قسط نمبر (39) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

دعوت و تبلیغ کا دوسرا دور 

اِعلانیہ تبلیغ 


کھلم کھلا دعوت کا پہلا حکم

اعلان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد تقریبا تین سال تک خفیہ اور انتہائی رازداری کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا. اور اس مدت میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صرف اپنے قریبی لوگوں کو دعوت پیش کی. کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا اور آپ پر ایمان لائے. اس طرح جب مومنین کی ایک جماعت  اسلامی اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی۔ جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ بخوشی اٹھاسکتی تھی اور ھر قسم کی قربانی کے لئے ھمہ وقت مستعد تھی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مکلف کیا گیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنی قوم کو کھلم کھلا  اسلام کی دعوت دیں اور ان کے باطل عقائد  کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں  لہذا اللہ تعالی کی طرف سے  آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنے قرابت داروں میں دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا اور
اس بارے میں سب سے پہلے اللہ سبحانہ تعالی کا یہ ارشاد نازل ہوا : 
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ 
 آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے  نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الہی سے ) ڈارائیے ۔
یہ سورة شعراء کی آیت مبارکہ  ہے اور اس سورة  مبارکہ میں سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا  ۔ ظالم فرعونِ مصر  سے کئی مرتبہ مناظرے ھوئے ، پھر آخر میں انہوں نے بنی اسرائیل سمیت ہجرت کرکے فرعون اور قوم فرعون سے نجات پائی اور اللہ تعالی کے حکم سے  فرعون اور آل فرعون کو  دریائے نیل میں غرق کیا گیا ۔ بالفاظ  دیگر یہ تذکرہ ان تمام مراحل پر مشتمل ہے جن سے حضرت موسی علیہ السلام فرعون اور قوم فرعون کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے گزرے تھے ۔

تقریباً تین سال تک خفیہ دعوت و تبلیغ کےبعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم  کے اندر کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقعہ پر حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ کو  تفصیل  کے ساتھ  بیان کردیا گیا تاکہ کھلم کھلا دعوت دینے کے بعد کفارِ مکہ کی طرف سے جس طرح کی تکذیب اور ظلم و زیادتی سے سابقہ پیش آنے والا تھا اس کا ایک نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے موجود رہے ۔ 

دوسری طرف اس سورہ میں نبیوں اور رسولوں  کو جھٹلانے والی اقوام مثلا فرعون اور قوم فرعون کے علاوہ قوم نوح ، قومِ عاد ، قومِ ثمود ، قوم ابراہیم ، قوم لوط اور اصحاب الائکیہ وغیرہ کے انجام کا بھی ذکر کر دیا گیا ۔ جس کا مقصد  یہ  تھا کہ جو لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو جھٹلائیں،  انہیں معلوم ہونا چاھیے کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تکذیب پر اصرار کی صورت میں ان کا انجام کیا ہونے والا ہے ۔ وہ اللہ تعالی کی طرف سے کس قسم کے مواخذے سے دوچار ہونگے ۔ نیز اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اہل ایمان کو بھی  یہ بات آچھی طرح معلوم ہوجائے کہ آخرکار اچھا انجام ایمان لانے والوں  کا  ھی ہوگا  اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو جھٹلانے  والے یقیناً  ذلیل و خوار ھوں گے 
 

قرابت داروں کے لئے دعوتِ طعام کا اھتمام 
جب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم ہوا کہ دعوت اور تبلیغ کے سلسلے کو اب اعلانیہ طور  پر  اپنے قرابت داروں میں کریں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ خاندان قریش کے معززین اور سرکردگان کے لیے دعوتِ طعام کا اہتمام کریں،  حضرت علی ؑ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حکم پر دعوت طعام کا اہتمام کیا اور قریش کے چالیس اشخاص نے اس دعوت میں شرکت کی، اس دعوت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جو پیغام آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیکر آئے تھے وہ لوگ اس کو جانیں جبکہ قریش آپ کو  نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  صادق اور امین  کے لقب سے پکارا کرتے تھےلیکن جاہلیت کے تعصب آڑے آئے اور جیسے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کرنے کا ارادہ کیا تو ابولہب کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت سے دور رہنے اور بچنے کا حکم دیا ابولہب رسول کریم کو مخاطب کرتے ھوئے بولا کہ  تمہارا ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم)  خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا۔ نادانی کی باتیں نہ کرو۔ تمہارے ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کے لئے تمہارے ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اگر تم  ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت اۤسان ہوگا کہ قریش کے سارے لوگ تم ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں اور میں سب سے زیادہ اس بات کا  حق دار ہوں کہ تمہیں ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پکڑ لوں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی چنانچہ وہ  لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پیغام کو سنے بغیر  چلے گئے اور یوں یہ مجلس کسی مقصد کے حصول کے بغیر ہی برخاست ہوگئی

شیخ التفسیر والحدیث  حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے اپنی کتاب “ سیرة المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم” میں ایک عجیب روایت درج کی ھے وہ تحریر فرماتےھیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ھوئی
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
تو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ایک صاع غلہ اوربکری کا ایک دست اور دودھ کا ایک پیالہ مہیا کرو بعد ازاں اولاد مطلب کو جمع کرو
میں نے آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ارشاد کی تعمیل کی ۔ کم و بیش چالیس آدمی جمع ھو گئے تھے جن میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا ابو طالب، حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ، عباس رضی اللہ تعالی عنہ  اور ابو لہب  بھی شامل تھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے وہ گوشت کا ٹکڑا لے کر دندان مبارک سے چیرا اور پھر اسی پیالے میں رکھ دیا اور فرمایا “اللہ کا نام لے کر کھاؤ”
اسی ایک پیالہ گوشت سے سب کے سب سیر ھو گئے اور کچھ بچ بھی گیا حالانکہ وہ کھانا صرف اتنا تھا کہ  صرف ایک شخص کے لئے کافی  ھو سکتا تھا 
اس کے بعد مجھے حکم دیا کہ “ وہ دودھ کا پیالہ لاؤ اور لوگوں کو پلاؤ “ 
اسی ایک پیالہ دودھ سے سب سیراب ھو گئے حالانکہ وہ ایک پیالہ دودھ اتنی زائد مقدار نہیں تھی ایک پیالہ دودھ کا تو ایک آدمی بھی پی سکتا ھے  چہ جائیکہ چالیس آدمی
جب کھانے سے فارغ ھوئے تو 
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کچھ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو ابو لہب بول پڑا
“ اے لوگو اٗٹھو محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آج تمہارے کھانے پر جادو کر دیا ھے ایسا جادو تو پہلے کھبی دیکھا نہیں 
یہ کہتے ھی لوگ منتشر ھو گئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کچھ فرمانے کی نوبت نہ آئی


قرابت داروں کے لئے دوسری مرتبہ دعوتِ طعام کا اھتمام 

دوسرے روز پھر نبی  اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت  علی ابن ابی طالب ؑ کو حکم دیا کہ چالیس افراد کے لیے دعوت کا اہتمام کریں اور حضرت  علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ؑنے پھر سے اپنے خاندان کے معززین کو دعوت دی، اور جیسے ہی وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

 : " ساری حمد اللہ تعالی  کیلئے ہے ۔ میں ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم)  اس کی حمد کرتا ہوں ۔ اور اس سے مدد چاہتا ہوں ۔ اس پر ایمان رکھتا ہوں ۔ اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہ تنہا ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ "
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کوئی بھی  رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً  اللہ کا رسول ہوں ۔ واللہ !تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سوجاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ  گے جس طرح سو کر جاگتے ہو ۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا ۔ اس کے بعد یا تو ہمیشہ کیلئیے جنت ہے یا پھر ہمیشہ کیلئیے جہنم ۔   اے فرزندان عبدالمطلب ! میرا خیال نہيں ہے کہ عرب میں کوئی  بھی جوان  اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر چیز لایا ہو جو میں (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) تمہارے لئے لے کر ٓایا ہوں۔ میں ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) تمہارے لئے دنیا اور آخرت  کا بہترین تحفہ لے کر آیا ہوں۔ اللہ تعالی ٰ  نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں 
 (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) تمہیں  دنیا اور آخرت کی بہترین چیز کی طرف دعوت دوں، پس تم میں سے کون ہے  جو مجھ پر ایمان لائے اور اس کام میں میری مدد کرے تاکہ سب لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچ جائے یہ سن کر تمام حاضرینِ مجلس خاموش رہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے تو  رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا:  اے  علی بیٹھ جائیں، رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے چند مرتبہ اس دعوت کو دہرایا لیکن سوائے حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ کے  کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے ہر بار کھڑے ہوکر اپنی مدد اور نصرت کا یقین دلایا 
اس پر ابو طالب نے  رسول کریم  ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )سے کہا ( نہ پوچھو ) ہمیں  آپ   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی معاونت کس قدر پسند ہے۔ ! آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی  نصیحت کس قدر قابل قبول ہے۔ ! اور ہم  آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی  بات کس قدر سچی مانتے جانتے ہیں۔! اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے ۔ اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں ۔ فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم)  پسند کی تکمیل کے لئے ان سب سے پیش پیش ہوں ، لہذا  تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو ۔ واللہ ! میں تمہاری (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ) مسلسل حفاظت و اعانت کرتا رہوں گا  ۔ البتہ میری طبیعت عبد المطلب کا دین چھوڑنے پر راضي نہیں ہے ۔
ابو لہب نے کہا : خدا کی قسم یہ ایک برائی ہے ۔ اس کے ہاتھ  ھم  سے پہلے لوگ خود ہی پکڑ لیں گے  ۔
اس پر ابو طالب نے کہا : خدا کی قسم جب تک  میری جان میں جان ہے ۔ ہم  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی حفاظت کرتے رہیں گے ۔

بہرحال رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خاندان والوں نے  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بات سنی ان سنی کردی اور کسی بات کو قبول نہیں کیا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنہا تھے اور لوگ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخر آمیز جملے کہا کرتے تھے اور  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام  ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بالکل تنہا تھے کس طرح  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

تاریخ طبری کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہ میرا بھائی  ھے تم اس کی بات سنو اور جو کہے اسے بجا لاؤ۔ اس پر لوگ ہنسے اور حضرت ابوطالب سے  طنزاً کہا کے اے ابوطالب تم کو حکم ہوا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی اطاعت کرو اور فرماں برداری اختیار کرو۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔
Share: