قسط نمبر (48) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 معجزۂ شق القمر


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ


اِقْتَـرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (1) 

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔


وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (2) 

اور اگر وہ کوئی معجزہ دیکھ لیں تو اس سے منہ موڑ لیں اور کہیں یہ تو ہمیشہ سے چلا آتا جادو ہے۔


وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُـوٓا اَهْوَآءَهُـمْ ۚ وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ (3) 

اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی، اور ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر ھے


انبیاء کرام سے جن خوارق عادات ( خلاف عادت) امور کا ظہور ہوتا ہے انہیں معجزات کہا جاتا  ہے‘ یہ معجزات ایک طرف  آنبیاء کرام کی سچائی اور حقانیت کی دلیل ہوتے ہیں اور دوسری طرف یہ  اللہ کی جانب سے ان کے لئے اکرام و انعام ھوتے ھیں ۔ مومن کا ہر دور میں یہ عقیدہ رہا ہے کہ کائنات کی ہر شے کا مکمل کنٹرول صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جیسے چاہتا ہے امور کائنات میں تصرف کرتا ہے کوئی دوسرا اس پر نہ معترض ہوسکتا ہے اور نہ ہی دخل دے سکتا ہے اسی طرح مختلف چیزوں میں جو خصوصیات یا طاقتیں  موجود ھوتی ہیں وہ بھی  اللہ تعالی نے ھی دی ھوئی ہیں اور وہ  جب چاھے ان سے یہ سب کچھ چھیننے پر بھی قادر ہے۔ پانی کی گہرائی میں ڈوب جانا ، آگ میں  داخل ہو تو جل جانا۔ پہاڑ سے چھلانگ لگانے کی صورت میں  ہڈیوں پسلیوں کا ٹوٹ جانا  ۔ چھری سے جسم کے کسی عضو کا کٹ جانا وغیرہ وغیرہ  یہ سب  عام مشاھدے کی باتیں ھیں لیکن اللہ تعالی اگر چاہے تو یہ  خصوصیات اور قوتیں ان چیزوں سے چھین بھی سکتا ہے کہ آگ جلانے کی صفت سے محروم ہو جائے اور پانی ڈبونے کی قوت سے خالی ہوجائے اور  چھری کاٹنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ۔ انبیاء کرام کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس طرح عادت کے خلاف امور ظہور پذیر ہوئے ھیں

بخاری شریف ، مسلم شریف  اور مستدرک حاکم  وغیرہ کتب آحادیث  میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لیے مکی زندگی میں چاند دو ٹکڑے ہوا۔ اس تاریخی معجزہ کے بارے میں روایات اتنی کثرت سے منقول ہیں کہ علامہ سبکیؒ نے انہیں متواتر کا درجہ دیا ہے۔ ابونعیمؒ نے دلائل میں اس واقعہ کی تفصیل حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے اس طرح نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں، اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہو۔ نبی اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ  چودھویں  کی رات تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! ان مشرکوں کا سوال پورا فرما دے۔ پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انگلی سے اشارہ کیا تو چاند اسی طرح دو ٹکڑے ہوگیا جس طرح کافروں نے کہا تھا۔نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے فرمایا اے ابوسلمہ اور اے  ارقم اس پر گواہ رہنا۔

جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے  اپنی انگشت ِ مبارک سے اشارہ کیا، چاند دو ٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا مغرب کی طرف اور دوسرا مشرق کی طرف چلا گیا۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً پانچ سال قبل پیش آیا۔ (تفسیر روح المعانی) 

روایات میں یہ بھی ہے کہ چاند کے یہ دونوں ٹکڑے دو مخالف سمتوں میں جاکر رک گئے، ایک جبل ابو قُبَیْس پر جاکر ٹھہر گیا، اور دوسرا جبل قَیْقَعان پر۔ لوگ حیرت زدہ رہ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہ ارشاد فرمارہے تھے، لوگو! گواہ رہو، لوگو! گواہ رہو۔ چاند کی یہ کیفیت عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے برابر وقت تک برقرار رہی، اس کے بعد چاند پھر اپنی حالت پر واپس آگیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن لوگوں نے معجزہ دکھلانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس مطالبے کی تکمیل ہونے پر ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا،  وہ اپنے وعدے کے مطابق اسی وقت کلمہ پڑھ لیتے، لیکن ان کے دماغ میں تو کفر وعناد کا خناس گھسا ہوا تھا، وہ کسی قیمت پر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ کہنے لگے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے تو  ھماری  آنکھوں پر جادو کردیا ہے، پھر خود ہی یہ بھی کہنے لگے کہ جادو ھم پر تو ہوسکتا ہے، لیکن جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں، ان پر تو نہیں ہوسکتا۔ یہ بڑا واقعہ ہے، ہر جگہ کے لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا، باہر سے آنے والوں کا انتظار کرلیتے ہیں۔ اگر وہ بھی اس واقعے کی شہادت دیتے ہیں تو ہم اسے تسلیم کرلیں گے، ورنہ اس کے جادو ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔  چند روز کے بعد باہر سے آنے والوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا چنانچہ جس شخص سے بھی یہ پوچھا گیا کہ کیا اس نے فلاں دن چاند کو دو ٹکڑوں میں تبدیل ہوتے ہوئے اور پھر یکجا ہوتے ہوئے دیکھا ہے اس نے یہی کہا کہ ہاں، میں نے دیکھا ہے، اس سے معلوم ہوگیا کہ یہ معجزہ دور دور تک دیکھا  گیا تھا ، ان شہادتوں کے باوجود وہ لوگ ایمان نہیں لائے اور انہیں ایمان لانا بھی نہیں تھا، ایمان ان کی قسمت میں تھا ہی نہیں۔

حافظ ابن کثیرؒ نے  سورہ قمر کی پہلی آیت (اقترب الساعة وانشق القمر) کے حوالہ سے اس بات پر امت کا اجماع ذکر کیا ہے کہ یہ آیت  مبارکہ نبی اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے “معجزۂ شق القمر” کے بارے میں ہے۔

ملا محمد قاسم  رحمہ اللہ  اپنی کتاب “تاریخ ہند “ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالا بار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ اُس نے ان مسلمانوں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور ان عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ؛ ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لے لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا  جس سال  میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ھوئی تھی تو اس رجسٹر میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔

علامہ سید محمود  آلوسیؒ اپنی کتاب “مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان”  میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔

 پاکستانی  اخبارات میں ۹ جنوری ۱۹۷۵ کو  ایک خبر شائع ہوئی  تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مصری سائنسدان ڈاکٹر فاروق الباز ( جو واشنگٹن میں طبقات ارضی اور اجرام فلکی کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر تھے ) نے مصر کے  اس وقت کے صدر  سے ملاقات کرکے  انہیں قرآن کریم کے اس نسخے کا ایک ورق پیش کیا جو اپالو ۱۵ کے خلا نورد  چاند پر رکھ کر آئے  تھے  ڈاکٹر فاروق نے مصری صدر  کو مریخ کی ایک وادی کا ماڈل پیش کیا جسے وادیٔ قاہرہ کا نام دیا گیا  تھا اس کے علاوہ چاند پر سے لی گئی عرب ممالک کی رنگین تصویر پیش کی اور چاند پر موجود ایک دراڑ کی تصویر بھی پیش کی جسے عرب دراڑ کا نام دیا گیا تھا اور جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو دوبارہ جڑتے وقت  بحکم خداوندی  یہ دراڑ رہ گئی تھی۔ مصری صدر  نے ان تمام دستاویزات کو مصر کے سائنسی ریسرچ سنٹر میں  محفوظ کروا دیا تھا 


معجزۂ حبس الشمس

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے سورج پلٹ آنے کے معجزہ کی طرح چلتے ہوئے سورج کا ٹھہر جانا بھی ایک بہت ہی عظیم معجزہ ہے جو پہلی مرتبہ معراج کی رات گزر کر دن میں وقوع پذیر ہوا۔ چنانچہ یونس بن بکیر نے ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ جب کفار قریش نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے اس قافلہ کے حالات دریافت کیے جو ملک شام سے مکہ آ رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہارے اس قافلہ کو بیت المقدس کے راستہ میں دیکھا ہے اور وہ بدھ کے دن مکہ آ جائے گا۔ چنانچہ قریش نے بدھ کے دن شہر سے باہر نکل کر اپنے قافلہ کی آمد کا انتظار کیا یہاں  تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ھو گیا  لیکن قافلہ نہیں آیا اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے سورج کو ٹھہرا دیا اور ایک گھڑی دن کو بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ وہ قافلہ آن پہنچا۔ (زرقانی۔  و شفاء)

  بعض  تاریخ اور سیرت نگاروں نے اس واقعہ کو تفصیل سے قلمبند کیا ھے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کفار کو اپنی معراج کے متعلق بتایا کہ “ میں راتوں رات پہلے بیت المقدس اور پھر آسمانوں پر گیا اور پھر واپس آگیا” تو مشرکینِ مکہ چونکہ تجارت کے سلسلہ میں بیت المقدس جاتے رھتے تھے اس لئے بیت المقدس کی تمام معلومات رکھتے تھے لہذا اُنہوں  نے بیت المقدس کے بارے سوالات کرنے شروع کر دئے اور بیت المقدس کی نشانیاں پوچھنے لگے  نبئ رَحْمَت ، رسول کریم صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے کفار کے سوالات کے جواب میں بیت المقدس کی تمام نشانیاں ٹھیک ٹھیک  بیان فرما دیں ، اس کے باوُجُود بھی کفارِ مکہ بغض اور عناد کی وجہ سے مِعْراج شریف کو حقیقت ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ اب انہوں نے ایک اَوْر نشانی پوچھی ، بولے : اے مُحَمَّد ( صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم ) اس راستے پر ہمارے قافلے گئے ھوئے ہیں ،  جب آپ بیت المقدس گئے ہیں تو یقیناً راستے میں قافلوں کو بھی دیکھا ہو گا ، لہٰذا ہمارے قافلوں کے مُتَعَلِّق ہمیں بتائیے۔

 نبیِ اکرم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے فرمایا : ہاں! میں نے ایک قافلے کو رَوْحاء کے مقام پر دیکھا ، اُن کا اُونٹ گم ہو گیا تھا ، وہ اُونٹ کی تلاش میں تھے ، میں اُن کے پڑاؤ (ٹھہرنے)کی جگہ اُترا ، اُن کے پیالے سے پانی پیا اور پیالہ اُس کی جگہ پر ویسے ہی رکھ دیا ،  ایک روایت میں ہے : میں نے انہیں سلام کیا ، تو وہ بولے : یہ تَو مُحَمَّد ( صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم ) کی آواز ہے۔  آپ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے مزید فرمایا : یہ قافلہ بُدھ کے روز یہاں پہنچ جائے گا ، یہ باتیں خود اُن سے پوچھ لینا۔

ایک شَخْص نے پوچھا : ہمارا فُلاں قافلہ بھی اسی رستے پر ہے ، کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟  فرمایا : ہاں! میں اُس قافلہ کے قریب  سے گزرا ، میرے بُراق کی تیز رفتاری سے خوف زَدہ ہو کر اُن کا اُونٹ بِدَک گیا ، چنانچہ اُونٹ سے گِر کر ایک شخص کی کلائی ٹوٹ گئی ، یہ قافلہ فلاں دِن دوپہر تک یہاں پہنچ جائے گا ، تم خود اُن سے یہ بات پوچھ لینا۔

پھر فرمایا : ایک قافلے کو میں نے مقامِ تنعیم میں دیکھا ، اُن کے آگے آگے ایک خاکی رنگ کا اُونٹ تھا ، اس پر غلہ کی 2 دھاری دار بوریاں لدی ہوئی ہیں اور ایک حبشی اس پر سُوار ہے ، یہ قافلہ فلاں دِن سُورج نکلنے تک یہاں پہنچ جائے گا۔

اب کفار انتظار کرنے لگے ، چنانچہ جب وہ دِن آیا ، جس کی صبح سُورج طُلوع ہونے کے وقت قافلے نے پہنچنا تھا ، اُس روز سورج نکلنے سے کچھ پہلے کفار کے کچھ لوگ مَشْرِق کی طرف ایک پہاڑ پر بیٹھ گئے اور سُورج نکلنے کا انتظار کرنے لگے اور جس سَمت سے قافلہ آنا تھا ، کچھ لوگ اس طرف پہاڑ پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی سُورج نکلا ، مَشْرقِی پہاڑ پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے بلند آواز سے کہا : ہٰذِہِ الشَّمْسُ قَدْ طَلَعَتْ یہ سُورج نکل آیا۔ ساتھ ہی دوسری طرف سے آواز آئی : ہٰذِہِ الْعِیْرُ قَدْ اَقْبَلَتْ لیجئے! قافلہ بھی آ گیا۔ جب قافلہ قریب آیا تو لوگوں نے دیکھا : واقعی اس قافلے کے آگے آگے خاکی  رنگ کا اُونٹ تھا ، اس پر دو دھاری دار بوریاں بھی لدی ہوئی تھیں ، یعنی جو نشانی صادِق وامین نبی کریم   صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے بیان فرمائی تھی ، جوں کی تُوں پُوری ہوئی۔ 

پھر دوپہرکے وَقْت جس قافلے نے پہنچنا تھا ، اس کا انتظار ہونے لگا ،  یہ قافلہ بھی عین دوپہر کے وَقْت مکہ مکرمہ میں داخِل ہوا ، لوگ قافلے کے قریب جمع ہو گئے ، دیکھا تو واقعی ان میں ایک شخص کی کلائی ٹُوٹی ہوئی تھی ، پوچھنے پر اس شَخْص نے بتایا : جنگل میں بجلی کی طرح ہمارے قریب سے کوئی شَے گزری ، اسے دیکھ کر ہمارا اُونٹ بِدَک گیا ، چنانچہ اُونٹ سے گِر کر میری کلائی ٹُوٹ گئی۔ 

اب تیسرے قافلے کا انتظار ہونے لگا ، نبیِ اکرم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے فرمان کے مُطَابِق اس قافلے نے سُورج غروب ہونے کے وَقْت پہنچنا تھا مگر یہ قافلہ کسی وجہ سے راستے میں رُک گیا ، اِدھر کفار سُورج کو دیکھ رہے تھے ، دیکھتے دیکھتے سُورج بالکل غروب ہونے  کےقریب ہو گیا اور قافلے کا ابھی تک کوئی نام ونشان بھی نہ تھا ، اس وَقْت رسولِ  کریم صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے اللہ تعالی سے دُعا  مانگی  تو سُورج رُک گیا ، جیسے ہی قافلہ مکہ مکرمہ میں داخِل ہوا ، ساتھ ہی سُورج بھی غروب ہو گیا۔ (مسند بزار ، تاریخ خمیس)

 یہ سب کچھ اپنی  آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود  بدقسمت کفارِ قریش  کو ایمان لانے کی توفیق نہ ھو سکی :

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠O

اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی  ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہوا ھے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

  ... واضح رہے کہ ''حبس الشمس'' یعنی سورج کو ٹھہرا دینے کا معجزہ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ آپ سے پہلے انبیاء سابقین میں سے حضرت یوشع بن نون  علیہ السلام کے لیے بھی یہ معجزہ ظاہر ہو چکا ھے  جس کا واقعہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن وہ بیت المقدس میں قوم جبارین سے جہاد فرما رہے تھے ناگہاں سورج ڈوبنے لگا اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر سورج غروب ہو گیا تو  سنیچر کا دن آ جائے گا اورسنیچر کے دن موسوی شریعت کے حکم کے مطابق جہاد نہ ہو سکے گا تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ایک گھڑی تک سورج کو چلنے سے روک دیا یہاں تک کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام قوم جبارین پر فتح یاب ہوکر جہاد سے فارغ ہوگئے

تفسیر جلالین


*معجزہ حبس الشمس کی تحقیق*

احادیث  مبارکہ میں سورج یا وقت رکنے کے بارے میں تین حضرات کے لئے ذکر ملتا ہے۔

(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو مرتبہ

غزوہٴ خندق کے موقعہ پر اور  شب معراج کی صبح کو۔ مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے (شرح نووی علی مسلم: 12/53)۔


(۲) حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے بخاری شریف اور مسند احمد میں حدیث موجود ہے۔

(۳) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے نماز عصر پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے۔ یہ حدیث المعجم للطبرانی میں موجود ہے۔

حدیثیں بہت لمبی لمبی ہیں اس لئے حدیث کی اصل عبارت یا ترجمہ  نہیں لکھا گیا 

ان تین مواقع پر سورج کا رُکنا  احادیث  مبارکہ سے ثابت ہے تاھم امام  ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اس پر کلام کیا ھے  

اس کے علاوہ  حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سر سے دوپٹہ ہٹ جانے پر اور  حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے اذان نہ دینے پر سورج کا رُکنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ھے ۔ یہ دونوں باتیں اغلاط العوام میں سے ہیں۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں

جاری ھے ۔۔۔۔۔


Share: