ھجرتِ مدینہ منورہ
ہجرت کا موضوع ہمارے دینی ماضی کا ایک قدیم ترین عنصر ھے اور یہ سیرت النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ایک اھم حصہ بھی ہے۔در اصل رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پہلے کے نبیوں اور رسولوں کے بھی اپنے عقیدے کا تحفظ کرنے کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کرنے کی معلومات کا قدیم ذرائع میں وجود ملتا ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ کہتے ھوئے کہ" میں اپنے رب کے حکم سے ہجرت کر رہا ہوں" پہلے فلسطین کی طرف ہجرت کی بعد ازاں مصر اور پھر دیارِکنعان میں قیام کیا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام ؑنے خدا کی پیغمبری کے فرائض ادا کرتے وقت اللہ پر ایمان نہ لانے والے بد اخلاق لوگوں سے بچنے کے لیے خالق حقیقی کے حکم پر ایک رات کے اندر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام نے بھی اپنے اصلی مالک کے حکم پر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرتیں کی تھیں۔ان معلومات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہجرت کے تمام تر پیغمبروں کی زندگیوں میں جگہ پانے کا کہا جا سکتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام بھی اسی طرح کافروں کے مظالم سے بچنے کی خاطر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مکہ کے مشکرین نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تبلیغ ِ اسلام کا آغاز کرنے کے وقت سے ہی انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ موقف اپنایا۔ جو کہ نہ صرف دین اسلام کو مسترد کرنے تک محدود نہ تھا۔ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ان پر یقین کرنے والوں پر ناقابلِ برداشت حد تک مظالم ڈھائے۔ صحابہ کرام پر ڈھائے گئے ظلم و تشدد پر دلی صدمہ ہونے والے اور اس چیز کا سد باب نہ کر سکنے والے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بعض صحابہ کرام کو حبشہ روانہ کیا۔جو کہ اسلام میں پہلی اجتماعی ہجرت تھی۔مکہ مکرمہ میں بتدریج طول پکڑنے والے ظلم و تشدد کے نتیجے میں رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کا فیصلہ کیے جانے نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس چیز نے دین اسلام کی تبلیغ میں ایک اہم موڑ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم واقعہ کے طور پر تاریخ میں جگہ پائی۔
ھجرتِ مدینہ منورہ کے اسباب
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا مکہ معظمہ کو خیرآباد کہہ کر مدینہ منورہ چلے جانا اور چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کرنا کوئی اچانک پیش آنےوالا واقعہ نہیں تھا
کتب احادیث و سیر کی روشنی میں ہجرت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بہت سے اسباب ملتے ھیں ان میں سے چند اہم اسباب مختصر طور پر پیش کیے جارھے ھیں
اہل مکہ کی ہٹ دھرمی
بعثت سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مکہ مکرمہ میں ہر دلعزیز تھے اور صادق و امین کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ تمام قریش آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اخلاق حمیدہ کے گن گاتے تھے۔ لیکن نزول وحی کے بعد جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو حکم ملا کہ کھلم کھلا دین کی تبلیغ کرو تو اکثر لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خلاف ہوگئے۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اللہ کے دین کو پھیلانا تھا۔ ہٹ دھرم اور ضدی لوگوں میں رہ کر نبوت کا یہ فرض منصبی انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔
قریش کا ظلم و ستم
قریش مکہ نے صرف دین اسلام کو جھٹلانے اور توحید سے انکار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خود حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور انکے ساتھیوں پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر غلاظت پھینکنا، راستے میں کانٹے بچھانا، راہ چلتے ہوئے آوازے کسنا اور سب سے بڑھ کر معاشرتی اور اقتصادی مقاطعہ کرنا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی تکلیفیں دینا جنکی داستان بڑی دردناک اور طویل ہے۔ ان کی بنیاد پر مسلمانوں کا مکہ میں رہنا محال ہو گیا تھا۔
تبلیغ دین میں دشواری
مکہ میں اس قسم کے حالات تھے کہ نہ تو مسلمان کھلم کھلا دین کی اشاعت کر سکتے تھے اور نہ ہی آزادی سے اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم طائف بھی تشریف لے گئے تھے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اب دین کی نشرواشاعت کا کوئی اور مرکز تلاش کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
ہجرت کا فوری سبب
ہجرت کا فوری سبب کفار مکہ کا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کی تیاری تھا۔ قریش مکہ نے ابوجہل کی تجویز پر یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک طاقتور اور تجربہ کار نوجوان چنا جائے اور ایک رات انہیں آستانۂ مبارک پر متعین کردیا جائے اور موقع پاکر یہ حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر یکدم ٹوٹ پڑیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا کام تمام کر دیں (العیاذ باللہ) لیکن اللہ تعالی کے وعدے “والله يعصمك عن الناس” کے مطابق وہ آپ کو کسی قسم کی ایذا دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
ھجرتِ مدینہ منورہ کے واقعات
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد قریش کے مظالم نے مسلمانوں کے لیے مکہ کی رہائش غیر ممکن بنا دی تھی۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت مرحمت فرما دی۔ معقول وجہ کے بغیر ہجرت نہ کرنے والوں کے لئے وعید بھی سنائی،حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں بے زار ہوں ہر اس مسلمان سے جو مشرکوں کے اندر اقامت اختیار کرے‘‘۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مشرکوں کے ساتھ سکونت مت رکھو اور نہ ان کے ساتھ مل جل کر رہو، جو ایسا کرے گا وہ انھی کے مثل ہوگا‘‘۔چنانچہ قرآن پاک کی ذیل کی آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ھے
إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِکةُ ظَالِمِی أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِیمَ کنتُمْ ۖ قَالُوا کنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَکنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِیهَا ۚ فَأُولَٰئِک مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرًا"(نساء(
جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، جس وقت فرشتے انکی جان لیں گے تو کہیں گے: کس حال میں تھے؟ تو جواب دیں گے: ہم زمین میں مستضعفین تھے۔ وہ کہیں گے مگر خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کرتے؟ پس ان کی منزل دوزخ ہے اور دوزخ بہت بری جگہ ھے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا یہ اعلان سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھاری تعداد میں مدینہ منورہ منتقل ہونا شروع ہوگئے
ھجرتِ مدینہ منورہ کی سچ٘ے خوابوں سے ابتداء
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کی طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ھجرت کی ابتداء بھی سچے خوابوں سے ھوئی پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ھجرت کی جگہ خواب میں دکھائی گئی لیکن مقام کا نام نہیں بتلایا گیا بس اجمالاً صرف اتنا دکھلا دیا گیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ھجرت کی جگہ کھجوروں کے باغ والی ھو گی اس لئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خیال ھوا کہ شاید یہ مقام یمامہ یا ھجر ھو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اسی سوچ میں تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے مدینہ منورہ کی تعیین کر دی گئی
ایک حدیث میں ھے کہ کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر وحی نازل فرمائی گئی کہ مدینہ منورہ ، بحرین اور قنسرین میں سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جس شہر میں قیام پذیر ھونا چاھیں وھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا دارالھجرت ھو گا (ترمزی و بہیقی(
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نور اللہ مرقدہ نے یہاں ایک یہ نکتہ بیان فرمایا ھے کہ جس طرح مہمانِ عزیز پر متعدد مقامات پیش کیے جاتے ھیں کہ وہ جس کو چاھے پسند کرے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ھجرت کے متعدد مقام دکھائے گئے اور آخیر میں مدینہ منورہ متعین و منتخب ھوا ( سیرة المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حصہ اول صفحہ ۲۹۶)
مسلمان ایک زمانے سے قریش کا ظلم و ستم سہہ رہے تھے، بیعت عقبہ کے بعد اس ظلم میں اور بھی شدت آگئی تھی اور ان پر ایسے مظالم ڈھائے جانے لگے تھے کہ جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، مسلمان پہلے سے چاہتے تھے اور اب تو یہ خواہش زبان پر بھی آنے لگی تھی کہ انہیں مکہ مکرمہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ جا کر رہنے کی اجازت مل جائے، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درخواست کے جواب میں ارشاد فرماتے کہ مجھے ابھی ہجرت کی اجازت نہیں ملی، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس قصہ کو اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ ستر انصار صحابہؓ بیعتِ عقبہ کے بعد واپس مدینہ منورہ چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعے سے بے حد خوش تھے کہ اللہ نے ایک بہادر اور جنگجو قوم کو ان کا حامی و ناصر بنا دیا تھا۔ انصار صحابہ کی واپسی کے بعد مشرکین نے مسلمانوں کو سخت تکلیفیں دینی شروع کردیں۔ ان کو مارتے پیٹتے، ان کو گالیاں دیتے، ان کی توہین و تذلیل کرتے، ان حالات میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی اجازت مانگی، آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے خواب میں تمہارا دارالہجرۃ دکھلایا گیا ہے، وہ دو پتھریلی زمینوں کے درمیان کھجوروں کے باغات والی شوریدہ زمین ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چند دن اور ٹھہر گئے، پھر ایک روز اس حال میں اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے کہ خوشی سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا چہرۂ مبارک چاند کی طرح دمک رہا تھا اور فرمایا: مجھے تمہارا مقام ہجرت بتلادیا گیا ہے، وہ یثرب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ کرام کو مدینہ منورہ ھجرت کی آجازت مرحمت فرما دی ۔ اجازت ملنے کے بعد مسلمانوں نے نہایت خوشی اور رازادری کے ساتھ سفر ہجرت کی تیاری شروع کردی
سب سے پہلے ہجرت کا شرف حاصل کرنے والے جلیل القدر صحابی
ہجرت کے اذنِ عام کے بعد سب سے پہلے جن صحابیؓ نے ہجرت کا شرف حاصل کیا ان کا اسم گرامی حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے، یہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے شوہر ہیں،ام٘ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: جب ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینے جانے کا پختہ ارادہ کرلیا توانہوں نے میرے لئے ایک سواری کا انتظام کیا، پھر مجھے اس پر سوار کرایا اور میری گود میں میرے بیٹے سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بٹھلا دیا۔ پھر وہ میری سواری کو ہانکتے ہوئے چلے، ابھی مکہ سے باہر ہی نکلے تھے کہ بنو مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کے لوگوں نے ہمیں دیکھ لیا اور وہ ہماری سواری کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے کہ تمہیں اپنی ذات پر اختیار ہے، جہاں چاہو جاؤ، لیکن تمہاری بیوی ہمارے قبیلے کی ہے، ہم اسے تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی رسی ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے لے لی اور مجھے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اتنے میں ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قبیلے کے لوگ بنوعبدالاسد آگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم ہم اس بچے کو اس عورت کے پاس نہیں رہنے دیں گے،یہ ہمارا بچہ ہے، جب تم ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی کو اپنے قبیلے کی وجہ سے روک سکتے ہو تو ہم بھی ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کو تمہارے قبیلے کے پاس نہیں رہنے دیں گے۔ اس پر ہمارا حق ہے۔ اس بحث و مباحثہ میں کھینچا تانی ہونے لگی، یہاں تک کہ انہوں نے میرے بچے سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو میری گود سے چھین لیا۔ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو تو بنو عبدالاسد لے گئے اور بنو المغیرہ نے مجھے قید کرلیا۔ میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ مدینے روانہ ہوگئے، اس طرح ہم تینوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتی اور مقام ابطح میں دن ڈھلے تک بیٹھی روتی رہتی،تقریباً ایک سال تک میرا یہی معمول رہا۔ ایک روز میرے چچازاد میں سے ایک شخص جس کا تعلق بنو مغیرہ سے تھا وہاں سے گزرا، میری حالت دیکھ کر اسے رحم آیا اور بنومغیرہ کے لوگوں سے کہنے لگا کہ تم اس بے چاری کو جانے کیوں نہیں دیتے۔ تم نے اس کو اس کے شوہر اور اس کے بیٹے سے بھی جدا کردیا ہے، اس رحم دل انسان کی کوششوں سے مجھے مدینے جانے کی اجازت مل گئی اور بنوعبد الاسد نے بھی میرے بیٹے کو میرے سپرد کردیا۔ اس کے بعد میں بیٹے کو لے کر اونٹ پر سوار ہوئی اور تنِ تنہا اپنے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جانے کے لئے نکل پڑی۔
تنعیم تک کا سفر میں نے تنہا طے کیا، وہاں مجھے عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ ملے، مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ابوامیہ کی بیٹی! تم کہاں جانے کا ارادہ رکھتی ہو؟ میں نے کہا : اپنے شوہر کے پاس مدینے جارہی ہوں۔ انہوں نے پوچھا: کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے؟ میں نے کہا: نہیں! بس اللہ ہے اوریہ میرا بیٹا میرے ساتھ ہے۔عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: خدا کی قسم! میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی لگام پکڑی اور مدینے کے راستے پر چل پڑے۔ خدا کی قسم میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ شریف انسان اور کریم النفس آدمی نہیں دیکھا۔ جب ہم کسی منزل پر پہنچتے تو پہلے وہ اونٹ کو نیچے بٹھلاتے، پھر کچھ فاصلے پر چلے جاتے، یہاں تک کہ میں اونٹ سے اتر جاتی، پھر وہ اونٹ کو ہانک کر لے جاتے اور اسے کسی درخت سے باندھ دیتے اور وہیں اسی درخت کے سائے میں لیٹ جاتے، پھر جب روانگی کا وقت ہوتا تو میرے پاس اونٹ لے کر آتے، اسے زمین پر بٹھا کر واپس کچھ فاصلے پر چلے جاتے، جب میں اچھی طرح بیٹھ جاتی تب اونٹ کی لگام پکڑتے اور روانہ ہوجاتے، پورے سفر میں ان کا یہی طریقہ رہا،یہاں تک کہ ہم قبا میں بنو عمرو بن عوف کے ٹھکانوں کے قریب پہنچ گئے۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا: تمہارے شوہر اسی بستی میں ہیں، اللہ کا نام لے کر اترو اور اس بستی کے اندر چلی جاؤ۔ مجھے وہاں چھوڑ کر وہ مکہ واپس چلے گئے۔ یہ قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم! مجھے نہیں معلوم اہل اسلام میں کسی گھرانے نے اس قدر تکلیف اٹھائی ہو جتنی ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرانے نے اٹھائی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ کوئی شخص اتنا شریف النفس ہوسکتا ہے جتنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ (سیرت ابن ہشام)
حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، یہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے، فتح مکہ کے وقت بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی چابیاں ان کے اور شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ چابیاں اب قیامت تک تمہارے پاس ھی رہیں گی، کوئی ظالم ہی ان چابیوں کو تم سے چھین سکتا ہے۔
ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ عنہا کا نام مہاجرین کی فہرست میں سرفہرست ہے، اس کے بعد ھجرت کرنے والوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام آتے ہیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چھپ کر مدینہ منورہ روانہ ہوئے، اس کے بعد ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پھر عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ مع اپنی بیوی لیلی بنت خیثمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اور ابو آحمد رضی اللہ تعالی عنہ اور آن کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالی عنہ نے مع اپنے اہل وعیال کے ھجرت کی اور مکان کو قفل ڈال دیا
جب یہ مکان کو مقفل کرکے مدینہ منورہ جا رھے تھے تو عتبہ اور ابوجہل کھڑے ھوئے اس منظر کو دیکھ رھے تھے کہ لوگ ایک ایک کرکے مکہ سے کوچ کر رھے ھیں یہ دیکھ کر عتبہ کا دل بھر آیا اور لمبی سانس بھر کر یہ کہا ھر مکان ایک نہ ایک دن غمکدہ اور ماتم کدہ بن ھی جاتا ھے لیکن یہ سب کچھ ھمارے بھتیجے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا کام ھے جس نےھمارے قبیلے میں تفریق ڈال دی ھے
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی ہجرت
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا: "تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیر وفقیر تھے، لیکن یہاں آ کر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے، اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دو تو واللہ! ایسا نہیں ہوسکتا۔"
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے؟" انہوں نے کہا: "ہاں!" حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا تو پھر ٹھیک ہے، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "صہیب رضی اللہ تعالی عنہ نے نفع اٹھایا، صہیب رضی اللہ تعالی عنہ نے نفع اٹھایا۔"