قسط نمبر (61) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 اِسراء  و  معراج!

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم جب طائف سے واپس تشریف لائے  تو کچھ عرصہ بعد اللہ رب العالمین  نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کے اعزاز واکرام کی خاطر ذاتِ خداوندی کے دیدار کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کو اپنے دربار میں مدعو فرمایا۔ دنیا میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کوئی آدمی جب منصب پر فائز کردیا جاتاہے اور (اس کو کسی سے) محبت پیدا ہوجاتی ہے تو چاہتا ہے کہ اُسے اپنے دربار میں بلائے اور اپنی محبت کے اظہار کے لیے اس کی مہمان نوازی کرے، اور اپنی شان کے لائق اور اپنی طاقت کے مطابق انتظامات کرے۔  بالکل اسی طرح سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نبوتِ کبریٰ کا منصب عطا فرمایا، پھر اپنے دربار  میں عجیب و غریب خداوندی اعزاز کے ساتھ بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اُمِ ہانیؓ (جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چچیری بہن تھیں) کے گھر میں آرام فرمارہے تھے کہ رب کریم  کے نمائندے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمانوں کی سیر اور دربارِ الہی  کی زیارت کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا، چونکہ  منصبِ نبوت اور قوتِ قدسی کے باوجود بشریت کے وجود میں ان تجلیات کے برداشت کی طاقت نہیں ہوتی اور اس کے دیدار اور دیکھنے کا حوصلہ انسانی طاقت سے باہر ہوتا ہے، اس بناپر قدرت نے اس کے لیے مخصوص طریقہ سے تدبیر فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو سینہ سے نکالا اور اسے آبِ زم زم سے دھویا۔  اس میں سے بشری آلائشیں نکال دی گئیں اور اس میں روحانی عنصر اور روحانی طاقت رکھ دی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت کی زیادتی کے لیے جنت کا مخصوص ستودہ (دودھ)  پلایا گیا، جنت سے ایک خاص سواری آئی،  اور اس برق رفتار سواری کا نام ’’براق‘‘ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم اس پر سوار ہوئے، اور حضرت جبرئیل امین ؑنے لگام کو ہاتھوں میں تھاما، یوں تیز رفتاری سے  بیت المقدس پہنچ گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ’’نبوتِ کبریٰ‘‘ اور ’’امام المرسلین‘‘ کا مرتبہ ظاہر کرنے کی خاطر تمام انبیاء کرام علیہم السلام وہاں (بیت المقدس میں) مدعو کیے گئے تھے، وہاں تمام آنبیاء کرام نے  دو رکعت نماز ادا فرمائی، تمام نبیوں اور رسولوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت وقیادت اور امامت  کی ظاہری تشکیل دے دی گئی، اس دیدار الہی  اور سفر کا ذکر قرآن کریم میں سورۂ اسراء میں ہوا ہے، جس کا دوسرا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’سُبْحَانَ الَّذِيْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِيْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔‘‘ (بنی اسرائیل) 

پاک ہے وہ ذات کہ اپنے خاص بندہ کو رات کے وقت مسجدِ حرام (مکہ) سے (بیت المقدس) مسجد اقصیٰ پہنچادیا، جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے، تاکہ انہیں اپنی قدرت اور بادشاہی کی عجیب عجیب نشانیاں دکھلائیں، یقینا اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے۔‘‘

سفر کے اس حصہ کو ’’اسراء‘‘ کہا جاتا ھے اور  سفر کے دوسرے حصہ  کا نام ’’معراج‘‘ ہے۔ جس میں آپ بیت المقدس سے آسمانوں، بالائی فضا اور جنت و دوزخ کے دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک ریاست یا حکومت‘ دوسری حکومت وسلطنت کے کسی بڑے کو اپنے وطن کی سیر وتفریح کی دعوت دے تو اُسے اپنے کارخانے اور حکومتی استحکامات وانتظامات دکھاتی ہے، تاکہ دوستی اور تعلق مزید مضبوط ہوجائے، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خداوندی دعوت میں اپنی قدرت کے کارخانے، خداوندی انتظامات اور اس دربار کی خصوصی ’’آیاتِ کبریٰ‘‘ یعنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔

اس  سفرِ نبوت اور  دعوتِ ربانی  کا ذکر قرآن کریم کی سورۂ نجم میں ہوا ہے، الغرض معراج اور اسراء ایک مبارک سفر کے دو حصے ہیں، دونوں کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ پر ہوا ہے، اور احادیث میں اس اجمال کی  تفصیلات ہیں، عموماً دونوں واقعات کو کبھی ’’اسراء‘‘ کہا جاتا ھے اور کبھی ’’معراج‘‘۔

حضرت خاتم النبیین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ  پروازِ نبوت  اس بات کی نشاندہی تھی کہ ان کی اُمت یعنی نسلِ انسانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت میں اتنی ترقی کرے گی کہ وہ پرواز کرے گی اور کم وقت میں کہاں سے کہاں پہنچ جائیںگے، لیکن فرق یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی (یہ پرواز) اللہ تعالیٰ کی مخصوص طاقت کے ساتھ ہے، جو عالمِ اسباب سے بالاتر طاقت ہے۔ وہ اسباب اور موجودہ مادی ذرائع و وسائل کا محتاج نہیں ہے اور نسلِ انسانی کی پرواز‘ مادی وسائل کی محتاج ہے۔

ایک مرتبہ امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر علامہ محمداقبال مرحوم ایک ضیافت میں موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ ‘حضرت شاہ صاحبؒ کی بہت عزت اور ادب کرتے تھے اور ان کے علمی مرتبہ کے بہت قائل تھے۔دورانِ گفتگو  حضرت شاہ صاحبؒ یہ تحقیق بیان فرمارہے تھے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کے معجزات میں اس بات کی تمہید ہے کہ آئندہ نسلِ انسانی‘ اسباب کے دائرے میں اس قسم کی ترقی کرے گی، شاہ صاحبؒ نے اپنے عربی منظوم کلام میں بھی اس مضمون کو بیان کیا ھوا  ھے ڈاکٹر صاحب مرحوم  بہت شوق اور بہت توجہ کے ساتھ یہ مضمون سن رھے تھے اور لطف اندوز  ھو رھے تھے

یہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، ہوائی جہاز، ٹیلی گراف، ٹیلی فون وغیرہ سب کی اعلیٰ ترین صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں موجود ہیں، بلکہ بعض اوقات حضرات صحابہ کرامؓ کی کرامات میں بھی اس کے نمونے موجود ہیں۔ روحانی ترقی میں قدرت کے مختلف خوارق ومعجزات وکمالات صادر ہوتے ہیں اور مادی ترقی میں انسانی ترقیات کے کمالات‘ اسباب کے دائرہ میں ظاہر ہوتے ہیں، پھر جیسے بادشاہ کی دعوت پر کوئی ان کی سلطنت میں چلا جائے تو وہ اسے تحفے تحائف دیتے ہیں‘ ہو بہو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تحفے دیئے تھے، لیکن وہ تحفے روحانی کمالات سے متعلق تھے کہ ان کے نتائج‘ آخرت میں جنت کی شکل میں ظاہر ہوں گے، ان تحفوں میں ایک  عظیم تحفہ پنج وقتہ نمازیں، دوسرا یہ کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا کم از کم دیا جائے گا، پھر یہ کہ جب گناہ کا ارادہ کرلیاجائے، لیکن گناہ نہ کرے تو اس کے اعمال نامہ میں ایک نیکی لکھی جائے گی وغیرہ وغیرہ 

اللہ تعالیٰ جب  کسی شخصیت کو درجۂ نبوت پر سرفراز فرماتے ھیں تو اس شخصیت میں فوق العادۃ، عقل کے دائرے سے بالاتر کمالات  بھی رکھتے ہیں، اور انسان کی عقل اس کے تصور اور سمجھ سے بالکل عاجز ہے کیونکہ جس مقام پر عقل کی پرواز ختم ہوتی ہے، (وہاں سے) نبوت کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ بس کسی شخصیت کو نبی  خیال کرتے ہی گویا ہم نے یہ اقرار کرلیا کہ ان کا مقام ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  تو اِمام الانبیاء و سید الانبیاء ھیں ان کے مقام کو تو اللہ تعالی  ہی جان سکتے ھیں ۔

جب ہم نے اس ترتیب کے ساتھ فکر کو اپنے مقام تک پہنچا دیتے ھیں تو پھر ان کے کارناموں، معجزات ، حیرت انگیز واقعات پر تعجب ھرگز نہیں کرنا چاہیے اور بے چوں وچرا ان کو ماننا چاہیے۔ بس شرط یہ ہے کہ خبر درست ہو اور محض افسانوں کے درجہ میں نہ ہو۔ دونوں جہانوں کے سردار حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور فوق العادۃ حیرت انگیز واقعات کا ایک عجیب واقعہ ہے، خصوصاً سائنس کی اس دنیا میں کہ آسمانی فضا میں مصنوعی ستارے چھوڑتے ہیں اور دیگر آلات‘ فضا میں بھیجتے ہیں اور پھر واپس کھینچتے اور لے آتے ہیں اور قدرت کی فضا کی وسعت کا اندازہ لگایئے اور ایک راکٹ پر اُن کی کتنی فکر، مال ودولت، وقت اور محنت خرچ ہوتی ہے، انہیں تو ایسے واقعہ پر خوب حیران ہوجانا چاہیے کہ کس طرح بغیر آلات کے، سائنس کی اس ترقی کے بغیر کس طریقہ پر رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کائنات کی سیر کرائی؟!

عقلِ انسانی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے :’’فَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ اور شاید اس وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں لفظ ’’سُبْحَانَ‘‘ سے شروع کیا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے کمال کی طرف اشارہ ہوجائے اور دوسری طرف اس واقعہ کی نوعیت عجیب ہونے کی طرف اشارہ ہوجائے۔

اس حیرت انگیز واقعہ کی تفصیلات  میں جائے بغیر  سادہ لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ایک عظیم الشان اعزاز دیا اور اپنے مقدس دربار میں انہیں مدعو فرمایا کہ اب تک یہ حیرت انگیز ترین دعوت کسی اور شخصیت کو نہیں دی گئی تھی، اور اپنے ملکوت اور بادشاہی دربار کی انہیں زیارت کروائی، تاکہ وہ قدرت کے اس غیبی کارخانہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب تعلق بہت زیادہ ہوجائے تو ملاقات، ہم کلامی، راز ونیاز اور مخصوص معاہدوں کے لیے دنیاوی بادشاہ اپنے دوستوں کو دعوت دیتے ہیں۔ 

واقعۂ معراج  کے دو حصے ہیں: ایک حصہ اس ملکوتی سیر کا مکہ معظمہ سے شروع ہوتا ہے اور بیت المقدس پر ختم ہوتا ہے، یعنی مکہ معظمہ کے حرم پاک سے بیت المقدس کے حرم پاک تک۔ یہ مضمون قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں بیان ہوا ہے اور دوسرا حصہ اس سے اوپر عرشِ اعظم اور خصوصی دربارِ اقدس تک ہے۔ اس مضمون کو سورۃ النجم میں بیان کیا گیا ھے ۔ دعوت دینے کے لیے فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو حکم دیاگیا تھا کہ وہ (دعوت دینے کے لیے) آدھی رات کو چلے جائیں، (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ مکرمہ  میں  حضرت ام ھانی کے گھر میں  آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام  فرشتوں کے ساتھ حاضر ھوئے ، سواری کے لیے ایک عظیم الشان سواری، جس کا نام براق تھا، تیار کی گئی تھی، جس کی برق رفتاری کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ اس واقعہ کو ’’قرآن و حدیث‘‘ کی زبان میں ’’اِسراء‘‘ کہا جاتا ہے۔ بیت المقدس میں استقبال کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام پیغمبر مدعو کیے گئے تھے۔ ظاہری اور حِسّی طور پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوتِ کبریٰ اور سیادت کے لیے دو رکعت نماز میں امامت فرمائی، گویا یہ قدرت کا ایک ’’ٹیلی ویژن‘‘ تھا کہ وہاں حاضر کیے گئے، پھر اس جگہ سے ’’عالمِ بالا‘‘ کی سیر وسیاحت شروع ہوتی ہے، اس واقعہ کو حدیث کی روشنی میں ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔

بالآخر یہ عروج اور آسمانی طبقات کی یہ سیاحت ایسے مرحلہ میں داخل ہوگئی کہ جبرئیل امین علیہ السلام کو بھی وہاں اجازت نہیں تھی، یہ مقام ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تھا۔ عجیب عجیب اور رنگا رنگ تجلیات تھیں اور وہ روحانی مناظر تھے کہ دنیا میں آپ علیہ السلام کے علاوہ کسی ایک رسول کو بھی حاصل نہیں ہوئے اور پھر وہاں سے ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کے اس مقام تک عروج شروع ہوا، جو رب العالمین کے دربارِ مقدس کی حاضری تھی، اور راز ونیاز کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس کا ذکر سورۃ النجم میں آیا ہے۔


واقعۂ معراج کب اور کس تاریخ میں پیش آیا؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کے سفرِ معراج کے سال،مہینے اور تاریخ کے بارے میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

سال کی تعیین

معراج کے سال کےبارے میں عموماً دس اقوال ملتے ھیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔
(٢)معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔
(۳)ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔
(۴) ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔
(۵)ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل کی ہے۔
(۶)ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل کی ہے ۔
(۷)ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔ 
(۸) ہجرت سے ایک سال اور چھ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے
(۹) ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔
(۱۰) واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا
یہ تمام اقوال تفصیل کے ساتھ فتح الباری میں مذکور ھیں  راجح قول یہ ھے  کہ معراج کا واقعہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کےبعد اور بیعتِ عقبہ سے پہلے وقوع پذیر ھوا جیسا کہ اول کے آٹھ اقوال اس پر متفق ھیں 
 اکثر  روایات سے ثابت ھے کہ معراج حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد ھوئی اور حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات پنجگانہ نماز کی فرضیت سے پہلے ھوئی تو گویا معراج النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  سن دس نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کے بعد سن گیارہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  میں طائف کے سفر سے واپسی کے بعد کسی مہینے میں ہوئی۔


مہینہ کی تعیین

مہینے کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ واقعہِ معراج کس مہینے میں پیش آیا، ربیع الاول ، ربیع الاخر، رجب، رمضان یا شوال ، یہ پانچ اقوال ملتے ہیں ۔ تاھم  زیادہ مشہور یہ ھے کہ رجب کے مہینے میں ھوئی


رات کی تعیین

اسی طرح  معراجِ نبوی  کس رات  میں ہوئی؟اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ھے تین اقوال مشہور ھیں:  جمعہ ، ہفتہ اور پیر 


 تاریخ کی تعین
تاریخ کے بارے میں بھی اقوال مختلف ھیں ۔ سترہ ربیع الاول ، ستائیس ربیع الاول ، انتیس رمضان اور ستائیس ربیع الثانی کے اقوال ہیں ، علامہ ابن کثیر ؒ تمام اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بعض احادیث میں جن کی سند صحیح نہیں ھے اُن میں  یہ بھی وارد ہے کہ" اسراء" ستائیس رجب کو ہوئی۔

علماء ِسیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کرام  کی تعداد اور
نام  بھی لکھے ہیں ،جنہوں نے قصہٴ معراج کو نقل کیا ،کسی نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے، چنانچہ علامہ زرقانی نے پینتالیس صحابہ کرام کے نام ذکر کئے ہیں، 
اس ساری تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا ، نہ تو کسی صحابی نے اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کیا اور نہ ہی زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  سے اس بارے میں کوئی ارشاد صادر ہوا ،اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کے ذہن میں پیدا ہوئی،حتی کہ اس رات کی حتمی تاریخ بھی کسی نے بھی نقل نہیں کی  سو جاننا چاھیے کہ واقعۂ معراج النبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لیے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اُمت کو بیان فرمایا۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین 

یہاں یہ نکتہ بھی ذھن میں رھنا چاھیے کہ دس نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کا سال گزر گیا اور اللہ کے راستہ میں  شعب ابی طالب اور سفرِ طائف جیسی ابتلاء اور آزمائشوں کی 
کی سب منزلیں طےھوگئیں  تو اللہ تعالی نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کو اسرء و معراج کی
عزت سے سرفراز فرما دیا اور اللہ پاک نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کو وہ اُونچا مقام عطا فرمایا کہ جبرائیل بھی پیچھے اور نیچے رہ گیا


واقعۂ معراج کے مقاصد

واقعۂ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی نبی یا رسول حتیٰ کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ نیز اس کے مقاصد میں اُمتِ مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں، بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل  علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے


 تاریخِ  انسانی کا مختصر ترین وقت کا طویل ترین سفر 
،  اکثر و بیشتر یہ سوال اُٹھتا ھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اسراء و معراج کا سفر روحانی تھا یا جسمانی 
قرآن کریم اور احادیثِ متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ اسراء ومعراج صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کا تمام تر سفر صرف روحانی نہیں، بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب وغیرہ نہیں تھا، بلکہ باقاعدہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کا ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ھے،کیونکہ وہ تو قادرِ مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالقِ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرفِ عظیم عطا فرمایا، جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرَّب ترین فرشتے کو۔
اور نہ ھی آئندہ قیامت تک کسی کو یہ اعزاز مل سکتا ھے 
۔

جاری ھے ۔۔۔۔

Share: