قسط نمبر (66) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


مکہ مکرمہ سے باھر نورِ ھدایت کی شعائیں 

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے باھر کے قبائل اور آنے والے وفود پر اسلام پیش کیا ، اسی طرح  مکہ مکرمہ سے باھر کے افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی، اور اُن میں بعض نے مثبت جواب بھی دیا۔ پھر اس موسمِ حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا۔ ذیل میں ان  میں سے بعض کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے : 


حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ تعالی عنہ

ان کا  تعلق یمن سے تھا ۔ ان کا تفصیلی ذکر پہلے  گزر چکا ھے وہاں  ملاحظہ کر لیا جائے


 حضرت سوید بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ 

یہ شاعر تھے۔ گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے ، ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ کہنے لگے : غالباً آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا : حکمتِ لقمان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پیش کرو۔ انہوں نے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کلام يقيناً اچھا ہے ، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی بہت زیادہ اچھا ہے۔ وہ قرآن پاک ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔ وہ ہدایت اور نور ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بولے : یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ منورہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے۔ اغلب یہ ہے کہ انہوں نے ۱۱ نبو ی  صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔ 


حضرت ضماد ازدی رضی اللہ تعالی عنہ

 یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ مکرمہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفاء  دے دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو بھی اس کی ضرورت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : 

(( إن الحمد للّٰه نحمدہ ونستعینہ، من یہدہ اللّٰه فلا مضل لہ ، ومن یضللّٰه فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، أما بعد )) 

’’ يقيناً ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد ! ‘‘ 

ضماد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا : میں کاہنوں ، جادوگروں اور شاعر وں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے۔ یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اسلام پر بیعت کروں اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرکے اسلام قبول کر لیا 


حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی کے حالات کافی  تفصیل سے کتابوں میں ملتے ھیں ۔ آپ کا اسم گرامی جندب بن جنادہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار تھا۔ آپ کی والدہ کا نام رملہ بنت وقیعہ غفاریہ تھا۔ آپ ابوذر کی کنیت سے مشہور تھے

میدانِ بدر کے قریب مدینہ منورہ کی راہ میں 'صفراء' نامی ایک بستی تھی، یہی بستی آپ کامسکن تھا۔ آپ کے قبیلہ کی رہائش دو پہاڑوں کے درمیان تھی جن میں سے ایک پہاڑی کا نام مُسلَح تھا اور دوسری کا نام مُحزٰی... آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جب بدر کی طرف آرہے تھے، ان پہاڑوں کے قریب پہنچے تو ان کا نام پوچھا۔ جب لوگوں نے ان کے نام بتائے تو آپ کو ان کے نام پسند نہ آئے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا:یہاں کون سے قبیلے آباد ہیں تو آپ کو بتایا گیا کہ یہاں دو قبیلے آباد ہیں، ایک کا نام نار (آگ) ہے اور دوسرے کانام بنی حراق (جلنا) ہے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: یہ کس قبیلہ کی شاخیں ہیں تو بتایا گیا کہ یہ بنو غفار کے قبیلے کے ہیں۔ پھر آپ نے اس راستے سے گزرنا مناسب نہ سمجھا اور 'صفراء 'بستی کی دائیں جانب سے ہو کرگزر گئے۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان کا پیشہ تو ڈاکہ زنی تھا لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ ابتدا ہی سے اس پیشہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور محنت مزدوری کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایامِ جاہلیت میں بھی عبادت گزار تھے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا قبیلہ اس شاہراہ پر آباد تھا جو یمن سے لے کر شام تک چلی گئی تھی اور اسی شاہراہ پر عرب کے تمام تجارتی قافلے آیا جایا کرتے تھے لہٰذا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مکہ مکرمہ میں اپنی نبوت کا اعلان کیا تو بہت جلد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خبر آنے جانے والوں کے ذریعہ بنوغفار میں پہنچ گئی۔

عمرو بن عبسہ آپ کے اَخیافی بھائی تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اُن سے کہا : سنا ہے ، ایک آدمی نے مکہ میں اپنی نبوت کا اعلان کیاہے، ذرا اس سے ملاقات کرکے پورے حالات کا پتہ کرتے آنا۔

جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی مکہ مکرمہ سے واپس پہنچا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ قریش میں سے محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) نامی ایک شخص اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتا ہے۔ میں نے جب اس سے ملاقات کی تو اس نے کہا۔ اللہ تعالیٰ کو ایک جانو، اس کا کوئی شریک نہیں، بتوں کی عبادت چھوڑ دو، کسی کو تکلیف نہ دو، برے کام نہ کرو اور خدا کی عبادت کرو اور خلق خدا کی خدمت کرو۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:کچھ اس سے آگے بھی بتاؤ تو اس نے کہا: میں اس سے آگے کچھ نہیں جانتا۔ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تو نے میرے دل کو مطمئن نہیں کیا۔ میں خود مکہ مکرمہ جاکر حالات دریافت کروں گا۔ چنانچہ کچھ زادِ راہ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

مکہ مکرمہ پہنچ کر پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پورے قریش میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ چکی ہے۔ حالات اتنے نازک تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور خانہ کعبہ میں آکر بیٹھ رہے کہ شائد کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ خود بخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ملاقات ہوجائے اور کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سارا دن گزر گیا لیکن مقصود کو نہ پہنچ سکے۔

چونکہ بنو ہاشم خانہ کعبہ کے متولی تھے اور اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچا ابوطالب اس منصب پر فائز تھے لہٰذا رات کو خانہ کعبہ کا دروازہ بند کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسافر بیٹھا ہے۔ اس سے پوچھا: تم مسافر ہو؟ کہا: ہاں۔ حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ چلے گئے۔ رات کو کھانا اور ٹھکانا دونوں مل گئے۔ صبح پھر خانہ کعبہ میں آگئے۔ پھر سارا دن گزر گیا لیکن گوہر مراد ہاتھ نہ آیا۔ دوسری رات پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ وہی مسافر آج بھی بیٹھا ہے۔ پوچھا کیا مسافر کو اپنی منزل نہ ملی؟ کہنے لگے: نہیں۔ وہ پھر ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور حسب سابق مہمان کا حق ادا کیا لیکن دونوں راتیں بالکل خاموشی سے گزریں ۔ نہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم کو ن ہو، کہاں سے اورکس کام سے آئے ہو اور نہ ہی حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کچھ کہا۔ تیسرے روز پھر خانہ کعبہ میں چلے آئے اور پھر سارا دن گزر گیا۔ تیسری رات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ وہی مسافر بیٹھا ہے، کہنے لگے: کیا ابھی بھی منزل کا نشان  نہیں ملا؟کہنے لگے: نہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:آؤ پھر میرے ساتھ چلو، چنانچہ وہ آپ ان کے پیچھے ہو لئے۔ راستہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: آپ کس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں؟ تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا :اگر راز داری کا وعدہ کرو تو عرض کروں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہا:وعدہ ہی سمجھو۔حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:"میں نے سنا تھا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے، ان کا پتہ کرنے آیا ہوں، اگر آپ اُن کے بارے میں کچھ جانتے ہوں تو میری راہنمائی کریں"۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں ان کو بڑی اچھی طرح جانتا ھوں، آپ میرے ساتھ آجائیں، میں آپ کو ان کی خدمت میں پہنچا دوں گا۔

راستہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور ان کے متبعین آج  کل بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ قریش کی دشمنی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، تم نے بہت اچھا کیا جو کسی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے متعلق نہ پوچھا ورنہ لوگ تمہیں بھی پیٹ دیتے۔ اب بھی ذرا احتیاط سے آنا۔ تم میرے پیچھے اتنے فاصلہ پر آؤ کہ اگر کوئی راستے میں مل جائے تو اسے یہ گمان نہ ہو کہ تم میرے پیچھے آرہے ہو۔ اگر راستہ صاف ہو تو خیر وگرنہ خدانخواستہ کوئی راستہ میں مل گیا تو میں اس طرح جوتا اُتار کر صاف کرنے لگوں گا جیسے کوئی کنکر وغیرہ جوتے میں آگیا ہو اور اتنے میں تم سیدھے نکل جانا، میرے پاس نہ ٹھہرنا۔"

 اسی احتیاط سے چلتے ہوئے آپ بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں پہنچ گئے۔ چہرہٴ انور دیکھتے ہی فوراً بول اُٹھے : ھذا الوجه لیس بکذاب(یہ مبارک چہرہ کسی جھوٹے آدمی کانہیں ہوسکتا) پھر گفتگو شروع ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نےاِسلام کی دعوت پیش کی جس کاخلاصہ یہ تھا کہ "اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھو، وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ  کے سچے رسول ہیں، اچھے کام کرو، نیکی پھیلاؤ،برائی سے بچو اور برائی سے لوگوں کو روکو"۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کو تھوڑا سا قرآن سنایا۔ اس کے بعد انہوں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا... 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: "!اس وقت اسلام بڑے سخت دور سے گزر رہا ہے۔ مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیفیں دی جارہی ہیں۔ ہماری تعداد اس وقت بہت تھوڑی ہے۔ ہماری حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔کفار بدکردار کے دل میں جو آتا ہے، کر گزرتے ہیں اور جتنا کسی کو چاہتے ہیں، مار تے پیٹتے ہیں۔ لہٰذا تم اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرو۔ اور چپ چاپ اپنے قبیلے میں چلے جاؤ۔ وہاں جاکر اسلام کی تلقین کرو اور جو قرآن تم نے مجھ سے سیکھا ہے، یہ لوگوں کو سکھاؤ۔جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے، اس وقت میرے پاس چلے آنا۔"

آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ارشاد کو سنا اور عرض کیا: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) !میں یہاں سے چلا جاؤں گا، اپنے قبیلہ میں رہوں گا، اسلام کی تلقین کروں گا اور جب اسلام کاغلبہ ہوگا اس وقت حاضر خدمت ہوں گا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے حکم میں تھوڑی سی تبدیلی کرلیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ میں جاکر ایک دفعہ بلند آواز سے لوگوں کو قرآن سناؤں، اس کی اجازت فرمائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا:مار کھاؤ گے،خاموش رہو۔ کہنے لگے:آج واقعی مار کھانے کو دل بے قرار ہے...چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اجازت دے دی۔

حضرت ابوذر  کاشانہٴ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے نکل کر سیدھے خانہ کعبہ پہنچے۔قریشی سردار اور نوجوان سبھی دارالندوہ میں بیٹھے تھے کہ یک لخت قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ سانپ کی طرح بل کھاگئے اور خانہ کعبہ میں پہنچے۔ دیکھا کہ ایک نوجوان قرآن پڑھ رہا ہے، اس پر ٹوٹ پڑے۔ مار پیٹ کے نتیجہ میں لباس تار تار ہوا اور چہرہ گلنار۔ جسم کا بند بند درد سے چیخ اٹھا لیکن اس بندہٴ مومن کی زبان اور لب قرآن کی تلاوت میں مصروف رہے۔کہیں سے حضرت عباس بن عبدالمطّلب آپہنچے تو ان کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کہ یہ تو بنو غفار کا آدمی ہے۔یہ تمہارا تجارتی راستہ بند کر دیں  گے اور بھوکے مرجاؤ گے۔ بہرحال انہوں نے چھڑا دیا۔ بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں پہنچے، لباس اور جسم خون آلود اور دل ایمانی قوت سے بھرا ہوا تھا۔ لباس تار تار اور جسم داغدار تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا: میں نے نہ کہا تھاکہ خاموشی سے نکل جاؤ۔اب پتھر گرم کرکے جسم پر ٹکور کرو۔ اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ابھی دل کے ارمان پوری طرح نہیں نکلے، کل کے لئے پھر اجازت مرحمت فرمائیں۔ چنانچہ ان کا شوق دیکھ کر رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پھر اجازت دے دی۔

کل کی نسبت آج کچھ ایمان سوا تھا۔ اسلام کی اس خار دار وادی میں قدم بے دھڑک اُٹھنے لگے۔ دل کا سوز اور زبان کا جوش دونوں اپنی جوانی پر تھے۔ کل کی مار خدا ہی جانے اس اسلام کے دیوانے کو کتنے مراحل طے کرا گئی تھی۔ آج سیدھے دارالندوہ ہی پہنچے۔جہاں قریشی سرداروں اور نوجوانوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جسم پر وہی کل والا خون آلود اور تار تار لباس تھا۔ جسم پر جگہ جگہ نئے نئے زخم لگے ہوئے تھے لیکن چال میں ایک وقار تھا اور گلے میں سوز... قرآن کے الفاظ، لہجہ عربی اور دل ایمان سے معمور، فضا میں قرآن کی آواز بلند ہوئی اور وہ آواز جو موٴمنوں کے کانوں میں رس گھولتی تھی، کفار اشرار کے کانوں میں زہر گھول گئی۔ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے اور فضا میں دو آوازیں برابر سنائی دیتی رہیں۔ ایک قرآن کی آواز اور دوسری مار پیٹ اور گالی گلوچ کی آواز۔ آج جسم پہلے کی نسبت خوب لہولہان ہوا تھا۔ دل کی حسرتیں پوری ہوگئیں۔ شادان و فرحان  قرآن پڑھتے گئے۔ آج پھر حضرت عباس کوپتہ چلا تو آپ دارالندوہ میں آئے۔ اُن کو چھڑایا اور قریش کو کہا: خدا تمہارا برا کرے،اگر تمہاری تجارت بند ہوگئی تو کتنے دن جیو گے۔ اپنی شاہ رگ پر خعد ھی چھری چلس رھے ھو  ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا جسم لہولہان تھا۔ آج دل مطمئن تھا،طبیعت سیر ہوچکی تھی اور اس مار کے دوران خدا ہی بہتر جانے، آپ پر کتنے راز منکشف ہوئے۔

ذرا غور کا مقام ھے .. کفر کتنا ڈرپوک اور بزدل ہے اور ایمان کتنا جری اور دلیر۔ یہ ایک ہی شخص کی زندگی کے دو نمونے ہیں۔ صرف ایک دن پہلے طبیعت پرکفار کا اتنا خوف مسلط ہے کہ کسی سے ڈر کے مارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتے تک نہیں۔ مبادا کوئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسرے دن جب مسلمان ہوگئے تو اتنی جرات پیداہوگئی کہ طبیعت بے اختیار ہونے لگی اور اس کا انجام؟ ...اس سے بالکل بے پرواہ ہوگئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صحبت میں چند روز رہنے کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئے اور جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دیا تھا،اس کی تعمیل میں دن رات کوشاں رہے۔ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کے قبیلے کے کئی آدمی مسلمان ہوکربارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں پہنچتے رہے اوراس ایمانی شان سے پہنچتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بے اختیار دعانکل جاتی: غَفَّارٌ غَفَرَالله لَهَا (بنو غفار کو اللہ معاف کرے)لیکن وہ سراپا عشق و سرمستی خود پورے سترہ سال تک مہجوری کی بھٹی میں پڑے رہے اور خالص کندن بن کردمکے اور جگمگائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا تھا: جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، اس وقت میرے پاس آنا۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ منورہ تشریف لائے اور بارگاہ مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضری دی۔ سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ کان رأسا في الزھد والصدق۔ آپ زہد و صدق کے سردار تھے ۔آپ کا شمار اصحاب صْفہ کی اعلیٰ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے بارے خاتم النبین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ حضرات جنت میں میرے قریب ترین ہوں گے ۔ آپ فطرتا ایسی خوبیوں کے مالک تھے جو اسلام کا حسن ہیں۔ ہر وہ کام کرتے تھے جسے عقل سلیم قبول کرتی ہے ۔ السابقون الاولون میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ سادگی و قناعت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ سادگی میں جو بوذری مشہور ہے وہ آپ کی وجہ سے ہی ہے ۔آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی سادگی کہ جس کے بارے میں خاتم النبین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ان سے زیادہ کوئی سچا نہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی تھی۔ زمینیں فتح ہو گئیں۔ برکت آ گئی۔ بہت زیادہ مال غنیمت آیا۔ زکوۃ لینے والے لوگ نہیں ملتے تھے ۔ لیکن ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہی حال تھا جس حال میں خاتم النبین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا۔آپ نے فرمایا:جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی عاجزی کی طرف دیکھے تو وہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ لے ۔ حضرت ابوذر غفاری عشق الٰہی، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ، جذب و مستی، دنیا سے دوری، فاقہ کشی اور ایثار و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے ۔حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں مصروف رہتے تھے اور مسجد ہی عملی طور پر ان کا گھر تھا۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت ابوذر غفاری اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان برادری قائم کی۔یہ دونوں اہل صْفہ کے سپاہی اور باطن کے رئیسوں میں سے تھے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پرملال کے بعد ابوذررضی اللہ عنہ کی کیفیت بہت ناگفتہ بہ ھو گئی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوذر رضی اللہ عنہ کو اتنی الفت تھی کہ آپ کی وفات ہوگئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ کی حالت انتہائی ناگفتہ یہ ہوگئی۔ حالت یہ تھی کہ جب آپ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گزرتے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ چیزوں کو دیکھ کر اس قدر زاروقطار رویا کرتے تھے کہ آپ کی حالت انتہائی خراب ہوجایا کرتی تھی۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر ام ذر رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام نے مدینہ چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جانے کا مشورہ دیا۔چنانچہ آپ مدینہ منورہ سے رخصت ھو کر شام تشریف لے گئے   اور وہاں سکونت اختیار فرمائی۔

ابوذر رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک شام میں قیام پذیر رہے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے جہاں پہلے سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ان دنوں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی اور انہوں نے ترکہ میں جو مال چھوڑے تھے ، اس کے بارے میں ہرجگہ چرچا تھا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے جو مال اپنے پیچھے چھوڑا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ گویا ہوئے: اگر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ موقف چونکہ ابوذر رضی اللہ عنہ کے موقف کے مخالف تھا ، اس وجہ سے وہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف اپنی عصا لے کر بڑھے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ انسان کی ضروریات سے جو چیز بھی زائد ہو ، وہ کنز ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال  سنبھال کر رکھے۔ بہرحال امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بیچ بچاؤ سے معاملہ نرم ہوا،اس موقع پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ گویا ہوئے کہ 

یا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ ! آپ نے ابھی جو کیا ہے، وہ اچھا نہیں تھا، نیز آپ نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ آپ دیگر صحابہ کرام سے اتفاق کریں اور پھر یہ بھی سوچیں کہ اگر پوری دولت ہی دینا درست ہوتو زکوٰۃ اور نصاب زکوٰۃ بے سود ہوں گے۔ اس مسئلہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی شدید اختلاف ہوگیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر کہا: اللہ کی قسم ! جب تک تم شام میں ہو، میں شام میں نہیں رہ سکتا۔

ادھر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے واقعہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر آگاہ کیا۔چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ دیکھو، تم ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہرگز نہ الجھنا ۔وہ انتہائی موقر اور بزرگ انسان ہیں۔چونکہ وہ قسم کھاچکے ہیں لہذا آپ انہیں میری پاس بھیج دو۔اس طرح ابوذر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مدینہ منورہ پہنچے۔ وہاں پہنچنے کے بعد بھی ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے موقف کی تبلیغ کرتے رہے۔جب عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی  اور لوگوں کی شکایات آپ تک پہنچیں تو آپ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو کہا: آپ کی شخصیت یقینی طور پر انتہائی قابل احترام ہے۔ آپ نے جو موقف اختیار کررکھا ہے، میری نظر میں آپ اس کا حق بھی رکھتے ہیں لیکن بہرصورت آپ کو اس کی تبلیغ و ترویج کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کا نظریہ سمجھ کر ابوذر رضی اللہ عنہ نے اُن  سے مطالبہ کیا کہ آپ مجھے مدینہ منورہ کے علاوہ کسی دوسرے ایسے شہر میں رہنے کی اجازت دے دیں جہاں عوام الناس  نہ پہنچ سکیں ۔عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ربذہ کے مقام پر چلے جائیں۔اس طرح سے ابوذر رضی اللہ عنہ مقام ربذہ پہنچے اور وہیں اپنی پوری زندگی گزار دی

ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات 32ھ میں مقام ربذہ میں ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔جب ابوذر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کے پاس موجود آپ کی اہلیہ محترمہ اور آپ کے خادم کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کفن دفن کا بندوبست کیسے ہوگا۔چنانچہ آپ نے کہا کہ جب میری موت واقع ہوجائے تو میرے جنازہ کو تیار کرکے راستے پر رکھ دینا،مسلمانوں کا ایک قافلہ اس راستہ پر آئے گا انہیں کہنا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ جنازہ  ہے، اسے دفن کرتے جاؤ۔آپ کی وفات ہوگئی تو آپ کی بیوی اور غلام نے مل کر آپ کو غسل دیااور کفن دے کر جنازے کو راستے پر لارکھا۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عراقیوں کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے تشریف لارہے تھے۔انہوں نے ایک خاتون کو راستے پر کھڑا دیکھا تو پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جواب دیا: ام ذر۔ عبداللہ بن مسعود نے پوچھا: ابوذر رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ ۔انہوں نے کہا: یہ ان کا جنازہ  ہے۔آپ انہیں دفن کرتے جاؤ۔یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زاروقطار روئے اور ان کو دفن کیا اور پھر اپنے ساتھیوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی سنائی کہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ تو اللہ کی راہ میں اکیلا ہی سفر کرتا ہے، اکیلا ہی مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔رضی اللہ عنہ و رضاہ۔


حضرت آیاس بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ

یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان تھے گیارہ نبوت میں جنگ بُعاث سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ مکرمہ آیا تھا۔ آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑ ک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا : آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ ایاس بن معاذ بولے : اے قوم  اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ منورہ واپس ہوگیا۔ مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس رضی اللہ تعالی عنہ انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ھو گیا  کہ  وہ اسلام قبول کر چکے تھے اور ان کی وفات اسلام ھی پر ہوئی۔ 

(البدایہ والنہایہ ، الآصابہ)

جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: