قسط نمبر (42) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

 قریش کی طرف سے مال و دولت ، حکومت اور ریاست کی پیشکش اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جواب 

کفار مکہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تدبیریں ناکام ہو رہی ہیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت عام ہو رہی ہے  تو  سرداران قریش نے  ایک مرتبہ پھر باہم مشورہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے یہاں تک کہ حضرت آمیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہ بھی اسلام قبول کر چکے ھیں لہذا ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ و فصیح آدمی عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرے ۔ عتبہ سحر ، کہانت اور شعر گوئی میں اپنے زمانہ کا یکتا تھا چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گیا ۔ 

عتبہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس پہنچ کر کہا ،’’

بھتیجے : ھمیں یہ بات کہنے میں کسی قسم  کا کوئی تردد نہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حسب و نسب میں ہم سب سے آعلی و آفضل ھیں ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ہمارے آباؤ اجداد کے طریقہ کو باطل قرار دیا ہے اور انہیں جاہل سے تعبیر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آج اپنے دل کی بات کہہ دو کہ آخر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا  مدعا کیا ہے؟  عتبہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد یہ پیشکش کی کہ : 

اس نئی دعوت سے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد مال ودولت کا حصول ہے تو وہ ہم  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے لئے اتنی  زیادہ دولت جمع کیے دیتے ھیں کہ کسی  دوسرے کے پاس اتنی دولت نہیں ھو گی 

اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اِشارہ کریں ھم ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کر دیتے ہیں

اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی  قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں ہم  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ایسے اختیارات کے ساتھ سردار بنا دیتے  ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی  مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ 

اور اگر سرداری سے بھی آگے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بادشاہ بننا چاہتے ھیں  تو ہم  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  اپنا بادشاہ  تسلیم کر لیتے ھیں 

اور اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر جن یا آسیب  وغیرہ کا اثر ہے جس کے زیرِ اثر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرا دیتے ہیں 

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم عتبہ کی بات  انتہائی تحمل سے سنتے رھے  جب عتبہ اپنی تقریر کرکے خاموش ہوا تو حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  فرمایا اے ابو ولید؛  کیا آپ اپنی بات مکمل کر چکے تو عتبہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا  اچھا اب جو میں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کہتا ھوں وہ سنو  مجھے نہ تمہارا مال و دولت مطلوب ھے نہ ھی تمہاری حکومت اور سرداری درکار ھے میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ کا رسول ھوں مجھے اللہ پاک نے تمہاری طرف نبی بنا کر بیجھا ھے اور مجھ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر ایک کتاب نازل کی ھے اور مجھے حکم دیا گیا ھے کہ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تمہیں اللہ کے ثواب کی بشارت دوں اور اللہ کے عذاب سے ڈراؤں میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تم تک اللہ کا پیغام  پہنچا دیا ھے اور بطورِ نصیحت و خیر خواھی اس سے تمہیں اگاہ کر دیا ھے اگر تم قبول کر لو تو یہ تمہارے لئے دنیا وآخرت میں فلاح و سعادت کا  باعث  ھو گا اگر آپ نے نہ مانا تو میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صبر کروں گا یہاں تک کہ میرے اور تمہارے درمیان میں اللہ پاک فیصلہ فرما دیں  پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے سورة  “حٰمٓ اَلسَّجدہ “ کی مندرجہ ذیل  ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں  

 بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے


حٰمٓ (1) 

حا میم


تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ (2) 

(یہ کتاب) بڑے مہربان نہایت رحم والے کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔


كِتَابٌ فُصِّلَتْ اٰيَاتُهٝ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ (3) 

کہ جس کی آیتیں عربی زبان میں علم والوں کے لیے واضح ہیں۔


بَشِيْـرًا وَّنَذِيْـرًاۚ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُـمْ فَهُـمْ لَا يَسْـمَعُوْنَ (4) 

خوشخبری دینے والی ڈرانے والی ہے، پھر ان میں سے اکثر نے تو منہ ہی پھیر لیا پھر وہ سنتے بھی نہیں۔


وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِىٓ اَكِنَّـةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَـآ اِلَيْهِ وَفِىٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّّمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عَامِلُوْنَ (5) 

اور کہتے ہیں ہمارے دل اس بات سے کہ جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے پردوں میں ہیں، اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان پردہ پڑا ہوا ہے، پھر آپ اپنا کام کیے جائیں ہم بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔


قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَآ اِلٰـهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِيْنَ (6) 

آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تم جیسا ایک  بشر  ہوں میری طرف یہی حکم آتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے پھراس کی طرف سیدھے چلے جاؤ اور اس سے معافی مانگو، اور مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے۔


اَلَّـذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكَاةَ وَهُـمْ بِالْاٰخِرَةِ هُـمْ كَافِرُوْنَ (7) 

جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں۔


اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَـهُـمْ اَجْرٌ غَيْـرُ مَمْنُـوْنٍ (8) 

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام بھی کیے ان کے لیے بے انتہا اجر ہے۔


قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْـفُرُوْنَ بِالَّـذِىْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِىْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَـهٝٓ اَنْدَادًا ۚ ذٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ (9) 

کہہ دیجیے کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو، وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے۔


وَجَعَلَ فِيْـهَا رَوَاسِىَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيْـهَا وَقَدَّرَ فِـيْـهَآ اَقْوَاتَـهَا فِىٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ (10) 

اور اس نے (زمین میں) اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت ڈالی اور چار دن میں اس کی غذاؤں کا تخمینہ کیا، (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے۔


ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ (11) 

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔


فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12) 

پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔


فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ (13) 

پس اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دیجیے میں تمہیں کڑک سے ڈراتا ہوں جیسا کہ قوم عاد اور ثمود پر کڑک آئی تھی۔


 جب آپ اس آیت ’’فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ‘‘ پر پہنچے تو عتبہ نے بہت زیادہ خوفزدہ ھو کر جلدی سے اپنا ہاتھ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منہ  مبارک پر رکھ دیا اور آپ کو رشتے داری اورقرابت کا واسطہ دے کرقسم دلائی  . عتبہ کو یہ ڈر ھوا کہیں قومِ عاد اور قومِ ثمود کی طرح اسی وقت مجھ پر  بھی کوئی عذاب نازل نہ ھو جائے

اس کےبعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے سجدہ تک آیات تلاوت فرمائیں اور سجدۂ تلاوت فرمایا جب تلاوت ختم کر چکے تو عتبہ سے مخاطب ھو کر فرمایا  اے ابو ولید ؛ جو کچھ سننا تھا آپ سن چکے اب تم کو اختیار ھے بہرحال وہ ان آیات کو سن کر بڑا متاثر ہوا اس نے واپس جا کر سرداران قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتے ہیں وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر وشاعری مطلب اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سرداران قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا لیکن وہ غور وفکر کیا کرتے؟ الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہوگیا ہے یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیر وتفسیر نے بیان کی ہیں امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے بھی انہیں نقل کیا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سورت کا ابتدا‏ئی حصہ پڑھ کر سنایا۔


سردارانِ قریش کی براہِ راست رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو 

سردارانِ قریش نے جب دیکھا کہ اُن کی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ھو رھا ۔ عتبہ جیسے ھوشیار اور چالاک  سردار کی بات چیت کا  بھی کوئی فائدہ نہیں ھوا تو بعض روایات کے مطابق  انہوں نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ براہِ راست  رسولِ  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے گفتگو  کی جائے ، چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنا ایک نمائندہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے مجمع میں آنے کی دعوت دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان لوگوں میں پہنچے  تو کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے اپنا مدعا  بیان کیا  ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو لالچ دینے کے لئے تقریباً  عتبہ کی ھی باتوں کو دھرایا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے رویے  کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مال و دولت کی تمنا ہے تو ہم اتنا مال و متاع دینے کے لیے تیار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دولت مندوں میں سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جاہ و امارت کی خواہش ہے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اور ایسے مطیع فرمانبردار بن کر رہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دل میں حکومت اور سلطنت  حاصل کرنے کی آرزو ہے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنا حکمراں و فرمانروا تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا:

میں مال و دولت جمع کرنے، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول کی حیثیت سے تمہارے پاس بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، مجھے تہارے پاس جنت کی خوشخبری دینے اور عذابِ جہنم  سے ڈرانے کے لیے مقرر کیا ہے، جس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے، اسے میں نے تم تک پہنچا دیا ہے۔ اگر تم میری بات مانو گے تو تمہیں دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی، اور اگر تم میری بات کو قبول کرنے سے انکار کرو گے تو میں اس راہ میں اس وقت تک استقامت و پائیداری سے کام لوں گا کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔ یہ جواب سن کر قریش مایوس ھو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے



*تبلیغِ اسلام اور تاثیرِ قرآن *

اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ دعوتِ اسلام میں قرآن پاک کو مرکزی حیثیت حاصل ھے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دعوت کے ھر مرحلہ میں  قرآن پاک  کافروں کو انفرادی طور پر بھی اور ان کے مجمعوں کے اندر بھی پڑھ پڑھ کر سنایا گیا اور ان کافروں میں سے تقریباً ہر ایک نے مختلف مواقع پر اس کی عظمت اور تاثیر کا اعتراف کیا ۔ 

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قریش کا  ایک بڑا سردار ولید بن مغیرہ  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اسے قرآن پاک  پڑھ کر سنایا ۔قرآن پاک سن کر اس کا دل  نرم پڑ گیا۔ ابوجہل کو اس کی خبر پہنچی کہ ولید رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس گیا ھے تو وہ بہت متفکر ھوا  اور ولید کے پاس پہنچ کر کہا

“اے چچا جان !آپ کی قوم آپ کے لیے مال جمع کرنا چاہتی ہے‘‘۔

ولید نے پوچھا

 ’’کس لیے؟‘‘ 

ابو جہل نے کہا:

 آپ کو دینے کے لیے ، کیونکہ آپ محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس اس لیے گئے تھے تا کہ آپ کو ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کچھ مل جائے‘‘۔

ولید نے کہا:

“قریش کو خوب معلوم ہے کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ مال دار ہوں (مجھے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم)  سے مال لینے کی ضرورت نہیں ۔  

ابو جہل نے کہا:

“تو پھر آپ محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں ایسی بات کہیں جس سے قوم کو یقین ہو جائے کہ آپ محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کے منکر ہیں‘‘۔ 

ولید نے کہا: 

“میں کیا کہوں ؟ اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی آدمی مجھ سے زیادہ اشعار اور قصیدوں کا جاننے والا نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں اس میں بڑی حلاوت اور کشش ہے اور ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کہا ہوا ایسا تناور درخت ہے جس کے اوپر کا حصہ خوب پھل دیتا ہے اور نیچے کا حصہ خوب سر سبز ہے۔ یہ کلام ہمیشہ اونچا رہنے والا ہے۔ کوئی کلام اس سے برتر نہیں ۔ ایسا کلام جو اپنے سے نیچے والے کلاموں کو تو ڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔

ابوجہل نے کہا : 

“آپ کی قوم اس وقت تک آپ سے راضی نہ ہو گی جب تک آپ محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے خلاف کچھ کہیں گے نہیں”

۔ولید نے کہا :

’’اچھا اس بارے میں مجھے کچھ سوچنے دو‘‘۔

کچھ دیر سوچ کر ولید نے کہا:

 ’’محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کلام جادو ہے جسے وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دوسروں سے سیکھ کر بیان کرتے ہیں”

(بیہقی، البدایہ ، تفسیر ابن کثیر)

بعثت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ابتدائی دور ہو یا بعد کے ادوار، اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دعوتی منہج میں تذکیر بالقرآن کی خصوصیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے افراد کو دعوت دی یا قبائل کو، وفود کو تبلیغ کی یا شاہانِ وقت کو، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوتی گفتگو میں تلاوتِ قرآن کا التزام ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مکی دور میں ہی اس بات کی ہدایت کی تھی:

وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا

(الفرقان)

اور اس قرآن کو لے کر ان (کافروں)کے ساتھ بڑا جہاد کرو۔

 گویا  مقصد یہ تھا کہ نظامِ باطل کو اگر چیلنج کرنا ہے تو مکی دور ھو یا بعد کا دور اس میں جہاد کرنا ہو گا اور یہ جہاد قرآن کے ابلاغ کے ذریعے ہو گا۔ عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم کو ڈرانا بھی قرآن سنائے بغیر ممکن نہ تھا۔ فرمایا:

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّـرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا 

(سورہ مریم) 

اس قرآن کو ہم نے آسان کر کے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔

تمام انسانیت کو خبردار کرنے کے لیے بھی یہی مؤثر ذریعہ ہے:

ہٰذَا  بَلٰغٌ  لِّلنَّاسِ  وَلِيُنْذَرُوْا  بِہٖ (ابراہیم )

یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے ، تاکہ ان کو اس کے ذریعے سے خبردار کر دیا جائے۔


عظمتِ قرآن کا اعتراف

اعلانیہ تبلیغ کے آغاز میں جب قریش نے زائرین حرم کے سامنے اپنا مشترکہ موقف طے کرنے کے لیے اجتماع کیا اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے کاہن، شاعر، دیوانے اور جادوگر ہونے کی تجاویز پیش ہوئیں تو ان کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک ایک تجویز کے بودے پن کو واضح کیا اور قرآن کی عظمت کا یوں اعتراف کیا:’’خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت وشیرینی ہے۔ اس کی جڑ پائیدار اور شاخیں پھل دار ہیں۔ یہ پیغام غالب ہونے والا ہے، اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا اور یہ سب کو کچل کر رکھ دے گا‘‘ ( سیرۃ ابن ہشام۔

قرآن کی تاثیر ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ قرآن کی تلاوت کی تاثیر سے عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم نے اسلام قبول کیا اور جنھوں نے قبول نہیں کیا انھوں نے بھی اس کی تاثیر کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا۔ دوران دعوت قرآن سنانا سنتِ نبوی  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  اور بعد میں آنے والے  اُمت کے آکابرین کا عمل بھی اسی پر رھا ہے۔ 


حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا حالتِ کفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اعتراف 

lحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ ان کے والدِ محترم ابو سفیان رضی اللہ عنہ اپنی بیوی ہندہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھائے اپنے مزرعة کی طرف جا رھے تھے ۔  یہ ان دنوں کی بات ھے جب یہ دونوں ابھی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ھوئے تھے اور اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے میں بھی اپنی گدھی پر سوار ان دونوں کے آگے چل رہا تھا۔ میری نو عمری کا زمانہ تھا۔ اس دوران حضور اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہمارے پاس پہنچے ۔ میرے باپ نے ( باوجود آپ کا شدید دشمن ھونے کے ) مجھے کہا: ’’اے معاویہ رضی اللہ عنہ  ! تم سواری سے نیچے اتر جاؤ  تا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس پر سوار ہو جائیں‘‘۔ چنانچہ میں سواری  سے اتر گیا اور حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس پر سوار ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کچھ دیر ہمارے ساتھ چلے اور پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن حرب، اے ہندہ رضی اللہ عنہا  بنت عتبہ !اللہ کی قسم تم ضرور مرو گے اور پھر تمھیں زندہ کیا جائے گا ۔ پھر نیکوکار جنت میں اور بد کار دوزخ میں جائیں گے اور میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تمھیں بالکل صحیح اور حق بات بتا رہا ہوں اور تم دونوں سب سے پہلے عذاب الٰہی سے ڈرائے گئے ہو‘‘۔ پھر  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے سورہ  حٰمٓ السجدہ کی آیات  حٰـمۗ۝۱ۚ  تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۚ  سے لے کر  قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ۝ تک تلاوت فرمائیں۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو گدھی سے اُتر گئے اور میں اس پر سوار ہو گیا۔ میری ماں ہندہ رضی اللہ عنہا  نے میرے باپ سے کہا: ’’کیا اس جادوگر کے لیے تم نے میرے بیٹے کو اس کی سواری سے اتارا؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’نہیں ! اللہ کی قسم وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جادو گر اور جھوٹے نہیں ہیں‘‘ (طبرانی ، ابن عساکر، الہیثمی ،  کنزالعمال))

اس حدیث کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے پہلے فکرِ آخرت کے ذریعے دل کو نرم کرنے کی تدبیر کی اور پھر سورہ  حم السجدہ کی پہلی گیارہ آیات سنائیں جن میں قرآن کا تعارف اور قرآن سے لوگوں کی  بے پرواہی کا ذکر ہے ۔ پھر آپ۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی رسالت اور توحید الٰہی اور اس کو نہ ماننے والوں کی تباہی کا ذکر ہے  پھر زمین و آسمان کی تخلیق اور وقوع آخرت پر دلیل دی گئی ہے


جاری ھے ۔۔۔۔

Share: