قسط نمبر (35) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


دارِ ارقم -  دعوت و تبلیغ  کا پہلا اسلامی مرکز


سیرتِ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مکی عہد میں ’دارارقم ‘کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اُس زمانے میں، جب کہ دعوت اسلامی کے ننھے سے پودے میں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں اور سعید روحیں  حلقہ بگوش اسلام ہورہی تھی،اس گھر نے نہ صرف یہ کہ انھیں تحفظ فراہم کیا اورسردارانِ قریش کے ظلم وستم کا شکار ہونے سے بچایا،بلکہ ان کی تعلیم وتربیت کا بھی موقعہ فراہم کیا اوررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر نازل ہونے والے اللہ کے کلام کو سننے  اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے دین سیکھنے کا معقول نظم  فراھم کیا۔حقیقت یہ ہے کہ بیش تر اکابر صحابہ  دارارقم ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ اسی اہمیت کی بناپر مورخین نے دارارقم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قیام کو سیرتِ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اہم ترین واقعات میں شمارکیا ھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ھے کہ سیرت نگار جب  مکی عہد کی ابتدامیں کسی شخص کے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں تویوں لکھتے ہیں:

’’أسلم قبل دخول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالأرقم وقبل أن یدعوفیہا۔‘‘ 

’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم کومرکزِ دعوت بنانے سے پہلے اسلام لائے

مختلف واقعات سے ظاہر ہے کہ  اس زمانے میں تبلیغ کا کام اگرچہ انفرادی طور پر چُھپ کر کیا جا رہا تھا لیکن قریش کو اس کی سُن گن لگ چکی تھی۔ البتہ انہوں نے  پہلے پہل اسے قابلِ توجہ نہ سمجھا۔محمد غزالی لکھتے ہیں کہ یہ خبریں قریش کو پہنچ چکی تھیں، لیکن قریش نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی۔ غالباً انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کا کوئی دینی آدمی سمجھا جو الوہیت اور حقوقِ الوہیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ جیسا کہ اُمیہ بن ابی الصلت، قُس بن سَاعِدہ اور زید بن عَمْرو بن نُفَیْل وغیرہ نے کیا تھا۔ البتہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے پھیلاؤ اور اثر کے بڑھاؤ سے کچھ اندیشے ضرور محسوس کئے تھے اور ان کی نگاہیں رفتارِ زمانہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ پر رہنے لگی تھیں۔ 

تین سال تک تبلیغ کا کام خفیہ اور انفرادی رہا اور اس دوران اہلِ ایمان کی ایک جماعت تیار ہو گئی جو اخوت اور تعاون پر قائم تھی۔ اللہ کا پیغام پہنچا رہی تھی اور اس پیغام کو اس کا مقام دلانے کے لیے کوشاں تھی۔ توحید کے  اقرار اور شرک  و بت پرستی  سے براء ت کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے سب سے پہلے نماز فرض کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہونے کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو وضو اور نماز  کی تعلیم دی اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اسے اسلام قبول کرنے والوں کوسکھایا۔ یہ لوگ مکہ کی سنسان گھاٹیوں میں چھپ کر نماز پڑھتے تھے،تاکہ کسی کو خبر نہ لگنے پائے  اعلان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چوتھے سال تک مسلمان جو کم تعداد میں تھے چھپ کر گھاٹیوں میں نماز ادا کرتے ۔ ایک دفعہ قریش نے انہیں دیکھ لیا تو نوبت گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو ایسی ضرب لگائی کہ اس کا خون بہہ نکلا یہ پہلا خون تھا جو اسلام کی خاطر بہایا گیا ایسے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے طے یہ پایا کہ عام صحابہ اپنا اسلام عبادت اور تبلیغ چھپ کر کریں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ کام خود تو اِعلانیہ کرتے لیکن صحابہ کے ساتھ مصلحت کی خاطر چھپ کر جمع  ھوتے  اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ضرورت محسوس کی کہ کوئی ایسی جگہ متعین کردی جائے جہاں مسلمان اکٹھا ہوکر نماز اداکرسکیں اور جو لوگ اسلام قبول کرتے جائیں وہ وہاں رہ کر دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرسکیں اوروہ جگہ مشرکین کی نگاہوں سے اوجھل بھی ہو،تاکہ وہاں پہنچ کرانھیں فتنہ وفسادپھیلانے کا موقع نہ مل سکے اس مقصد کے لئے ایک محفوظ جگہ کی ضرورت تھی  حضرت ارقمؓ نے اس کام کے لیے اپنا مکان پیش کیا اوراس کی مخصوص پوزیشن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کی پیش کش قبول کرلی۔ اس طرح ان کا گھر دعوت وتبلیغ کا اولین مرکز بن گیا

مولانا سید جلال الدین عمری  رحمہ اللہ لکھتے ھیں کہ ’’اب ان لوگوں کے لیے جواسلام قبول کررہے تھے،ایک ایسی جگہ کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جو اِن کا مرکزہو،جہاں وہ قرآن مجید کی تعلیم کے لیے جمع ہوسکیں جواس وقت حسبِ حال وہاں نازل ہورہاتھا،جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ،جوسرچشمۂ ہدایت تھے، قدم قدم پر رہنمائی حاصل کرسکیں،جہاں ان کی فکری،اخلاقی اورعملی تربیت ہوسکے،جہاں وہ باہم مل کر اس دین کو پھیلانے کے لیے باہم مشورہ کرسکیں اورتدابیرسوچ سکیں اورجہاں وہ ایک دوسرے سے مل کرعزم وہمت اورصبروثبات کا درس حاصل کرسکیں۔اس کے لیے حضرت ارقمؓ نے اپنامکان پیش کردیا، جو آبادی  سے کسی قدر ہٹ کر صفاکی پہاڑی پرواقع ہونے کی وجہ سے اس مقصد کے لیے بہت موزوں تھا

دارِ ارقم مکہ مکرمہ میں کوہِ صفا کے قریب واقع تھا جہاں مسلمان ابتدا اسلام میں چھپ کر نماز ادا کرتے۔ دارِارقم کو پہلا اسلامی مدرسہ یا پہلی مسلم جامعہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ گھر ارقم بن ابی الارقم مخزومی  رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا جو مشرکین کی نگاہوں اور مجلسوں سے الگ تھلگ تھا اسے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنی دعوت اور مسلمانوں کی اجتماعی دعوت کا مرکز بنایا۔

دارِ ارقم کو مرکز بنانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ھے کہ قریش کو علم نہ تھا کہ ارقم بن ابی الارقم  رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہو چکے ہیں دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی عمر 16 سال سے کم تھی قریش کو امید نہ تھی کہ اس نوجوان کے گھر مسلمان جمع ہو سکتے ہیں۔

ارقم بن ابی الارقم رضی اللہ تعالی عنہ ساتویں نمبر پر ایمان لانے والے مسلمان تھے اور یہ اجتماعی مرکز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے تک جاری رہا اس وقت مسلمانوں کی تعداد  چالیس کے لگ بھگ ھو چکی تھی  حضرت ارقم رضی اللہ تعالی عنہ  کا گھر  کوہِ صفا کے دامن میں مشرقی جانب ایک تنگ گلی میں تھا، عام لوگوں کو یہاں آنے جانے والوں کی خبر نہ ہوتی۔ ابتدائے اسلام میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی گھر میں نشست فرماتے تھے، تب قریش کی طرف سے ایذاء کا خطرہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مشرکوں سے مخفی رہ کر دعوت حق کو پھیلایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دارِ ارقم میں حاضر ہونے والے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیتے اور یہ باہر جا کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ارشادات عام کرتے۔ تقریبا ایک سال تک یہ خفیہ مرکز قائم رہا۔ بہت سے اکابر صحابہ کرام نے دارِ ارقم میں آکر اسلام قبول کیا ان میں حضرت آمیر حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابلِ ذکر ھیں 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دارِ ارقم ہی میں بیٹھ کر یہ دعا فرمائی تھی کہ ، اے ﷲ! تجھے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے جو زیادہ پسند ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش۔ یہ بدھ کا دن تھا، اگلے ہی روز یعنی جمعرات کو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے گلے میں تلوار لٹکا کر دارِ ارقم کا رخ کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چالیس کے قریب صحابہ یہاں جمع تھے۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ارادہ سب کو قتل کرنے کا تھا، قسمت نے پلٹا کھایا۔ اب وہ مسلمان ہونے کے ارادے سے نکلے، دارِ ارقم پہنچ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مشرف باسلام ہوئے تو یہاں موجود مسلمان باہر نکلے، نعرۂ تکبیر بلند کیا اور بلا جھجک کھلم کھلا بیت ﷲ کا طواف کیا اور دارِ ارقم کو دارالسلام کہا جانے لگا


حضرت ارقمؓ  کے مختصرحالاتِ زندگی

دارِ ارقم کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس صحابئ جلیل کی طرف ہے، اسے تاریخ الارقم بن ابی الارقم رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت ارقمؓ کا تعلق قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان بنومخزوم سے تھا۔ ان کے والد کانام عبدمناف تھا، لیکن شہرت ابوالارقم کی کنیت سے ملی۔ والدہ کے نام اورخاندان کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا نام تماضر بنت حذیم تھا اوروہ بنوسہم سے تھیں۔ کچھ دوسری روایتوں میں ہے کہ ان کانام امیمہ تھا اوروہ عبدالحارث کی بیٹی تھی ۔بعض حضرات نے ان کا نام صفیہ اوران کے باپ کا نام حارث لکھا ہے اوران کا تعلق بنوخزاعہ سے بتایاہے۔حضرت ارقمؓ کی کنیت ابوعبداللہ اورابوعبدالرحمن تھی۔ ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے: الارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالی عنہ عبدمناف بن اسدبن عبداللہ بن عمروبن مخزوم۔حضرت ارقمؓ “السابقون الاوّلون” میں سے ہیں۔ انھیں بعثتِ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد ابتدائی زمانے میں قبولِ اسلام کی سعادت حاصل ہوگئی تھی۔ ابن سعدؒ اورحاکم ؒ نے انھیں ساتواں مسلمان قرار دیا ھے ۔ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ وہ دس افرادکے بعد اسلام لائے۔ ابن الاثیرؒ نے انھیں بارہواں مسلمان بتایاہے۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ارقمؓ،حضرت عبیدہ بن حارثؓ اورحضرت عثمان بن مظعونؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے۔اس وقت حضرت ارقمؓ کی عمرصرف سولہ سال تھی۔

سیرت نگاروں نے صراحت کی ہے کہ حضرت ارقمؓ غزوۂ بدر،غزوۂ احد اور بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے۔ حضرت معاویہؓ کے عہدِخلافت میں53ھ یا 55ھ میں پچاسی (85)سال کی عمرمیں ان کا انتقال ہوا۔ان کی وصیت کے مطابق حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی



سید الشھداء ، عمِ٘ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ

حَمزہ بن عَبد المُطَّلِب رضی اللہ تعالی عنہ ، اسد اللہ، اسد رسول اللهؐ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور سید الشہداء کے لقب سے مشہور ھیں ، رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچا اور جنگ اُحُد کے شہداء میں سے ہیں۔ حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت رسالت کے اہم حامیوں میں سے تھے اور مروی ہے کہ آپ قبول اسلام سے پہلے بھی مشرکین کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حمایت کرتے تھے۔ آپ قریش کے ز‏عماء میں سے تھے اسی وجہ سے آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد قریش کی طرف سے رسول اللہؐ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ہونے والے آزار و اذيت میں کمی آگئی تھی ۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور آپ نے ثویبہ جو ابو لہب کی لونڈی تھی کا دودھ پیا تھا۔ بعثت کے چھ برس بعد جب ابوجہل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت میں حد سے تجاوز کر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حمایت پرجوش  طریقہ سے کی اور پھر  اسلام قبول کر لیا۔ بے حد جری اور دلیر تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی۔ جنگ بدر میں حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی۔


*نام و نسب

حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی۔ 


*کُنیت*

آپ  رضی اللہ تعالی عنہ کی کُنیت آپ  رضی اللہ تعالی عنہ کے دونوں بیٹوں کے نام کی نسبت سے ابویَعْلٰی، اور ابو عُمارۃ ہے۔والد کا نام :حضرت عبدالمطلب بن ھاشم۔والدہ کا نام:ھالۃ بنت وُھیب۔


*حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تعلّق*

آپ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سگےچچا تھےاور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ راجح قول کے مطابق حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے  دوسال قبل ہوئی۔


*اسلام لانے کا واقعہ*

حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ اعلانِ نبوّت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دوسرے سال اسلام لائے۔ایک دن ابو جہل نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو  بُرا بھلا کہا،حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُس کی باتوں کا جواب نہیں دیا۔ایک  کنیز نے یہ تمام منظر دیکھا اورحضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو بتادیا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ جلال میں آگئے، ابوجہل اپنی قوم کے ساتھ مسجد حرام میں بیٹھا ھوا تھاا،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کمان مار کر اُس کا سر زخمی کردیا اور وہیں اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان بھی کردیا ۔ابو جہل کا سر پھاڑنے اور جوش و غضب میں اپنے ایمان لانے کا اعلان کر کے جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر پہنچے تو اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“تم سردارِقُریش ہو کیا تم اس نئے دین کی پیروی کرو گے ؟اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دو گے؟جو کام تم نے کیا ہے اُس سے بہتر تھا کہ تم مر جاتے” وہ ساری  رات اِسی تذبذب کے عالم میں اللہ تعالی کے حضور صحیح اور سیدھا راستہ دکھانے کی دعا کرتے رھے صبح حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنی کیفیت بتائی ،رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آپ کو اسلام کے بارے میں بتایا حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام لانے کی توفیق عنایت فرما دی ۔



*حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان*

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ہم چھ حضرات اولادِ عبدالمطّلب اہلِ جنّت کے سردار ہیں:  

(۱)میں (محمّد مصطفیﷺ)

(۲)میرے چچا جان حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ

(۳،۴) میرے بھائی علی المرتضی اور جعفر رضی اللہ تعالی عنہما

(۶،۵) میرے نواسے امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہھما

ایک صحابی کے ھاں لڑکے کی ولادت ہوئی ، انہوں  نےنام رکھنے کے حوالے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو   آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا:اُس کا نام اُس شخص کے نام پر رکھو جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے یعنی حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: میرے سب چچاؤں میں سب سے بہترین حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔



*نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے عَلَمبردار*

نبی کریم   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے پہلا جنگی عَلَم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے باندھا اور اُس عَلَم کے ساتھ آ پ  کو سَر زمینِ جُہینہ کے ساحل کی طرف روانہ فرمایا۔



*غزوۂ بدر میں دادِ شُجاعت*

اس غزوہ میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انداز ہی نرالا تھا آپ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قریب رہتے ہوئے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا دِفاع کرتے ہوئے بیک وقت دو تلواریں چلا رہے تھے اس جنگ میں آپ نے کئی کافروں کو واصل جہنم کیا ۔جنگِ بدر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے جوش و جذبہ کا عجیب عالَم تھا مشرکین پر حملے کرنے میں آپ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ حضور  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تشویش ہوئی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج کر انہیں اپنے قریب بلا لیا۔کافروں کے لشکر میں سے سب سے پہلے اسود بن عبدالاسد المخزومی جب مسلمانوں کے پانی کے حوض کو منہدم کرنے کے ارادے سے آیا تو حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ ہی اُس پر حملہ آور ہوئے اور اُس کی پنڈلی کاٹ کر رکھ دی اور دوسرے  وارمیں اسے قتل کردیا۔

جنگ اُحد کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی  اور  بہت سے آکابر صہابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ مدینے میں رہتے ہوئے کُفّار سے مقابلہ کیاجائے جبکہ حضرت حمزہ   رضی اللہ تعالی عنہ اور متعدد نوجوان صحابہ  کرام کی رائے مدینے سے باہر جا کر جنگ کرنے کی تھی  تاکہ مسلمانوں  کے اس دفاعی انداز اختیار کرنے پر دشمن بزدلی نہ سمجھیں المختصر  حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت حمزہ   رضی اللہ تعالی عنہ اور نوجوان صہابہ کرام  کی رائے کو قبول فرما لیا۔یہ جمعہ کے دن کی بات تھی اُس دن بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ روزے دار تھے اور جس دن آپ شہید ہوئے یعنی بروزِ ہفتہ بھی آپ روزے سے تھے۔



*جنگِ اُحُد میں دادِشجاعت*

جنگِ اُحُد میں بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے قریب رہتے ہوئے دو تلواروں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور آپ  کی زبان پر یہ کلما ت تھے:

“میں اللہ تعالیٰ کا شیر ہوں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیر ہوں” 

غزوۂ اُحد میں آپ نے تنِ تنہا تیس سے زائد کافروں کو قتل کیا تھا۔



*شہادت کا واقعہ*

شوّال کا مہینہ اور ہفتہ کے دن  ان کی شھادت پر تو سب کا اتفاق ھے لیکن چونکہ غزوۂ اُحد  کی تاریخ میں آختلاف ھے اس لئے ان کی شھادت کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ھے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ میدان  جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے، ایک کافر کو   قتل کرنے کے بعد جب آپ اُس کی زرہ اُتار رھے تھے توآپ کے پیٹ سے زرہ سرک گئی وحشی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ھوئے تھے  نشانہ باندھ کر ایک چھوٹا نیزہ آپ کے پیٹ میں دے مارا جو کہ آر پار ہو گیا اور آپ شہید ہوگئے ۔جنگِ بدر میں سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جُبَیْر بن مُطْعَم کے چچا کو ہلاک کیا تھا وحشی حبشی رضی اللہ تعالی عنہ جبیر کا غلام تھا جبیر نے اس سے کہا تھا اگر تم میرے چچا کے عوض محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا کو قتل کر دو توتم میری طرف سے آزاد ہو۔اسی لالچ  میں وحشی حبشی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا۔  اللہ کی شان اس نے حَبشی وَحشی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بعد میں اسلام لانے کی توفیق دے دی ۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے کے بعد کافروں نے آپ کا پیٹ چاک کیا اور کلیجہ نکال لیا گیا  ، ہندہ زوجہ  ابوسفیان نے کلیجہ کو چبایا نگلنے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکی پھر اُسے تھوک دیا۔کافر عورتوں نے  حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اور دیگر شہداء کے کان ناک کاٹ کر انہیں لڑی میں پرو کر اُن کے کڑے،بازو بند اور پازیب بنائے اور انہیں پہن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئیں۔ (ہندہ اور ان کے شوہر ابوسفیان دونوں نے  بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا رضی اللہ تعالی عنہما) بوقتِ شہادت آپ کی عمر چوّن ۵۴سال یا انسٹھ(۵۹)سال کی تھی۔


*غمِ مصطفیﷺ*

جب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کو دیکھا تو  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم رونے لگے ،آپ کے کٹے ہوئے جسم کو دیکھ کر شدّتِ غم سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آواز بلند ہو گئی پھر 

آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  ارشاد فرمایا:اگر حضرت صفیّہ رضی اللہ تعالی عنہا نہ ہوتیں  تو میں حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو یونہی رکھ چھوڑتا حتّٰی کہ اُنہیں پرندوں اور درندوں کے پیٹوں سے جمع کیا جاتا۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سگی بہن تھیں۔)اُس وقت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: ’’حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سیّدالشُّہداء ہیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق فرمایا: حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سب سے بہترین شہید ہیں۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حضرت  حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کے  پاس کھڑے تھے،آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کومُخاطَب کرتے ہوئے فرمایا:اے چچاجان ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے بلاشبہ آپ خوب صلہ رحمی کرنے والے اور کثرت سے نیکیاں کرنے والے تھے۔ 



*حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازِ  جنازہ 

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جس کسی جنازے پر تکبیر کہتے تو اُس پر چار بار تکبیر کہتے اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ستّر بار تکبیر کہی۔ نبی  پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تو سات تکبیرات کہیں پھر جس شہید کو بھی لایا گیا اُس کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی حتّٰی کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہتّر بار نمازِ جنازہ پڑھی۔


*سیدا لشہداء  رضی اللہ تعالی عنہ کا کفن*

سیِّدالشُّہداء رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا تھا وہ چادر لمبائی میں اتنی کم تھی کہ چہرے کو ڈھانپا جاتا تو پیر کُھل جاتے اور پیروں کو ڈھانکا جاتا تو چہرے سے چادر ہٹ جاتی پس آپ کے چہرے کو ڈھانپ دیا گیا اور پیروں کو ڈھانپنے کے لیے اِذْخَرْنامی گھاس رکھ دی گئی۔ 


*جسم کا صحیح سلامت ہونا*

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں بعض شہداءاُحد کی قبریں کُھل گئیں تو دیکھا گیا  کہ شہداء اُحد کے اجسام  بالکل تروتازہ تھے اور اُن کے جسم میں خون کی روانی ہوتی نظر آتی تھی ۔ کسی شخص کا پھاوڑا غلطی سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاؤں پر لگ گیا تو ان کے پاؤں سے خون نکلنے لگا بلا شبہہ شھداء زندہ ھیں

اللہ پاک سے دعا ھے کہ اللہ سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ کے درجات کو مزید بلند فرمائے 

آمین یا رب العالمین


جاری ھے


Share: