اصل کامیابی کیا ھے؟


كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَاِنَّمَا تُـوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ O

ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے، پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں۔


  حضرت انسان  زندگی کےھر ھر مرحلے پر کامیابی کے لئے کوشاں رھتا ھے لیکن زندگی کے ایک مرحلے پر جس چیز  کے حصول کو کو وہ اپنی کامیابی سمجھتا رھتا ھے  زندگی کے اگلے ھی  مرحلے میں خود اسی کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں رھتی گویا کامیابی کے تصورات انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ تبدیل ھوتے رھتے ھیں اور آخرکار زندگی اختتام پذیر ھو جاتی ھے اور پھر آصل کامیابی کیا تھی؟  اس کی آنکھوں کے سامنے کھل کر  مکمل اور یقینی تصویر آ جاتی ھے حالانکہ قرآن پاک نے اسے پہلےھی  بہت کھول کھول کر  اس کے لئے بیان کر دیا تھا تاکہ یہ دنیاوی زندگی میں اس کے حصول کی بھرپور کوشش کرے اور زندگی ختم ھونے کےبعد اس کامیابی کے ثمر کا حقدار بن جائے  کاش یہ اس وقت اسے سمجھ کر اپنی زندگی اس کے مطابق گزار لیتا تو آج پشیمان نہ ھوتا 

بچے کو  بچپن میں کھلونے جمع کرنے کا شوق ھوتا ھے اور وہ اسی کو اپنی کامیابی سمجھتا ھے لیکن اسی پچے کو بالغ ہوکر احساس ہوتا ہے کہ اصل کامیابی کھلونے جمع کرنا نہیں ھے بلکہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے.

پھر یہ اگلے مرحلے  یعنی ازدواجی زندگی میں داخل ھوتا ھے تو شادی ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ بہترین شریک حیات کا ملنا ھی اصل کامیابی ہے.

پھر روزگار کے معاملات سے دل میں یقین پیدا ہوتا ہےکہ اصل کامیابی کاروبار کے وسیع ہونے یا ملازمت میں پرموشن سے ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ آمدنی ھو اور زیادہ سے زیادہ سہولیات حاصل ھوں گویا اس مرحلے میں زیادہ آمدنی کامیابی کا تصور بنتی ھے

جوانی ڈھلنے پر یہ نقطہ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے کہ اصل کامیابی تو باصلاحیت اولاد، بڑے سے گھر اور بہترین گاڑی کے ہونے سے ہے اب یہ اس کے لئے سرگرداں رھتا ھے اب اسے اپنی نہیں بلکہ اولاد کی کامیابی کی زیادہ فکر ھوتی ھے اور وہ اسےھی اپنی کامیابی سمجھ رھا ھوتا ھے 

پھر بڑھاپے کا مرحلہ آ جاتا ھے اس مرحلے میں انسان کے نزدیک اصل کامیابی کا پیمانہ بیماریوں سے بچ کر جسمانی و دماغی تندرستی کا برقرار رہنا قرار پاتا ہے جس میں اکٹریت یہ کامیابی اپنی خواھشات کے مطابق حاصل نہیں کر پاتی جس کے لئے دواؤں کی دوکانوں  اور معالجین کو خوب مالی مدد ملتی رھتی ھے اور یہ بیچارہ اپنی صحت کے لئے انہی کا دستِ نگر ھو کر رہ جاتا ھے لیکن صحت کی کامیابی کے لئے اپنی کوششیں حتی المقدور جاری رکھتا ھے کیونکہ اس کے نزدیک یہی اس کی  آصل  کامیابی ھوتی ھے

بالآخر انسان کی زندگی کے اختتام کا وقت آ پہنچتا ھے اور جب موت کا فرشتہ انسان کو لینے آجاتا ہے تو پھر اصل بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ درآصل کامیابی کے تمام تر دنیاوی تصورات بہت بڑا دھوکہ تھے ۔ اصل کاميابی کے اس  معیار اور تصور  کو قرآن پاک نے بیان فرما دیا :- 

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ

جو شخص آگ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ھو گیا 

لیکن دنیا کی زندگی میں اس حضرت انسان کو اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ  قرآن مجید کی تلاوت کرتا ،اسے سمجھ کر پڑھتا،  اس میں  بیان کردہ حلال کو حلال سمجھتا اور حرام کو حرام سمجھتا ،اسے اپنی زندگی  کے ھر مرحلے میں لاگو کرتا ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتا اور ان کی آدائیگی کا فکر کرتا اور ان حقوق کی پامالی پر اللہ پاک کے عذاب  کا  یقین اور اس جبار اور قہار کا خوف اپنے دل میں رکھتا اور اس کی لوگوں میں تبلیغ کرتا

 لیکن اس کے نزدیک تو کامیابی کا پیمانہ اور معیار ہی مختلف تھا اب آصل کامیابی کی فصل کو پانی دینے کا  وہ وقت گزر چکا جب اللہ تعالی  کے خوف سے اپنے گناھوں کی معافی مانگتے ھوئے اور حقوق العباد کی تلافی کا پکا ارادہ کرتے ھوئے آنکھوں سے نکلا ھوا پانی کا ایک قطرہ بھی آج کی کامیابی کی بنیاد بن جاتا لیکن اب آنکھوں سے پانی تو کیا خون بہانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ھو سکتا بقول شاعر: 

وقت پہ قطرہ بھی کافی ھے آبِ خوش ھنگام کا

جل گیا جب کھیت سارا  تو مینہ برسا پھر  کس کام کا


اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں  اللہ تعالی کے آحکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک طریقوں  کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے  اور آخرت کی  ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی کی صحیح  تیاری کرنے کی توفیق  عطا فرمائے 

آمین یا رب العالمین

Share: