شعب ابی طالب کے تین سال
جب کافروں کی طرف سے خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے تو مجبوراً ابو طالب حضورِ آقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور دوسرے تمام خاندان والوں کو لے کر پہاڑ کی اس گھاٹی میں جس کا نام ” شعب ابی طالب ” تھا پناہ گزین ہوئے۔ ابولہب کے سوا خاندان بنو ہاشم اور خاندان بنی مطلب کے کافروں نے بھی خاندانی حمیت و پاسداری کی بنا پر اس معاملہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور سب کے سب پہاڑ کے اس تنگ و تاریک درہ میں محصور ہو کر قیدیوں کی سی زندگی بسر کرنے لگے۔ اور یہ تین برس کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن گزرا کہ بنو ہاشم درختوں کے پتے اور سوکھے چمڑے پکا پکا کر کھاتے تھے۔اور ان کے بچے بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر دن رات رویا کرتے تھے۔ سنگدل اور ظالم کافروں نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر دانہ پانی نہ جانے پائے
اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کا شکار تھے، کھانے پینے کی چیزوں کا جو ذخیرہ اُن کے پاس تھا وہ چند مہینوں میں ختم ہو گیاتھا ، قریش مکہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں غلّے اور سامان خورد ونوش کی آمد بند ہوگئی تھی ، کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے، اس لئے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی، ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی وہ بھی پس پردہ، بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں جب گھاٹی کے باہر سنائی دیتیں تو ظالم مشرکین قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے۔
حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، احادیث میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے، یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا، اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں، لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں۔
محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تاکہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے، جس کا منشاء صرف ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے، لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ایک روز حکیم بن حزام نے (جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابوالبختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا، لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے؟ لیکن ابوجہل نے سرکشی دکھائی تو ابوالبختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زدو کوب کیا، یہ منظر شعب سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے۔
عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا، محصورین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا، بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے داماد ابوالعاص بن ربیع (رضی اللہ عنہ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا، وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوا دیتے۔
ادھر محصوری کے دوران حضرت ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا، حضرت ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے کہ آپ یہاں سو رہے ہیں، جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو حضرت ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے کہ آپ اس کے بستر پر چلے جائیں۔
یونس کی روایت میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بتایا: "مجھے اچھی طرح یاد ہے، جن دنوں میں مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ شعبِ ابی طالب میں محصور تھا۔ میں ایک رات پیشاب کرنے نکلا تو وہاں مجھے اپنے پیشاب تلے کسی چیز کی آواز محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا تو اونٹ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ میں نے اسے اٹھالیا۔ اچھی طرح دھویا، پھر اسے آگ میں جلا کر دو پتھروں کے درمیان کوٹ لیا وہ سفوف سا بن گیا۔ اسے پھانک کر اوپر سے پانی پی لیا۔ تین دن تک اس پر گزارا کیا۔" ۔۔((المغازی والسیر۔ یونس کی یہ روایت ان کی اپنی سند سے ہے جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے۔
جب کوئی تجارتی قافلہ غلہ لے کے مکہ مکرمہ آتا اور بنوہاشم کا کوئی شخص اپنے بال بچوں کے لیے کھانے کی کوئی چیز
خریدنے بازار جاتا تو اللہ کا دشمن ابولہب فوراً قافلے والوں کے پاس پہنچ جاتا اور اعلان کرتا: "اے تاجرو! محمد کے ساتھیوں کو اتنا مہنگا بھاؤ بتاؤ کہ وہ تم سےکوئی چیز خرید ہی نہ سکیں۔ اگر تمھاری کوئی چیز فروخت ہونے سےرہ گئی تو تمھارا خسارہ میں پورا کروں گا۔ تم جانتے ہو میں کتنا مالدار ہوں اور اپنی بات کی کتنی لاج رکھتا ہوں۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔"
چنانچہ تاجر بڑھ چڑھ کر بھاؤ بتاتے تو غریب مسلمان خالی ہاتھ گھر واپس آجاتا جبکہ اس کے بچے بھوک سے چلا رہے ہوتے لیکن ان کے پاس انھیں کھلانے کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ وہ تاجر ابولہب کے پاس جاتے تو وہ ان کی فروختنی چیزیں خوب منافع دے کر خرید لیتا تھا۔ ان سنگدلانہ حربوں سے مسلمان ننگ و بھوک کے مارے موت کی حد کو چھو رہے تھے بلکہ بقول حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ محصورین میں سے کئی افراد موت کا شکار ہوگئے۔((دلائل النبوۃ لأبي نعيم)
اس بائیکاٹ کی بنا پر مسلمانوں کو پہنچنے والے آلام و مصائب کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے برابر دین کی دعوت کا کام جاری رکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ایامِ حج میں شعب سے باہر آتے، مکہ مکرمہ آنے والے حجاج سے ملاقاتیں کرتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے اور اپنی قوم کے ملنے والے افراد کو بھی اسلام کا پیغام پہنچاتے تھے۔ ((السيرة النبوية لابن هشام:
*مقاطعۂ بنی ھاشم ختم کروانے کے لئے رحمدل لوگوں کی کوششیں*
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پر رحم آ گیا اور ان لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی۔
ان حالات پر پورے تین سال گزر گئے تھے ۔ اس کے بعد محرم ۱۰ نبوی میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہد وپیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انھی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کر نے کی تگ و دو کی۔ اس تحریک میں پانچ چھ افراد شامل ھوگئے تھے
اس تحریک کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئ کا ہشام بن عمرو نامی ایک شخص تھا۔ یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا ۔ یہ زہیر بن ابی امیہ مخزومی کے پاس پہنچ
زہیر کی ماں عاتکہ ، عبد المطلب کی صاحبزادی، یعنی ابو طالب کی بہن تھیں اور اس سے کہا : زہیر ! کیا تمہیں یہ گوارا ہے کہ تم تو مزے سے کھاؤ ، پیو اور تمہارے ماموں کا وہ حال ہے جسے تم جانتے ہو ؟ زہیر نے کہا: افسوس ! میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں۔ ہاں، اگر میرے ساتھ کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس صحیفے کو چاک کرنے کے لیے يقيناً اٹھ پڑتا۔ اس نے کہا: اچھا تو ایک آدمی اور موجود ہے۔ پوچھا :کو ن ہے ؟ کہا : میں ہوں۔ زہیر نے کہا : اچھا تو اب تیسرا آدمی تلاش کرو۔
اس پر ہشام ، مُطعم بن عدی کے پاس گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے جو کہ عبد مناف کی اولاد تھے مطعم کے قریبی نسبی تعلق کا ذکر کرکے اسے ملامت کی کہ اس نے اس ظلم پر قریش کی ہم نوائی کیونکر کی ؟ مطعم بھی عبدمناف ہی کی نسل سے تھا۔ مطعم نے کہا : افسوس ! میں تن تنہا کیا کرسکتا ہوں۔ ہشام نے کہا: ایک آدمی اور موجود ہے۔ مطعم نے پوچھا: کون ہے ؟ ہشام نے کہا :میں۔ مطعم نے کہا: اچھا ایک تیسرا آدمی تلاش کرو۔ ہشام نے کہا :یہ بھی کر چکا ہوں۔ پوچھا: وہ کون ہے ؟ کہا: زہیر بن ابی امیہ ، مطعم نے کہا : اچھا تو اب چوتھا آدمی تلاش کرو۔ اس پر ہشام بن عمرو ، ابو البختری بن ہشام کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی جیسی مطعم سے کی تھی۔ اس نے کہا :بھلا کوئی اس کی تائید بھی کرنے والا ہے ؟ ہشام نے کہا: ہاں۔ پوچھا :کون ؟ کہا : زہیر بن ابی امیہ ،مطعم بن عدی اور میں۔ اس نے کہا : اچھا تو اب پانچواں آدمی ڈھونڈو …اس کے لیے ہشام ، زمعہ بن اسود بن مطلب بن اسد کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے بنوہاشم کی قرابت اور ان کے حقوق یاددلائے۔ اس نے کہا : بھلا جس کام کے لیے مجھے بلا رہے ہو اس سے کوئی اور بھی متفق ہے؟ ہشام نے اثبات میں جواب دیا اور سب کے نام بتلائے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حجون کے پاس جمع ہوکر آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے۔ زہیر نے کہا : میں ابتدا کروں گا، یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا۔
صبح ہوئی تو سب لوگ حسب ِ معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے۔ زہیر بھی ایک جوڑا زیبِ تن کیے ہوئے پہنچا۔ پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: مکے والو!کیا ہم کھا نا کھائیں ، کپڑے پہنیں اور بنوہاشم تباہ وبرباد ہوں۔ نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے۔ اللہ کی قسم !میں بیٹھ نہیں سکتا یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کر دیا جائے۔
چنانچہ ہشام بن عمرو عامری، ، مطعم بن عدی، ابو البختری، زمعہ بن الاسود وغیرہ نے سب مل کر ایک ساتھ آواز بلند کی اور زبیر کی بات کی پرزور حمایت کی ۔ زہیر نے جو عبدالمطلب کے نواسے تھے کفار قریش کو مخاطب کرکے اپنی پر جوش تقریر میں یہ کہا کہ اے لوگو ! یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ کہ ہم لوگ تو آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے بچے بھوک پیاس سے بے قرار ہو کر بلبلا رہے ہیں۔ خدا کی قسم ! جب تک اس وحشیانہ معاہدہ کی دستاویز پھاڑ کر پاؤں تلے نہ روند دی جائے گی میں ہرگز ہرگز چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ تقریر سن کر ابوجہل نے غصہ سے کہا کہ خبردار ! ہرگز ہرگز تم اس معاہدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ زمعہ نے ابوجہل کو للکارا اور اس زور سے ڈانٹا کہ ابوجہل کی بولتی بند ہو گئی۔ اسی طرح مطعم بن عدی اور ہشام بن عمرو نے بھی خم ٹھونک کر ابوجہل کو جھڑک دیا اور ابو البختری نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ اے ابوجہل ! اس ظالمانہ معاہدہ سے نہ ہم پہلے راضی تھے اور نہ اب ہم اس کے پابند ہیں۔
* دیمک کا مقاطعۂ بنی ھاشم کے صحیفہ کو چاٹ لینا
جب صحیفۂ ظالمہ کو ختم کرنے کے لئے کچھ رحم دل میدان میں اُتر پڑے اور حرم میں ابو جہل سے بحث ومباحثہ کرنے لگے
عین اس وقت جب شعب ابی طالب سے باہر قریش کی مجلس میں مقاطعے کی یہ دستاویز زیر بحث تھی، ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ابن سعد، ابن ہشام اور بلاذری نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ بائیکاٹ کی دستاویز میں ظلم و ستم اور قطع رحمی کا جو مضمون تھا، اسے دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ۔ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس کا ذکر اپنے چچا ابو طالب سے کیا تو انہوں نے پوچھا ’’ کیا تمہیں اس کی خبر تمہارے اللہ نے دی ہے ؟‘‘ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ حضرت ابو طالب نے اس بات کا ذکر اپنے بھائیوں کے سامنے کیا۔ انہوں نے پوچھا : ’’آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘ ابو طالب نے کہا: ’’ خدا کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مجھ سے کبھی کوئی جھوٹ بات نہیں کہی۔ ‘‘ ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے دریافت کیا’’ اب کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ’’چچا ! آپ عمدہ لبا س پہن کر سرداران قریش کے پاس چلے جائیں اور ان کو یہ بات بتائیں۔‘‘
حضرت ابو طالب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس مجلس میں پہنچے جہاں قریش کے داناو بینا اس دستاویز کے معاملے پر غور خوض کر رہے تھے۔ ابو طالب کو آتے دیکھ کر اہل مجلس نے خوشی کا اظہار کیا اور آمد کی وجہ پوچھی۔ ابو طالب نے حاضرین مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، مجھے خبر دی ھے کہ مقاطعے کی دستاویز میں جوروستم اور قطع رحمی سے متعلق تمہاری تمام تحریر دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ۔ اب تم وہ صحیفہ منگوا کر دیکھ لو ۔ اگر میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا بیان غلط نکلا تو میں انہیں تمہارے حوالے کر دوں گا۔ پھر تمہیں اختیار ہے چاہے قتل کر دو اور چاہے زندہ رہنے دو لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بات سچ نکلی تو ہمارے ساتھ اس بدسلوکی سے باز آجاؤ۔ ‘‘
ابو طالب کی یہ بات سن کر حاضرین مجلس نے کہا کہ آپ نے انصاف کی بات کہی ہے۔ یہ سن کر مطعم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستاویز کو اتار لایا اور سب لوگوں نے اس کو دیکھا تو واقعی بجز اﷲ تعالیٰ کے نام کے پوری دستاویز کو دیمک نے کھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی نے سب کے سامنے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اور پھر قریش کے چند بہادر باوجودیکہ یہ سب کے سب اس وقت کفر کی حالت میں تھے ہتھیار لے کر شعبِ ابی طالب میں پہنچے اور خاندان بنو ہاشم کے ایک ایک آدمی کو وہاں سے نکال لائے اور ان کو ان کے مکانوں میں آباد کر دیا۔ یہ واقعہ دس نبوی کا ہے۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی ، لیکن ان کا رویہ وہی رہا۔ جس کا ذکر قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ میں ہے:
{ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} (القمر
’’اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ توچلتا پھرتا جادو ہے۔‘‘
چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے۔
(مدارج النبوة )
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ھجرتِ حبشہ کا قصد
اسی عرصہ کے دوران جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ان کے رفقاء شعب ابی طالب میں محصور تھے اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کرکے ان کاجینا حرام کر دیا تھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ ہجرت کرکے مہاجرین حبشہ سے جاملیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت حبشہ کی اجازت فرما دی، لیکن جب آپ نے قریباً ایک یا دو دن کی مسافت طے کرلی تھی تو اُنہیں حارث بن بکربن عبد مناة بن کنانہ ملے جو اس زمانے میں مکہ کے میں کافی زیادہ زیادہ معزز شخص تھے، انہوں نے پوچھا اے ابو بکر رضی اللہ عنہ کہاں کا ارادہ ہے؟ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں مسلمانوں پر کفارِ قریش کے ظلم وستم کا حال سنایا اور بتایا کہ وہ بھی مجبوراً ھجرت کرکےحبشہ جارہے ہیں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر ابنِ دغنہ بولے آپ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے،
اللہ کی قسم ! تم تو قوم کی زینت ہو اور ھر ایک کے دکھ دردمیں شریک ہوتے ہو اور مسافروں کے ساتھ اچھاسلوک کرتے ہو،آپ پچھلی باتوں کوبھول کرمیرے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلیں میں آپ کو پناہ دیتاہوں ، چنانچہ وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کواپنے ساتھ واپس مکہ مکرمہ میں لے آئے اور ابنِ دغنہ نے انہیں اپنے پڑوس کے ایک خالی مکان میں ٹھرادیا ،ابودغنہ نے کہا اے گروہ قریش !میں نے ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ کو پناہ دی ہے کوئی شخص ان سے سوائےبھلائی کے دوسراسلوک نہ کرے، قریش نے کہا ھم انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے،
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بنی جمع کےجس مکان میں قیام پذیر تھے اس کے دروازے پر نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد بنا لی تھی اس میں نماز پڑھنے لگے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رقیق القلب انسان تھے جب وہ نماز میں قرآنی آیات تلاوت فرماتے توان کی ریش آنسوؤں سے ترھو جاتی تھی ان کی یہ حالت دیکھ کر قریش کے مرد،عورتیں اوربچے وہاں رک جاتے اوران کی حالت دیکھ کر اور قرآنی آیات سن کر ان لوگوں کے دل پسیجنے لگے، یہ دیکھ کربہت سے قریش مل کر ابنِ دغنہ کے پاس آئے اور اسے کہا اے ابن دغنہ!ہم اس شخص کو آجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں اس طرح تکلیف پہنچائے،یہ شخص جب نماز پڑھتا ھے اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جو نازل ھوا ھے اس میں سے تلاوت کرتا ھے تو روتا ھے جس سے اس کی ریش تک بھیگ جاتی ہے اگرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرح اپنے مکان کے باہر نماز پڑھتے رہے تو اُنہیں اندیشہ ہے کہ ان کے مرد،عورتیں بلکہ بچے تک بہکنے اوراپنی تہذیب سے روگردانی کرنے لگیں گے،ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ اسے کہیں کہ وہ اپنے گھرکے اندر مسجدبنائے اورپھرجس طرح چاہے نماز پڑھے
چنانچہ ابن دغنہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سےکہااے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ !میں نے تمہیں اس لیے پناہ نہیں دی تھی کہ تم اپنی قوم کو تکلیف پہنچاؤ،وہ تمہیں گھر سے باہر نماز پڑھتے پسند نہیں کرتےاورانہیں اس سے تکلیف پہنچتی ہےآپ گھر کے اندر مسجد بنا کر جس طرح نماز ہڑھتے ھیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کی اگر میں تمہاری پناہ تمہیں واپس لوٹادوں اور اللہ کی پناہ میں چلاجاؤں تو کیسا رھے گا،ابن دغنہ نے کہا ٹھیک ہے آپ میری پناہ مجھے واپس لوٹا دیں ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تمہاری پناہ تمہیں لوٹا دی ،ابن دغنہ کھڑا ھوا اور بلند آواز سے بولا اے گروہ قریش!ابن ابی قحافہ (سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ )نے میری پناہ مجھے لوٹادی ہے اب تم اپنے ساتھی کے ساتھ جوسلوک چاہے کرو۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس رویہ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ھی دلیرانہ رویہ اختیار کیا،اسلام لانے کے بعد انہوں نے اپنے ماموں عاص بن وائل کی پناہ کالعدم کر دی تاکہ اللہ اوراس کے رسول کی پناہ میں اسی طرح زندگی بسرکریں جس طرح دیگر بے بس مسلمان بسر کر رھے تھے اورجنہیں کوئی کافر پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔
جاری ھے ۔۔۔۔