قسط نمبر (84) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 حضرت سلمان  بن اسلام فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے حالاتِ زندگی اور دولت اسلام کی سعادت 

  حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے ان کے حالاتِ زندگی تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتے ھیں ۔ پیدائشی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذھب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ اسلام سے پہلے ان کا نام مابہ تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم نے ان کا نام سلمان رضی اللہ تعالی عنہ رکھا اور سلمان الخیر کے لقب سے بھی نوازا ۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔ نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، ابوعبداللہ آپ کی کنیت ہے، 


زندگی  قبلِ اسلام

حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کے والد اصفہان کے ایک گاؤں کے زمیندار و کاشتکار تھے، ان کو حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  سے  شدید محبت تھی ۔  آتشکدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق رکھی ھوئی تھی؛ چونکہ مذہبی جذبہ حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ میں ابتدا سے بہت زیادہ تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں  نہایت سخت مجاہدات کیے، شب و روز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے؛ حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہو گیا تھا جو کسی وقت آگ کو  بجھنے نہ دیتے تھے


   مجوسیت سے عیسائیت  کا سفر 

آپ کے باپ کے معاش کا ذریعہ کاشتکاری تھا  ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت پر خود نہ جاسکا اور اس کی دیکھ بھال کے لیے حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کوبھیج دیا، ان کو راستہ  میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہورہی تھی، نماز کی آوازیں سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے، نماز کے نظارہ سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا  اُنہیں عیسائیوں کا طریقۂ عبادت اس قدر دل کو لگا  کہ اُن کے دل سے آواز نکلی کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے؛ چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کر اختتام تک اسی عبادت میں مشغول رھے ۔ عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے اس مذھب کے بارے میں معلومات لیں پوچھا کہ اس مذہب کا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ شام میں، پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے، تاخیر سے آنے پر باپ نے پوچھا کہ اب تک کہاں رہے؟ جواب دیا کہ کچھ لوگ گرجے میں عبادت کر رہے تھے، مجھ کو ان کا طریقۂ عبادت ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا، باپ نے کہا: وہ مذہب تمہارے مذہب سے بہتر نہیں ھے، جواب دیا، اللہ کی قسم ! وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے، اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ خیال تبدیلئ مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو جائے ۔ اس لیے آپ کو بیڑیاں پہنا کر مقید کر دیا ۔ اسیطرح جیسے فرعون نے حضرت موسی کو کہا تھا ، آیت مبارکہ

قَالَ لَىِٕنِ ٱتَّخَذۡتَ إِلَـٰهًا غَیۡرِی لَأَجۡعَلَنَّكَ مِنَ ٱلۡمَسۡجُونِینَ O

فرعون نے کہا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو میں تجھے قید کر دوں گا

اہل باطل کا ھمیشہ سے یہی طریقہ رھا ھے۔ مگر حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کے دل میں تلاشِ حق کی تڑپ تھی، اس لیے خفیہ طور پر عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا؛ چنانچہ جب وہ آئے تو اُن کو خبر کر دی؛ انھوں نے کہا کہ جب وہ واپس ہوں تو مجھے بتلانا؛ 


شام کی طرف روانگی

کاروانِ تجارت واپس لوٹنے لگا تو ان کو خبر کی گئی، یہ کسی نہ کسی طرح بیڑیوں کی قید سے نکل کر اُن کے ساتھ ہو گئے، شام پہنچ کر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے وہاں کے پادری کا پتہ بتا دیا، اس سے جا کر کہا کہ مجھے تمہارا  مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کرمذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کواس مذہب میں داخل کرلو۔ اس طرح  وہ مجوسیت  سے نکل کر عیسائیت  میں آگئے؛ 


بد دیانت اور بداخلاق  پادری

جس پادری کے ھاتھ پر آپ نے عیسائیت قبول کی  وہ پادری بہت  بد دیانت اور بداخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا اور جب اس کے قبضہ میں آجاتا تو فقراء  اور مساکین کو دینے  کی بجائے خود لے لیتا؛ حتی کہ سونے اور چاندی کے سات مٹکے اس کے پاس جمع ہو گئے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس کی حرص اور لالچ کو دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے تھے؛ مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا، 

عیسائی شان وشوکت سے اس کی تجہیز وتکفین کرنے کو جمع ہو گئے، اس وقت  سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  نے اُس کا تمام  اعمالنامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ جب اس کے مال و اسباب کی تلاشی لی گئی تو واقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے، عیسائیوں نے اشتعال میں آ کر اس کو بطورِ سزا،  دفن کرنے کی بجائے اس کی نعش کو صلیب پرلٹکا کر سنگسار کر دیا۔ 


عابد و زاھد اور تارک الدنیا پادری

پہلے پادری کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ پادری بڑا عابد وزاہد اور تارک الدنیا تھا، شب و روز عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتا، سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  اس سے بہت مانوس ہو گئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تواس سے کہا کہ میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے، اس لیے آئندہ کے لیے مجھے نصیحت فرما دیجیے ۔ اس نے کہا کہ میرے علم میں اس شہر میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جو مذھبِ عیسوی کا سچا پیروکار ھو، سچے لوگ مر کھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کو بہت کچھ بدل دیا ہے؛ بلکہ بہت سے اصول تو سرے سے چھوڑ ہی دیے ہیں، ہاں البتہ موصل میں فلاں شخص ہے جو دینِ حق کا سچا پیرو ہے تم جاکر اس سے ملاقات کرنا۔


موصل کا سفر

پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں آپ موصل پہنچے اور تلاش کرکے بتائے ھوئے پادری کو ملے اور اپنا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کوہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ اُبلتا ہے اور میں آپ سے مل کراپنی تشنگی فرو کرنا چاہتا ہوں، اس نے ان کوٹھہرا لیا۔  پہلے پادری کی رائے کے مطابق یہ پادری واقعی  بڑا متقی اور پاکباز تھا، اس لیے انھوں نے اس کے پاس مستقل قیام کر لیا؛ مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی موت کا وقت بھی آگیا، آئندہ کے متعلق حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔


نصیبین کا سفر

چنانچہ اس کی موت کے بعد آپ نصیبین پہنچے اور اس پادری سے ملکر دوسرے پادری کی وصیت بتلائی، یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد اور زاہد تھا، سلمان یہاں مقیم ہو کر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اُٹھایا تھا کہ اس کا وقتِ آخر بھی آن پہنچا ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نےگذشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہر مقصود کا پتہ دیا ۔


عموریہ کا سفر

پادری کی موت کے بعد انھوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے اسقف سے مل کرپیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہو گئے، کچھ بکریاں خرید لیں، اس سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر و شکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانۂ حیات بھی لبریز ہو گیا توحضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سرگزشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا،اب آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو  ہیں، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے، اس نے کہا: بیٹا میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟ میرے علم کے مطابق آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے جس سے ملنے کا میں تمھیں مشورہ دوں؛ البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جوریگستانِ عرب سے اُٹھ کر دینِ ابراہیم علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا، اس کے علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔  اگر تم اس سے مل سکو تو ضرور ملنا۔


عرب کا سفر

اس پادری کے مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک آپ عموریہ میں رہے، کچھ دنوں بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گذرے، آپ نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں  اپنی گائیں اور بکریاں تمھاری نذر کر دوں گا، وہ لوگ تیار ہو گئے اور آپ  اس اُمید پر اُن کے ساتھ ھو لیے کہ شاید میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم کی ھجرت گاہ تک پہنچ جاؤں 


آزادی سے غلامی

 ان عرب تاجروں  نے “وادی القریٰ “میں پہنچ کران کو دھوکہ دیا اور ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر ڈالا، وہاں جب کھجور کے درخت نظر آئے تو آس بندھی کہ شاید یہی وہ منزلِ مقصود ہے جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن قیام کیا تو یہ اُمید بھی منقطع ہو گئی، آقا کا چچا زاد بھائی مدینہ منورہ سے ملنے آیا، اس نے سلمان رضی اللہ عنہ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا۔


غلامی در غلامی اور مدینہ منورہ کا سفر

نیا آقا حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کو مدینہ  لے آیا اور سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  غلامی درغلامی کی رسوائی سہتے ہوئے مدینہ منورہ  پہنچے؛  مدینہ کے نخلستان دیکھ کر پھر اُمید بندھی  اور آثار وعلامات بھی بتاتے تھے کہ شاہد مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے؛ اس وقت آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم مکہ پر طلوع ہوچکا تھا؛ لیکن جوروستم کے بادلوں میں چھپا ھوا تھا، سلمان رضی اللہ عنہ کو آقا (مالک) کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا کہ خود اس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ روزِ مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالم تاب صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  مدینہ کے افق پر طلوع  ہوا، حرمان نصیب سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح اُمید کا اُجالا پھیلا، یعنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، 


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری اور قبولِ اسلام

سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کھجور کے درخت پرچڑھے ہوئے کچھ درست کر رہے تھےاور آقا(مالک) نیچے بیٹھا ھوا تھا کہ اس کے چچازاد بھائی نے آکر کہا کہ خدا بنی قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قباء میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں، جو مکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں، سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کے کانوں تک اس خبرکا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط جواب دے گیا ۔ صبر کا دامن ھاتھ سے چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہو گئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت سے فرشِ زمین پرآجائیں؛ اسی مدہوشی کے عالم میں جلد ازجلد درخت سے نیچے اُترے اور بدحواسی میں آنے والے سے بے تحاشا پوچھنے لگے، تم کیا کہتے ہو؟ آقا نے اس سوال پر ایک زور سے طمانچہ مار کرڈانٹا کہ تم کواس سے کیا غرض، تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  خاموش ہو گئے؛ لیکن اب صبر کسے تھا کھانے کی کچھ چیزیں پاس تھیں وہ لے کردربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم اللہ تعالی  کے برگزیدہ بندے ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہلِ حاجت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم کے ساتھ ہیں، میرے پاس یہ چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ ان کے مستحق کون ہوسکتے ہیں؟ اس کو قبول فرمائیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  نے دوسرے لوگوں کوکھانے کا حکم دیا؛ مگرخود نوش نہ فرمایا؛ اس طرح سے سلمان رضی اللہ عنہ کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہو گیا کہ نبی رضی اللہ تعالی عنہ  صدقہ نہیں قبول کرتا، دوسرے دن پھرہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے قبول فرمایا، خود بھی نوش کیا اور دوسروں کوبھی دیا، اس طرح سے دوسری نشانی بھی پوری ھوگئی پھر تیسری نشانی یعنی مہرنبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پرنم آپ کی طرف بوسہ دینے کوجھکے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ! وہ سامنے آئے اور اپنی ساری سرگزشت سنائی؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  نے یہ دلچسپ داستان اپنے تمام اصحاب کو سنوائی اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ جب اپنا گوہرمقصود پاچکے تواس دولت کواپنے دل کے خزانے میں رکھ کرآقا کے گھرواپس آ گئے تو گویا اتنے مراحل طے کرنے  کے بعد وہ دین سے ہم آغوش ہوئے۔ یہ تھی دین کی طلب اور اس کے حصول کے لئے جدوجہد جو صحابہ کرام کی زندگیوں  میں ھمیں ملتی ھے 


غلامی سے آزادی کا سفر

حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  چونکہ غلامی کی زندگی بسر کر رھے تھے اس لئے غلامی اور کام کی مشغولیت کے باعث فرائضِ مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے؛ اسی وجہ سے غزوۂ بدر و اُحد میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  نے ان سے فرمایا کہ اپنے آقا کو معاوضہ  دے کر آزادی حاصل کرلو، تین سوکھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونے پرمعاملہ طے ہو گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سودرخت ان کو مل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  کی مدد سے ان کو لگایا اور زمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی، اب سونے کی ادائیگی باقی رہ گئی اس کا سامان بھی اللہ تعالی نے کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  کو کسی غزوہ میں مرغی کے بیضہ کے برابر سونا مل گیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم نے سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کو  وہ سونا دے دیا، جب وزن کیا گیا تو یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، یہ سونا اپنے آقا کو دے کر حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  نے غلامی سے نجات  حاصل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم   کی خدمت میں رہنے لگے 


سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  اہل بیت میں ھیں 

 آپ کے بارے میں حضور آکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے موقع پر سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ " سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  ہمارا ہے" انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  ہمارا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  ہمارے اہل بیت میں سے ہے " اس لیے سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کو مہاجرین یا انصار کی بجائے اہل بیت میں شمار کیا گيا۔

غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل اقامت اختیار کی، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے، کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان کا اور حضرتُ ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ  کا  بھائی چارہ  کروا دیا


غزوۂ خندق  میں شمولیت اور خندق کھودنے کا مشورہ

بدر اور اُحد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہوچکی تھیں لہذا غلامی کی وجہ سے  اُن میں شرکت کا تو آپ کے پاس موقعہ ھی نہیں تھا ، آزادی کے بعد پہلا  غزوہ “غزوۂ خندق “ پیش آیا، اس میں انھوں نے اپنے حسن تدبیر سے دونوں لڑائیوں کی تلافی کردی، غزوۂ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا تھا تاکہ ان کا کامل استیصال کر دے، حملہ خود مدینہ منورہ پرتھا، جس کے چاروں طرف نہ قلعہ تھا، نہ فصیل تھی اور مقابلہ بھی سخت تھا، ایک طرف کفار کی تعداد ریگستانِ عرب کے ذروں کے برابر تھی اور دوسری طرف مٹھی بھر مسلمان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چونکہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے؛ چنانچہ انھوں نے مشورہ دیا کہ اس لشکر کا کھلے میدان مقابلہ کرنا اچھا نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ تین طرف سے پہاڑوں میں گھرا ھوا ھے جو طرف خالی ھے اس طرف گہری خندق  کھود کر مدینہ کومحفوظ کردینا چاہیے، یہ تدبیر مسلمانوں کوبہت پسند آئی اور اسی پر ھی عمل  کیا گیا۔ خندق کی کھودائی شروع ھوئی تو   اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  بھی بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے تھے اور مٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا اور رجزیہ اشعار زبانِ مبارک پرجاری تھے (بخاری، کتاب المغازی، غزوۂ خندق)

ذیقعدہ سنہ5ھ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی، عربوں کواس طریقۂ جنگ سے واقفیت نہ تھی وہ آئے تو تھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے؛ مگریہاں آ کر دیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل حائل ہے، وہ 22/دن تک مسلسل محاصرہ کیے پڑے رہے؛ مگرشہر تک پہنچنا ان کونصیب نہ ہوا اور آخرکار ناکام ھو کر واپس پھرگئے، غزوۂ خندق کے علاوہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تمام لڑائیوں میں مسلمانوں کے دوش بدوش شریک رہے اور غزوۂ خندق کے بعد سے کوئی  غزوہ ایسا نہیں ہوا جس میں شریک ہوکر آپ نے دادِ شجاعت نہ دی ہو۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  کی وفات کے بعد آپ عرصہ تک مدینہ منورہ میں ھی  رہے، عہد صدیقی کے آخر یاعہد فاروقی کے شروع میں عراق کی سکونت اختیار کرلی اور ایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور چونکہ خود ایرانی تھے اس لیے فتوحات میں بہت قیمتی امداد پہنچائی؛ مگراصول اسلام کوہمیشہ پیشِ نظر رکھا، ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت جارحانہ حملے سے پہلے محصورین کوسمجھادیا کہ میں بھی تمہارا ہم قوم تھا؛ لیکن خدا نے مجھ کواسلام سے نوازا، تم لوگ عربوں کی اطاعت گزاری سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، تم کوسمجھائے دیتا ہوں کہ اگرتم اسلام لاکر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ توتم کواہلِ عرب کے حقوق دیے جائیں گے اور جو قانون ان کے لیے ہے وہی تم پرجاری کیا جائے گا اور اگراسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہو تو ذمیوں  کے حقوق تم کوملیں گے اور ان کا قانون تم پرنافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے، جب کوئی اثر نہ ہوا توحملہ کا حکم دے دیا اور مسلمانوں نے قصرِ مذکور بزورِ شمشیر فتح کر لیا۔ فتح جلولا میں بھی شریک تھے اور وہاں مشک کی ایک تھیلی ان کے ہاتھ آئی تھی جس کواپنی زندگی کے آخری لمحات میں کام میں لائے۔


مدائن کی گورنری

حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے عہد خلافت میں مدائن کی گورنری پرسرفراز ہوئے، چونکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ  مقربین بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم میں سے تھے؛ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، اس وقت آپ ایک گدے پرٹیک لگائے بیٹھے تھے، سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  کو دیکھ کر گدا ان کی طرف بڑھا دیا۔


حضرت سلمان  رضی اللہ تعالی عنہ کے آقوالِ زریں 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے بہت سے حکیمانہ جملے اور زریں اقوال کتب احادیث میں منقول ہیں، ان میں سے چند جواہر ریزے نقل  کیے جاتے ھیں ۔ ایک مرتبہ دجلہ کے کنارے جانے کا اتفاق ہوا، ایک شاگرد بھی ساتھ تھا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ گھوڑے کو پانی پلالاؤ، اس نے حکم کی تعمیل کی، آپ نے فرمایا خوب اچھی طرح پلاؤ، جب وہ سیراب ہو گیا تو شاگرد سے مخاطب ہوکر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اس جانور کے پانی پینے سے دجلہ میں کوئی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کہا جی نہیں؛ پھرآپ نے فرمایا کہ علم کی مثال بھی ایسی ہی ہے، اس میں سے جتنا بھی خرچ کیا جائے گھٹتا نہیں چاہیے کہ علم نافع طلب کرو، 

آپ نے فرمایا کہ علم بہت ہے اور عمر تھوڑی توبقدر علم دین اسے حاصل کرلو اور ساری دنیا کے علوم کے پیچھے نہ پڑو۔ 

فرمایا مؤمن کی مثال ایک مریض کی ہے اور اس کے پاس طبیب موجود ہے جو مرض  اور اس کے علاج سے بخوبی واقف ہے، مریض کو جب کوئی ایسی چیز کی خواہش ہوتی ہے جو اس کے لیے مضر ہوتی ہے تووہ اس کو روکتا ہے۔  اسی طرح وہ برابر اس کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے؛ اسی طرح مؤمن کی خواہشات بھی بہت ہوتی ہیں مگراللہ تعالیٰ اس کوبری اور مضرخواہشات سے بچاتا رہتا ہے  تآنکہ اسے موت آجاتی ہے اور وہ جنت کی تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے، اگروہ پہلے باز نہ رکھا گیا ہوتا تواس کویہ نعمتیں کیسے ملتیں۔ 

ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ان کولکھا کہ آپ ارض مقدس (غالباً بیت المقدس) میں چلے آئیے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان کوجواب میں لکھا کہ کوئی زمین انسان کو مقدس نہیں بناتی؛ بلکہ اس کوخود اس کا عمل مقدس اور متبرک بناتا ہے؛ پھرآپ نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کسی جگہ کے قاضی بنادیے گئے ہو تو اگے تمہارے  فیصلوں سے لوگوں میں انصاف ہو تو بہت  اچھا ہے اور اگرتم مصنوعی قاضی ہو تو پھر ایسا نہ ہوکہ اپنے فیصلوں سے تمھیں دوزخ میں جانا پڑے، یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کا یہ حال ہو گیا کہ جب دوآدمیوں میں فیصلہ کرتے اور فریقین واپس جانے لگتے توان کی طرف ایک نظر ڈالتے اور ان سے فرماتے کہ واقعی میں مصنوعی قاضی ہوں، واپس آؤ اور پھرمجھ سے اپنا مقدمہ بیان کرو، شاید فیصلہ میں غلطی ہو گئی ہو۔ فرماتے ہیں کہ مجھے تین آدمیوں پربڑا تعجب ہوتا ہے، ایک وہ جودنیا کی طلب میں پڑا ہوا ہے اور موت اسے طلب کررہی ہے، دوسرا وہ جوموت سے غافل ہے؛ حالانکہ موت اس سے غافل نہیں ہے، تیسرا وہ جوقہقہے مارکر ہنستا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے یاناراض، فرمایا تین چیزیں مجھے اس قدر غمگین کرتی ہیں کہ میں رو دیتا ہوں، ایک توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی جدائی، دوسری عذاب قبر، تیسری قیامت کا خطرہ۔ 

آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے نصیحت کی خواہش ظاہر کی، آپ نے فرمایا: بولو نہیں ، اس نے کہا کہ لوگوں میں رہ کریہ کیسے ممکن ہے، آپ نے فرمایا کہ اگربولو  تو صحیح اور مناسب بات کہو، اس نے کہا کہ کچھ اور ارشاد ہو، فرمایا کہ غصہ نہ کرو، اس نے کہا کہ میں غصہ میں قابو سے باہر ہوجاتا ہوں، فرمایا کہ اپنے ہاتھ اور زبان کو قابو میں رکھو، اس نے کہا کچھ اور ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ لوگوں سے ملو جلو نہیں، اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں سے ملا جلا نہ جائے؟ آپ نے فرمایا اگرملتے جلتے ہو تو پھر بات میں سچائی سے کام لو اور امانت ادا کر دیا کرو۔


علالت اور وفات

حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ  حضرت  عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیمار پڑے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عیادت کو گئے تو رونے لگے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ  رونے کا کون سامقام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  تم سے خوش خوش دنیا سے اُٹھے، تم ان سے حوضِ کوثر پر ملو گے بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی، کہا: خدا کی قسم!  میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرص باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و آصحابہ وسلم  نے ہم سے عہد لیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازوسامان ایک مسافر کے زادِ راہ سے زیادہ نہ ہو؛ حالانکہ میرے گرد اس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں، سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کل سامان جس کوسانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اور ایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے خواہش کی کہ مجھ کو کچھ نصیحت کیجئے، فرمایا: کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت اور تقسیم کرتے وقت خدا کو یاد رکھا کرو ۔  اس بیماری کے دوران اور احباب نے بھی نصیحت اور وصیت کی خواہش کی، فرمایا: تم میں سے جس سے ہو سکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ، جہاد، یا قرآن پڑھتے ہوئے جان دے دے اور فسق و فجور اور خیانت کی حالت میں نہ مرے۔ وقت آخر آیا تو اپنی بیوی سے وہی مشک کی تھیلی منگائی اور اپنے ہاتھ سے پانی میں گھول کر اپنے چاروں طرف چھڑکوایا اور سب کو اپنے پاس سے ہٹادیا، لوگ تنہا چھوڑ کر ہٹ گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر گئے تو دیکھا کہُ روح قفسِ خاکی سے پرواز کر چکی تھی

ایک روایت کے مطابق جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ تم نے جو تھوڑا سا مشک رکھا ہے اس کو پانی میں گھول کر میرے سر میں لگا دو کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جو نہ انسان ہیں اور نہ جن ۔ ان کی بیوی صاحبہ کا بیان ہے کہ میں نے مشک کو پانی میں گھول کر ان کے سر میں لگا دیا اور میں جیسے ہی مکان سے باہر نکلی گھر کے اندر سے آواز آئی ۔ السلامُ علیک یا ولی اللہ السلامُ علیک یا صاحب رسُول اللہ میں یہ آواز سن کر مکان کے اندر گئی تو حضرت سلمان فارسی ؓ کی روح مظہرہ پرواز کر چکی تھی اور وہ اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ گویا گہری نیند سو رہے ہیں (شواہد التبوۃ )

بعض مورخین نے آپ کی وفات کا سال 10 رجب 33 ھ یا 34 ھ تحریر کیا ہے تاھم جمہور مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ  35 ھ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی ۔ مزار مبارک مدائن  میں ہے جو زیارت گاہ خلائق ہے (ترمذی )


حضرت سلمان فارسی کی عمر مبارک

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کافی طویل عمر پائی، آپ کی وفات پینتیس ہجری  میں ہوئی۔ مدتِ عمر کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ آپ ۲۵۰ سال تک زندہ رہے، جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ نے ۳۵۰ سال عمر پائی، محدثین کے نزدیک پہلا ہی قول زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔

Share: