غارِ ثور سے مدینہ منورہ کا سفرِ ھجرت
مورخین لکھتے ہیں کہ جب تین دن گزر گئے تو قریش کے لوگ اپنی پوری کوشش کے بعد تھک ھار کر ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اور یہ سمجھ لیا گیا کہ تین دن گزر چکے ہیں، اس عرصے میں یقیناً وہ دونوں (رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ) یہاں سے نکل کر بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، تلاش کرنے والے بھی تیز رفتار سواریوں پر گئے اور ناکام واپس آگئے، اس وقت یہ دونوں حضرات (رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ) غار سے باہر تشریف لائے اور سفر کا آغاز ہوا۔ صبح سویرے عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں جو اس کو سپرد کی گئیں تھیں لے کر پہاڑ پر آگیا، حالانکہ وہ ابھی مشرک تھا، مگر انتہائی معتبر آدمی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا دیکھا بھالا تھا، انہیں پورا یقین تھا کہ وہ شخص ہمارے سفر کا راز فاش نہیں کرے گا۔ عبداللہ بن اریقط صرف راستہ بتلانے و الا تھا، وہ قائد یا راہنما نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پیچھے عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بٹھلایا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی اونٹنی پر تنہا تشریف فرما تھے، راستہ بتلانے والا شخص اونٹنیوں سے آگے آگے چل رہا تھا۔
اس وقت شام، فلسطین اور یمن وغیرہ کی طرف جانے والے تجارتی قافلے یثرب سے ہو کر گزرتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے یثرب کی طرف جانے کے لئے جو راستہ متعارف اور معروف تھا وہ حدیبیہ فُلیص، اور بدر سے ہوتا ہوا مدینے پہنچتا تھا۔ مشرکین کے شر سے بچنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس سفر کے لئے جو انتہائی رازداری اور اخفاء کا متقاضی تھا اس راستے کا انتخاب فرمایا جو متعارف راستے سے مختلف تھا، شاید ہی کوئی شخص جو مکے سے یثرب جا رہا ہو اس راستے پر سفر کرتا ہو۔ آئیے دیکھتے ھیں کہ یہ راستہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا انتخاب تھا کن کن علاقوں سے گزر کر یثرب پہنچتا ہے۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی مسافت تین سو اسی کلو میٹر ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا سفر ہجرت ۱۲؍ربیع الاول ۱۳؍نبوی مطابق ۲۴؍ستمبر ۶۲۲ء کو جمعہ کے دن حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان سے شروع ہوا اور حضرت ابوایوب الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر ختم ہوا، اگر غارِ ثور اور قباء کے قیام کے دن نکال دئیے جائیں تو اس پورے سفر میں آٹھ دن صرف ہوئے۔ سیرت ابن ہشام نے ان تمام مقامات کے نام ذکر کئے ہیں جن کے قریب سے یا جن سے ہو کر یہ مقدس کاروانِ ہجرت گزرا، یہ تقریباً انتیس مقامات ہیں، بعد کے مصنفین اور مؤرخین جیسے حافظ ابن سعد، علامہ طبری، ابن حبان، حاکم، ابن حزم، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، حموی، ابن منظور، ابن کثیر، علامہ ذہبی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ان مقامات کی تفصیل بھی بیان کی ہے جو ان کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ھے ۲۰۱۱ء میں سعودی حکومت کی جغرافیائی پیمائش کی وزارت نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی اس کے ممبران نے ٹھیک ان ہی راستوں پر پیدل اور کھینچنے والی گاڑیوں کے ذریعہ تجرباتی سفر کیا تھا ، اس ٹیم نے یہ مسافت گیارہ دن میں طے کی۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا یہ سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان سے شروع ہوا، پہلے آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان سے تین سو نو میٹر کے فاصلے پر اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل باب فہد کے سامنے ہلٹن ہوٹل کی بلڈنگ بنی ہوئی ہے۔راستے میں آپ اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے سامنے پڑے ہوئے میدان میں حَزْورَۃ نامی مقام پر رکے، اس میدان میں دورِ جاہلیت اور دورِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں مکے کا بازار لگا کرتا تھا، یہاں رک کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارضِ مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس سرزمین کی تعریف کی، اس میں رہنے کی تمنا ظاہر فرمائی اور اپنے اس درد کا اظہار فرمایا کہ اہل وطن کے نکالنے کی وجہ سے میں یہاں سے جا رہا ہوں، ورنہ اے ارضِ وطن میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا، یہاں کھڑے ہو کر آپ نے دعا بھی فرمائی، اس کے بعد آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان سے پانچ ہزار پانچ سو میٹر کی مسافت پر ہے۔
جبلِ ثور سے مقدس مہاجرین کا یہ قافلہ مکہ کے زیریں حصے کی طرف ساحل سمندر کی سمت سے عُسفان کی طرف بڑھا، پھر یہ حضرات اَمَج کے نچلے حصے سے ہوتے ہوئے قُدَید کے قریب سے گزرے، راستے میں ضرار اور ثنیۃ المرۃ نامی مقامات پڑے، اس کے بعد مدلجۂ حجاج، پھر دَحَجْ مَجَاحْ، پھرمَرْجَحْ ذی العَضْوَین، پھر بَطْنْ ذِیْ کَثُرْ، پھرجَدْأجَدْ، پھرذوسُلم نامی مقامات سے گزرنا ہوا، ان کے بعد مَدْلجہ تِعھَنْ، عَبَابِیْدْ، فَاجَّہْ، عَرج،رَکُوْبَۃ ثَنِیَّۃ ُالعَائد، بَطْنِ رِئْم اور مَلَلْ سے ہوتے ہوئے قباء پہنچ گئے۔
ہجرت کے سفر میں پیش آنے والے کچھ ایمان افروز واقعات
اس آٹھ روزہ سفر کے دوران کچھ ایمان افروز واقعات بھی پیش آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جو اس سفر میں روزِ اوّل سے ساتھ تھے، بلکہ اس کی تیاریوں میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے شریک، پورے معاملے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے رازدار، قدم قدم پر آپؐ کے خیرخواہ، ہمدرد اور غم گسار تھے، اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’
چٹان کے سائے میں آرام
ہم دونوں صبح نمودار ہونے سے کچھ پہلے اندھیرے میں غار سے نکل کر مدینے کی طرف روانہ ہوگئے، ہم اس روز تمام دن چلے، تمام رات چلے، اگلے دن بھی ہمارا سفر جاری رہا، یہاں تک کہ دوپہر کا وقت شروع ہوگیا، اس وقت میں نے چاروں طرف دیکھا شاید کوئی مناسب جگہ مل جائے، جہاں تھوڑا آرام کرسکیں، میری نگاہ ایک چٹان پر پڑی، میں اس کے قریب پہنچا، وہ چٹان کچھ سایہ کئے ہوئے تھی، میں نے اس جگہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے ہموار کردیا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے چمڑے کا بنایا ہوا ایک فرش بچھا دیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہاں آرام فرمائیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم وہاں لیٹ گئے،
بکریوں کا دودھ نوش فرمانا
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لٹانے کے بعد میں تھوڑا الگ ہٹ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں ہے، اچانک میری نگاہ ایک شخص پرپڑی جو بکریاں چرا رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا اے غلام! تیرے مالک کا کیا نام ہے؟ اس نے ایک قریشی شخص کا نام بتلایا میں اسے جانتا تھا، میں نے اس غلام سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس دودھ دینے والی بکری ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا کیا تم میرے لئے اس کا دودھ نکال سکتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، پھر میں نے اس کی بکریوں میں سے ایک بکری کا پاؤں باندھ کر اس سے کہا کہ وہ اس کے تھنوں کو دھولے اور اپنے دونوں ہاتھ بھی پاک کرلے، میرے پاس ایک برتن تھا جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا، غلام نے اس میں کچھ دودھ دوہا، پھر میں نے برتن میں کچھ پانی بہایا یہاں تک کہ اس برتن کی تلی ٹھنڈی ہوگئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دودھ نوش فرمالیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پی لیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دودھ پینے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی، پھر ہم لوگ وہاں سے چل پڑے اور قریش کے لوگ ہماری تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکتے رھے
حضرت اُم معبد رضی اللہ تعالی عنہا کا خیمہ
ابھی جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھیوں نے صحراءمیں کچھ سفر طے کیا تھا کہ دور سے انہیں تپتی ہوئی ریت پر ایک خیمہ دکھائی دیا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مبارک سواری اس طرف چل پڑی اور یہ خیمہ سیدہ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کا تھا ۔جس کا نام سیدہ عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا تھا اور ان کے شوہر کی کنیت ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ تھی ۔یہ خیمہ ان دونوں میاں بیوی نے مسافروں کے راستے پر لگارکھا تھا ۔تاکہ ان کی مہمان نوازی کر سکیں اور ان کے تحفوں اور عطیوں سے اپنی گذر بسر کر سکیں۔
امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے روایت درج فرمائی ہے کہ جس رات کو جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنے راہنما عبد اللہ بن اریقط اللیثی کے ہمراہ ہجرت فرمائی تو ان لوگوں کا گذر ام معبد سیدہ عاتکہ بنت خالد الخزاعیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے خیمہ سے ہوا اور سیدہ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا ایک نمایاں اور جفا کش عورت تھیں جو اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں وہ اپنے پاس سے گذرنے والوں کو کھلایا پلایا کرتی تھیں۔
ان لوگوں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس گوشت یا دودھ ہے ۔وہ خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے پاس انہیں کچھ نہیں ملا ۔وہ کہنے لگیں اللہ کی قسم اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہاری مہمان نواز ی میں ذرا کوتاہی نہ کرتے ۔وہ لوگ اس وقت تنگ دست اور قحط زدہ تھے ۔جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نظر دوڑائی تو حضو ر اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خیمہ کے ایک کونے میں بکری دکھائی دی تو حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا اری ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا ! یہ بکری کیسی ہے ۔انہوں نے عرض کیا یہ بکری کمزوری کی وجہ سے بکریوں کے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے ۔جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فھل فھیا من لبن؟“کیا اس میں کچھ دودھ ہے ۔تو انہوں نے عرض کیا یہ اس قابل نہیں ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے دوہ لوں؟اس نے عرض کیا اگر اس میں دودھ ہے تو دوہ لو اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے عرض کیا ہاں میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر قربان ہوں اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس میں دودھ نظر آتا ہے تو دوہ لیں۔
حضرت ام معبد رضی اللّٰہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے مستفید ہوتی ہیں
:جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بکری کو بلایا ،اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور اس کے شیردان کو چھوا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور برتن منگواکر اس کے پیروں کو کھولا تو وہ دودھ دینے لگی اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے کثرت سے دودھ دیا اور برتن میں دھاروں دودھ گرنے لگا۔یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے برتن بھر لیا ۔ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کو پلایا اپنے ساتھیوں کو پلایا، سب نے باری باری پیا یہاں تک کہ تمام لوگ شکم سیر ہو گئے اور سب سے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نوش جان فرمایا اور ارشاد فرمایا ۔”لوگوں کو پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے ۔“پھر حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس برتن میں دوبارہ دودھ دوھا پھر دوھا اور اُسے ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رکھ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سیدہ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا سے ارشاد فرمایا :”یہ اٹھا کر ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ کےلئے رکھ دو“جب وہ آئے (تو اسے پلا دینا)۔پھر ان لوگوں نے وہاں سے کوچ فرمایا تو تھوڑی دیر بعد سیدہ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ کمزور سی بکریوں کو جولاغر ی کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی تھیں اور ان کی ہڈیوں میں تھوڑا سا مغز تھا کو ہانکتے ہوئے تشریف لے آئے ۔جب انہوں نے دودھ دیکھا تو حیران رہ گئے اور پوچھا اری ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا یہ دودھ کہاں سے آگیا اور گھر میں تو دودھ دینے والی کوئی بکری نہیں ہے اور بکریاں تو سب بے دودھ ہیں۔وہ فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ کی قسم یہ ایک مبارک آدمی کا گذر ہمارے پاس سے ہوا ہے اور ان کا مزاج اس طرح سے ہے تو انہوں نے کہا اری ام معبد رضی اللہ تعالی عنہ اس کا حلیہ میرے سامنے بیان کرو۔
اُمِ٘ معبد کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت حسین و جمیل سراپا کا بیان:
حضرت ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو نہایت خوبصورت تھا ۔اس کا چہرہ مبارک روشن تھا ۔وہ جسمانی طور پر حسین تھا۔دبلا پتلا اور کمزور نہیں تھا ۔اس کی کمر پھولی ہوئی نہیں تھی اور نہ پتلی اور کمزور تھی ۔ اعضاءمیں تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے ۔ ان کا سر مبارک بھی چھوٹا نہیں تھا ۔وہ حسنِ ظاہری سے مالا مال تھا ۔آنکھوں کی پتلیاں سیاہ تھیں اور پلکیں لمبی تھیں۔آواز بھاری نہیں تھی ۔گردن بلند تھی ۔ داڑھی مبارک گھنی تھی ،بھویں باریک تھیں۔یہ شخص خاموش ہوتا تو باوقار لگتا تھا اور گفتگو کرتا تو خوبصورت معلوم ہوتا تھا ۔دیکھنے سے اُس کا حسن نمایاں ہوتا تھا ۔قریب سے دیکھیں تو اس کے سراپا سے مٹھاس اور حسن ظاہر رہتا تھا اور دور سے دیکھیں تو جمال نمایاں دکھائی دیتا تھا ۔بات میں شرینی تھیں۔ہر لفظ جدا جدا ادا ہوتا تھا ۔نہ بات اتنی مختصر تھی کہ کوئی سمجھ نہ پائے اورنہ ضرورت سے زیادہ طویل و دراز ۔ الفاظ مبارک موتیوں کی طرح پروئے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور منہ سے موتیوں کی طرح گرتے ہوئے لگتے تھے ۔ظاہر نظر میں قد دراز دکھائی نہیں دیتا تھا اور قد مبارک چھوٹا بھی نہیں تھا ۔لگتا تھا وہ شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی طرح ہیں۔تینوں آنے والے اشخاص میں سے زیادہ دل پسند نظر آتا تھا اور سب سے زیادہ نرالی شان والا تھا ۔اس کے ساتھی اُسے ہمہ وقت گھیرے رہتے تھے ۔اگر وہ گفتگو کرتا تو خاموشی سے سنتے اور اگر وہ کوئی حکم انہیں دیتا تو وہ فوراً اس کی تکمیل کرتے وہ شخص مخدوم تھا ۔اس کے ساتھ اس کے ساتھی ہر وقت کمر بستہ تیار رہتے تھے ۔اس کے چہرہ پر تُرش روئی کا ذرا بھر اثر نہیں تھا اور نہ اس پر بڑھاپے کے آثار تھے ۔
اُم معبد رضی اللہ تعالی عنہا نے عربی میں دلکش نعتیہ اشعار رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں بیان کیے ھیں
ام معبد رضی اللہ تعالی عنہ کی نظم در وصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
قالت أُمِّ مَعْبَدٍ رضی اللہ تعالی عنہا فی وصف النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم
رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَأَةِ
أَبْلَجَ الوَجْهِ
حَسَنَ الخَلْقِ
لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ
وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ
وَسِيمٌ قَسِيمٌ
فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ
وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ
وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ
وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ
وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ
أَزَجُّ، أَقْرَنُ
إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ
وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ
أَجْمَلُ النَّاسِ
وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ
وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ
حُلْوُ المَنْطِقِ
فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ
كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ
رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ
وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ
غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ
فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا
وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا
لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ
إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ
وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ
مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ
لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ
اردو ترجمہ
ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں بتاتی ھیں
میں نے ایک شخص کو دیکھا
جس کی نظافت نمایاں
جس کا چہرہ تاباں
اور جس کی ساخت میں تناسب تھا
پاکیزہ اور پسندیدہ خو
نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص
نہ پیٹ نکلا ہوا
نہ سر کے بال گرے ہوئے
چہرہ وجیہہ
جسم تنومند
اور قد موزوں تھا
آنکھیں سر مگیں
فراخ اور سیاہ تھیں
پتلیاں کالی اور آنکھوں کی سفیدی بہت سفید تھی
پلکیں لمبی اور گھنی تھیں
ابرو ہلالی
باریک اور پیوستہ
گردن لمبی اور صراحی دار
داڑھی گھنی اور گنجان
سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے
آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت
بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں
کلام شیریں اور واضح
نہ کم سخن اور نہ بسیار گو
گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی
دور سے سنو تو بلند آہنگ
قریب سے سنو تو دلفریب
کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں
جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے
تو پر وقار اور تمکین نظر آئے
قد نہ درازی سے بد نما
اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے
لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب
دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب
دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان
ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر
چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش
جب کچھ کہے تو سراپا گوش
حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں
سب کا مخدوم
سب کا مطاع
مزاج میں اعتدال
تندی اور سختی سے دور
تو یہ سن کر ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ تو وہی صاحب ہیں جنہیں قریش مکہ تلاش کر رہے ہیں ۔اگر میں انہیں پا لوں تو میری خواہش ہے کہ میں ان کے ساتھ ہو جاﺅں اور ایک روایت میں ہے اگر میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دیکھ لوں تو ان کا پیروکار بن جاﺅں ۔پھر انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اُن صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ملنے کا کوئی راستہ نکالنے کی پوری کوشش کروں گا
میاں بیوی کا قبولِ اسلام
مؤرخین لکھتے ہیں کہ اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد یہ دونوں میاں، بیوی (حضرت ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت اُم معبد رضی اللہ تعالی عنہا )حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ حاضر ھو گئے اور آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ حضرت اُمّ ِ معبد رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بکری 18؍ہجری تک زندہ رہی اور حضرت عُمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں جب سخت قحط پڑا، جس میں تمام جانوروں کے تَھنوں کا دودھ خشک ہو گیا تھا، اُس وقت بھی یہ بابرکت بکری صبح و شام برابر دودھ دیتی رہی۔(طبقات ابنِ سعد)
ایک جِن کے اشعار
جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد
''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے جو امِ معبد رضی اللہ تعالی عنہا کے خیمے میں نازل ہوئے۔ وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جومحمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا رفیق ہو اوہ کامیاب ہوا۔ ہائے قصی ! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو۔ تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو۔ تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی۔''
حضرت اسماء ؓرضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں: ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کدھر کا راستہ اختیار فرمایا ھوا ہے کہ ایک جن زیرین مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا ، وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو تب ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ منورہ جانے کے لئے کونسا راستہ اختیار فرمایا ہے، یعنی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا رُخ مدینہ منورہ کی جانب ہے
( صحیح البخاری )
جاری ھے۔۔۔۔۔۔