اور اپنے آپ کو اس ستون کے ساتھ باندھ لیا جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا اب مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کھولیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب میری توبہ قبول ہو گی تبھی میں اپنے آپ کو آزاد کروں گا‘ وہ مسلسل چھ دن اور چھ راتیں اسی ستون کے ساتھ بندھے رہے۔ ان کی بیوی نمازوں کے ا وقات میں انہیں کھول دیتیں اور نماز ادا کرنے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں۔ ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس واقعہ میں دوسرے بہت سے اسباق کے ساتھ ساتھ یہ سبق بھی موجود ہے کہ ایک شخص سے نادانی میں بلا ارادہ ایک فوجی راز افشا ہو گیا۔ اس غلطی کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ وہ چاہتے تو کسی کو اپنی غلطی کی ہوا بھی نہ لگنے دیتے مگر یہ قوت ایمانی تھی‘ اللہ تعالیٰ کا خوف اور یہ احساس تھا کہ میرا سمیع وبصیر اور دانائے قلوب پروردگار مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی احساس کے زیر اثر انہوں نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اپنے لیے از خود سزا بھی تجویز کر لی اور اپنے آپ کو ستون کے ساتھ باندھ لیا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں گناہ کے معترف اور نادم شخص کے لیے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کے جذبات جوش مارنے لگتے ہیں۔ گناہ پر اصرار‘ فخر اور اس پر اڑے رہنا بدبختی کی نشانی ہے۔ سیدنا ابولبابہؓ کا معاملہ اور بھی اہم تھا۔ یہ اپنی قوم کے سرکردہ اور نمایاں افراد میں سے تھے‘ لہٰذا لوگوں کی دلی خواہش تھی کہ ان کی توبہ قبول ہو جائے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہی چاہتے تھے‘ چنانچہ چھ راتیں گزرنے کے بعد صبح سویرے وحی نازل ہوئی۔
ہماری اماں جان سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنستے دیکھا تو عرض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اسی طرح ہنساتا رہے۔ ارشاد ہوا کہ ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی توبہ قبول ہو گئی ھے۔ اس وقت تک پردہ کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر اجازت ہو تو میں ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خوشخبری سنا دوں؟ ارشاد ہوا: ہاں اگر چاہو تو (سنادو)۔ وہ اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑی ہو گئیں اور فرمانے لگیں: اے ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ! [ابشر فقد تاب اللہ علیک] ’’تمہیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔
ادھر صحابہ کرام تضوان اللہ علیہم کو یہ خبر ملی تو وہ ابو لبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کھولنے کے لیے دوڑے چلے آئے۔ اب ذرا دنیائے محبت کی یہ ادا بھی ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے فوراً صحابہ کرام کو کھولنے روک دیا۔ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! اب تو مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اپنے دست مبارک سے آزاد فرمائیں گے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کے لیے نکلے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خود اپنے دست مبارک سے کھولا اور آزاد فرما دیا۔
اسطوانہ السریر
یہ ستون روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کھڑکی سے متصل ھے۔ اس کے ساتھ ہی مشرق کی طرف اسطوانہ توبہ ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں اس مقام پر اعتکاف فرمایا کر تے تھے
روضہ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک کی جانب موجود جالیوں سے اندر حجرہ مبارک کی دیوار تھی اس میں ایک کھڑکی مسجد میں کھلتی تھی موجودہ جالیاں اصل دیوار سے اگے کی جانب بنائی گیی ہیں - اسلئے یہ کھڑکی اب نظر نہیں آتی بعض تصاویر میں اس کھڑکی کو تمثیلا'' ان جالیوں میں دکھایا گیا ہے لیکن اصل کھڑکی یقینا'' ان جالیوں سے اندر تقریبا'' چار فٹ کے فاصلے پر اصل حجرے کی دیوار میں موجود ہوگی جو اب نظروں سے اوجھل ہے - اس میں ایک ستوں نظر آتا ہے جس پر '' اسطوانہ سریر '' لکھا ھوا ہے - رسول الله صلی الله علیہ وسلم حالت اعتکاف میں مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس مقام پر آرام کے لیے بستر لگا لیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے اس مقام پر ایک یادگاری ستوں بنا دیا گیا ہے جسے “اسطوانہ سریر '' کہتے ہیں -
مرقوم ہے کہ حالت اعتکاف میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس کھڑکی سے ٹیک لگ کر آرام فرماتے توام المومنین سیدہ بی بی عائشہ رضی الله تعالی عنہا حجرہ مبارک کے اندر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک میں تیل ڈال دیا کرتی تھیں اور بالوں میں کنگھی کر دیتی تھیں اسلئے آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب رمضان مبارک میں اعتکاف کیا کرتے تھے تو سیدہ بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حجرہ مبارک جو مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل متصل تھا اسکی دیوار کے ساتھہ آپ لیٹنے یا بیٹھنے کے لیے اپنی چٹائی بچھا لیا کرتے تھے -
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم دن رات الله سبحان و تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے - بوقت ضرورت دنیاوی مسائل بھی حل کرتے مگر زیادہ وقت الله تعالی کی عبادت میں ہی گزرتا - بعض اوقات ایسی صورتحال ہوتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کھڑکی سے ٹیک لگا لیتے اور سیدہ بی بی عائشہ رضی الله تعالی عنہا حجرے مبارک کے اندر سے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی آرائش کر دیتی تھیں - آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک میں تیل لگا دیا کرتی تھیں -
اس ستون کا نصف کرہ حجرے کے اندر اور نصف ریاض الجنہ میں ہے اور اس پر دائرہ بنا کر اسمیں '' '' اسطوانہ سریر '' لکھ دیا گیا ہے جس کے معنی ہیں بستر والا ستوں
اسطوانۂ الحرس
یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال میں اسطوانۂ توبہ کے عقب میں واقع ہے۔ اس مقام پر صہابہ کرام رضوان اللہ علیھم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کیا کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اکثر اس مقام پر نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی جگہ بیٹھ کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کیا کرتے تھے اس لئے اس کو اسطوانۂ علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی کہتے ہیں -اس کے ساتھ باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔
اسطوانۂ الوفود
یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال میں اسطوانہ الحرس کے پیچھے واقع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم باھر سے آنے والے وفود سے ملاقات کے لیے یہاں تشریف فرما ہوتے تھے بعد میں یہ جگہ آپ کے صحابہ کرام کی مجلس کی وجہ سے بھی مشہور ہوئی۔
اسطوانۂ مقام جبریل
یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال مغربی کونے میں ہے۔ یہ ستون دیوار حجرہ میں بنایا گیا ہے۔ اس کےساتھ ہی باب فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہے۔
اسطوانۂ تہجد
یہ ستون مسجد کے شمال سےحجرۂ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے عقب میں واقع ہے۔ اسی حجرہ میں ایک محراب بھی واقع ہے۔ اس کی بائیں جانب باب عثمان جسے 'باب جبریل' کا نام بھی دیا جاتا ہے موجود ہے۔ یہاں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چھوٹی چٹائی لے کرنکلتے اور بیت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے عقب میں بچھا کرنماز ادا کرتے۔ زیادہ تر تہجد کی نماز یہاں پر ادا فرماتے۔ کسی صحابی نے اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں تہجد ادا کرتے ھوئے دیکھا تو انہوں نے بھی یہاں نماز تہجد ادا کرنا شروع کردی دیکھا دیکھی یہاں اور کافی صحابہ جمع ھونے شروع ھو گئے تو ان کے بیٹھنے کے لئے ایک چٹائی منگوا لی گئی تاکہ صحابہ اطمینان سے نماز ادا کر سکیں لیکن آھستہ آھستہ جب صحابہ کافی زیادہ جمع ھونے لگے اور بیٹھنے کی گنجائش باقی نہ رھی تو پھر اس چٹائی کو لپیٹ دیا گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے ھمراہ مسجد میں داخل ھو گئے
ریاض الجنة
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة''
(رواه البخاري والمسلم)
"میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے''۔
مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں باب جبریلؑ سے بائیں ہاتھ پر ایک حجرہ نظر آتا ھے ۔ یہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا گھر تھا۔ جب آپ اس کے سامنے سے گزر جائیں تو فوراً بعد بائیں ہاتھ پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا جو حصہ ہے یہ ریاض الجنۃ ہے، یعنی منبر ِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور حجرہ مبارک کے درمیان کا حصہ ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔اسی مقام کی نسبت حدیث میں یہ آیا ہے:
‘‘ جو جگہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔’’
اس مقام کا یہ نام اس لئے پڑا کہ اس حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اس مقام کو جنت کا باغیچہ ارشاد فرمایا: یعنی یہ جگہ حقیقت میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جو اس دنیا میں منتقل کیا گیا ہے اور قیامت کے دن یہ ٹکڑا جنت میں چلا جائے گا۔اسی ریاض الجنہ میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا مصلیٰ مبارک بھی ہے ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کھڑے ہو کر امامت فرمایا کرتے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وصال کے بعد مُصلیٰ مبارک رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم جیسی متبرک جگہ کی تعظیم کو برقرار رکھنے کی غرض سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ پر، سوائے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قدم مبارک کی جگہ چھوڑ کر باقی جگہ پر دیوار بنوا دی تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سجدہ کی جگہ لوگوں کے قدموں سے محفوظ رہے۔ اس جگہ آج ایک خوبصورت محراب بنی ہوئی ہے، جو محراب نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کہلاتی ہے۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں ولید کے حکم سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جب مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی توسیع کی تو اس جگہ یہ محراب بھی بنوا دی۔چنانچہ اب اگر کوئی حاجی مُصلیٰ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو اس کا سجدہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قدم مبارک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی جگہ پڑتا ہے۔
اس وقت جو مقدس محراب بنی ہوئی ہے وہ نو فٹ سنگِ مرمرکے ایک ہی ٹکڑے کی ہے جس پر سونے کے پانی سے خوبصورت مینا کاری کی گئی ہے، دونوں جانب سرخ سنگِ مرمر کے بے مثال ستون بنے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر سورہ الاحزاب کی وہ آیت لکھی ہوئی ہے جس میں درود شریف پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
oاِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاO
بے بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ھیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر. اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجو.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آل مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد.🍃
خانہ کعبہ کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو تمام زمین پر فضیلت حاصل ھے مگر اسکا وہ حصہ جسے '' ریاض الجنہ '' کہتے ہیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے باقی حصوں سے بھی افضل ھے اسکی فضیلت کی وجہ یہ ھے کہ نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے دن میں کم سے کم پانچ بار حجرہ مبارکہ سے نکل کر محراب تک تشریف لاتے تھے کیونکہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا آنا جانا کثرت کے ساتھ تھا اسلئے وہ مقام جہاں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مبارک قدم کثرت کے ساتھ لگے '' ریاض الجنہ '' کہلایا ، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فرماتے تھے میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ھے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے
منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد کی چھت کھجور کے تنوں پر تھی یعنی کھجور کے تنوں سے ستونوں کا کام لیا گیا تھا۔ ابتداء میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں منبر نہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو ایک کھجور کے تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے۔ یہ تنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصلیٰ کی دائیں جانب (اس وقت کی مسجد) کی دیوار سے متصل تھا، ایک انصاری صحابیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سہولت کے لیے گزارش کی ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں؟“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تجویز سے اتفاق فرمایا،توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جھاؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والا منبر تیارکیا گیا۔ جب جمعۃ المبارک کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنے کی بجائے منبرکی طرف تشریف لے گئے۔ تو وہ تنا‘غم ِفراق میں بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔
صحیح بخاری میں سیدنا جابربن عبد للہ ؓ سے روایت ہے کہ:”جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اُتر ے اور اس تنے کو آغوش میں لیاتو وہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا جسے چپ کرایا جا رہا ہو۔
مصنف ابن عبد الرزاق میں ہے کہ: معمر نے اہل مدینہ سے نقل کیا ہے کہ اس کھجور کے تنے کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں دفن کر دیا گیا، چنانچہ جس مقام پر دفن کیا گیا ہے وہاں پر ایک ستوں کھڑا کر دیا ہے، جسے ”۔استوانہ حنانہ“ کہتے ہیں،جو ریاض الجنہ کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔
شرح ترمذی میں ہے کہ:تین قوی روایتوں سے اس تنے کا دفن ہونا ثابت ہے۔(معارف السنن)
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کے مراحل
سب سی پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع فرمائی اور مسجد کا رقبہ 1050 مربع میٹر سے بڑھا کر 2500 مربع میٹر کر دیا گیا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ھونے کے بعد حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت میں مسجد اسی حالت پر رہی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اسے تعمیر کیا تھا اور پھر اد کی توسیع بھی فرمائی تھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا
دورِ فاروقی میں فتوحات اور مسلمانوں کی کثرت کے سبب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں مزید توسیع کی حاجت پڑی تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مزید جگہ شامل کرکے نئے سرے سے مسجد تعمیر کروائی۔ علامہ سیوطی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” ھَدَمَ الْمَسْجِدَ النَّبَوِیَّ ، وَزَادَفِیْہِ وَوَسَّعَہٗ وَفَرَّشَہٗ بِالْحُصْبَاء یعنی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مسجدِ نبوی کو شہید کرواکے نئے سرے سے تعمیر کیا ، اس کے رقبے اور گنجائش میں اضافہ کیا اور سنگریزوں ( بجری/کنکر ) سے پکا فرش بنوایا ۔ “ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے لکڑی سے بنے ستون الگ کردیئے اور ان کی جگہ کچی اینٹوں کے ستون تعمیر کروائے اور قبلہ کی طرف اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں: اگر میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ ” مسجد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ “ تو میں ذرہ بھر اضافہ نہ کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ اضافہ کیا کہ مسجد کے ستون کھجور کے تنوں کے بجائے صاف ستھری لکڑی کے ستونوں سے تبدیل کر دیے اور چھت کو بارش سے محفوظ کر دیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کاریگروں کو مسجد رنگین بنانے سے روک دیا تھا تاکہ نمازیوں کی توجہ رنگ و روغن کی طرف نہ ہو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے نقش و نگار کے ساتھ فخریہ انداز مساجد بنانے کو ناپسند کیا خصوصا جب کہ لوگ نمازوں کے ذریعہ سے مساجد کو آباد نہ کریں ۔((فتح الباري)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے دور خلافت میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کا کام کیا گیا اور اس مقصد کے لئے قریبی گھروں کو خریدنے کی ضرورت پیش آئی انہی گھروں میں ایک گھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان بھی تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان سے مسجد کی توسیع کے لئے گھر مانگا تو تو انھوں نے صاف انکار کردیا جس کے نتیجہ میں مندرجہ زیل مشھور واقعہ رونما ھوا
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مکان کا واقعہُ
حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ نے جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کا ارادہ فرمایا تو آس پاس کے بعض مکانات ان کے مالکان کو قیمت دے کر خرید لئے، مسجد کی جنوبی طرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجد سے بالکل متصل تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ سے کہا : اے ابو الفضل رضی اللہ عنہ! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہوگئی ہے توسیع کے لئے میں نے آس پاس کے مکانات خرید لئے ہیں ، آپ بھی اپنا مکان فروخت کردیں تاکہ اسے مسجد میں شامل کیا جاسکے، اور جتنا معاوضہ آپ کہیں میں بیت المال سے ادا کروں گا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہ کام نہیں کرسکتا، دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ میری تین باتوں میں سے ایک بات مان لیں ، یا تو اسے فروخت کردیں اور معاوضہ جتنا چاہیں لے لیں، یا مدینہ میں جہاں آپ چاھیں وہاں آپ کے لئے مکان بنوا دوں، یا پھر مسلمانوں کی نفع رسانی اور مسجد کی توسیع کے لئے وقف کردیں، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا: مجھے ان تینوں میں سے کوئی بات بھی منظور نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ، تو انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا آپ جسے چاہیں فیصل مقرر کردیں، تاکہ وہ ہمارے اس معاملہ کا تصفیہ کردے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فیصل بناتا ہوں، دونوں حضرات اٹھے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ وغیرہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کو بٹھا لیا،۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ابو الفضل! آپ اپنی بات کہیئے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ ہے ، یہ مکان میں نے بنایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے ۔ واللہ یہ پرنالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کا لگایا ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات کی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سناؤں، دونوں بزرگوں نے عرض کیا بیشک سنائیے
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ اسلام کو حکم دیا کہ میرے لئے ایک گھر تعمیر کرو جس میں مجھے یاد کیا جائے ، اور میری عبادت کی جائے ، چنانچہ جہاں پر مسجد اقصی واقع ہے وہاں من جانب اللہ زمین کی نشان دھی کر دی گئی ، ایک طرف ایک اسرائیلی بڑھیا کا مکان تھا حضرت داؤد علیہ اسلام نے اس بڑھیا سے بات کی اور کہا: اس مکان کو فروخت کر دو تاکہ اللہ کا گھر بنایا جاسکے ، اس نے انکار کردیا، داؤد علیہ اسلام نے اپنے جی میں سوچا: یہ گوشہ زبرستی لے لیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا ، اے داؤد (علیہ اسلام)! میں نے آپ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کے لئے کہا تھا ، اور آپ اس میں زور و زبردستی کو شامل کرنا چاہتے ہیں، یہ میری شان کے خلاف ہے ، اب آپ کی یہ سزا ہے کہ میرا گھر بنانے کا ارادہ ترک کردیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو مسجد نبوی شریف صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں لے آئے ، وہاں کچھ صحابہ حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، اگر کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے حضرت داؤد علیہ اسلام کے بیت المقدس کی تعمیر کرنے والی حدیث کو سنا ہے ، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے ، اب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا عمر(رضی اللہ عنہ )! آپ نے مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حدیث کے بارے میں تہمت دی ھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ، اے ابو المنذر! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ، میں چاہتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی یہ حدیث بالکل واضح ہوجائے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اور کہا: جائیے! میں اب آپ سے آپ کے مکان کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا: جب آپ نے اب ایسی بات کہہ دی ھے تو اب میں اپنا مکان توسیع مسجد کے لئے بلامعاوضہ پیش کرتا ہوں، لیکن اگر آپ حکما لینا چاہیں گے تو پھر ھرگز نہیں دوں گا، اس کےبعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں کسی دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لئے، مکان بنوا دیا،
اسی گھر کے بارے میں ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھاڑنے کا حکم دیا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا یہ پرنالہ خود رسول اللہ اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا تو آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر یہ پرنالہ وہیں لگا دیجیے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے لگایا تھا ممکنہ طور پر وہ واقعہ اس سے پہلے کا ھو گا
عثمانیہ دور کے بعد بھی پرنالہ کی جگہ کی نشانی کو قائم رکھا گیا اس مقام پر سورۃ البقرہ کی آیات کریمہ تحریر کی گئی ہے ، جو اس واقعہ کی یاددہانی بھی کرواتی ہے اور درس بھی دیتی ہے
o وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ يَّعْلَمْهُ اللّـٰهُ ۗ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْـرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۚ وَاتَّقُوْنِ يَآ اُولِى الْاَلْبَابِ
اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے، اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ پرہیزگاری ہے، اور اے عقل مندو! مجھ سے ڈرو۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی توسیع خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوئی اور مسجد کی جگہ 2500 مربع میٹر کردی گئی تھی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پہلی توسیع ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔
سنہ 17 ھ کو دوسرے خلیفہ راشد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں 1100 مربع میٹر کی مزید توسیع کرائی جس کے بعد مسجد کا کل رقبہ 3600 مربع میٹر تک پھیل گیا۔
پھر حضرت عثمان کا دور آیا انہوں نے کئی تبدیلیاں کی دیواریں منقوش پتھر سے بنا دیں ۔ ستون بھی تبدیل کرکے منقوش پتھر سے بنادئے اور چھت ساگوان کی لکڑی سے تیار کرائی۔ ((صحيح البخاري)
حضرت عثمان بن عفان نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں 496 مربع میٹر کی توسیع کرائی جس کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم 4096 مربع میٹر ہوگئی آپ نے ازواج مطہرات کے تمام حجرے مسجد میں شامل کر لئے
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 تا 91ھ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں 2369 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبوی میں شامل کرائی جس کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا احاطہ 6465 مربع میٹر ہوگیا۔
سنہ 161ھ میں عباسی خلیفہ مہدی نے 2450 مربع میٹر کا مزید رقبہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا حصہ بنایا جس کے بعد مسجد 8 ہزار 915 مربع میٹر پر پھیل گئی۔
سن 888ھ کو سلطان اشرف قاتیبائی نے 120 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں شامل کی اور مسجد 9053 مربع میٹر پر پھیل گئی۔
عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید نے 1293 میٹر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں توسیع کرائی جس کے بعد مسجد کا رقبہ 10328 مربع میٹر تک جا پہنچا۔ یہ توسیع 1265ھ میں کرائی گئی تھی۔
موجودہ آل سعود خاندان کے دور میں اب تک مسجد نبوی کی کئی بار توسیع کی جا چکی ہے۔ موجود حکومت کے دور میں پہلی توسیع شاہ عبدالعزیز کے حکم پر 1372ھ کو کرائی گئی۔ پہلی توسیع میں 6024 مربع میٹر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں شامل کیا گیا جس کے بعد مسجد کا احاطہ 16 ہزار 326 میٹر ہوگیا۔
شاہ فہد بن عبدالعزیز کے زمانہ میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع ھوئی ۔ شاہ فہد کے حکم پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں 82 ہزار مربع میٹر کا اضافہ کیا گیا اور یوں مسجد کا رقبہ 98 ہزار 352 مربع میٹر ہوگیا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مزید 30 ہزار 500 مربع میٹر کا رقبہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں شامل کرنے کا حکم دیا ۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نیا منصوبہ ابھی بھی جاری ھے نئے توسیع منصوبے کے تحت مسجد کے بیرونی احاطے میں سائے کے لیے 250 سائبان لگائے گئے۔ پانی کو خشک کرنے کے لیے 436 پنکھے اس کے علاوہ ہیں
گذشتہ چودہ صدیوں کے دوران مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 1050 میٹر کی جگہ سے پھیل کر آج پانچ لاکھ مربع میٹرتک پہنچ گئی ہے اس میں بہت ذیادہ کام سعودی دورِ حکومت میں ھوا ھے
صحابہ کرام کے زمانہ کا تمام مدینہ منورہ اب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چاروں اطراف کے صحنوں میں آچکا ھے اور توسیع کا کام اب بھی جاری ھے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رھے
۔
مسجد نبوی جب سے تعمیر ہوئی اول تو مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے تمام اہم معاملات انجام پانے کا مرکز بھی بن گئی اس کی کچھ تفصیل ملاحظہ کیجئے ۔
کمزور ،فقیر اور غیر شادی شدہ مہاجرین جو اپنے لئے جداگانہ گھر بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ان کی پناہ گاہ بھی مسجد تھی وہ یہیں رہتے تھے ، یہیں سوتے جاگتے اور کھاتے پیتے تھے انہیں اہل صفہ کہا جاتا تھا ۔ ((فتح الباري)
اکا دکا کمزور خواتین جو بیرونی قبائل سے مسلمان ہوکر مدینہ منورہ آگئی تھیں اور ان کے پاس رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا وہ بھی مسجد میں رہتی تھیں ، مثلا وہ حبشی لونڈی جس کے لئے مسجد کے ایک کونے میں چھپر بنایا گیا تھا ۔ (( اس حبشی لونڈی کی قوم نے اس پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ہماری لڑکی کا ہار چرایا ہے ( صحيح البخاري)
مسلمانوں کےلئے دینی تعلیمات کے حصول کا مرکز بھی مسجد ہی تھی اور ایک جامع درسگاہ کا کام دیتی تھی ۔ دعوت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف کفار و مشرکین کے شعری حملوں کے جواب میں مسلمانوں کی محفل شعر و سخن بھی مسجد ہی میں منعقد ہوتی تھی ۔ ((صحيح البخاري)
کافر و مشرک جنگی قیدیوں کو مسجد ہی میں باندھا جاتا تھا تاکہ دیکھنے والے عبرت حاصل کرے اور وہ قیدی بھی مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں اور انکی مقدس زبانوں سے قرآن مجید اور احادیث نبویہ سنیں تاکہ وہ متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ حضرت ثمامہ بن اثال کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے وہ قید ہوکر آئے تھے مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں اسیر رھے اور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بے مثل اخلاق و کرم سے گھائل ہوئے کہ مسلمان ہوگئے ۔ ((صحيح البخاري)
اورمسلمان جنگی زخمیوں کے علاج کے لئے خیمے بھی مسجد ہی میں لگائے جاتے تھے غزوہ احزاب مین رفیدہ کا خیمہ بھی مسجد ہی میں نصب کیا گیا ۔ ((صحيح البخاري)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے وفود کا استقبال بھی مسجد ہی میں کیا جاتاتھا ارد گرد کےسفیر اور قاصد بھی مسجد میں حاضر ہوتے تھے ۔مجاہدین کے لشکر اور دستے بھی یہیں تشکیل پاتے اور انہیں جھنڈے بھی یہی دئے جاتے تھے مسلمان اپنے محبوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے مسجد ہی میں ملاقات کرتے تھے ۔ مجلس مشورہ و مذاکرہ بھی مسجد میں ہی ہوتی تھی اس کے دو فائدے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہر وقت اپنے صحابہ کے ساتھ گھل مل کررہتے اور ان کے حالات سے بخوبی آگاہ رہتے اور عوام اپنےتمام مسائل کسی تاخیر یا تکلیف کے بغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیتے تھے مسلمانوں کو مسجد ہی میں ایک دوسرے سے ملاقات کے مواقع میسر آتے تھے جس کے نتیجے میں ان میں اخوت و محبت کے جذبات کے فروغ پاتے تھے ہمارے زمانے کے قائدین او ر عوام اس فہم سے بیگانہ ہوچکے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ ہے ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تعمیر میں ظاھری تکلف اور سجاوٹ کا خیال نہیں رکھا گیا تھا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تو صراحت سے کہا تھا لوگوں کو بارشوں سے محفوظ کرو سرخ وزرد رنگ لگانے سے پرہیز کرو ایسانہ ہو کہ لوگوں کو نماز سے غافل کردو ۔ ((إعلام الساجد للزركشي) لہذا عام اہل علم نے اس سے استدلال کرتے ہوئے مساجد میں نقش نگاری اور ضرورت سے زیادہ تزیین وآرائش کو مکروہ سمجھا ھے بلکہ بعض علماء نے تو حرمت کا فتوی بھی دیا ہے ۔ ((فقه السيرة النبوية للبوطي،
اسلام میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت
اسلام میں حرم المکی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اسی حرم النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو حاصل ہے۔
اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی درج ذیل احادیث مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے:
عن جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال صَلَاةٌ في مَسْجِدِي أَفْضَلُ من أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إلا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاةٌ في الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ من مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ۔۔
حضرت جابر سے روایت ہے كہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمايا کہ ميرى اس مسجد ميں نماز (اجر كے اعتبار سے )دوسرى مساجد ميں نماز پڑهنے سے ايك ہزار گنا افضل ہے، سوائے مسجد حرام كے اور مسجد حرام ميں نماز پڑهنا اس كے سوا مساجد ميں ايك لاكھ نمازيں پڑهنے سے افضل ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِى هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى
ترجمہ:تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ) سفر اختیار نہ کیا جائے۔ یعنی مسجد الحرام،مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور مسجد الاقصیٰ
ایک اور حدیث ہے :
مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ۔
یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے منبر شریف اور حجرہ مبارک کا درمیانی حصّہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے
جاری ھے ۔۔۔۔۔۔